تحریر: یونس جاوید
چھوٹے نواب کی سالگرہ سر پر آ گئی تھی۔ اس کا اصل نام تو چاند مرزا تھا مگر سب اسے چھوٹا نواب کہتے تھے۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا، اس لیے نواب صاحب اور ان کے سارے ملازم چھوٹے نواب سے پیار کرتے تھے۔ ایسے لاڈلے بچے کی سالگرہ کی تیاریاں کوئی معمولی بات نہ تھی۔ دو ماہ میں باقی سب کام ہو گئے مگر سب سے ضروری کام رہ گیا۔ چھوٹے نواب کی زری کی اچکن تیار نہ ہو سکی جس کا کپڑا صندوق میں پڑا تھا۔
جب سالگرہ میں ایک دن باقی رہ گیا اور نواب آفتاب احمد صاحب نے خود سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا تو معلوم ہوا کہ سالگرہ کی اچکن تیار نہیں کرائی گئی۔ اب شہر کی سب سے بڑی دکان کی طرف دیوان جی کو دوڑایا گیا کہ شاید چھوٹے نواب کے ناپ کی سلی سلائی اچکن مل جائے۔ وہ گھنٹہ بھر میں منہ لٹکائے واپس آ گئے اور بولے:
”ان کے پاس سلی سلائی اچکن نہیں ہے، البتہ وہ ایک ہفتے تک سی کر دے سکتے ہیں۔“
یہ سن کر نواب صاحب غصے سے بولے:
”آپ دیوانے ہیں، ایک ہفتے بعد اچکن کس کام کی؟ ہمیں تو رات بھر میں تیار ملی چاہیے۔“
دیوان جی سہم کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ سب طرح طرح کی ترکیبیں سوچنے لگے۔ یہ بات ہوتے ہوتے استاد رمضان تک پہنچی۔ استاد رمضان پچاس روپے ماہور پر نواب صاحب کے پرانے کپڑوں کی مرمت کرنے والا ملازم تھا۔ وہ کچھ سوچ کر نواب صاحب کے پاس آیا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
” کیا ہے؟“ نواب صاحب نے پوچھا۔
”میں آپ کی مشکل آسان کر سکتا ہوں۔“
”کیا مطلب؟“ نواب صاحب نے پوچھا۔
استادرمضان بولا:
”حضور! میں رات بھر میں چھوٹے نواب صاحب کی اچکن تیار کرسکتا ہوں۔“
نواب صاحب نے جھلا کر کہا:
”تمہارا دماغ تو ٹھکانے ہے؟ دس برس سے ہمارے بٹن ٹانک رہے ہو کچھ ہوش کی دوا کرو۔“
دیوان جی نے موقع غنیمت جان کر گلہ صاف کیا اور ہوئے:
”جناب والا!استاد رمضان خواہ تو آپ کا وقت ضائع کر رہا ہے۔“
اصل میں دیوان جی چاہتے تھے کہ استاد رمضان یہ کام نہ کرے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ نواب صاحب پریشانی کے عالم میں تین گنا زیادہ قیمت پر اچکن تیار کروانے کا کہیں گے اور یوں اسے اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔
”تو حضور! میرے لیے کیا حکم ہے؟“ استاد رمضان پھر بولا۔
”دیوان جی ٹھیک کہتے ہیں، تم ہمارا وقت ضائع کر رہے ہو۔“ نواب صاحب نے غصے سے جواب دیا، پھر انہوں نے دیوان جی سے مخاطب ہو کر کہا:
”آپ صبح تک کسی بھی قیمت پر اچکن تیار کروائیں۔“
دیوان جی یہ حکم سن کر خوش خوش کمرے سے جانے لگے تو استاد رمضان نے جھک کر نواب صاحب کو سلام کیا اور کہا:
”حضور! آپ ایک بار اس خادم کو ضرور آزمائیں۔ اگر اچکن آپ کو پسند نہ آئی تو میرا ہاتھ ہی کٹوادیں مگر ایک موقع ضرور دیں۔“
نواب صاحب چکرا سے گئے اور بولے:
”اچھا..!“اور کچھ سوچنے لگے اور پھر بولے:
”ہم اس شرط پر تمہیں اچکن کا کپڑا دیں گے کہ وہ ہمیں پسند نہ آئی تو کپڑے کی قیمت لی جائے گی، نوکری سے جواب ملے گا اور جو بھی جرمانہ ہم چاہیں تمہیں ادا کرنا پڑے گا۔ بولو یہ شرطیں منظور ہیں؟“
