سوال: مسجد قرطبہ کے آخری دو بندوں کی تشریح کریں۔

جواب: مسجد قرطبہ: نظم:
’مسجد قرطبہ“،جدید اردو شاعری میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے اکثر نقادوں نے اردو نظم کی مجموعی روایت میں بھی عظمت کا حامل سمجھا ہے۔جس عظمت و شکوہ کا تصوراموی سلطنت کی قرطبہ کی مسجد کے سلسلے میں کیا جاتا ہے،اسی عظمت وشکوہ کاعکس اقبال کی ’مسجد قرطبہ‘میں دیکھا جاتاہے؛ایک کے فنِ تعمیر کا مثل دوسری کے فن ِ شاعری میں دیکھا جاتاہے۔نظم کا یہ شعر،مسجد اور نظم کے آرٹ کے مشترک نکتے کی ترجمانی کرتا ہے:
تیری فضا دل فروز،میری نوا سینہ سوز

تجھ سے دلوں کا حضورمجھ سے دلوں کی کشود

تخلیقی آرٹ:


یہی وجہ ہے کہ یہ نظم باربار اپنی اصل یعنی آرٹ کی تخلیق،اس کی عظمت،اور وقت جیسی تباہ کن طاقت کے آگے اس کے دوام کی تصور کی طرف رجوع کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسی دوران میں یہ نظم ماضی ورایت کی بازیافت کا ’جدید،سورمائی عمل‘ بھی انجام دیتی ہے۔ اس نظم پر گفتگو کے ایک سے زیادہ زاویے ہیں، مگر ہم صرف اس ایک نکتے تک خود کو محدود رکھنا چاہتے ہیں، یعنی جدید اردونظم میں ماضی و روایت کی بازیافت، سورمائی انداز میں کرنا۔ جیسا کہ ابھی کہا گیا،’مسجد قرطبہ‘ کا ماخذ مسجد کی تعمیر کاآرٹ ہے لیکن اقبال نے اس کا مشاہدہ 1932 میں کیا۔

تاریخی تجربہ:


جب ہسپانیہ میں مسلم حکومت کے خاتمے کو تقریباًنو سو سال ہوچکے تھے اوراقبال کے اپنے وطن ہندوستان سمیت اکثر مسلمان یورپ کی نو آبادی تھے یا حقیقی خود مختاری سے محروم تھے۔ نیزواد الکبیر کے کنارے ایک پہاڑی پر قائم اس عظیم الشان مسجد میں گرجا کی تعمیر کو بھی پانچ سو برس کے قریب زمانہ گزرچکا تھا،اور وہاں اذان و نماز کا سلسلہ موقوف تھا۔ اقبال ایک ایسی مقدس عمارت میں تھے، جس کی مطلق اسلامی شناخت میں عیسوی شناخت دخل انداز تھی۔ اقبال کا یہ مشاہدہ،اسلامی دنیا سے متعلق ان کے معاصر تاریخی تجربے ہی کی توثیق ِ مزید کرتاتھا۔ جس طرح وہ اپنے وطن ہندوستان میں ہوتے ہوئے محکوم شہری تھے۔ اسی طرح اپنی مذہبی عبادت گاہ یعنی مسجد میں ہوتے ہوئے مجبوری کی حالت میں تھے، یعنی اس میں مذہبی عبادت کی اجازت سے محروم تھے۔یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے وہاں اس وقت نوافل اداکرلیے، جب عمارت کا نگران پادری کے پاس اقبال کی درخواست لے کر وہاں سے رخصت ہوا۔

آخری دو بندوں کی تشریح:


ساتواں بند:

