جواب: غالب کی نغر گوئی اور خوش گفتاری:
غالب نے نغز گوئی اور خوش گفتاری کو اپنی منزل بنایا۔ نغز کے لغوی معنی ہیں عمدہ، خوب، نادر اور لطیف۔ انھوں نے نغز گوئی کی ترکیب ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کی ہے۔ ان کی شاعری میں لفظ نغز کے تمام معانی اور محاسن موجود ہیں۔ غالب کے متعقدین اور معاصرین اُن کی خوبیوں تک نہیں پہنچتے۔ غالب کے بعد صرف علامہ اقبال اُن کے ہم ردیف معلوم ہوتے ہیں۔ غالب کی نغز گوئی کی مثالیں دیوانِ غالب کے بیشتر صفحات سے مل سکتی ہیں۔
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے ہے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو، تو کہاں جائیں تو کیوں کر ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
یہاں ملاحظہ کیجیے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پہ نہیں آتی
ایک اور مثال:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس مرض کی دوا کیا ہے
خطوطِ غالب میں نغزگوئی اور خوش گفتاری:
غالبؔ نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیااور مستقبل کے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست، روانی اور برجستگی سکھائی۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالبؔ کی شخصیت انفرادیت کی مالک تھی۔ وہ فرسودہ اور روایتی راستوں پر چلنے والے مسافر نہیں تھے۔غالبؔ کی فطرت میں اختراع و ایجادکا جذبہ مبدء فیاض نے ودیعت فرمایا تھا۔غالبؔ کی نثری خدمات کا اعلیٰ نمونہ ان کے خطوط ہیں۔ سادگی، سلاست،بے تکلفی، بے ساختگی،طنز، ظرافت، گنجلک اورمغلق اندازِ بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری جیسے محاسن جو جدید نثر کا طرہ امتیاز ہیں مکاتیب غالب میں نمایاں نظر آتے ہیں۔غالبؔ کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔غالبؔ نے خط نویسی کی فرسودہ روایات کوختم کرکے وہ جدتیں پیدا کیں جن کے سبب اردو مکتوب نگاری باضابطہ ایک فن کی شکل اختیار کرگئی۔
خطوط کی بڑی خصوصیات:
غالبؔ کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اوّل یہ کہ انہوں نے پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریقِ اظہار کے مختلف راستے پیدا کیے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں“ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غالبؔ جدید اردو نثر کے رہنما ہیں۔ آج نثر کی کوئی ایسی صنف موجود نہیں جس کے لیے خطوطِ غالبؔ میں طرزِ ادا کی رہنمائی نہ ملتی ہو۔ بہ قول اکرم شیخ:
”غالبؔ نے دہلی کی زبان کو تحریر ی جامہ پہنایا اور اس میں اپنی ظرافت اور موثر بیانی سے وہ گلکاریاں کیں کہ اردوئے معلیٰ خا ص و عام کو پسند آئی اور اردو نثر کے لیے ایک طرزِ تحریر قائم ہوگیا۔ جس کی پیروی دوسروں کے لیے لازم تھی۔“
اپنی شخصیت کا جلوہ:
اردو میں غالبؔ پہلے شخص ہیں جو اپنے خطوط میں اپنی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالبؔ کی شاعری سے یہ پتا نہیں چلتا کہ حالیؔ نے انہیں ”حیوان ظریف“ کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ غالبؔ کے کلام سے غالبؔ کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالبؔ کی ہے جو خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ لیکن خطوط میں وہ غالبؔ ہمیں ملتا ہے جس کے قدم زمین پر جمے ہیں۔جس میں زندگی بسر کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا۔ غالبؔ کی زندگی سراپا حرکت و عمل ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک بے تکلفی،بے ساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی ان کے خطوط سے چھلکی پڑتی ہے۔ غالبؔ نے اپنے خطوط میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالبؔ کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب ؔاپنے غموں اور خوشیوں، اپنی آرزوؤں اور خواہشوں، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں، اپنی شوخیوں اور اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت میں نباہ کرتا ہوا ملے گا۔غرض ان کی شخصیت کی کامل تصویر اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ ان کے خطوط ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
