منّا رو رہا تھا… زارو زار رو رہا تھا…. امّی نے لاکھ جتن کیے۔ بھائی، بہنوں نے بھی بہلانے کی کوشش کی مگر منّا کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ وہ کسی ضد کی تکمیل کے لیے رو رہا تھا مگر اس معصوم کی بات کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اتنے میں ان سب کے کانوں سے گڑ گڑاہٹ کی آواز ٹکرائی۔سب نے ایک ساتھ سر اٹھا کر دیکھا، اوپر سے ہوائی جہاز گزر رہا تھا۔ ہوائی جہاز دیکھ کر ایک لمحے کے لیے منّا بھی رونا بھول گیا۔ امی لاڈ سے بولی:
”دیکھ منا…!ابھی جہاز سے پھول گریں گے…!“
منے کو پھولوں سے کیا غرض…مگر بڑے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اب جب بھی اوپر سے جہاز گزرتا،بچے شور مچا دیتے:
”جہاز والے انکل…!پھول گراؤ…پھول… پھول گراؤ…پھول…!“
جہاز گزر جاتا اور بچے دل برداشتہ ہو کر رہ جاتے۔
ملکی حالات خراب ہورہے تھے۔ اب امی، ابو اکثر پریشان رہتے تھے….مگر بچے تو بچے تھے۔وہ اپنی دنیا میں ہی مست تھے…..
اور پھر ایک دن بہت سے جہاز آئے۔بچے حسب عادت آنگن میں آ کر شور مچانے لگے…اچھلنے لگے…گانے لگے…!
”جہاز والے انکل…!پھول گراؤ… پھول…!“ آج خواہش کی تکمیل کا دن تھا۔’پھول‘گرا دیے گئے….بچے حیرت زدہ رہ گئے..!ایسے پھول انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔حیرت سے خوف کا سفر لمحوں میں طے ہوا…. اور پھر سب’فنا‘ہوگیا….!