المنی: جرمنی۔ اصلا دین: مراد ہے ریفرمیشن سے یعنی مذہبی اصلاح کی وہ تحریک جو مارٹن لوتھر باشندہ جرمنی نے یورپ کے خلاف اٹھائی تھی اور جس کی بنا پر عیسائیت دو بڑے حصوں میں بٹ گئی۔ پوپ کے ماننے والے کیتھولک کہلاتے رہے۔ لوتھر کو ماننے والوں کا نام پروٹسٹنٹ پڑ گیا۔ لوتھر کا عقیدہ یہ تھا کہ نہ پوپ معصوم ہے نہ کسی گناہ معاف کر سکتا ہے۔ پیر کنشت: لفظی معنی کیسا کا سب سے بڑا بزر یعنی پوپ۔ انقلاب فرانس: یہ انقلاب فرانس کی شہنشاہی کے خلاف تھا۔ چناں چہ بادشاہ، ملکہ اور بڑے بڑے امیر قتل کر دیے گئے اور امیر قتل کر دیے گئے ہیں اور جمہوریت قائم ہو گئی پھر نپولین بر سرکار آ گیا اور فرانس میں ازسر نو شاہی تخت بچھ گیا، لیکن انقلاب فرانس کے بدولت یورپ میں شہنشاہی کی جڑ پر کلہاڑے چلنے لگے۔ ملت رومی نزاد: مراد ہے اہل اٹلی سے۔ لذت تجدید: لفظی معنی تازہ کرنے کی لذت۔ اس مصرع میں اشارہ اٹلی کی اس عظمت و برتری کی طرف ہے جو اسے مسولینی کی ماتحتی میں حاصل ہوئی لیکن دوسری جنگ یورپ میں یہ عظمت بھی یورپ کی بعض دوسری کی طرح حرف غلط کی مانند مٹ گئی۔ گنبد نیلوفری: آسمان
1: اے مسجد! ستاروں کی نظر میں تیری تیری زمین کو آسمان کا رتبہ حاصل ہے۔ یعنی وہ بہت بلند مرتبہ ہے۔ آہ کہ صدیاں گزر گئیں اور تیری فضا میں اذان نہیں سنی گئی۔ یعنی کسی نے تیرے صحن یا ماذ نے ازان نہیں کہی۔
2: کچھ معلوم نہیں کہ ہنگامے پیدا کرنے اور ہلچل ڈالنے والے عشق حق کا سخت جان قافلہ کون سی وادی اور کون سی منزل میں مقیم اور محور استراحت ہے، وہ کب یہاں پہنچے گا؟ اور کب تیری فضا میں اللہ اکبر کی صدائیں پھر اسی طرح گونجنے لگیں جس طرح اسلامی دور میں ساڑھے سات سو سال تک گونجتی رہیں۔
3: ملک ملک میں انقلاب پیدا ہوئے۔ جرمنی سے اصلاح دین کی تحریک اُٹھی، جس نے پرانے زمانے کے تمام نقش مٹا کر رکھ دیے۔
4: پوپ کی جس معصومی پر عیسائیت نے ایک وسیع مذہبی نظام تیار کیا تھا۔ وہ معصومی حرف غلط کی طرح محور کر رہ گئی۔ اس عہد میں کسی کو وچنے اور غور کرنے کی اجازت نہ دی۔ سب کی گردنیں پوپ اور اس کے مقرر کیے ہوئے کارکنوں کے سامنے جھکی رہتی تھیں۔ وہ جو کچھ دیتے تھے، اسی کو نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب لوتھر کی تحریک نے پوپ کی معصومیت ختم کی تو لوگ دین میں غور و فکر کرنے لگے۔ حقیقت حال ان پر آشکارا ہوئی۔ اسی وقت سے پرانا مذہبی ڈھانچا بالکل برباد ہو گیا۔ اسی وقت سے آزادی فکر کا وہ دور شروع ہوا جس نے آگے چل کر رورپ کو لادینی کی راہ پر ڈال دیا۔
5: فرانس کی آنکھ نے انقلاب نے انقلاب کا نقشہ دیکھ لیا جس سے نہ محض فرانس کی پرانی شہنشاہی ختم ہوئی بلکہ یورپ کے پورے نظام سلطنت میں الٹ پلٹ شروع ہو گئی یعنی دوسروں ملکوں میں بھی بادشاہی کو ختم کر کے جمہورتیں قائم ہونے لگیں اور وہاں نئی تہذیب نے فروغ حاصل کیا۔
6: رومی نسل کی ملت یعنی اہل اٹلی جو پرانی چیزوں کی پرستش کرتے کرتے بوڑھے ہو گئے، وہ بھی مسولینی کی رہنمائی میں تجدید کی لذت سے جوان بن گئے یعنی ان میں بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہو گئی اور وہ عظمت و برتری کے دعوے کرنے لگے۔
7: مسلمان کی روح میں بھی آج وہی بے قراری، وہی تڑپ لہریں لے رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہونے والا ہے؟ یہ خدائی بھید ہے۔ زبان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے کھول کر بیان کر سکے۔
8: سمندر میں طوفان کے آثار نمودار ہیں۔ اس کی تہہ سے اچھل کر کیا نکلے گا؟ اور یہ نیلا آسمان جو ہمارے سر پر چھایا ہوا ہے، کیا رنگ بدلے گا؟

تخلیق کی لازوال قوت:


اقبال،عشق کو تخلیق کی لازوال قوت کہتے ہیں۔ آدمی عشق کے ذریعے اپنی ہستی کے مرکز یعنی خود ی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔خودی،جو مسلسل حرکت، تخلیق،ارتقاپسندہے۔یوں خودی کی کوئی حتمی منزل نہیں، مسلسل سفر اور سنگ ہاے میل ہیں۔ایک سنگ میل عبورکرنے کے لیے خون جگر چاہیے؛خون جگر استعارہ ہے مصمم عزم کا،اوراپنی پوری نفسی طاقت کو صرف کرنے کا۔ اس سے جو نقش،خلق ہوتا ہے،وہ دائمی ہوتا ہے۔اقبال کی نظر میں قرطبہ کی مسجد اسی عشق کی مظہر اور تخلیق ہے۔ وہ عشق کو مذہب و فن سے بہ یک وقت جوڑتے ہیں۔ ایک طرف:’عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفی، عشق خدا کا رسول،عشق خدا کا کلام‘ ہے تو دوسری طرف عشق کو کسی خاص مذہب سے وابستگی سے بالاتر،ایک غیر معمولی انسانی حقیقت قرار دیتے ہیں۔ مثلاً:
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی روعشق خود اک سیل ہے،سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوااور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

آٹھواں بند:


آب رواں کبیر، وادی الکبیر کا مشہور دریا، جس کے دونوں کناروں پر قرطبہ آباد ہے۔ مسجد قرطبہ بھی اس دریا کے قریب ہی واقع ہے۔ امم: امت کی جمع یعنی قومیں۔
آخری بند میں اس وقت کا منظر پیش کر رہی ہے جب یہ نظم کہی گئی تھی اور یہ منظر کشی:
1: پہاڑ کی وادی میں بادل شفق کی سرخی کے اندر ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہوتے بدخشانی لعل کے ڈھیر چھوڑ گیا۔
یہ غروب آفات کا نظارا ہے۔ غروب کے ساتھ جو شفق نمایاں ہوتی ہے، اس کی سرخی ہر شے پر تھوڑا بہت رنگ چڑھا دیتی ہے اور بادل کا کوئی ٹکڑا افق پر موجود ہو تو دوسرا سرا سرک ہو جاتا ہے۔ اسی کو شاعر نے سرخی کی بنا پر لعل بدخشانی کے ڈھیر سمجھا۔ چوں کہ یہ ڈھیر غروب آفتاب سے پیدا ہوئے، اس لیے کہا کہ یہ آفتاب چھوڑ گیا۔
2: عین اسی حالت میں کسی دیہاتی لڑکی کا نغمہ فضا میں گونجا۔ اس کی لے بہت سادہ تھی۔ اس لیے کہ دیہاتی لڑکیاں موسیقی کا فن سیکھ کر نہیں گاتیں۔ محض خوش گلوئی کی بدولت شوق پورا کرتی ہیں۔ سادگی کے باوجود اس لے میں درد اور سوز بھرا ہوا تھا۔ جوانی کا زمانہ دل کی کشتی کے لیے سیل کا حکم کرتا ہے۔ یعنی اسے جدھر چاہتا ہے بہا لے جاتا ہے۔

جوانی کی حیثیت:


اقبال نے اس مصرع میں عالم میں انسانیت کی ایک بڑی حقیقت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوانی کی حیثیت ایک تیز و تند سیل کی سی ہے۔ اس میں نہ کہیں اٹکاؤ ہے نہ ٹھہراؤ۔ جدھر رخ ہو گیا، نکل گیا۔ اس میں نفع نقصان کا موازنہ بھی عموماً نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت اسی شخص پر واضح ہو سکتی ہے جس نے تند و تیز سیل میں کشتی کو بہتے دیکھا ہو۔ جوانی گزر جائے تو انسان ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ قدم قدم پر رکتا ہے، گرد و پیش کو دیکھتا ہے پھر آگے بڑھتا ہے۔ اس مصرع میں ایک خوبی یہ ہے کہ جوان لڑکی کا گیت سننے والے ہر شخص کے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور جب تک یہ کیفیت طاری رہتی ہے، وقت اس طرح گزر جاتا ہے جیسے زندگی کی کشتی ایک سیل میں بہہ رہی ہو۔ ابھی یہاں تھی، تھوری دیر میں کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
3: اے وادی کبیر! تیرے کنارے کوئی شخص بیٹھا ہوا کسی اور ہی زمانے کا خواب دیکھ رہا ہے، کوئی سے مراد یہاں اقبال خود ہے۔
4: وہ آنے والا زمانہ اگرچہ ابھی تک تقدیر کے پردے میں چھپا ہوا ہے اور ظاہر نہیں ہوا، لیکن میری نگاہیں اس کے طلوع کو بے نقاب دیکھ رہی ہیں۔
5:میں اگر اپنے تصورات کے چہرے سے پردہ اُٹھا دوں اور بتا دوں کہ کیا کچھ ہونے والا ہے تو یورپ میری ان انقلابی باتوں کی تاب نہ لا سکے گا۔
6:پھر زندگی کا ایک زریں اصول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس زندگی میں انقلاب رونما نہ ہو، وہ زندگی نہیں، موت ہے۔ قوموں کی رحیں انقلابی کشمکش ہی کی بدولت زندہ رہتی ہیں۔
7: جو قوم ہر وقت اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے، اسے اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ کہاں لغزش ہوئی، کہاں ٹھوکر کھائی۔ وہ اپنی لغزش اور ہر ٹھوکر کی تلافی کر لیتی ہے۔ لہٰذا وہ زندگی کے میدان میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے اور قدرت کے ہاتھ میں تلوار کا کام دیتی ہے یعنی اس سے قدرت اپنے سارے کام لیتی ہے۔
8: جن نقوش میں جگر کا خون شامل نہ ہو، وہ نامکمل رہتے ہیں۔ خون جگر کے بغیر شاعری بھی سودائے خام کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔

مثالی مسلمان:


اسی طرح ایک طرف اس مردِ خدا، مردسپاہی، بندہ مومن کا ذکر کرتے ہیں جس کی واضح شناخت ایک مثالی مسلمان کی ہے، دوسری طرف وہ آدم کا ذکر بھی لاتے ہیں۔
”عرش معلی سے کم سینہ ء آدم نہیں /گرچہ کف ِ خاک کی حد ہے سپہر کبود“
یہ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس نظم میں جس ماضی کی بازیافت کرتے ہیں۔ اس کا ایک حصہ مخصوص اسلامی و تاریخی ہے اور دوسرا حصہ عمومی،انسانی،جمالیاتی ہے۔

مسلم ثقافت کا مقدمہ:


’مسجد قرطبہ‘ میں اقبال اس مسلم ثقافت کا مقدمہ بھی پیش کرتے ہیں جس کا مرکز حجازتھا اور جس کے خدوخال ’خلق عظیم کے حامل،صاحب صدق ویقیں عربی شہسواروں نے وضع کیے تھے یعنی صدر اسلام کے بزرگان۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کی جدیدنظم جس ماضی کی بازیافت کرتی ہے، وہ ’حجازی، عربی،اسلامی‘ ماضی ہے اور جس تناظر میں بازیافت کا عمل انجام پاتا ہے، وہ ’مغربی جدیدتہذیب اور استعماریت ہے۔ نئی اصطلاحوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال مغربی تہذیب کے کبیری بیانیے کاجواب اسلامی کبیری بیانیے کی فلسفیانہ اور جمالیاتی تشکیل کی مدد سے پیش کرتے ہیں۔ اس بنا پر اقبال کی نظم،جدید اردونظم کے دیگر دھاروں سے الگ اپنی شناخت قائم کرتی ہے اور ایک مختلف قسم کی ’جدیدیت‘ کی حامل ہے۔

نمونہ فن:


خود قرطبہ کی مسجد،ایک مذہبی عبادت گاہ اور ایک نمونہ ء فن ہے۔ عشق کی ایک جہت مذہبی، تاریخی ہے اور دوسری جہت خالص جمالیاتی ہے۔ اقبال کے مطابق‘جس میں نہ ہو انقلاب،موت ہے۔ وہ زندگی‘ اور انقلاب کی روح عشق ہے۔ چوں کہ عشق ایک سیل ہے،یعنی ایک دوامی اضطراب کے ساتھ مسلسل رواں رہنے کی نفسی حالت ہے،اس لیے وہ کسی گزرے زمانے کا احیا نہیں چاہتا، نئے زمانے کے خواب دیکھتا ہے۔
آب روان کبیر!تیرے کنارے کوئیدیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

کسی اور زمانے کا خواب:


یہ بات بے حد معنی خیز ہے کہ اقبال آب روان کبیر کے کنارے کسی اور زمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے جہاں مسجد قرطبہ تعمیر ہوئی۔ گویا ایک خواب عبد الرحمٰن اوّل نے دیکھا اور مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا، اور ایک ہزار سے زائد سالوں بعد ایک ’کافر ہندی‘ جس کے لبوں پر صلوٰۃ و درود ہے، وہ بھی ایک خواب دیکھ رہا ہے۔ واضح طور پر اس خواب کا مخاطب یورپ ہے۔ اقبال نے اپنے خواب یا عالم ِ نو کے اپنی نگاہ میں بے حجاب ہونے کے دعوے کے باوجود آشکار نہیں کیا اور بالکل ٹھیک کیا۔ انھوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ وہ پرانے عہد کا احیا چاہتے، یہ کہنے پراکتفا کیا کہ ’نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر‘،وہ نقش بھلے قوم کا ہو، یا شعر ونغمہ یعنی آرٹ کا ہو۔ یعنی وہ اپنی روایت کی بازیافت ایک ایسے نقش کی صورت میں چاہتے ہیں،جو عشق اور خون ِ جگر کی پیداوار ہو،اور جو سلسلہ روزو شب کی تباہ کن قوت کے آگے سینہ سپر ہوسکے!
……٭……٭……

Leave a Comment