جواب: پنجابی نثر کا تاریخی جائزہ:
ادبی سطح پر پنجابی نثر کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں ہے اور اس کا آغاز انگریزوں کی آمد سے ہوتا ہے جو اپنے ساتھ نہیں اصناف لے کر آئے۔ اس سے قبل پنجابی کی جو نثری کتب ملتی ہیں وہ مذہبی اور اصلاحی جذبے کے تحت لکھی گئی تھیں،جن میں سے پہلی کتاب ”مواعظ نوشہ گنج بخش“بنتی ہے۔ جس میں سلسلہ نوشاہیہ کے ایک بزرگ نوشہ گنج بخش کے چھ واعظ شامل ہیں۔ اس کے بعد ”بوہل نماز“، ”رسالہ مہدی“، ”کچی روٹی“اور ”پکی روٹی“ وغیرہ کے نام سے سامنے آنے والی کتابیں بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ ”بوہل نماز“ کے مصنف حافظ برخوردار اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ بوہل پنجابی میں کھلیان کو کہتے ہیں۔
آپ نے اس کتاب میں دیہاتی کسانوں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے زراعت کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ آپ نے تبلیغی انداز کی اور بھی کئی کتابیں تحریر کیں جن میں انواع برخوردار کی تصنیف بتائی جاتی ہے۔ فقہی مسائل سے متعلق اٹھارویں صدی کی ایک اور تصویر فقیر روٹی کے مصنف کا نام آج تک پردہ اخفا میں ہے۔ اس کتاب میں سوال جواب کے انداز میں دینی مسائل بیان کئے گئے ہیں جن کی تقلید میں بڑے عرصے تک کی مسی روٹیاں اور میٹھی روٹیاں لکھی گئی۔ ان کتابوں کا نام روڈ یا والبعث لیے رکھا گیا تھا کہ امدادی و ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں فقہ کے مسائل ترتیب وار یوں اکٹھے کیے جاتے تھے جس طرح گندم بونے کاٹنے گاہنے پیسنے اور آٹا گوندھنے کے بعد تیار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی مدرسوں میں پڑھانے کے لئے صرف ونحو کی کتابیں بھی لکھی گئی اور یہ سلسلہ انگریزوں کی آمد تک جاری رہا جنھوں نے ناول افسانے اور ڈرامے کو پنجابی ادب میں متعارف کرایا۔
ناول:
ہندوستانی زبانوں میں ناول انگریزی ادب کے ذریعے پہلے بنگالی اور اردو سے متعارف ہوا اور اس کے بعد ان زبانوں کے زیر اثر یا براہ راست انگریزی سے پنجابی تک پہنچا۔ اس سے قبل یہاں داستانوں کی روایت تو موجود تھی مگر جدید تکنیک کے مطابق ناول کا تصور ناپید تھا۔ پنجابی میں لکھا گیا پہلا ناول ”جیو تردی“ تھا۔ مگر اس پر اس کی مصنف کا نام موجود نہیں۔ چنانچہ بھائی ویر سنگھ کو پنجابی کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس نے اٹھارہ سو ستانوے میں ”سندری“ کے نام سے ناول لکھ کر پنجابی میں اس روایت کا آغاز کیا۔ اس کے بعداہم ناول نگاروں میں میراں بخش منہاس کا نام آتا ہے جن کا ناول ”جٹ دی کرتوت“شائع ہوا۔ سماج سدھار کے موضوع پر لکھا گیا ایک عمدہ سوانحی ناول پھول تھا جس میں زمینداروں کی فضول خرچیوں اور شادی بیاہ کی رسموں پر بے دریغ خرچ کرنے اور جھوٹی شان و شوکت کے لیے ادھار لینے کے نقصانات کو ایک دیہاتی کی کہانی کے انداز میں پیش کیا گیا۔ ہر چند کے وقت کی ضرورت کے مطابق مصنف نے اس میں اصلاحی پہلو پر ہی زیادہ توجہ دی ہے لیکن فنی اعتبار سے بھی یہ ایک پختہ ناول ہے جس میں دلچسپ اور رواں انداز تحریر کریں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
