رکاوٹ (سبق آموز اردو کہانی )

تحریر: نظیر فاطمہ

ایک تھا آدمی شرف الدین، اُسے عظیم بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر دکھاوے کو ایسے کام کرتا رہتا کہ لوگ اسے اچھا اور بڑا آدمی سمجھیں مگر ابھی تک بات نہیں بنی تھی۔ اس کی یہ خواہش ابھی اُس طرح پوری نہیں ہوئی تھی جیسا کہ وہ چاہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اپنے کسی دوست سے ملنے اس کے گاؤں گیا۔ وہاں ایک نیک بزرگ کا بہت بڑا ڈیرا تھا۔ لوگ دور دور سے راہ نمائی کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ شرف الدین کو معلوم ہوا تو وہ بھی ان کی خدمت میں جا پہنچا۔
”انسان عظیم کیسے بنتا ہے اور عظمت کی انتہا تک کب اور کیسے پہنچتا ہے؟“ شرف الدین نے دعا سلام کے بعد پوچھا۔
”جب اسے اللہ تعالیٰ کی ذات دنیا کی ہر چیز اور پھر اپنی ذات سے بڑھ کر پیاری ہو جاتی ہے۔“ بابا جی نے جواب دیا۔
”جناب یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے، کون انسان اور خاص طور مسلمان ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی ذات اور دنیا کی ہر چیز سے افضل نہ ہو۔“ شرف الدین بہت حیران ہوا۔
“چند دن یہاں میرے پاس رہو، اس دوران کوئی ایسا موقع ڈھونڈو کہ تم ہمیں اپنے عمل سے ثابت کردو کہ تمہیں اللہ سے خود سے بڑھ کر محبت ہے۔“
شرف الدین نے بابا جی کی بات مان لی۔
’’یہ کون سی بڑی بات ہے۔ میں اپنی زبان سے بار بار کہتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے خود سے بھی بڑھ کر پیار ہے، لیکن ان بزرگ کو یقین دلانا لازم ہے۔‘‘ اُس نے دل میں سوچا اور بابا جی کی دعوت کو قبول کر کے چند دن وہاں ٹھہرنے پر راضی ہو گیا ۔


