پرندوں اور جانوروں پر حکومت کرنے والا جنگل کا بادشاہ شیر ایک بار سمندر کے ساحل پر گیا۔ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے وسیع سمندر اور اس میں ہلکورے لیتی لہروں کو دیکھتا رہا۔ پھر خود بھی آہستہ آہستہ گھٹنوں گھٹنوں پانی تک سمندر میں اتر گیا۔
حیرت میں ڈوبا وہاں کھڑا ہی تھا کہ اس کے سامنے آبی جانوروں کا راجہ اژدھا نمودار ہوا اور اپنی سلطنت میں داخل ہونے کی بنا پر اسے مجرم قرار دیا۔ اس نے گرج کر کہا:
”تمھیں یہاں بغیر اجازت داخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟“
آج تک اس سے کسی نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ غصے سے بے قابو ہو کر اس نے جواب دیا:
”مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں سارے جانوروں اور پرندوں کا بادشاہ ہوں؟“
اژدھا بولا:
”ضرور ہوں گے لیکن آپ کا راج زمین تک محدود ہے۔ میں سمندر کا راجہ ہوں اور میرے علاقے میں قدم رکھنے سے پہلے میری اجازت ضروری ہے۔“
یہ بحث دھیرے دھیرے لڑائی کی صورت اختیار کر گئی۔ دونوں ہی ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے تھے۔ آخر یہ طے پایا کہ دونوں اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور جو زیادہ طاقت ور ثابت ہو وہ دوسرے کو کھا لے۔
یہ سن کر شیر غیض و غضب میں اس زور سے دہاڑا کہ مارے دہشت کے جانور وہیں ڈھیر ہو کر ٹھنڈے ہو گئے۔ اب اژدھے کی باری تھی۔ اس نے اس طرح ترچھی نظروں سے پانی کے جانوروں کو گھورا کہ وہ جل کر بھسم ہو گئے اور پھر بولا:
”اب بتاؤ کون زیادہ طاقت ور ہے؟ تمھیں کسی کو جان سے مارنے کے لیے دہاڑنا پڑتا ہے جب کہ میرے لیے محض آنکھ کا اشارہ ہی کافی ہے۔“
شیر نے یہ بات تسلیم کر لی کہ اژدھا زیادہ طاقت ور ہے لیکن ساتھ ہی اس نے چند دنوں کی مہلت بھی مانگی تا کہ وہ اپنے خاندان والوں سے جا کر مل لے اور انھیں الوداع کہہ آئے۔ اژدھے نے یہ بات منظور کر لی اور شیر سے کہا، وہ ساتویں دن سمندر کے کنارے حاضر ہو جائے۔
شیر بہت اداس اور بھاری دل سے گھر گیا۔ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ اسے بھوک بھی نہ لگتی تھی۔ وہ اکیلا اِدھر اُدھر بیٹھا خالی خالی نظروں سے خلاؤں کو گھورا کرتا۔ گھر والوں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا۔ قریب ہی رہنے والے خرگوش نے بھی اس بدلی ہوئی حالت کا اندازہ لگا لیا۔ جب اسے فکر ہوئی تو اس نے جہاں پناہ سے اداسی کا سبب پوچھا۔ شیر نے اپنے اور اژدھے کے بیچ ہوئی لڑائی کا سارا حال کہہ سنایا۔ خرگوش نے شیر کو تسلی دی اور کہا:
”آپ فکر نہ کریں، میں آپ کو بچانے کا کوئی راستہ نکال لوں گا۔“ یہ کہہ کر وہ ڈھنڈورچی چڑیا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس کے پاس پہنچ کر اس نے کہا:
”دیکھو بھئی تم بادشاہ کا پیغام لے کر سارے جنگل میں گشت کر چکی ہو، کیا تم نے کبھی ہواسل کو دیکھا ہے جو اژدھوں کو کھا لیتا ہے؟“