یہ ناول چونکہ شروع ہی سے تعلیمی نصاب میں شامل رہا ہے اس لیے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔اس کا اردو ترجمہ بھی جاٹ کی کرتوت کے نام سے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے شائع ہو چکے ہے۔ جو کہ الطاف کمر نے کیا تھا اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اس پر نظر ثانی کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سات سال تک اس طرف خاموشی رہی تاکہ جو شوافضل الدین نے ”برکتے“کے نام سے 1954ء میں ایک ناول لکھا۔ انہوں نے منڈے دا مل کے نام سے بھی ایک ناول تحریر کیا۔ جوشوا فضل الدین کا شمار بھی ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جو اپنی تحریروں میں معاشرے کی اصلاح وفلاح کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
برکتے کے پیار کا قصہ:
برکت میں میں دلدار کے بیٹے دلاور نواب نمبردار کی بیٹی برکتے کے پیار کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اس کا موضوع ایک نفسیاتی نقطہ ہے جس کے باعث برکتے ماں باپ کی عزت اور آبرو کے آگے سر جھکا دیتی ہے اور دلاور کو ساتھ ملا کر کوئی غلط فیصلہ کرنے کے بجائے رسم و رواج پر قربان ہو جاتی ہے۔ عبدالمجید بھٹی کا ٹھیڈا 1960ء میں شائع ہوا۔ جدید معاشرے میں جنم لینے والی ایک رومانی کہانی پر مبنی اس ناول میں شاہدہ اور نصیر کی محبت کا علم یا بیان کیا گیا ہے جس میں شاہد خسارے میں رہتی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی وہ خود ہی ٹھہرتی ہے۔ 1960ء کے بعد رفتہ رفتہ ناول نگاری کی طرف توجہ ہونے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا۔ اگر ہم سینتالیس سے انیس سو اٹھاسی تک لکھے گئے ناولوں کی تعداد دیکھی جائے تو 33 سے زیادہ نہیں بنتی جن میں کچھ چھوٹے ناولٹ بھی شامل ہیں۔ان میں زیادہ ناول 1971ء کے بعد لکھے گئے یعنی زمانی اعتبار سے انیس سو ستر کے بعد کا دور اور خاص طور پر 1976ء کا سال ایک ایسا موڑ بنتا ہے جہاں آ کر ناول نگاروں کی طرف خصوصی دھیان دیا گیا۔
صرف اسی ایک سال میں چھ ناول شائع ہوئے جبکہ 1971ء سے پہلے کے دور میں صرف پانچ ناول چھپے تھے۔اس کے بعد پندرہ برسوں میں بھی ناول نگاری کا رجحان برقرار رہااور 1999ئتک تقریباً 20 ناول شائع ہوئے۔ اس دور کے لکھنے والوں نے جدید رنگ اور موضوعات کے تنوع کی طرف بھی خصوصی توجہ دیں۔
شروع کے لکھنے والے:
شروع کے لکھنے والوں میں میراں بخش منہاس اور جوشوا فضل الدین کے علاوہ آغا اشرف افضل،احسن رندھاوا،سلیم خان گمی،ڈاکٹر محمد باقر اور رضیہ نور محمد کے نام نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ افضل احسن رندھاوا کا ”دیوا تے دریا“1961ء میں شائع ہوا جب کہ سلیم خان گمی کا”سانجھ“1969ء میں شائع ہوا۔یہ دونوں اسلوبیاتی ناول ہیں اور دیہاتی ثقافت کے پس منظر میں لکھے گئے۔ قیام پاکستان سے قبل کے سانجھے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے یے یہ ناول پنجاب کی اس روایتی بہادری کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں قول دینے والا مر تو جاتا ہے مگر اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ ڈاکٹر محمد باقر کا ناول”ہٹھ“1972ء میں شائع ہوا۔ جس میں وقت قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کے تجزیے کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد کے حالات کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا ہیرو باؤ احما ہے جو انگریزوں کے خلاف مقامی لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ رضیہ نور محمد کا ناول”بلدے دیوے“1976ء میں شائع ہوا اور اس میں جاگیردارانہ سوچ کے تحت خواتین سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کی عکاسی کی گئی ہے۔ 1971ء میں سرائیکی میں لکھا جانے والا ظفر لاشاری کا ناول”نازو“ ایک رومانی ناول ہے جو ایم اے پنجابی کے نصاب میں بھی شامل رہا ہے۔
