جواب: اخبارات کی اشاعت کے مسائل:
اخبار کی تقسیم اور فروخت کو اشاعت کہا جاتا ہے۔ اخبارات کی تعداد اشاعت عموماً ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے۔ تعداد اشاعت کے لحاظ سے پاکستانی اخبارات دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں اخبارات جاپان میں چھپتے ہیں۔
اخبارات کی اشاعت کا تعلق آبادی سے نہیں، تعلیم اور تہذیب کے ساتھ ہے جو ملک جتنا مہذب اور وہاں کے لوگ جس قدر تعلیم یافتہ ہوں گے، اسی نسبت سے وہ اخبار خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ آبادی کے تناسب اور اخبارات کی اشاعت کے لحاظ سے برطانیہ دنیا میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان میں ہر سو افراد کے لیے اخبار کی ایک کاپی شائع ہوتی ہے۔
اشاعت کے عناصر:
اخبارات کی اشاعت پر صحافتی اور سماجی ہر دو حلقوں میں مختلف عناصر کا اثر ہوتا ہے۔
اخبار کی پالیسی:
اخبار کا نقطہ نظر، سیاسی زاویہ اور مخصوص انداز اس کی اشاعت پر بہت اثر ڈالتا ہے۔ اگر اس کی پالیسی زیادہ سے زیادہ قارئین کے ذوق کی نمائندگی کرنی ہو گی تو اس کی اشاعت زیادہ ہو گی۔ قارئین کی اکثریت کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ خبریں ذمہ داری سے اور بے لاگ طریقے سے دی جا سکیں۔ ان کی تزئین اور طباعت دیدہ زیب ہو اور اخبار گھر کے ہر فرد کی دل چسپی کا سامان رکھتا ہو۔ اس کے فیچر اور مضامین ہلکے پھلکے، معلومات افزا اور دل چسپ ہوں۔
پیش کش:
خبروں کی ترتیب، صفحات کی آرائش، لے آؤٹ، ڈیزائن، تصاویر اور خاکے، کارٹون اور اخبار کا مجموعی ادب اس کی پیش کش کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخبار کی طباعت اور پیش کش جس قدر عمدہ ہو گی، مثلاً اگر قارئین کی اکثریت اردو نستعلیق کتابت پسند کریں تو کسی روایات یا قانونی مجبوری کے باوجود اخبارات نسخ ٹائپ میں شائع نہیں کیے جا سکتے۔
معیار:
پالیسی کے ساتھ ساتھ ہر اخبار کا اپنا معیار ہوتا ہے۔ خبروں سے لے کر پیش کش تک ہر اخبار کا انداز منفرد ہوتا ہے۔ اس پر اخبار کی اشاعت کا دارومدار ہوتا ہے۔ مثلاً اگر اخبار محض خبر رساں ایجنسیوں پر تکیہ کرتا اور اپنے نامہ نگاروں سے خبریں حاصل نہیں کرتا یا مقامی خبروں کو نظرانداز کرتا ہے یا اس کے تجزیے اور اداریے اعلیٰ فکر کی نمائندگی نہیں کرتے تو یقینا اخبار کی اشاعت کم تر ہو جائے گی۔
قیمت:
اخبارات کو خبریں جمع کرنے اور پیش کرنے میں جو اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں ان کا ازالہ اخبار کی قیمت اور فروخت سے نہیں ہوتا بلکہ اشتہارات جیسے دیگر ذرائع سے یہ اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ قیمت کو کم سے کم رکھا جاتا ہے تا کہ اخبارات قارئین کی قوت خرید کے اندر رہیں۔ مغربی ممالک میں تو بعض اخبارات اپنے اخراجات صرف اشتہارات سے پورے کرتے ہیں اور قیمت کے لحاظ سے صفر ہوتے ہیں۔ گویا مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ ان کی اشاعت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ایسا عموماً مقامی اور علاقائی اخبارات کرتے ہیں۔ وہاں قومی سطح کے اکثر اخبارات بھی قیمت کے لحاظ سے اتنے کم ہوتے ہیں کہ وہ اخبار کے کاغذ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔
