جواب:الطاف حسین حالی:
الطاف حسین نام اور حالی تخلص ہے۔ آپ کی ولادت 1837 ء میں پانی پت میں ہوئی۔ حالی نے پہلے قرآن حفظ کیا۔ بعد ازاں مختلف استادوں سے فارسی، تاریخ طب اور عربی کی کتابیں پڑھیں۔
1856ء میں ہسار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہو گئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے۔ پھر دلی آکر مرزا غاؔلب کے شاگرد ہوئے۔ غاؔلب کی وفات پر حالی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزؔاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔
4 سال لاہور میں رہنے کے بعد دلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہو گئے۔ وہاں سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران1879ء میں ”مسدس حالی“ سر سید کی فرمائش پر لکھی۔ ”مسدس“ کے بعد حالی نے اِسی طرز کی اوربہت سی نظمیں لکھیں جن کے سیدھے سادے الفاظ میں انہوں نے فلسفہ، تاریخ، معاشرت اور اخلاق کے ایسے پہلو بیان کیے جن کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904ء میں ”شمس اللعلماء“ کا خطاب ملا 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی۔
سرسید جس تحریک کے علمبردار تھے حالی اسی کے نقیب تھے۔ سرسید نے اردو نثر کو جو وقار اور اعلیٰ تنقید کے جوہر عطا کیے تھے۔ حالی کے مرصع قلم نے انہیں چمکایا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اردو ادب کو صحیح ادبی رنگ سے آشنا کیا بلکہ آنے والے ادیبوں کے لیے ادبی تنقید، سوانح نگاری، انشاپردازی اور وقتی مسائل پر بے تکان اظہار خیال کرنے کے بہترین نمونے یادگار چھوڑے۔
شعری خصوصیات:
حالی کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کی واقعیت پسندی ہے۔ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو اتنا سادہ بنا دیا کہ وہ تقریبا نثر سے مل گئی۔ مولانا حالی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کو مشرف بہ اسلام کیا۔ اردو ادب میں شاعری کی بنیاد رکھی۔
قوم کی بیداری:
حالی نے نظم گوئی قوم کی بیداری کے لیے شروع کی تھی۔ کیوں کہ انھیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ نثر کے مقابلے میں نظم کا اثر ذیادہ ہے۔ یہ کہ قوم کی تعمیر و ترقی میں شاعری کا بنیادی حصہ ہے۔ مولانا حالی سے پہلے اگر چہ نظیر نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں تھیں۔ لیکن ان کے سامنے کوئی واضع مقصد نہ تھا۔ لیکن مولانا حالی کی نظم گاری کا خاص مقصد تباہ حال مسلمان قوم میں بیداری کی لہر دوڑانا تھا۔ تاکہ مسلمان دوبارہ طاقت حاصل کر کے دنیا کے حکمران بن جائیں۔ ان کی شاعری اردو ادب میں ایک تحریک اور رجحان کی حیثیت رکھتی ہے۔
حالی نے قوم کو اپنے شاندار ماضی کی جھلکیاں دکھا کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے قوم کا دکھڑا اس طرح رویا ہے:
ہماری ہر ایک بات یہ سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم نے گہن ہے
ہمارا قدم تنگ اہل وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوئی ہے ہم نے
انقلابی اثرات:
مولانا حالی کے زمانے میں مغربی تعلیم کے اثر سے نئے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ ان کا دور انقلاب اور کشمکش کا دور تھا۔ انہوں نے ان تمام مسائل کی اہمیت کو محسو س کیا اور اپنی شاعری میں انھیں بیاں کرنا ضروری سمجھا۔ حالی سے پہلے کسی شاعر میں اتنی ہمت نہ ہوئی تھی کہ وہ نظم میں ایسے مسائل پر روشنی ڈالے جس سے دوسرے متاثر ہوسکیں۔ حالی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور شاعری کے تمام اصناف کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔ حالی نظیر کی طرح سچائی، واقعہ نگاری اور حقیقت پسندی کے شاعر تھے۔ لیکن ان کی زبان نظیر کی طرح سوقیانہ اور بازاری نہیں بلکہ پاکیزہ ہے۔ وہ کبھی گھٹیہ اور معمولی درجے کا لفظ استمال نہیں کرتے۔ وہ راست گو تھے۔
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی کی غزل گوئی:
ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
”حالی اپنے پیش روؤں اور معاصروں سے الگ ہیں کہ انھوں نے غزل کے موضوعات کی سابقہ حدبندی توڑ ڈالی اور سماجی اور قومی خیالات کو غزل میں داخل کیا۔ اس کے علاوہ مسلسل گوئی کے ذریعے غزل اور نظم کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اکبر، چکبست اور اقبال کے لیے نمونے پیدا کیے جن پر ان تین شاعروں کی غزل کا توسیعی تصور قائم ہے۔“
فطری میلان:
مولانا الطاف حسین حالی نے اردو ادب کو کئی حیثیتوں سے متاثر کیا۔ وہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلے ادیب ہیں جو جتنے بڑے نثر نگار ہیں اتنے ہی بڑے شاعر بھی ہیں۔ حالی شاعری کا فطر ی ذوق رکھتے تھے اور فطری میلا ن کے تحت ہی شعر کہتے تھے۔ ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں شعر گوئی کی جانب مائل ہونا بھی ایک فطری امرتھا۔
شیفتہ کی صحبت:
یہی نہیں حصول علم کے شوق میں جب حال گھر چھوڑ کر دہلی پہنچے تو وہاں غالب اور شیفتہ کی صحبتوں نے ان کے ادبی ذوق کو نکھارا۔ چونکہ حالی میں شعر گوئی کی عمدہ صلاحیتیں موجود تھیں اس لیے غالب نے انھیں اس کام سے نہیں روکا اور ان الفاظ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی:
”اگر چہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمہاری نسبت سے میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔“
حالی کی شاعری میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب ۱۸۶۳ ء میں ان کی ملاقات شیفتہ سے ہوئی۔اور یوں ان کی غزل گوئی کا ذوق شیفتہ کی ادبی اور علمی صحبت میں اور بھی نکھر تا چلا گیا۔
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے مقلد ہے میر کا
دیوان حالی:
حالی نے ”دیوان حالی“ ۱۸۹۳ء میں مرتب کرکے شائع کیا۔اسی صفحات پر مشتمل اس دیوان میں غزلوں کی کل تعداد ایک سو سولہ ہے۔ ان غزلوں میں سے ۲۹ غزلیں ایسی ہیں جن پر”ق“ لکھا ہوا ہے اس طرح قدیم غزیوں کی تعداد ۲۹ ہے اور جدید غزلیں ۸۷ ہیں۔ ”جواہر ات حالی“ جو حالی کی وفات کے بعد شائع ہوا میں صرف سات غزلیں ہیں اس طرح دیکھا جائے تو حالی کی غزلوں کی تعداد ۱۲۳ تک پہنچتی ہے۔ اگر چہ حالی کا دیوان مختصر ہے لیکن اردو غزل کا رخ بدلنے اور اس میں انقلاب برپا کرنے کی وجہ سے بہت کم دواوین اس کے ہم پلہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔
چالیس برسوں پر محیط:
حالی کی غزل گوئی کا سلسلہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط ہے۔ حالی کی غزل میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے سیاسی حالات، اخلاقی و عمرانی تصورات، قوم کی بربادی پر نوحہ اور قومی تعمیر نو کا جذبہ ان کی غزلوں میں نمایا ں ہے۔ حالی قدیم اسلوب کو بدستور قائم رکھتے ہوئے زبان و بیان کے اسالیب میں بتدریج اضافوں کے حامی ہیں۔ حالی کی دورِ اول کی غزلوں میں میر، غالب، مومن اور شیفتہ کے رنگ و آہنگ کی گونج سنائی دیتی ہے مگر اس کے باوجود حالی کی غزلوں کا اپنا الگ مزاج اور رنگ ہے جس میں ان کی اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی و سماجی حالات بھی منعکس ہوتے ہیں۔
میر کا رنگ:
نہیں بھولتا اس کی رخصت کا وقت
وہ ر و رو کے ملنا بلا ہوگیا
سمجھتے تھے جس غم کو ہم جانگزا
وہ غم رفتہ رفتہ غذا ہو گیا
روتے ہیں چار ہم پرہنستے ہیں چار ہم پر
یاں تک ہماری پہنچی اب ناتوانیاں ہیں
غالب کا رنگ:
کون ومکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھرکہاں
قید خردمیں رہتے آتے نہیں نظر ہم
وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہراپنا
شیفتہ کا رنگ:
عشق سنتے ہیں جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
رات ان کو بات بات پہ سوسو دیئے جواب
مجھ کو خود اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا۔
مومن کا رنگ:
دھوم تھی اپنی پارسائی کی کی بھی اور کس سے آشنائی کی
کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت ہم کو طاقت نہیں جدائی کی
