اُردو افسانے میں علامت اور تجرید کی روایت پر اظہار خیال کریں۔

جواب:علامت و تجرید کی تعریف:

علامت کے لغوی معنی نشان اشارہ سراغ مہر اور مالک کی طرف سے شناخت کا نشان ہیں۔ ادبی اصطلاح کے طور پرعلامت اسے کہتے ہیں جب کسی شے یا حقیقت کو کسی مجازی مفہوم یا لفظ میں ظاہر کیا جائے مثال کے طور پر علامہ اقبال کے کلام میں ہمیں کہیں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو کسی دوسری شے اچھے حقیقت یا مفہوم کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اقبال نے اپنے کلام میں میں شاہین کو مرد مؤمن کی علامت بنا کر پیش کیا اور لالہ کی علامت ملت اسلامیہ کے لیے استعمال کی ہے۔
اسی طرح ہماری کلاسیکی غزل میں بھی کئی طرح کی علامتیں دستیاب ہیں۔ان میں گل و بلبل کل‘ شمع و پروانہ‘دارورسن وبادو جام وغیرہ شامل ہیں۔لیکن جب ہم افسانے میں علامت و تجرید کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد علامت نگاری کا وہ جدید تصور ہیجو مغربی علوم اور اور شعر و ادب کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔گویا ہمارے ہاں علامت نگاری کا لفظ اب انگریزی کے لفظ symbolismکے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
سمبل یونانی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے اس کے مفہوم کے بارے میں روایت یہ ہے کہ جب کوئی دو فریق آپس میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو کسی چیز کو توڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لیتے اور آپس میں بانٹ لیتے یہ معاہدے کی شناخت کا نشان ہوتا جسے بعد میں ملا کر دیکھ لیا جاتا۔انگریزی میں علامت یا سمبل کی بطور ادبی اصطلاح یوں تعریف کی گئی ہے۔جس کا مطلب یہ ہے ہے کہ کوئی بھی لفظ علامت ہوسکتاہے بشرطیکہ اس میں ابھرنے والی تشبیہ کے پس پردہ کوئی خیال یا تصور موجود ہو۔علامتیں ہر طرح کی ہوتی ہیں ان میں آفاقی مفہوم بھی ہوسکتا ہے علاقائی اور مقامی بھی۔
علامتوں کی اقسام:
علامتیں انفرادی بھی ہوتی ہیں اور اجتماعی بھی۔یہ اساطیر سے بھی حاصل کی جاتی ہیں اور مذہب سے بھی۔بعض اوقات بالکل مقامی تہذیب اور تصورات سے بھی علامتیں وضع کی جاتی ہیں جبکہ انفرادی علامتیں بنانے کا رویہ بھی موجود ہے۔
قومی انگریزی اردو لغت میں تجرید نگاری کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے۔
”کوئی فن پارہ جس کا مقصد کسی مخصوص تصور یا جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہوں لیکن اظہار کے لیے مروجہ اشیاء یا اشاروں کو استعمال نہ کیا گیا ہو۔“
الگ الگ اصطلاحیں:
اس میں شبہ نہیں کہ علامت اور تجرید دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔لیکن اردو افسانے میں یہ الفاظ اکثروبیشتر اکٹھے استعمال ہوتے ہیں۔اور ان سے عموما ایک ہی مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔یعنی علامتی اور تجریدی افسانے سے مراد ایسا افسانہ ہے جو اپنے اسلوب اور تکنیک میں غیر روایتی ہوتا ہے۔
اردو افسانے میں علامت و تجرید کی روایت:
مغرب میں جب مختلف علوم نے ترقی کی تو اس کے اثرات ادب پر بھی پڑے۔ نفسیات میں میں لاشعور اور جبلتوں کی دریافت ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے ادیبوں نے بھی دلچسپی سے دیکھا۔لاشعور ذہن کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں انسان کی جنسی تخریبی اور دیگر ناآسودہ خواہشات رہتی ہیں۔
اجتماعی ذہن کی نمائندہ:
یہ کوئی خواہشات معاشرے اور قانون کے خوف سے شعور میں نہیں آتیں البتہ ان کا اظہار علامتیں شکل میں خوابوں میں ہوتا ہے نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کا کہنا تھا کہ یہی خواہشات ادب میں بھی علامتوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک اور نفسیات دان یونگ میں اجتماعی لاشعور کا نظریہ دیا۔اس کا خیال تھا کہ ادبی تخلیقات میں اساطیری اور دیومالائی علامتوں کی موجودگی انسان کے اجتماعی ذہن کی نمائندگی کرتی ہیں۔