”منظور ہیں عالی جاہ!“ استاد رمضان نے جواب دیا۔
”سوچ لو…!“
”حضور سوچ لیا ہے۔“
”دیوان جی! کپڑا استاد رمضان کو دے دیا جائے۔“ نواب صاحب نے حکم دیا۔
”حضور! عالی جناب والا! بندہ کچھ عرض کر سکتا ہے؟“ دیوان جی بولے۔
”نہیں!“ نواب صاحب نے کہا:
”آپ مشورہ نہ دیجیے بلکہ کپڑا استاد رمضان کو فوراً دے دیں۔“
ناچار دیوان جی نے کڑھتے ہوئے رمضان کو کپڑا دے دیا۔ رات بھر استاد رمضان بڑی محنت سے اچکن سیتا رہا، ایک پل کے لیے بھی نہ سویا۔ اس نے صبح تک اچکن مکمل کرلی۔ صبح بہت خوش تھا کیونکہ اس نے بہت اچھی اچکن تیار کی تھی۔ وہ خوش خوش نواب صاحب کے پاس پہنچا اور اچکن نکال کر ان کے سامنے پھیلا دی۔ دیوان جی اور دوسرے لوگ اچکن ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگے۔ دیوان جی نے فوراً چھوٹے نواب کو بلوایا اور اسے اچکن پہنانے لگے۔ جب پہنا چکے تو نواب صاحب نے پوچھا:
”پسند آئی دیوان جی؟“
دیوان جی نے ناک بھوں چڑھا کر کہا:
”اچکن تو بری نہیں، بس ذرا تنگ ہے۔ سلائی یوں تو اچھی ہے لیکن پتا چل رہا ہے کہ اناڑی کے ہاتھوں نے سی ہے۔ یہ ہمارے چھوٹے نواب کے شایان شان نہیں۔“
نواب صاحب نے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا، وہ سب خاموش رہے۔ استادرمضان کچھ نہ بول سکا لیکن سمجھ گیا کہ سب کیے کرائے پر دیوان جی کے لالچ نے پانی پھیر دیا ہے۔ دیوان جی بولے:
”حضور! چھوٹے نواب صاحب کے قابل اچکن زری ہاؤس سے تیار کروا لی جائے۔ میرے خیال میں ہم دام زیادہ دیں تو وہ لوگ شام سے پہلے ہی دے دیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ سالگرہ کل صبح ہے ورنہ آج ہوتی تو رمضان کی اچکن نے سارا منصوبہ کرکرا دیا ہوتا۔“
نواب صاحب کو بڑا غصہ آیا، انہوں نے دیوان جی کی باتوں پر سر ہلا کر کہا:
”اس بے وقوف درزی نے خواہ مخواہ ہمیں پریشان کیا۔ ہم کہتے تھے کہ یہ اچکن تیار نہیں کر سکے گا۔“ نواب صاحب نے پھر استاد رمضان کو سزاسنا دی:
”یہ اچکن لے جاؤ، ہم تمہیں جرمانہ تو نہیں کرتے مگر اس اچکن کی قیمت ضرور لیں گے اور ہاں تمہیں نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے۔ جاؤ فوراً نظروں سے دور ہو جاؤ۔“
استاد رمضان افسردہ حالت میں باہر نکل آیا۔ وہ جانتا تھا کہ نواب صاحب نے محض دیوان جی کی باتوں میں آ کر اچکن نا پسند کی ہے ورنہ اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیٹی گھر کے کام کاج سے فارغ ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے ابا کو پریشان دیکھا تو وجہ پوچھی۔ استادرمضان نے بیٹی کو سارا قصہ سنا دیا۔ لڑکی کچھ دیر سوچتی رہی، آخر کار اسے ایک تجویز سو بھی بولی:
”آپ یہ بتائیے کہ شہر کی سب سے بڑی دکان زری ہاؤس میں آپ کا کوئی دوست کام کرتا ہے؟“
”ہاں۔“ باپ نے جواب دیا، ”وہاں کا سب سے بڑا درزی میرے ساتھ سکول میں پڑھتا رہا ہے۔“
استاد رمضان کی بیٹی نے کہا:
”بس تو آپ سیدھے اس کے پاس جائیں اور سارا قصہ سنا کر یہ اچکن اسے دے دیں۔ جب دیوان جی اچکن سلوانے وہاں آئیں تو وہ قیمت لے کر یہی اچکن شام کو ان کے حوالے کر دے۔“
استاد رمضان بیٹی کے مشورے پر اپنے دوست درزی سے ملا۔ اس نے ہمدردی اور دوستی کی بنا پر استاد رمضان کی مدد کرنے کی فیصلہ کیا۔
