سورج آگ برسا رہا تھا۔ انسان کیا چرندو پرند بھی سائے میں چھپے بیٹھے تھے۔ ایسے میں ایک آدمی کندھے پر بیگ لٹکائے چلا جارہا تھا۔ نہ جانے اس بیگ میں کیا تھا۔ اس نے دور سے گاؤں کے آثار دیکھ لیے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ گاؤں والے ملنسار ہوتے ہیں۔ اسے امید تھی کہ گاؤں کے لوگ اس کی مدد کریں گے۔
جب وہ گاؤں میں داخل ہوا تو دیکھا وہاں سخت ترین خشک سالی کا راج ہے۔ سبزہ نام کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ درختوں کی شاخیں اور پتے سوکھ چکے تھے۔ ہر طرف گردو غبار اُڑ رہی تھی۔ بہت سے مویشی غذائی قلت کے باعث ہلاک ہوچکے تھے۔ لوگوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔ کسان بارش کا انتظار کرتے کرتے مایوسی کا شکار ہوچکے تھے۔ کچھ بچے اس آفت سے بے نیاز کھیل کود میں مگن تھے۔
چلتے چلتے جب وہ آدمی گاؤں کے وسط میں پہنچا، تو دیکھا کہ گاؤں کے نکمے لوگ چوپال میں درختوں کے سائے تلے گپیں ہانک رہے ہیں۔ کچھ تاش کھیل رہے تھے اور کچھ حقے کی نَے سے دھواں اُڑا رہے تھے۔ اُسے گاؤں کی خشک سالی کی وجہ جلد ہی سمجھ میں آگئی۔ اس نے صدا لگائی:
”میں مسافر ہوں، بھوکا پیاسا ہوں، کیا کوئی میری مدد کرے گا؟“
یہ سن کر لوگوں کے منہ بھی بن گئے، پھر ایک آدمی جلے کٹے انداز میں بولا:
”ہم تو خود بھوک پیاس سے مررہے ہیں تمہیں کیا خاک کھانے کو دیں۔“
”تم لوگ نکمے ہی نہیں، بدتمیز بھی ہو۔“ مسافر کی بات سن کر گاؤں والے مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے اُسے گھیر لیا۔
”تم نے ہمیں نکما کہا، اب ہم تمھیں نہیں چھوڑیں گے۔“ وہ سب مل کر مسافر کو دھمکانے لگے۔ ان کی جلی کٹی باتیں سن کر مسافر ہنسنے لگا پھر اونچی آواز میں بولا:
”تم لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں جادوگر ہوں، اگر چاہوں تو ایک پھونک مارکر تم سب کو چڑیاں بنا دوں۔ اگر میں چاہوں تو ایسا جادو پھونکوں کہ بارش برسنے لگے۔“
مسافر کی للکار سن کر گاؤں والے ڈر گئے:
”کک…… کیا تم واقعی بارش برسانے والا جادو جانتے ہو؟“ ایک بوڑھا بے یقینی کے عالم میں منمنایا۔
”ہاں …… بالکل۔“ مسافر کا لہجہ پختہ تھا۔
”تو پھر ہمارے لیے جادو پھونک دو۔“ لوگ اُس کی منت سماجت پر اُتر آئے۔
”ہرگز نہیں، تم لوگ اس قابل نہیں کہ میں تمہارے لیے بارش والا جادو پھونکوں، تم خود غرض ہو، بھوکے کو کھانا نہیں کھلاتے، مُسافروں کا خیال نہیں کرتے، تمھاری یہی سزا ہے کہ تم اسی طرح عذاب میں سڑتے رہو۔“
لوگوں نے مسافر کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہنے لگے:
”بابو جی!ہم سے غلطی سرزد ہوگئی، ہم آپ کو کھانا کھلائیں گے اور رہائش بھی دیں گے۔ بس آپ خشک سالی کی مصیبت سے ہماری جان چھڑا دیں۔“
لیکن مسافر بضد رہا کہ تم لوگ نکمے اور فضول کاموں میں وقت برباد کرنے والے ہو۔ بارش برسانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر شاید تم اس قابل نہیں۔ بڑھتی ہوئی تکرار دیکھ کر آخر کچھ بزرگ اس میں شامل ہوگئے۔ وہ بھی مسافر کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے تو اس نے ایک دم اپنا مزاج بدلا اور کہنے لگا:
”ارے نہیں نہیں، آپ تو بزرگ ہیں۔ یوں منت سماجت کروانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں آپ لوگوں کی مدد کرنے کا ارادہ کرچکا ہوں۔“