پاکستان میں ابھی قیمت کو ختم کرنے یا کم کرنے کا رجحان موجود نہیں اور اس کی بڑی وجہ وہ درمیانی آدمی جسے ایجنٹ کہتے ہیں۔ ایجنٹ چند گھنٹوں کے لیے اخبار مارکیٹ میں لاتا ہے اور ہاکروں اور اخبار فروشوں میں اخبار تقسیم کر کے چلا جاتا ہے۔ اس کا منافع اخبار کی قیمت سے ہی وضع ہوتا ہے۔ اخبار فروش بھی اسی قیمت ہی سے اپنا روزگار حاصل کرتا ہے۔ چناں چہ اخبارات کی قیمت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس وقت ایک اخبار کا ماہانہ خرچ ساٹھ ستر روپے سے زیادہ ہے۔ اگر دو تین اخبارات لیے جائیں تو وہ خرچ دو سو روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ کم آمدنی والا شخص اسے عیاشی قرار دے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ اخبار نہیں خریدے گا اور اس کا منفی اثر اخبار کی اشاعت پر پڑے گا۔
نمائندگی:
اخبار اپنے حلقہ اثر اور قارئین کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر عوام کو اپنے ذوق کی تسکین اخبار سے حاصل نہ ہو یا ان کے مختلف طبقات، علاقوں اداروں اور ایجنٹوں کی نمائندگی مناسب طور سے نہ ہو تو انھیں اس اخبار سے دل چسپی کم ہو جاتی ہے۔ اخبار صرف چند مخصوص لوگوں کی خبروں اور سیاست دانوں کے بیانات یا حادثات کی اطلاع کے لیے شائع نہیں کیے جاتے۔ قارئین ان میں اپنے پسندیدہ افراد اپنی انجمنوں، اداروں، طبقوں کے مفادات کی خبریں اور اطلاعات پڑھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ چناں چہ اشاعت بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد، اداروں، انجمنوں، گروہوں اور طبقوں کی نمائندگی ضروری ہوتی ہے۔
سماجی عناصر:
اخبار کو عموماً مندرجہ ذیل عوامی اور سماجی عناصر ملحوظ رکھنا ہوتے ہیں۔
قوت خرید:
اخبار کی قیمت کا عوام کی قوت خرید کے ساتھ بہت تعلق ہے اور ان باتوں کا براہ راست اثر اخبار کی اشاعت پر ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کی مجموعی قوت خرید زیادہ ہے تو وہاں اخبارات کی زیادہ سے زیادہ فروخت ہوتی ہے۔
تمدنی صورت حال:
ایک زرعی معاشرے میں اگرچہ عوام کو فرصت زیادہ ہوتی ہے لیکن صنعتی معاشرہ کم فرصتی کے باوجود اخبار کا طلب گار ہوتا ہے۔ زرعی معاشرے میں چند افراد کو دنیا کے حالات جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن صنعتی معاشرے میں روزمرہ اطوار، انداز، بھاؤ اور مارکیٹ کے عناصر کو ہر لمحہ جاننے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی امور بھی ایسے معاشرے میں زیادہ قابل توجہ ہوتے ہیں۔ اخبارات کو اشتہارات بھی ایسے معاشرے میں زیادہ مل سکتے ہیں جہاں مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ کھپت ہوتی ہے۔
ذرائع مواصلات:
اخبار کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ مقامات پر انھیں بھجوایا جاتا ہے۔ یہ کام ذرائع مواصلات سے ہوتا ہے۔ اگر ان مقامات پر بسیں، ٹرک، ریلیں، جہاز وغیرہ جاتے ہیں تو اخبارات وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ذرائع جس قدر بہتر ہوں گے اخبار کی اشاعت اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ بعض ملکوں میں اخبارات کی تقسیم ان کے اپنے ذرائع مواصلات مثلاً ٹرکوں، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہوتی ہے۔ بعض ملکوں میں اخبارات مختلف شہروں سے اپنا مقامی ایڈیشن نکالتے ہیں، اس طریقے میں ایک قباحت یہ ہے کہ دیگر شہروں کی بہت سی خبریں وہاں نہیں پہنچ پاتیں اور اخبار کا ہر مقامی ایڈیشن صرف مقامی اخبار بن کر رہ جاتا ہے۔