رات کو کھانے کے بعد اسے ایک آرام دہ اور صاف ستھرے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ وہ پوری رات بڑے آرام اور سکون سے سویا۔
اگلی صبح شرف الدین کے سامنے ناشتے کے وقت انواع و اقسام کے لوازمات سے سجی ایک بڑی سی ٹرے پیش کی گئی۔ تازہ تازہ بنا ہوا حلوا، دیسی گھی کے خستہ پراٹھے، دہی، دودھ اور انڈے۔ ٹرے میں ایک طرف ایک پلیٹ میں رات کی باسی دو روٹیاں اور چنے کی دال کا تھوڑا سا ٹھنڈا سالن بھی تھا۔
’’اب اتنے شاہی ناشتے کے ساتھ بھلا اس روکھی سوکھی روٹی اور ٹھنڈی دال کی تک کیا بنتی ہے بھلا۔‘‘ شرف الدین نے سوچا ضرور مگر شاہی ناشتے کی خوشبو میں کھو کر اسے اس پر زیادہ غور کرنے کا موقع نہ ملا۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پہلے کیا کھائے اور بعد میں کیا۔ شرف الدین نے اپنی پلیٹ میں پراٹھا، انڈے اور حلوا ڈالا اور دودھ کا ایک کلاس بھر کر پلیٹ کے پاس رکھ لیا۔ ابھی اس نے پراٹھے کا نوالا توڑا ہی تھا کہ اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شرف الدین نے نوالے میں حلوا بھر کر اپنے منہ میں ڈالا اور دروازہ کھٹکھٹانے والے کو اندر آنے کو کہا۔
”اللہ کے بندے… دو دن کا بھوکا ہوں، کچھ کھانے کو نہیں ملا، اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو۔“ دستک دینے والا شخص اندر نہ آیا، اس نے باہر سے صدا لگائی۔ شرف الدین کو اس کی بات سن کر بہت غصّہ آیا۔ اس نے اسے لوٹ جانے کو کہا اور ساتھ ہی بھیک مانگنے پر لعنت ملامت بھی کی۔
”دو دن سے سوائے پانی کے کچھ نصیب نہیں ہوا، سخی! اللہ پاک کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو۔“ اُس نے پھر صدا لگائی۔ اس کے دوبارہ صدا لگانے سے چڑ کر شرف الدین نے اپنی ناشتے کی سجی ہوئی ٹرے میں سے وہ پلیٹ اُٹھائی جس میں ٹھنڈی دال اور سوکھی روٹی تھی اور دروازے تک جا کر اسے دے دی۔ وہ شخص دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔
ناشتے کے بعد شرف الدین بزرگ کے پاس آیا۔
’’آپ کی رات کیسی گزری، سکون سے سوئے، ناشتا کیا کہ نہیں، ناشتا کیسا لگا؟‘‘ باباجی نے نرم لہجے میں پوچھا تو شرف الدین نے ہر طرح سے اطمینان دلایا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس کی خوشی اور آرام کا اتنا خیال رکھا۔
’’مگر مجھے اپنے سوال کا جواب کب اور کس طرح ملے گا۔ میں زیادہ دن یہاں نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘ شرف الدین نے کہا۔
’’تم نے رات میرے سامنے دعویٰ کیا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اور خاص طور پر اپنے آپ سے بڑھ کر پیار ہے۔“
’’جی اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ شرف الدین نے یقین سے کہا۔
’’تم نے زبانی دعویٰ تو کیا مگر عملی طور پر تم نے اپنی بات کو پہلے ہی دن غلط ثابت کر دیا۔‘‘ بابا جی نے مسکرا کر کہا۔
”نعوذ باللہ! جناب، میں نے کوئی کھوکھلا دعویٰ نہیں کیا، میں نے وہی کہا جو میرے دل میں ہے اور وقت آنے پر میں ثابت بھی کردوں گا۔‘‘ شرف الدین نے جذباتی پن سے کہا۔
”تم کیا ثابت کرو گے جوان، تم نے تو اپنے سامنے نعمتوں سے بھری ٹرے میں سے، اللہ کے نام پر سوال کرنے والے کو جو کچھ دیا، وہ تم جانتے ہو۔ تم نے اللہ کے نام پر مانگنے والے کو کیا دیا، ٹھنڈی دال اور رات کی باسی روٹی؟ اس سے ثابت ہو گیا کہ تمہیں اللہ سے کتنا پیار ہے اور تمہارا دعویٰ کتنا سچا، اگر تمہیں اللہ سے پیار ہوتا تو تم اپنے سامنے رکھی ہوئی تازہ ناشتے کی ٹرے، اس کے نام پر مانگنے والے کو دے دیتے۔ اگر یہ نہیں تو تمہیں اللہ سے اپنی ذات جتنا پیار ہی ہوتا تو تم اپنے ناشتے میں سے آدھا ناشتا ہی اسے دے دیتے جس نے تمہیں اس سوہنے کے نام کا واسطہ دیا تھا۔‘‘
شرف الدین جیسے جھٹکے سے جاگا۔بزرگ کی بات اس کے دل میں نیزے کی انی کی طرح گڑ گئی حالانکہ وہ نرم لہجے میں بات کر رہے تھے۔ شرف الدین نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’میرا مطلب تمھیں شرمندہ کرنا نہیں ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہی رکاوٹ ہے عظمت کی بلندی تک پہنچنے میں کہ ہمارے قول اور فعل میں فرق ہے، تضاد ہے۔ ہم بس زبانی دعویٰ کرتے ہیں عمل کی باری آتی ہے تو ہم صفر ہو جاتے ہیں۔اپنے قول اور فعل کو ایک جیسا کر لو عظمت کی بلندی پر پہنچ جاؤ گے۔‘‘
شرف الدین نے بابا جی کی بات گرہ میں باندھی اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔
نظیر فاطمہ کی کہانیاں
سبق آموز کہانی
اخلاقی کہانیاں
کردار ساز کہانیاں
Moral stories in urdu

Leave a Comment