تحریر:محمد جمیل اختر
انہوں نے چھوٹے چھوٹے ڈبے بنائے اور ان میں گھر کرلیا۔ وہ کیڑے مکوڑے نہیں انسان ہیں، تاہم جگہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ایک ڈبہ کرائے پر لیں اور اس میں رہنا شروع کردیں۔ کھلے آسمان تلے جلتے مرتے رہنے سے تو بہتر ہے کہ آدمی کے پاس اپنا ایک ڈبہ ہو جس کا وہ مالک ہو۔
جب بارش ہو تو ڈھکن بند کرلے۔
دھوپ ہو تو ڈبے کی دیوار کے سائے میں بیٹھ جائے ۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ نے خواہش کی اور آپ کو رہائشی ڈبہ باآسانی مل گیا۔ ہرگز نہیں، بلکہ پہلے آپ کو حکومت کو درخواست دینی پڑے گی جس میں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ اس قدر غریب ہیں کہ آسمان کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چھت دستیاب نہیں تبھی درخواست زیرِ غور لائی جائے گی۔
سخت جانچ پڑتال ہوتی ہے اور اگر آپ نے کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی تو سزا کے طور پر آپ کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے اور بقیہ زندگی کھلے آسمان تلے گزارنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے لوگ بہت سوچ سمجھ کر درخواست دیتے ہیں۔ پھر سب ناموں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے، کئی کامیاب ہوتے ہیں اورکئی ناکام۔
رونے اور چلانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ رہائشی ڈبہ حاصل کرنا یقیناً خوش قسمتی کی علامت ہے۔ سڑک کنارے لیٹے اکتائے ہوئے لوگ، جوتشیوں کے پاس جاکر زائچے بنوا کر چیک کرتے ہیں کہ کب ان کی قسمت بدلے گی؟
مگر قسمت کا بدلنا کچھ اتنا آسان کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ان کی جیب میں نہیں۔