نفسیات کے علاوہ فلسفہ و وجودیت نے بھی ادب پر گہرا اثر ڈالا۔یہ فلسفہ انسان کو اس کائنات میں اکیلا اور تنہا دیکھتا ہے۔یہ تنہائی انسان کے باطن پر اثر انداز ہوتی ہے جس کا ادب میں علامتی سطح پر اظہار ہوتا ہے۔
فروغ:
نئے علوم اور نظریات کے علاوہ اقدار کی شکست و ریخت بدلتے ہوئے صنعتی حالات اور سامراجی طاقتوں کے باہم تصادم نے بھی مغرب کے آدمی کی ذات پر گہرے اثرات ڈالے جس نے ادب کی جدید تحریکوں جن میں سرئیلزم اور داداازم جیسی تحریکیں شامل ہیں کو فروغ دینے میں بڑی مدد فراہم کی۔
مقبولیت:
ہمارے ہاں آغاز میں علامتی ادب سے دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی۔ جب بیسویں صدی کی ابتدا پر مختصر افسانہ لکھنے کا آغاز ہوا تو اس وقت یہ صنعت ایک نئی کونپل کی حیثیت رکھتی تھی۔جسے ابھی اپنی حیثیت کو مستحکم بنانا تھا۔اسی لئے ابتدائی زمانہ فنی ظوابط کو بروئے کار لانے کا زمانہ ہے جب کہ اظہار بیان کے لئے حقیقت نگاری اور رومانیت کے عناصر کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔1930ء کے بعد جب افسانے کا فن مقبول ہوگیا تو یہ وہ وقت تھا کہ جب نہ صرف یہ لوگ نئے رجحانات سے آگاہ ہونے لگے تھے بلکہ جیمز جوائس اور ڈی۔ایچ لارنس جیسے سے مغربی علامتیں فکشن نگاروں کے فن کا دلچسپی سے مطالعہ کرنے لگے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب1932ء میں افسانوں کا ایک مجموعہ انگارے شائع ہوا تو بعض افسانوں پر مغرب کے علامتی اور تجریدی ادب کے اثرات بھی موجود تھے۔انگارے میں مختلف افسانہ نگاروں کی کل دس کہانیاں شامل ہیں ہیں اس مجموعے کو ڈاکٹر رشید جہاں اور احمد علی نے مرتب کیا تھا۔
باغیانہ رویہ:
اس مجموعہ کے مصنفین کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا باغیانہ رویہ سمجھا جاتا ہے۔سماجی اقتصادی معاشرتی نفسیاتی جنسی اور سیاسی سطح پر مروجہ اصولوں سے متصادم اور کسی نے نظام کی خواہش ان کی افسانوں کا موضوع ہے جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔کیونکہ بغاوت اور تصادم ان کہانیوں کا بنیادی رویہ ہے اس لیے افسانہ عام ہیں بہت بنیادی اصولوں سے ہٹا ہوا ہے۔ایک ایک کر کے بیشتر افسانوں میں پلاٹ روایتی انداز سے موجود نہیں اور کہیں شعور کی روبھی کام کر رہی ہے جیسا کہ وقار عظیم لکھتے ہیں:
”افسانوں کا مجموعہ انگارے شائع ہوا اور اس نے یکلخت موضوع اور فن کی ساری روایتوں کے شیشے توڑ پھوڑ کر رکھ دیے۔
اصل اہمیت:
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انگارے کی افسانوں کی اصل اہمیت ان کا اسلوب یا ہیئت نہیں ہے یہ آسان علامتی اور تجریدی متعارف کرانے کے لیے نہیں لکھے گئے تھے۔بلکہ اصل اہمیت ان کے موضوعات اور مصنفین کے رویے کی تھی یہی وجہ ہے کہ افسانے کا سفر شروع ہوا تھا وہ جاری رہا۔ چند برس بعد ادب پر ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو روایتی افسانے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی البتہ اس عہد میں اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے دوران بھی ایسے افسانے ضرور سامنے آئے جو روایت سے ہٹ کر تھے اور جس کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس عہد کے افسانہ نگار علامت اور تجرید کے مفہوم سے پوری طرح باخبر تھے۔
شعور کی تکنیک:
مثال کے طور پر سجاد ظہیر کے ایک افسانے نیند نہیں آتی میں پلاٹ موجود نہیں ہے۔صرف ایک ایسے کردار کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے جسے نیند نہیں آرہی اس کے ذہن میں مختلف طرح کے خیالات گردش کر رہے ہیں جسے مصنف شعور کی رو سے تکنیک کے ذریعے بیان کرتا چاہیے چلا جاتا ہے۔شور کی رو کو اس عہد کے بعد دیگر افسانہ نگاروں نے بھی اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ان میں احمد علی اور محمد حسن عسکری کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ہم یہ بات نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پریم چند سے لے کر انیس سو ساٹھ کی دہائی تک عام طور پر روایتی افسانہ ہی مقبول تھا افسانے میں پلاٹ کی کی مضبوطی کرداروں کی کام شناخت اور کہانی میں واقعاتی تسلسل بنیادی ضروریات تھی مگر جیسا کہ کہا گیا کہیں کہیں روایت سے انحراف کا سلسلہ بھی موجود تھا تھا آزاد سے قبل کل کے ایسے ہی نئی طرز کے افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے دیوندراسر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
”اس سے قبل احمد علی کی قید خانہ اور میرا کمرہ جیسے تاثر انگیز علامتی تجریدی اور تاثراتی انداز راز کے افسانے پیش کر چکے ہیں۔کرشن چندر کا والی چہ اور ایک ایک سریلی تصویر ر اور ممتاز شیریں کا میگھ ملہار علامتی افسانے ہیں۔“
کرشن چندر کے افسانے:
کرشن چندر کے ہاں ایسے بہت سے افسانے میں جاتے ہیں جن میں انہوں نے فارم اور تکنیک کا نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے۔جبکہ ان کے کچھ اور افسانے جن میں بالکونی ی دو فرلانگ لمبی سڑک اک دوجے ہی کالا سورج اور پانی کا درخت وغیرہ کی مثال دی جا سکتی ہے۔
کرشن چندر کے افسانے کا کالا سورج میں ایسے بیوپاری کا ذکر ہے جو بجلی پیدا کرنے کا کام کرتا ہے اور اسے جب اپنے کاروبار بڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ایک دن سورج کے چہرے پر سیاہی مل دیتا ہے ہے جس سے اندھیرا پھیل جاتا ہے ہے اس وہاں کے بچے بعد میں مل مل کر صاف کرتے ہیں اس طرح انہوں نے اپنے افسانے پانی کا درخت میں میں بھی تمثیلی انداز اختیار کیا ہے ہے اس کہانی میں ایک جگہ کا ذکر ہے جہاں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔اسی کمی اور محرومی کا نتیجہ ہے کہ جب ایک لڑکا سوتا ہے تو اپنے خواب میں پانی کا درخت دیکھتا ہے۔
ترقی پسند تحریک:
ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اگرچہ فن میں روایت پرستی کا رویہ غالب تھا لیکن اس کے باوجود تمام بڑے افسانہ نگاروں کے ہاں علامت تجرید اور تمثیل یا رمزوکنایہ کا شعور موجود رہا ہے جو ان کے افسانوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ موجود دکھائی دے جاتا ہے کرشن چندر کے ہاں تو ہم نے کافی مثالیں دیکھی لیکن ان کے علاوہ رجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے کہیں شوری اور کہیں غیر شعوری طور پراسلوب یا تکنیک کی سطح پر نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی۔
بیدی کے افسانے:
بیدی کے ایک افسانے”گرہن“ کی یہاں بطور خاص مثال دی جاسکتی ہے یہ افسانہ اگرچہ علامتی اور تجریدی یا تمثیلی افسانہ نہیں مگر اس میں چلی نے پہلی مرتبہ استعاراتی اندازِ تیار کیا ہے علاوہ ازیں انہوں نے پورے افسانے میں اساطیری ماحول واضح کیا ہے ہے جس سے کہانی میں مابعدالطبیعاتی فضا پیدا ہو تی ہیں اور کہانی واقعت سے اوپر اٹھ کر علامت کی سطح پر آگئی ہے۔
منٹو:
اردو افسانے میں منٹو کو کئی حوالوں سے اہمیت حاصل ہیں ہیں انہوں نے جنس اور طوائف کے موضوع کو سب سے زیادہ برتا سماجی موضوعات سے بھی صرف نظر نہیں کیا اور فسادات پر بھی انہی کے افسانے تعداد اور معیار میں بیشتر افسانہ نگاروں سے بڑھ کر ہیں۔منٹو کو یہ منصب بھی حاصل ہے کہ انہوں نے یہ سب سے پہلے جے بندے کے عنوان سے ایک مکمل علامتی اور تجریدی افسانہ لکھا۔یہ فسانا تکنیک اور اسلوب جب دونوں دونوں سطحوں پر اپنے اندر وہ پرسراریت اور ابہام رکھتا ہے۔جو علامتی تجزیہ افسانوں کی خاص شناخت ہے۔
مستحکم عمارت:
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں تجریدی افسانے کی کی داغ بیل پڑی جو اس سے قبل کے افسانے لکھنے کی چند مثالیں موجود تھیں۔ یہ اگرچہ کوئی مضبوط روایت تو نہ کی کہ جس کے تسلسل میں نئی طرز کا افسانہ لکھا جا سکتا البتہ ایسی بنیادی ضرورت موجود تھیں جن پر ایک مستحکم عمارت تعمیر کی جا سکتی تھی۔
……٭……

Leave a Comment