تحریر:محمد جمیل اختر
وہ دریا کنارے پیدا ہوا تھا، پانیوں سے کھیلتے اس کا بچپن گزرا تھا۔ لیکن اب پورے 80 سال بعد وہ دریا کی خشک ریت پر پانی کی ایک بوند کے لیے ترس رہا تھا۔ دریا سوکھ کر ایک نالا بن چکا تھا جہاں قطار در قطار لوگ بالٹیاں لیے بیٹھے تھے۔
اس کی ہڈیوں میں اتنا دم خم نہیں رہا تھا کہ وہ اٹھ کر بہتے نالے تک پہنچ جاتا۔ لوگوں کی بھیڑ سے دُور، ایک طرف گرم ریت پر پڑا اپنا بچپن یاد کر رہا تھا۔ محض 80 سالوں میں دریا سوکھ گیا تھا۔ اسی دریا کے کنارے بیٹھے اس کا باپ ہمیشہ کہتا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو دریا کی چوڑائی اتنی زیادہ تھی کہ تیرکر پار کرنے والے سورج نکلتے دریا میں اترتے تو دوسرے کنارے پہنچنے تک سورج سوا نیزے پر ہوتا۔ بالکل ایسے جیسے ابھی اس کے سر پر چمک رہا تھا۔
”شاید اب سورج زیادہ نزدیک آگیا ہے یا زمین سورج کے قریب پہنچ گئی ہے۔“اس نے سوچا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا کہ پیاس کی شدت سے اس کی زبان سوکھے پتے کی مانند ہوچکی تھی۔ ایک نوجوان پانی کی بالٹی لیے اس کے قریب سے گزرا تو رُک گیا۔
بوڑھے کی آنکھوں میں التجا تھی، زبان لفظوں سے عاری تھی، اس نے آنکھوں سے بالٹی کی طرف اس طرح دیکھا کہ نوجوان اس کا مدعا سمجھ گیا۔
تحریر جاری ہے…
”پانی چاہیے؟“
اس نے پلکیں جھپکائیں۔
نوجوان نے دونوں ہاتھوں کا چلو بنا کر بالٹی سے پانی لیا اور بوڑھے کے منہ میں ٹپکا کر جلدی سے یوں چل دیا جیسے وہ ایک لمحہ بھی ٹھہرا تو اسے چند پانی کے قطروں کا مزید نقصان اٹھانا پڑجائے گا اور خشک سالی کے ان دنوں میں پانی سے قیمتی بھلا کیا تھا؟
بوڑھا اب اٹھ کھڑا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ کے قریب پہنچ گیا۔ جہاں شور تھا۔
تحریر جاری ہے…
بوڑھے کا باپ زندہ ہوتا تو اسے یقین نہ آتا کہ جس دریا کو پار کرنے میں پورا ایک پہر لگتا تھا اسے محض چند قدم چل کر پار کیا جاسکتا ہے۔
”تھوڑی سی جگہ دینا۔“ بوڑھے نے سامنے موجود ایک آدمی سے کہا۔
”بوڑھی ہڈیوں کو راستہ دو۔ پِس جاؤ گے بزرگو۔ اور برتن کہاں ہے؟“
”مجھے جگہ چاہیے۔“
تحریر جاری ہے…
”جگہ خود بنانی پڑتی ہے، کنارے تک پہنچنا اتنا آسان نہیں، ہر جگہ ایک نفس بیٹھا ہے۔“
پورا شہر کنارے پر موجود تھا۔ اب لوگ گھروں میں نہیں رہتے بس کنارے پر پانی جمع کرتے رہتے ہیں۔
تھوڑی سی تگ و دو کے بعد بوڑھا آخر پانی کے کنارے پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”بھر لیا ہے تو پیچھے ہو جاؤ۔“
”بزرگو! پیچھے آجاؤ،دھکا لگ جائے گا۔“
بوڑھے کے کان سماعت سے محروم ہوچکے تھے، اس نے اپنے بچپن کو یاد کیا۔ اپنے ماں باپ کو۔ اس وقت کے دریا کے پانیوں کو۔ آنکھیں بند کیں اور چھلانگ لگادی۔ وہ ڈوبنا چاہتا تھا مگر بوند بھر پانی ڈوبنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