جب دیوان جی زری ہاؤس سے قیمت ادا کر کے اچکن لے آئے تو استادرمضان بھی دوسرے دن سالگرہ پر نواب صاحب کے ہاں پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں اچکن کی سلائی کی وہ رقم تھی جو اس کے دوست درزی نے دیوان جی سے وصول کی تھی۔ استاد رمضان نے رقم نواب صاحب کو دیتے ہوئے کہا:
” حضور! یہ کپڑے کی قیمت ہے۔“
نواب صاحب نے روپے لیتے ہوئے چھوٹے نواب کو آواز دی۔ چھوٹا نواب آیا تو اس نے استادرمضان ہی کی سلی ہوئی اچکن پہن رکھی تھی۔ نواب صاحب نے کہا:
”استاد رمضان! چھوٹے نواب کی اچکن دیکھی؟“
”دیکھ رہا ہوں عالی جاہ!“ اس نے جواب دیا۔ ”کیسی ہے؟“ انہوں نے طنز سے کہا۔
”حضور! بالکل ویسی جیسی میں نے سی تھی۔“ استاد رمضان بولا۔
” کیا مطلب؟“ نواب صاحب کا مزاج بگڑ گیا۔ ”حضور! میرا مطلب ہے اچکن اور میری سلی ہوئی اچکن میں ذرہ بھر فرق نہیں۔ “
نواب صاحب کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ انہوں نے غصے سے کہا:
”تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اس میں بھی کوئی نقص ہے۔“
”حضور! اس میں کوئی نقص نہیں۔“ استاد رمضان نے بڑی عاجزی سے کہا:
”یہ بڑی خوبصورت سلی ہوئی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ میری سلی ہوئی اچکن ہے تو غلط نہ ہو گا۔“
”ہونہہ!“ نواب صاحب نے غصے سے تلملا کر کہا، ”تم ہماری توہین کر رہے ہو۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ یہ چکن ہم نے زری ہاؤس سے کل ہی بنوائی ہے اور ہمیں اس کی چار گنا زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔“
”حضور! اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟“
” کہو،کہو۔“ نواب صاحب شدید غصے میں تھے۔
”جناب عالی! یہ وہی اچکن ہے جو اس گنہ گار نے تیار کی تھی اور اسی قیمت پر آپ تک پہنچی ہے جو اس کی صحیح قیمت ہے۔ بقایا تین گنا رقم اس شخص کی جیب میں گئی ہے، جو اسے خریدنے گیا ہوگا۔“
”اس کا ثبوت؟“ نواب صاحب زور سے گرجے۔
”جناب والا! اچکن کی داہنی جیب کی سلائی ادھیڑ کر دیکھ لیں، آپ کو پورا ثبوت مل جائے گا کہ یہ اچکن میری سلی ہوئی ہے اور اپنی اصلی قیمت پر فروخت ہوئی ہے۔“
نواب صاحب نے غصے میں جلدی جلدی چھوٹے نواب کی اچکن کی جیب ادھیڑی، اس میں سے ایک رقعہ نکل آیا۔ نواب صاحب نے حیرت سے اسے کھولا:
”جناب اعلیٰ! یہ اچکن میرے ہاتھوں کی تیار ہوئی ہے، جسے آپ نے دیوان کے کہنے پر نا پسند فرمایا تھا۔ اب یہ اچکن آپ کو اس لیے پسند آئی ہے کہ اسے دیوان جی نے شہر کی سب سے بڑی دکان سے زیادہ قیمت دے کر سلائی کی ہے۔ حقیقت میں اس اچکن کے لیے اصل قیمت سے ایک پائی زیادہ نہیں لی گئی، بقایا رقم آپ کے دیوان جی کھا چکے ہیں اور اسی لیے انہوں نے میرے ہاتھ کی سلی ہوئی اچکن نا پسند کی تھی۔
امید ہے میری یہ گستاخی معاف فرمائیں گے۔ آپ کا خادم استاد رمضان۔“
نواب صاحب رقعہ پڑھ کر ساری بات سمجھ گئے۔ انہیں استاد رمضان کی عقل مندی پر رشک آیا۔ انہوں نے بڑھ کر استاد رمضان کو گلے لگا لیا اور اس کی تنخواہ کئی گنا بڑھا دی۔ دیوان جی کو بھاری جرمانہ کر کے نوکری سے نکال دیا۔