فخر زمان کے ناول ”ست گواچے لوک“مطبوعہ 1975ء ایک میرے بندے دی کہانی مطبوعہ 1977ء میں چھپنے والے مستنصر حسین تارڑ کا ناول پکھیرو بھی ایک بلیغ علامتیں تحریر ہے۔جس میں فرد کو استحصالی قوتوں اور معاشرتی جبر کے سامنے بے بس دکھایا گیا ہے خواتین کی طرف سے لکھے گئے ناولوں میں کہکشاں ملک کا ناول چکڑ رنگی مورتی اپنے اسلوب اور کردار نگاری کے اعتبار سے ایک اہم ناول ہے۔ اس میں ایک تنہا عورت زبیدہ کی داستان بیان کی گئی ہے جو اپنی ہمت اور محنت سے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتی ہے۔
ٹانواں ٹانواں تارا:
منشا یاد کا ناول”ٹانواں ٹانواں تارا“تخلیقی نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے جس میں دیہی اور شہری معاشرت کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نیکی، شرافت اور اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے طبقاتی امتیازات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افضل احسن رندھاوا کے ناول سورج گرہن میں خط کتابت کی تکنیک استعمال کی گئی ہیں یعنی مختلف کردار ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں اور یوں ہی یہ ناول تمام ہو جاتا ہے۔ مصنف نے ان خطوط کے ذریعے مشرق و مغرب کی سوچ اور سماج کے فرق کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ صابر رضا کا ناول ”دور دراڈے“بھی مغربی معاشرت اور مشرقی انداز فکر کے تفاوت پر مبنی ہے جس میں ناول نگار نے برطانیہ میں رہنے والے مختلف پنجابی کرداروں کی سوچ ڈنگ کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے برطانیہ اور پنجاب کی زندگی کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس ناول کے پڑھے لکھے کرداروں کے ذریعے ہمیں عالمی تناظر میں ثقافت، معاشیات،ادب اور آرٹ پر دلچسپ بحثیں بھی ملتی ہیں۔ حسین شاہد کا ناول ڈراکل ایک نظریاتی ناول ہے۔ جس میں دو طبقوں زبردست اور زبردست کا مقابلہ کیا گیا ہے کہ طاقتور لوگ دوسروں کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لئے ہمیشہ کسی نہ کسی نظریے کا سہارا لیتے ہیں اور یہ نظریہ ان کے مفادات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔
افسانہ:
ناول کی طرح یہ صنعف بھی بدیسی ہے اس کا آغاز مذہبی اور اصلاحی ضروتوں تو کے تحت ہوا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ابتدائی طور پر جو کہانیاں لکھیں گی وہ سادہ بیانی انداز میں تھیں اور ان میں دینی،اخلاقی اور اصلاحی موضوعات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ پنجابی میں پہلی کہانی 1921ء میں لال سنگھ نے کملہ اکائی کے عنوان سے لکھی جبکہ نانک سنگھ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہنجوآں دے ہار کے نام سے 1934ئشائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی جوشوا فضل الدین کے مجموعے ادبی افسانے اخلاقی کہانیاں اور نیکیاں کہانیاں بھی چھپ کر سامنے آئیں۔ اخلاقی کہانیاں میں اکتیس مختصر کہانیاں ہیں جو سماجی اور اخلاقی مسائل پر مبنی ہیں۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔اس نے طبقاتی کشمکش کے حوالے سے لکھنے والوں کے لیے نئے موضوعات کی راہ ہموار کی۔1940ء تک پہنچتے پہنچتے پنجابی کہانی کا رنگ روپ نکھرنا شروع ہوگیا اور اس نے مغربی اثر قبول کرنا شروع کر دیا۔1947ء تک افسانوں کے کئی مجموعے چھپ چکے تھے۔ مگر یہ گرم کی رسم الخط تھے۔ کیا میں پاکستان کے بعد افسانہ لکھا تو گیا مگر 1959ء تک کوئی مجموعہ شائع نہیں ہو سکا۔ اس دور کے لکھنے والوں میں شفیع عقیل وقار انبالوی نظر فاطمہ اکبر لاہوری رشید سلیم زیادہ نمایاں ہیں۔