گاؤں والوں کے چہرے ایک خوش گوار احساس سے کِھل اُٹھے۔ فوری طور پر مسافر کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا گیا۔ کھانے کے بعد مسافر نے اگلے دن صبح سویرے تمام گاؤں کو چوپال میں حاضر ہونے کا پیغام سنایا اور آرام کی غرض سے لیٹ گیا۔ صبح ہوتے ہی چوپال لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ وہ چہ میگوئیاں کررہے تھے۔
”اس مسافر کے پاس آخر کون سی جادو کی چھڑی یا الٰہ دین کا چراغ ہے جس سے یہ بارش برسائے گا۔“ نوجوان اور بچے جنہیں بارش دیکھے مدت ہوچکی تھی، وہ سب کے سب بے چین تھے۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو مسافر بولا:
”اگر میں پھونک ماروں اور بارش ابھی شروع ہوجائے تو اس کا فائدہ زیادہ دیر نہ ہوگا۔ خشک سالی کا خطرہ بدستور رہے گا۔ تمہارے گاؤں کے ساتھ ایک سوکھی نہر ہے۔ تم لوگ اس کی صفائی کرکے اگر اس پر ایک بند باندھ دو تو قدرت کی ایک نعمت کو محفوظ کر لوگے جو ہر سال تم لوگوں کی سستی اور نالائقی سے ضائع ہورہی ہے۔ اگر تم لوگوں کو میری یہ شرط منظور ہے تو میرا وعدہ ہے کہ جیسے ہی کام ختم کرو گے، میں بارش کو اشارہ کروں گا اور وہ برس پڑے گی۔ یہ نا صرف تمہاری بلکہ آئندہ نسلوں کی بھی قسمت بدل دے گی۔“
گاؤں والوں کو ہر قیمت پر بارش کی ضرورت تھی۔ وہ کام کرنے کے لیے فوراً تیار ہوگئے۔ ایک ہفتے کی مسلسل محنت سے نہر صاف ہوگئی اور بند کا کام مکمل ہونے سے اُس نے ایک ڈیم کی شکل اختیار کرلی۔ ڈیم تیار ہوچکا تو سب لوگ مسافر کے پاس آئے۔ وہ بارش کے منتظر تھے اور اب سوالیہ نظروں سے مسافر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”جادو پھونکو صاحب!“ گاؤں کے ایک آدمی نے مسافر سے کہا۔
”ایک منٹ رکو……“ مسافر نے اپنے بیگ کی زِپ کھولی پھر چند برقی آلات نکالے اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ گاؤں والوں کی حیرت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ حساب لگانے کے بعد مسافر بولا:
”بارش برسانے والے بادل اب آیا ہی چاہتے ہیں۔“
اتنے میں سب نے دیکھا مشرق کی طرف سے کالی گھٹائیں اُمڈی چلی آرہی تھیں۔ گاؤں والوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔ سب کے سب حیران تھے۔
”آپ کون ہو صاحب؟ جادو گر تو بالکل نہیں لگتے۔“
ایک آدمی نے سوال کیا تو مسافر ہنس پڑا۔
”ہاں میں جادوگر نہیں ہوں، بلکہ ایک عام انسان ہوں، جیسے آپ سب ہیں۔ میں اپنی ریسرچ کے سلسلے میں یہاں سے گزر رہا تھا تو آپ لوگوں کے حالات دیکھ کر رُک گیا۔“
”اوہ! آپ نے ہماری مدد کیوں کی صاحب جی؟“
”اس لیے کہ تم لوگ میرے وطن کے باشندے ہو۔“
یہ بات کہہ کر مسافر نے اپنا سامان لپیٹا اور ایک جانب چل دیا۔ اس شام خوب بارش برسی اور ساتھ ہی گاؤں والوں کی آنکھیں بھی۔ بارش والا یہ جادو گر دراصل محکمہ موسمیات کا افسر تھا۔ اُسے اپنی ریسرچ کے دوران خشک سالی کے تدارک کا پروجیکٹ ملا تھا۔
ڈیم بھر جانے سے زیر زمین پانی کا لیول بڑھا تو کنویں بھر گئے اور ڈیم کی شکل میں گاؤں کے آبی وسائل اور ذخیرے میں بے پناہ اضافہ ہوا جس سے آج بھی ان کی نسلیں فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ گاؤں والے اپنے محسن بارش والے جادو گر کو آج بھی سنہری لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ آج اگر کوئی اجنبی مسافر اس گاؤں سے گزرے تو گاؤں والوں کی طرف سے اس کی بہت آؤ بھگت اور خوب مہمان نوازی ہوتی ہے۔
٭……٭……٭