شوخی تحریر:
حالیؔ لکھتے ہیں:
”جس چیز نے ان کے مکاتیب کو ناول اور ڈراما سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے وہ شوخیِ تحریر ہے جو اکتساب، مشق و مہارت یا پیروی و تقلید سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خط و کتابت میں مرزا کی روش پر چلنے کا ارادہ کیا اور اپنے مکاتبات کی بنیاد بذلہ سنجی و ظرافت پر رکھنی چاہی ہے۔ مگر ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو اصل اور نقل یا روپ بہروپ میں پایا جاتا ہے۔مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار میں سر بھرے ہوئے ہیں۔“
حسن ظرافت:
یقیناً غالبؔ کے خطوط میں جب ظرافت کے عناصر کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو بہ قول حالیؔ یہی کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ بجائے ”حیوانِ ناطق“ ”حیوانِ ظریف“ کہلانے کا مکمل استحقاق رکھتے ہیں۔ غالبؔ نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت سے کام لے کر خط جیسی محدود فضا میں بھی جابجا بذلہ سنجی اور شگفتگی کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔غالبؔ کے مزاج میں موجزن ظرافت کی غیرمعمولی حِس نے مکتوب الیہ کو گاہ گاہ خندہ بلب کیا ہے۔ کبھی لطیف چٹکیوں سے کام لیا ہیتو کبھی بے ساختہ شوخیوں اور سنجیدہ مذاق کا سہارا لیا ہے۔اور کہیں کہیں ہلکے پھلکے طنز کے وار بھی چلائے ہیں۔ مرزا حاتم علی بیگ مہرؔ کے ایک خط کا جواب لکھتے ہوئے غالب ؔ جس طرح چٹکی لیتے ہیں وہ دیدنی ہے: ”آپ کا خط کل پہنچا۔ آج جواب لکھتا ہوں۔داد دینا، کتنا شِتاب لکھتا ہوں۔
بذلہ سنجی:
مطالبِ مندرجہ کے جواب کا بھی وقت آتا ہے۔ پہلے تم سے یہ پوچھا جا تا ہے کہ برابر کئی خطوں میں تم کو غم و اندوہ کا شکوہ گزار پایا ہے۔ پس اگر کسی بے درد پر دل آیا ہے تو شکایت کی کیا گنجایش ہے؟بلکہ یہ غم تو نصیبِ دوستاں درخورافزایش ہے۔“(خطوطِ غالب: غلام رسول مہر، ص ۲۲۲) مقفیٰ طرزِ نگارش روایتی اسلوب پر ہلکی سے چوٹ ہے۔مگر اس میں ”دل آنے“ کی چٹکی لینا اور ”نصیبِ دشمناں“ کے وزن پر ”نصیبِ دوستاں“ کی ترکیب غالبؔ کے مزاج میں رچی شوخی کی عکاس ہے۔ غالبؔ کی خوش طبعی اور ظرافت کو اکثر و بیشتر ان کے عزیز ترین شاگرداورمزاج سے ہم آہنگ میر مہدی مجروحؔ سے خط و کتابت کے دوران کھل کر ہنسی مذاق اور دل لگی کا سامان میسر آجاتا تھا۔میر مہدی مجروحؔ کے نام لکھے گئے غالبؔ کے خطوط میں میر نصیرالدین، میر سرفراز حسین اور میر میرن صاحب(میر افضل علی) کا جابجا ذکر ملتا ہے۔پانی پت میں ان مداحوں کی ایک ساتھ موجودگی کی وجہ سے غالبؔ کو بذلہ سنجی کا خوب موقع مل جاتا تھا۔
طنز و مزاح شوخی وظرافت:
شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی،جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیں ہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
زندہ دلی اور خوش طبعی:
غالب کی شاعر ی میں طنزیہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوش دلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہ ہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگاؤ بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں:
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
نغز گوئی اور خوش گفتاری پر مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشان ہو گئیں
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست
ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
غرض یہ کہ خوش گفتاری اور نغز گوئی سے غالب کا دیوان بھرا پڑا ہے مگر اس میں چوٹ اور چھپا ہوا طنز بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ اپنے متعلق غالب نے یہ بھی کہا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
یہاں غالب اپنے اندازِ بیاں کے مختلف اور منفرد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ ایک خوش فکر اور خوش بیان شاعر ہونے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے شاعرانہ نصب العین کا ترجمان غالباً ان کا یہ شعر ہے:
آج مجھ سا نہیں ہے زمانے میں
شاعرِ نغز گو و خوش گفتار
……٭……٭……