نفیس کی بارہویں سال گرہ تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اُسے سال گرہ کے ڈھیروں تحفے ملے۔ کوئی پھول لایا تو کوئی مٹھائی، کسی نے ایک ننھی سی کار دی تو کوئی ایک معلوماتی کتاب لایا۔ اُسے سب تحفے پند آئے سوائے ایک کے،جو اُس کا ایک غریب پڑوسی دوست عادل لایا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی سیٹی تھی۔ نفیس نے اپنے دوست کا دل رکھنے کے لیے یہ سیٹی لے لی اور عادل کا ظاہری طور پر شکریہ بھی ادا کیا مگر اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس سیٹی کو اُٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈال دے۔
بدقسمتی سے اُس رات گھر کا ایک دروازہ کھلا رہ گیا اور گھر میں چور گھس آئے۔ انہوں نے نفیس کے ماں باپ کو رسیوں سے جکڑ لیا اور قیمتی چیزیں لے جانے کے لیے اکٹھی کرنے لگے۔ نفیس ڈر کر اُس کمرے میں جا چھپا، جہاں اس کی سال گرہ کے تحفے پڑے ہوئے تھے۔ وہیں ٹیلی فون سیٹ بھی تھا۔ نفیس نے سوچا کہ پولیس کو فون کرے لیکن اُس کے پاس پولیس کا نمبر نہیں تھا۔ اُسے خیال سوجھا کہ ماموں کو فون کر کے واقعے کی اطلاع دے دے تا کہ وہ پولیس کو بلا سکیں۔ اُس نے ٹیلی فون کا ریسیور اُٹھایا تو اُسے پتا چلا کہ ٹیلی فون ڈیڈ (خراب) پڑا ہے۔ شاید چوروں نے لائن کاٹ دی تھی۔ اچانک اُس کی نظر اس سیٹی پر پڑی جو اُس کے غریب دوست عادل نے اُسے دی تھی۔ نفیس نے سیٹی اُٹھا کر زور زور سے بجانا شروع کر دی۔
چوروں نے سیٹی کی آواز سنی تو گھبرا گئے۔ وہ سمجھے کہ پولیس والے آ پہنچے ہیں۔ چور بغیر کوئی چیز اُٹھائے دم دبا کر بھاگ گئے۔ نفیس نے اپنے ماں باپ کی رسیاں قینچی سے کاٹ ڈالیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی عقل مندی پر اُسے جی بھر کر داد دِی۔ ماں نے نفیس کی خوب بلائیں لیں۔
نفیس بہت خوش تھا اورجی ہی جی میں اپنے غریب دوست عادل کا بے حد شکر گزار بھی کہ اُس کی دی ہوئی چھوٹی سی سیٹی نے بہت بڑا کام کر دکھایا تھا۔