اور صندوق کھل گیا…غلام عباس

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نیک دل اور بہادر یونانی شہزادہ سات سمندر پار اپنے دشمنوں سے لڑنے گیا۔ دشمن شکست کھا کر فرار ہو گیا۔ شہزادہ خوش خوش اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جہاز میں سوار اپنے ملک واپس آ رہا تھا کہ اچانک سمندری طوفان آ گیا اور جہاز راستے سے بھٹک کر کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ شہزادے اور اس کے ساتھیوں نے راستہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی مگر راستہ نہ ملا۔
ہواؤں کا دیوتا شہزادے کی بہادری کی وجہ سے اس پر بے حد مہربان تھا۔ چناں چہ وہ شہزادے اور اس کے ہمراہیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا۔ موقع ملتے ہی شہزادے نے اپنی مصیبت کا حال سنایا:
”سمندر میں طوفان آ جانے کی وجہ سے ہم لوگ راستہ بھول گئے ہیں۔ اگر آپ ہمیں اپنے ملک پہنچا دیں تو ساری عمر آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔“
یہ سن کر دیوتا نے سب ہواؤں کو بلایا اور ان میں سے ایک ہوا کو چھوڑ کر جس کا نام بہار کی ہوا تھا اور جو یونانی شہزادے کے ملک میں پھول کھلانے جا رہی تھی، باقی سب کو چمڑے کے ایک بڑے صندوق میں بند کر دیا۔ بعد میں اس صندوق کو رسوں سے خوب جکڑا گیا تا کہ ڈھکنا کھلنے نہ پائے۔ تب اس نے شہزادے سے کہا:
”جب تم اپنے وطن پہنچ جاؤ تو ان ہواؤں کو آزاد کر دینا لیکن اگر راستے میں انھیں چھوڑا تو اپنے ملک نہیں پہنچ سکو گے۔“
شہزادے نے صندوق اپنے جہاز سے کس کر باندھ دیا اور پھر جہاز کے بادبان کھول دیے۔ اب بہار کی ہوا دھیرے دھیرے انھیں ان کے ملک کی طرف لے جانے لگی۔
اب ہوا یہ کہ شہزادے کے ساتھیوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس صندوق میں بہت ساری ہوائیں بند ہیں۔ صندوق کو دیکھ کر فوراً ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یقینا ہواؤں کے دیوتا نے شہزادے کو اس صندوق میں بہت سی دولت بند کر کے دی ہے۔ اب شہزادہ اس میں سے ہمارا حصہ نہیں دینا چاہتا، اسی لیے یہ قصہ گھڑ کر سنایا۔ چناں چہ وہ سب دل ہی دل میں شہزادے سے بے حد ناراض ہو گئے۔ ادھر شہزادہ اس ڈر سے کہ کہیں کوئی شخص غلطی سے صندوق نہ کھول بیٹھے، دن رات جاگتا اور جہاز کے عرشے پر پہرا دیتا رہتا، مگر شہزادے کی سرگرمیوں سے اس کے ساتھیوں کو شبہ اور بھی بڑھ گیا۔ دسویں دن صبح کو جب وہ جہاز کے تختے پر کھڑا تھا تو اسے دور سے دھواں اٹھتا نظر آیا۔ یہ دیکھ کر شہزادے کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے ساتھیوں کو بلا کر خوش خبری سنائی:
”ہم وطن کے قریب پہنچ گئے ہیں اور کوئی دم میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے والے ہیں۔“
شہزادے کی آنکھیں غلبہ نیند کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں اور خودبخود بند ہوئی جاتی تھیں۔ پچھلے دس دن سے اس کی آنکھ نہ لگی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ اب کوئی خطرہ نہیں رہا، وہ ذرا دیر کمر سیدھی کرنے اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ اس کا لیٹنا تھا کہ آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ پل بھر میں بے خبر سو گیا۔
شہزادے کے ساتھی تو اسی تاک میں تھے، مالک کو سوتا دیکھ کر انھوں نے جھٹ صندوق کے رسے کاٹ ڈالے اور ڈھکنا اٹھا دیا۔ صندوق کا کھلنا تھا کہ سب ہوائیں سنسناتی ہوئی صندوق سے نکل پڑیں اور اس قیامت کا طوفان برپا کیا کہ خدا کی پناہ!
خدا کی قدرت کہ ان کا جہاز پھر اسی جزیرے پر پہنچ گیا، جہاں ہواؤں کا دیوتا رہتا تھا۔ مگر اسے ان لوگوں کی بے وقوفی پر اس قدر غصہ آیا کہ اس نے دوبارہ مدد سے انکار کر دیا۔ چناں چہ اب شہزادے اور اس کے ساتھیوں کو ان تمام زبردست ہواؤں سے خود ہی مقابلہ کرنا پڑا۔ برسوں کی مشقت کے بعد ہی انھیں اپنے وطن پہنچنا نصیب ہوا۔
بچو! آپ بھی کوئی کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کریں ورنہ ایک غلط کام آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
……٭……٭……

Leave a Comment