شرح خواندگی:
اخبارات پڑھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خواندہ افراد ہی انھیں پڑھتے ہیں۔ ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ ہی اخبارات کی اشاعت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے اخبارات کو تعلیم عام کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے بلکہ تعلیم اور کواندگی سے متعلق عوامی اشتہارات کو مفت یا کم شرح پر شائع کرنا چاہیے تا کہ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھے اور یوں اخبارات کی اشاعت بڑھ سکے۔
تقسیم کا نظام:
اخبارات میں تقسیم اور اشاعت کا الگ شعبہ ہوتا ہے۔ ایک صدی قبل اخبارات صرف خریداروں کے ذریعے بھیجے جاتے تھے۔ یہ اخبارات بھی شخصی ہوتے تھے۔ اب مستقل خریداروں کی بجائے عام خریداروں کا تصور کام میں لایا جاتا ہے اور عام خریداروں تک اخبار پہنچانے کی ذمہ داری ایک نظام کے سپرد کی گئی ہے۔ اس کے کئی طریقے ہیں:
٭اخبارات اپنے ملازم اور گاڑیاں رکھتے ہیں جو اخبارات کو شہر کے مختلف حلقوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ طریقہ اشاعت کے لیے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود بعض اخبارات کروڑوں کی تعداد میں چھپتے اور اس طریقے سے تقسیم ہوتے ہیں۔
٭اخبار فروشوں کے ذریعے سے بھی بعض اخبارات بیچے جاتے ہیں۔ یہ اخبار فروش یا ہاکر اخبار کے دفتر سے براہ راست آ کر اخبارات خریدتے ہیں۔
٭ اخبار مارکیٹ میں بھی بعض اخبارات پہنچا دیے جاتے ہیں اور وہاں براہ راست اخبار فروشوں کو یا پھر سول ایجنٹوں کے ذریعے اخبار فروخت کیے جاتے ہیں۔
٭بعض اخبار ہر حلقے، شہر یا مقام کے لیے اپنا سول ایجنٹ مقرر کر دیتے ہیں، وہ مطلوبہ مقدار میں سارے اخبارات خریدتا ہے اور اپنے اخبار فروشوں کے ذریعے انھیں بیچتا ہے۔
٭بعض اخبارات اور رسالے خریداروں تک بذریعہ ڈاک بھیجے جاتے ہیں۔
اس نظام میں سب سے اہم پرزہ اخبار فروش یا ہاکر ہے۔ اس کی آمدنی کا طریقہ کمیشن ہے۔ عموماً اخبارات اسے ایک تہائی کمیشن دیتے ہیں۔ اب بعض ہاکروں نے پچاس فی صد تک کمیشن حاصل کرنا شروع کیا ہے۔ اس کا اثر اخبار کی قیمت پر پڑتا ہے۔ چناں چہ دنیا کے اکثر ملکوں میں سول ایجنٹ کا کمیشن ایک تہائی مقرر ہے اور اخبار فروش پندرہ سے پچیس فی صد تک کمیشن حاصل کرتا ہے۔ بلاقیمت اخبارات کو قارئین تک پہنچانے کے لیے اخبارات کے اپنے ملازم ہوتے ہیں، وہ اخبارات کے بنڈل اٹھا کر کسی گلی یا سڑک پر اخبارات کے لیے مخصوص مقامات پر رکھ آتے ہیں۔ خواہش مند وہاں سے گزرتے ہوئے اپنا اخبار اٹھا لیتے ہیں۔ یہ طریقہ انتہائی مہذب علاقوں میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہاں اخبارات لوگوں کے گھروں میں بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی اخباروں کی اشاعت تجرباتی طریقوں سے گزر رہی ہے۔