” ہیپی ٹیچر ڈے!“
سر ابرار کے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی بچوں نے انہیں پرتپاک انداز میں ٹیچر ڈے کی مبارک باد پیش دی۔ پہلے تو انہوں نے حیرت سے سب کو دیکھا پھر دھیرے سے مسکرا دیے۔
”اچھا تو آج ٹیچر ڈے ہے۔ لائیے پھر میرا گفٹ…کیا لائے ہیں آپ میرے لیے؟“
انہوں نے گفٹ کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔سب بچے اب ہونق بنے کبھی ایک دوسرے کا چہرہ اور کبھی استاد محترم کی صورت دیکھ رہے تھے۔
”اس کا مطلب ہے کہ میرے پیارے بچے میرے لیے کچھ بھی نہیں لائے۔“
مصنوعی خفگی دکھانے کے دوران ان کے لبوں کی شرارتی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
سب بچوں نے معصومیت سے نفی میں سر ہلا دیا ۔
”جس طرح فادر ڈے، مدر ڈے، ٹیچر ڈے وغیرہ منایا جاتا ہے اسی طرح کل ہم نیکی ڈے منائیں گے۔ میرے پیارے پیارے بچوں کی طرف سے یہ میرے لیے تحفہ ہو گا۔“
”نیکی ڈے…!یہ کیا ہوتا ہے؟“سب نے بیک وقت سوال کیا۔
”کل کا دن یعنی نیکی ڈے اک پیارا دن ہو گا، جب آپ سب ایک ایک نیکی کر کے آئیں گے اور یہاں کلاس میں ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی نیکی کی روداد شئیر کریں گے۔ آپ سب کی نیکی میرے لیے بھی تحفہ ہو گی۔ بولیں منظور ہے؟ آپ کل اپنے ساتھ نیکی لے کر آئیں گے نا؟“
”جی ضرور۔ ان شاء اللہ!“
سر کے سوال پر سب نے گرم جوشی دکھائی۔
”بہت خوب! چلیے اب کتاب کھول لیجیے۔“
سب نے خوشی خوشی کتابیں کھول لیں۔
”ہیپی نیکی ڈے!“
اگلے روز سر کو دیکھتے ہی بچے پرجوش لہجے میں لہک لہک کر اک کورس میں بولنے لگے۔
”ماشاءاللہ! ماشاء اللہ! چہرے پر سجی مسکان بتا رہی ہے کہ سب بچے اچھی اچھی نیکیاں لے کر آئے ہیں۔“سر نے سب پر اک نگاہ ڈالتے ہوئے اندازہ لگایا۔
” جی…!“
کمرہ جماعت میں بچوں کی اک لمبی سی”جی“ گونجی۔
”چلیں رضا سب سے پہلے آپ بتائیے، آپ کیا لائے ہیں؟“سر نے کلاس کے مانیٹر کو مخاطب کیا۔
”میں جب کل اسکول سے گھر جا رہا تھا تو مجھے سڑک کے درمیان کیلے کا چھلکا نظر آیا۔ میں نے اس خیال سے وہ اٹھا کر قریبی کوڑے دان میں ڈال دیا کہ کوئی موٹر سائیکل یا کوئی بندہ اس پر سے پھسل نہ جائے۔“رضا نے ایک ہی سانس میں مکمل روداد کہہ ڈالی۔
”واہ بہت خوب!“سر نے کھلے دل سے سراہا۔
اپنی باری پر حسن خودبخود کھڑا ہو گیا ۔
”میں اسکول سے گھر جا رہا تھا تو ایک بزرگ نظر آئے جنہیں سڑک پار کرنے میں دشواری ہو رہی تھی، میں نے ان کی مدد کی۔“
” شاباش!“ سر نے بنا آواز پیدا کیے تالی بجائی۔
اب انس اٹھ کھڑا ہوا:
”میں صبح اسکول آ رہا تھا تو دیکھا کہ ایک بچہ بھاری بستہ اٹھائے تھکے تھکے قدموں سے اسکول کی طرف آ رہا تھا۔ میں نے اسے اپنی سائیکل پر بٹھا لیا، وہ بہت خوش ہوا۔“
” بہت اچھا کام کیا۔“سر مسکرائے۔
”کل شام کو دروازے پر ایک فقیر آیا۔ وہ بھوکا تھا۔ میں نے اسے کھانا دیا۔ وہ کھانا کھا کر دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔“اویس اپنی بات کہہ کر بیٹھ گیا۔
” اچھی نیکی کی۔“
”کل ہماری گلی میں ایک بلی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ مجھے لگا وہ بھوک سے رو رہی ہے۔ میں نے اپنے حصے کا دودھ اس بلی کو پلا دیا۔“ عمر نے فخر سے بتایا۔
اسی طرح سب بچوں نے باری باری اپنی نیکیاں استاد نے سامنے رکھ دیں۔
”ماشاءاللہ! سبھی نے بہت اچھے کام کیے، شاباش…اور اذلان! آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں، آپ بتائیے کہ آپ نے کیا کیا؟“ایک طرف بیٹھے اذلان کو مخاطب کیا گیا۔
”میں نے کچھ نہیں کیا۔ وہ شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا ہو چکا تھا۔“
” کیوں آپ نے کیوں کوئی نیکی نہیں کی؟“
استاد نے نرم لہجے میں پوچھا۔
”پتا نہیں! مجھے اپنے ساتھیوں کی طرح نیکی کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملا۔“اس کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی۔
”ادھر ائیے!“سر ابرار نے اسے اپنے قریب بلایا۔
” آپ یہ مت کہیے کہ میں نے کوئی نیکی نہیں کی بلکہ آپ کہیے کہ میں نے سچ بولا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ سچ بولنا کتنی بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی کرنے کا حوصلہ سبھی کے پاس نہیں ہوتا۔ ان سب بچوں میں سے بھی کئی بچوں نے جھوٹی کہانی سنائی ہے کیونکہ ان میں سچ بولنے کا حوصلہ ہی نہیں۔“
سر ابرار نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے کے بعد کلاس پر طائرانہ نگاہ ڈالی۔
”مجھے اذلان کی نیکی سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔ چلیے سب اسے تالیاں بجا کر داد دیجیے اور آپ سب کو آج مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا کہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور یہی آپ سب کی طرف سے میرا گفٹ ہو گا۔“
”ہم سب وعدہ کرتے ہیں، پکے والا وعدہ کہ آپ کی نصیحت پر عمل کریں گے۔“سب یک زبان کہہ رہے تھے اور سر ابرار کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