آلو پراٹھا

تحریر:سلمان یوسف سمیجہ

”امی! آج میں پھر آلو کا پراٹھا لے کر جاؤں گا اسکول؟“ پُھولے پُھولے گالوں والے عبدالہادی عرف مونُو نے نتھنے پُھلائے۔
”جی بیٹا!“ ٹفن میں آلو کا پراٹھا رکھتی امی مسکرا دیں۔
”آلو کے پراٹھے کھا کھا کر تو میرا منہ کا ذائقہ ہی خراب ہوگیا ہے، بلکہ میرا منہ ہی آلو جیسا ہو گیا ہے۔“ مونُو نے منہ بسورتے ہوئے اپنی گال میں اُنگلی چبھوئی۔
امی ہنس دیں۔
”امی! کچھ اور بھی بنا دیا کریں نا!“ مونُو نے گویا التجا کی۔
”اچھا، ویسے یہ ”کچھ اور“ کون سا کھانا ہوتا ہے؟ ہم نے تو کبھی نہیں کھایا۔“ امی نے مسکراتے ہوئے مزاحاً کہا۔
”امی ی ی ی!“ مونُو نے احتجاج کیا۔
”بیٹا! آلو پراٹھا بہت مزے دار ہوتا ہے۔“ امی لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولیں۔
”امی! کچھ پیسے دے دیا کریں، مَیں کینٹین سے کچھ کھا لیا کروں گا، جیسے پکوڑے، سموسے…!“ مونُو کہہ رہا تھا۔ کھانے کی چیزوں کا نام لیتے ہوئے اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔
”ہرگز نہیں۔ ایسی الم غلم چیزیں صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہیں، پتا نہیں کس تیل میں تلی ہوتی ہیں؟“ امی ٹفن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔
اس نے منہ بسورتے ہوئے ٹفن لیا اور بستے میں رکھ لیا۔
اسی وقت بس کا ہارن سُنائی دیا اور مونُو بستہ کندھے پر لٹکاتا امی کو سلام کرتا بس میں سوار ہوگیا۔
”السلام علیکم!“مونُو جیسے ہی بس میں سوار ہوا، حسبِ عادت بلند آواز میں سب کو سلام کیا۔ بس میں موجود سب نے اس کے سلام کا جواب دیا۔
”آ گئے تم؟“ مونُو، اختر کے ساتھ والی نشست پر براجمان ہوا ہی تھا کہ اختر نے کہا۔ اختر اس کا ہم جماعت تھا، اسکول میں ابھی نیا تھا اور کل ہی مونُو اور اس کی دوستی ہوئی تھی۔ اختر بہت چالاک اور پیٹو لڑکا تھا۔
”ہاں تو کیا نہ آتا؟“
مونُو نے ہنستے ہوئے بے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔ اختر بھی ہنس دیا۔
”آج کھانے میں کیا لائے ہو؟“
اختر نے چمکتی آنکھوں سے مونُو کے بستے کو دیکھا، جس میں ٹفن تھا اور ٹفن میں آلو پراٹھا!
”آلو پراٹھا!“ مونُو نے منہ بنا کر جواب دیا۔ اختر نے اس کے چہرے پہ پھیلی ناگواری دیکھی تو پوچھا:
”آلو پراٹھا کہتے ہوئے تمہارا منہ کیوں بن گیا؟ کیا تمہیں آلو پراٹھا پسند نہیں ہے؟“
”نہیں!“ ابھی تک مونُو کا منہ بنا ہوا تھا۔
”اچھا، پھر تم یہ مجھے دے دو، میں بریک کے وقت تمہیں کینٹین سے مزے مزے کی چیزیں کھلاؤں گا۔“ اختر نے کہا تو مونُو کے دل میں لالچ آگیا۔
”مگر امی نے کہا تھا کہ کینٹین کی نقصان دہ چیزیں نہیں کھانا، امی ناراض ہوگئیں تو؟“ اس نے دل میں سوچا۔
”ارے امی کو کیسے پتا چلے گا اس بات کا؟“
اس نے دل میں آئے ڈر کو نکالا اور بستے سے ٹفن نکالنے لگا۔ اختر بھوکی نظروں سے اسے بستے سے ٹفن نکالتا دیکھ رہا تھا۔
”یہ لو۔“ اس نے ٹفن اختر کے سامنے رکھ دیا۔ اختر پراٹھے پر ٹوٹ پڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سارا پراٹھا چٹ کر چکا تھا۔
”ٹفن تو واپس کردو، کیا ٹفن بھی کھا لینے کا اِرادہ ہے؟“ مونُو نے مسکراتے ہوئے اختر کی گود سے ٹفن اُٹھایا۔
اختر نے ڈکار لی اور اپنی توند سہلانے لگا۔
”مزہ آگیا!“ اختر بولا۔