”خرگوش بھائی! میں نے اس کے بارے میں سنا تو ہے لیکن خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔میرے خیال میں تو وہ کوئی بدروح پرندہ ہے جو ہمارے جنگل میں نہیں آتا۔“
”کیا تم اسے ڈھونڈ سکتی ہو؟“
”یہ بہت مشکل کام ہے اور فرض کرو میں نے اسے تلاش کر بھی لیا تو ضروری نہیں کہ وہ یہاں ہمارے کہنے پر آ بھی جائے، اس پر تو بادشاہ کی حکومت نہیں۔“ ڈھنڈورچی نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
خرگوش نے جواب دیا:
”ٹھیک ہے اس صورت میں ہمیں اس کے بغیر ہی کام چلانا پڑے گا۔ اچھا مہربانی کر کے تم سارے پرندوں اور جانوروں میں اعلان کرد و کہ آج سے ساتویں دن سمندر کے کنارے جمع ہو جائیں۔“
پرندوں کے ڈھنڈورچی نے چاروں طرف یہ خبر پھیلا دی اور ساتویں دن سویرے سویرے سینکڑوں پرندے اور جانور سمندر کے ساحل پر جمع ہو گئے۔ شیر بھی خرگوش کے ساتھ آ گیا۔ خرگوش نے اعلان کیا:
”ہمیں اس مجمع میں سب سے بڑا پرندہ تلاش کرنا ہے۔“
عقاب آگے بڑھا لیکن خرگوش نے نفی میں سر ہلا دیا۔
پھر بگلا آگے بڑھا، اس کے بعد گدھ اور سارس ایک ایک کر کے بڑھے لیکن خرگوش یہی کہتا رہا:
”اور بڑا…“
آخر میں ایک عجیب و غریب چڑیا جو ہاتھی کی طرح لحیم شحیم اور موٹی تھی، آگے بڑھی۔
”کون ہو تم؟“ خرگوش نے سوال کیا، کیوں کہ اس سے پہلے اس نے یا کسی اور نے یہ عجیب چڑیا نہیں دیکھی تھی۔
”یہ رنگارنگ پروں والی بڑی چڑیا ہے۔“نقارچی نے اعلان کیا:
”یہ بہت شرمیلی اور الگ تھلگ رہنے والی چڑیا ہے۔ آج تو محض اپنی وفاداری کی وجہ سے چلی آئی ہے۔“
خرگوش اس رنگارنگ پروں والی چڑیا سے بہت متاثر ہوا اور اسے پیڑوں کے جھنڈ میں چھپ جانے کی ہدایت کی اور کہا، جیسے ہی اژدھا نمودار ہو اپنے پروں کو پھڑپھڑائے اور چونچ سے پیڑ میں ٹھونکے لگائے۔ یہ سارے انتظامات مکمل ہو جانے کے بعد شیر سے درخواست کی گئی کہ وہ اژدھے کو آواز دے۔
شیر دہاڑا اور اس کی دہاڑ کے ساتھ طوفانی شور پیدا کرنے والے جھاگ دار سمندر کی تہہ کے ساتھ اژدھا اوپر ابھرتا نظر آیا۔
”آہاہاہا!“اژدھا زمین پر بسنے والے اتنے بہت سے جانوروں کو دیکھ کر خوشی سے چیخا اور بولا:
”اچھا تم لوگ بھی اپنے بادشاہ کی طرح میرا نوالہ بننے آئے ہو۔“
اسی وقت اچانک پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور ساتھ ہی ٹھونکیں مارنے کی تیز آواز سنائی دی۔ اژدھا جو بڑی شان سے بولا تھا، ڈر سے پیلا پڑ گیا اور بولا:
”یہ کیسی آواز ہے؟“
”یہ تو ہواسل ہے، وہ بھی آپ کا کارنامہ دیکھے…“
ابھی خرگوش نے جملہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ اژدھے نے ایک گہرا غوطہ مارا اور پانی میں غائب ہو گیا۔ سب چڑیاں اور جانور اس بڑی چڑیا کی طرف لپکے تا کہ اسے لپٹا کر پیار کریں۔ وہ اس سے بہت خوش تھے اور بادشاہ کی جان بچانے کی وجہ سے اس کے احسان مند تھے لیکن جیسے جیسے وہ اسے لپٹاتے، وہ چڑیا سکڑ کر چھوٹی ہوتی جا رہی تھی۔
جب سارے جانور اور چڑیاں اسے لپٹا کر پیار کر چکے تو وہ سکڑ کر ایک چھوٹی سی پھدکی کے برابر ہو گئی تھی۔
اور یہ چھوٹی چڑیا آج بھی اپنی چونچ سے درختوں پر ٹھونکے مارتی دکھائی دیتی ہے۔
……٭……٭……