تنوع اور نیا پن:
حالی کی غزل کے موضوعات میں تنوع اور نیا پن ہے۔ بہت سے اشعار میں روایتی مضامین کے اندر جدت پیدا کی گئی ہے۔ علامات اور تلازمات کے سلسلوں کو وسیع کیا گیا ہے۔ غزل میں پہلی بار سماجی مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ حالی نے علامتوں کے ذریعے انگریزوں کے ظلم و ستم، استحصال، جبر و استبداد، دیسی اور انگریزی لوگوں میں عدم مساوات اور نسلی کمتری اور برتری کا نقشہ کھینچا ہے۔
درد اور درد کی ہے سب کے دوا، ایک ہی شخص یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص
قافلے گزریں وہاں کیونکے سلامت واعظ ہو جہاں راہزن و راہنما ایک ہی شخص
رہے گی کس طرح راہ ایمن کہ رہنما بن گئے ہیں رہزن خدا محافظ ہے قافلوں کا اگر یہی رہزنی رہے گی
سلامتی کو وہاں قافلوں کی روبیٹھیں جہاں ہو راہزن خلق رہنما ایک ایک
اشاارے و کنائے:
بدلے ہوئے حالات، انگریزوں کا خوف، اقتصادی لوٹ مار ایسے دوسرے حالات حالی کے ہاں علامتوں، اشاروں اور کنایوں میں ظاہر کیے گئے ہیں:
کھیت رستے پر ہے اور رہر و سوار کشت ہے سر سبز اور نیچی ہے باڑ
برق منڈلاتی ہے اب کس چیز پر ٹڈ یاں کب کی گئیں کھیتی کو چاٹ
روسی ہوں یا تتاری ہم کو ستائیں گئے کیا دیکھا ہے ہم نے برسوں لطف و کرم تمہارا
مہذب انداز:
جن مضامین کو شعراء نے بے حجابا نہ یا بے با کانہ بیان کر کے شرم وحیا کو طاق پر رکھ دیا حالی نے انھیں کو مہذب پیرایہ اور سیدھے سادے انداز میں بیان کیا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
”حالی کی غزلوں میں جذبات کی جیسی شائستگی،لہجہ کی نرمی، خیال کی بلندی،پاکیز گی، بیان کی سادگی اور فن کی پختگی ہے، اور شاعری و شرافت کا جیساامتزاج وتوازن ملتا ہے۔ مجموعی طور پر کسی اور غزل گو کے یہاں مشکل سے نظر آئے گا۔ حالی غزل کے سارے لوازم برتتے ہیں، لیکن ان میں کسی کو اس کے حدود سے باہرنہیں نکلنے دیتے۔“
(رشید احمد صدیقی۔ جدید غزل، ص۔ ۵۸۔۵۹)
مسلسل گوئی:
حالی کی غزل کی ایک اور خصوصیت مسلسل گوئی ہے۔ وہ جب کسی موضوع کو غزل میں بیان کرتے ہیں تو اس موضوع کے مختلف پہلوان کے سامنے رہتے ہیں، جنھیں وہ اپنی غزل میں لاتے ہیں اور یہی تسلسل کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح کی غزلوں میں جہاں انھوں نے حسن و عشق کی واردات پیش کی ہیں وہیں قومی اور ملکی مسائل کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ ایسی ہی ایک غزل حالی نے دہلی کی تباہی پر کہی ہے۔
جتنے رمنے تھے تیر ے ہوگئے ویراں اے عشق آکے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہر گز
کو چ کر گئے دلی سے ترے قدر شناس قدر یاں رہ کر اب اپنی نہ گنوانا ہر گز
الفاظ کا استعمال:
حالی ؔ نے اپنی غزلوں میں ایسے الفاظ بھی استعمال کے جو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھے جاتے تھے۔علاوہ ازیں ہندوستانی تلمیحات اور ہندی الفاظ کے ساتھ ساتھ بول چال کے ٹھیٹ الفاظ اور محاورات نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے غزل کے دامن کو وسعت بخشی۔
اصلاحی اور اخلاقی موضوعات:
سرسید احمد خان سے ملنے کے بعد بعد والی حالی کی شاعری میں اخلاقی اور اصلاحی موضوعات نمایاں ہیں۔حالی نے اپنی قدیم غزلوں میں کبھی ایسے اشعار نہیں لکھے جن میں عامیانہ اور گھٹیا مذاق نظر آتا ہو۔ جس کی بنیاد سطحی عشق اور ہوا و ہوس کے جذبات پر رکھی گئی ہو۔ انھوں نے اپنی غزلیات کی بنیاد صنائع و بدائع اور رعایت لفظی پر کبھی نہیں رکھی۔ اُن کے کلام میں معشوق کے جسمانی اوصاف کا تذکرہ بھی کھل کر نہیں ہوتا۔ غرض حالی کی قدیم رنگ کی غزلیں مبالغہ اور تصنع سے پاک ہیں۔
حالی کی جدید غزلوں میں خیالات اور انداز بیان ناصحانہ ہیں۔ انھوں نے اپنی قوم کی اصلاح کے لیے غزل گوئی کا سہارا لیا اور تغزل کے ذریعہ افزار کو جھنجوڑنے کی کوشش کی۔ افراد و قوم کو فرائض کا احساس دلایا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی جدید غزلوں میں شاعرانہ حسن کی بجائے ناصحانہ انداز پایا جاتا ہے۔