”آؤ اختر! تم مجھے کینٹین سے چیزیں کھلاؤ۔“ آدھی چھٹی کے وقت مونُو نے اختر سے کہا۔ اسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔
”اوہ! میں تو امی سے پیسے لینا ہی بھول گیا تھا۔“ اختر نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ!“ افسوس سے مونُو کے منہ سے نکلا۔ بھوک کے مارے اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے اور بھوک کی وجہ سے اس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔
”معذرت! یہ بندہ ناچیز تمہیں کوئی چیز نہیں کھلا سکتا، کوئی خدمت نہیں کر سکتا!“ اختر بے توجہی سے بولا۔ مونُو کا منہ لٹک گیا۔
”میں ذرا بیت الخلا سے ہو آؤں!“ اختر نے ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔ اسے مونُو کو بے وقوف بنا کر اور اس کا بنا ہوا منہ دیکھ کر بہت ہنسی آ رہی تھی، لیکن اس کی ہنسی مونُو نے دیکھ لی اور اسے دال میں کچھ کالا نظر آیا۔
اختر کمرہ جماعت سے باہر نکلا۔ مونُو نے اس کا پیچھا کرنے کا سوچا تا کہ دیکھے کہ اختر کہاں جا رہا ہے؟ وہ اختر کے پیچھے دبے دبے قدموں سے چل دیا۔ اختر کا رُخ بیت الخلا کے بجائے کینٹین کی طرف تھا۔ وہ کینٹین سے سموسے، پکوڑے اور دہی بڑے خرید کر کھانے لگا۔
”اختر کے پاس پیسے تھے۔ اس نے مجھ سے جھوٹ بولا۔“ مونُو نے افسوس سے سوچا اور مرے مرے قدم اُٹھاتا کمرہ جماعت میں آ گیا۔ اسے بے حد بھوک ستا رہی تھی، اسکول میں پورا وقت وہ بھوکا رہا۔ گھر آ کر اس نے امی کو ساری کہانی سُنائی تو امی کچھ خفا ہوئیں، پھر بولیں:”بیٹا! بُرے دوست نہیں بنانے چاہئیں، اگر اختر تمہیں کینٹین کی غیر معیاری اور مضر چیزیں کھلا بھی دیتا تو تم بیمار ہوجاتے۔ اور تم مجھ سے چھپ کر کھانے کا سوچ رہے تھے کہ امی کو تو پتہ ہی نہیں چلے گا، کتنی بُری بات ہے!“
مونُو شرمندہ رہ گیا۔
”اور بیٹا! لالچ نہیں کرتے، تم نے کینٹین کی لالچ میں آ کر اپنا آلو پراٹھا گنوا دیا، لالچ کا انجام بھی دیکھ لیا، اور زوروں کی بھوک بھی برداشت کرنی پڑی۔ نقصان الگ سے اُٹھایا۔ بیٹا! آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:”لالچ سے بچو۔“
(الصحیح لمسلم:۲۷۷۸، المسند: ۶۴۸۷)

امی نے پیار سے سمجھایا تو مونُو فوراً سمجھ گیا۔ اس نے امی سے وعدہ کیا کہ وہ اختر جیسے بچوں سے دور رہے گا اور کبھی لالچ نہیں کرے گا۔

★★★

Leave a Comment