اِک اوپری کڑی:
پنجابی افسانے کے اس دور میں جو انیس سو اٹھاسی تک پھیلا ہوا ہے کے افسانوں کی کتاب ”اک اوپری کڑی“حنیف چوہدری کی”کچ دی گڈی“حسین شاہ صاحب کی کی لا پریت سلیم خان گمی کی لاہور دی خوشبو اور افضل احسن رندھاوا کی کتاب ”رن تلوار تے گھوڑا“خصوصیات کے حامل ہیں۔جو مختلف اور متنوع موضوعات اور مسائل کے فنکارانہ اظہار پر مبنی ہیں۔ افضل احسن اپنے افسانوں کے ذریعے پڑھنے والے کو اس سانجھی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں قیام پاکستان سے قبل کا دیسی علاج جگر دارانہ اخلاقی اقدار اور روایتی تعصب کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ جبکہ سلیم خان گمی کے افسانوں میں عام سماجی مسائل کے فنکارانہ اظہار کے ساتھ ساتھ جھوٹی اقتدار کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ حسین شاہ کی کہانیاں یا آپ نے بہت اور سلوک کے باعث گہرافکری تاثر لیے ہوئے ہیں۔اس دور میں کیا میں پاکستان کے وقت جنم لینے والے فسادات بھی پنجابی افسانوں کا ایک اہم موضوع ہیں اور مختلف لکھنے والوں نے اس مسئلہ کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیاہے۔ رفعت کے افسانوں میں زیادہ تر عورتوں کی مجبوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں مردوں اور عورتوں کو دو طبقوں میں تقسیم کر کے عورتوں کی حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ایسے میں ان کا لہجہ کہیں منصفہ عورتوں کے حقوق کے لیے مردانہ وار لڑتی ہوئی کہیں بھی سمجھوتے کی قائل نظر نہیں آتی۔
سفرنامے:
پنجابی میں منظوم سفر ناموں کی روایت تو خاصی قدیم ہے کہ ابتدائی دور کے اکثر شعراء حج سے واپسی پر اپنے سفر کی کہانی اور واردات قلبی کو منظوم صورت میں پیش کردیا کرتے تھے لیکن جدید معنوں میں سفرنامے کی ابتدا عہد حاضر کے دین ہے۔ جس کے تحت پہلا سفر نامہ ایشیا دی سیر ر بنتا ہے جس میں فلسطین عرب شام چین اور دیگر کئی ممالک کی سیاحت کا احوال بیان کیا گیا۔ کیا میں پاکستان کے بعد کتابی صورت میں جو سفر نامے سب کر سامنے آئے آئے ان میں اولیت اعجازالحق کے یورپ تو چیونگم دے نال کو حاصل ہے جوقیام پاکستان کے 27 سال بعد شائع ہوا۔
دیس پردیس:
دوسرا سفر نامہ سلیم خان گمی کا دیس پردیس ہے جو انیس سو اٹھتر میں منظر عام پر آیا۔ اس میں سفر نامے کی تکنیکی لوازمات کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور فنی اعتبار سے بھی یہ پختہ اسلوب کا حامل ہے۔ اس میں برطانیہ کے سفرناموں کا حال دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
محمد اسماعیل ہمدانی کا سرائیکی سفرنامہ ”پیت دے پندھ“ 1980ء میں سامنے آیا۔ اس کتاب میں بکھرے ہوئے خیالات کو سفر نامے کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ سجاد حیدر پرویز کے سفرنامے”ویندئیں وگدیں“میں اندرون ملک کے سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔
……٭……