یہ گاؤں شہر سے دور، بہت ہی دور تھا۔ یہاں نہ کوئی تھا نہ تھا، نہ ہی کوئی تھانے دار۔ گاؤں میں جب بھی کوئی جرم ہوتا تھا تو انصاف کے لیے فیصلہ گاؤں کی پنچایت کرتی تھی۔ یہ پنچایت کل پانچ آدمیوں پر مشتمل تھی۔
یہ دو آدمی تھے جن کی عزت گاؤں کے تمام ہی لوگ کرت تھے۔ پنچایت کے یہ تمام ممبر شہر سے دُور ہونے کی وجہ سے شرعی تعلیمات کی زیادہ شدبد نہ ہونے اور گاؤں میں کسی قاضی کے نہ ہونے کی وجہ سے آپس کے صلاح مشورے سے اپنی سمجھ کے مطابق کسی مجرم کو سزا دیتے تھے۔ پنچایت کا فیصلہ تمام لوگ بھی خوشی سے تسلیم کرتے تھے۔ جب کوئی چور چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو گاؤں میں ایک قسم کا میلہ سا لگ جاتا۔ چور کو ملنے والی سزا شریعت کے مطابق ہوتی، نہ ملکی قانون کے مطابق لیکن کسی کھیل تماشے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ اُس دن گاؤں کے تمام لوگوں کے جوش کا عالم دیکھنے والا ہوتا تھا۔
پہلے چور کا منہ کالا کیا جاتا، پھر پھٹے پُرانے گندے جوتوں کا ہار اُس کے گلے میں ڈالا جاتا اور پھر گدھے پر اُسے اُلٹے رُخ بٹھا دیا جاتا۔
اب سفر کا آغاز ہوتا۔ گاؤں کی گلیوں میں گدھے پر اُس چور کو گھمایا جاتا۔ پیچھے پیچھے دیہاتی بچوں کی فوج ظفر موج ہوتی۔ تمام بچے اُس چور پر آوازیں کستے۔
چھوٹوں کے ساتھ بڑے بھی شامل ہو جاتے اور چور کو اتنا ذلیل کیا جاتا کہ آنے والی زندگی میں وہ ہمیشہ کے لیے چوری کرنے سے توبہ کر لیتا۔
گزشتہ رات بھی گاؤں میں چوری کی کوشش کی گئی تھی مگر چور چوری کرنے میں ناکام رہا۔ چور نے کچی دیوار میں نقب لگائی تھی۔ وہ بھینس کھولنا چاہتا تھا کہ موقع پر ہی پکڑا گیا۔ پھر اگلے دن کا آغاز ہوا مگر آج گاؤں کی فضا سوگوار تھی۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی میلہ۔ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھر اپنے وقت پر پنچایت کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے چوراہے پر پنچایت بیٹھی ہوئی تھی۔
چور ایک درخت کے نیچے سر جھکائے کھڑا تھا۔ اُس کے گھر کے تمام افراد بھی پنچایت میں موجود تھے۔ اُن سب کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ جب سے یہ گاؤں آباد ہوا تھا، تب سے اِس پنچایت میں ایسا مجرم کبھی پیش نہیں ہوا تھا۔ یہ چور اُس گاؤں کے سب سے بڑے اور عزت دار آدمی کا بیٹا تھا۔ اُس کا باپ زمین دار تھا، دولت مند تھا۔ وہ اختیارات والا تھا۔ اُس کے پیچھے پورے قبیلے کی طاقت تھی۔ ایسے آدمی کے بیٹے پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات نہیں تھی مگر یہ پنچایت تھی، انصاف کا گھر تھا۔ انصاف کی نظر میں سب برابر تھے۔ اِسی لیے وہ لڑکا چور کے مقام پر سر جھکائے کھڑا تھا۔
گاؤں کے تمام افراد کا خیال تھا کہ اس چور کو معاف کر دیا جائے گا مگر نظام دین اس معافی کے حق میں نہیں تھا۔ وہ اُس پانچ رُکنی پنچایت کا سربراہ تھا۔ جرم ثابت ہونے پر وہی مجرم کی حتمی سزا کا فیصلہ سنایا کرتا تھا اور اِس فیصلے پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔ پھر سناٹے میں نظام دین کی آواز گونجی۔ وہ چور سے پوچھ رہا تھا:
”تم پر چوری کرنے کا الزام ہے۔ کیا تم صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو؟“
”جناب! میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ مجھ پر جو الزام لگا ہے وہ صحیح ہے۔ میں چوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ مجھے سزا دیجیے۔“
گاؤں کے تمام لوگ سناٹے میں آ گئے تھے۔ آج تک کسی خطاکار نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی تھی۔ سب کو ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر سزا دی جاتی تھی۔ یہ پہلا چور تھا جس نے اپنا جرم قبول کیا تھا اور اپنے منہ سے سزا مانگ رہا تھا۔
”تمھیں سزا ملے گی، ضرور ملے گی۔ ایسی سزا جو آج تک کسی چور کو نہیں ملی۔“ نظام دین کو غصہ آ گیا تھا۔ چور کی سزا پر عمل درآمد کے لیے تمام لوازمات تیار تھے۔ گدھا بھی موجود تھا۔ سپاہی بھی موجود تھے۔ پھٹے پرانے جوتوں کا ہار بھی موجود تھا مگر آج کوئی شور و غوغا نہیں تھا۔ تمام شرارتی بچے بھی خاموش تھے۔
چند عقل مند لوگ دعا مانگ رہے تھے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ اس سزا پر عمل درآمد نہ ہونے پائے۔ تمام لوگ جانتے تھے کہ آج تک انصاف کے معاملے میں نظام دین نے کبھی سمجھوتے سے کام نہیں لیا۔ اب پنچایت کے باقی چار ممبران مشورہ کر رہے تھے مگر جواب میں نظام دین کوئی ایسی بات کہہ رہا تھا کہ جسے سن کر سب انکار میں سر ہلا رہے تھے۔ یہ منظر بھی پہلی بار دیکھنے میں آیا تھا کہ نظام دین کی بات سے اختلاف کیا جا رہا تھا۔ پھر نظام دین غصے کے عالم میں اُٹھ کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں بولا:
”پہلی قومیں اِسی وجہ سے برباد ہوئیں کہ کم زوروں کو تو سزا دی جاتی اور با اختیار لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا مگر یہاں ایسا نہیں ہو گا۔ یہاں انصاف ہو گا اور ضرور ہو گا۔“ اُس چور کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس کے خالی دامن میں اب پچھتاوے کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔ اُس چور کا نام منظور تھا۔ چند اوباش قسم کے لڑکے اُس کے دوست تھے۔ اُن کے پاس ایک موٹر سائیکل تھی۔ یہ تمام دوست سارا دن اُس موٹر سائیکل پر آوارہ گردی کرتے تھے۔ منظور کے ابو اُس کے تمام کرتوتوں سے آگاہ تھے۔ اُس کے ابو نے کئی بار اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ”بیٹا! سدھر جاؤ! کسی دن کوئی بڑا نقصان ہو جائے گا۔“ مگر منظور کب سمجھنے والا تھا۔ وہ ایک کان سے نصیحت سنتا اور دوسرے کان سے اُڑا دیتا تھا۔
ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ گاؤں سے دور شاہراہ پر آ گیا۔ منظور ابھی موٹر سائیکل چلانا سیکھ رہا تھا۔ منظور میں جوش تو تھا مگر ہوش کی کمی تھی۔
سامنے سے ایک کار آ رہی تھی۔ منظور گھبرا گیا۔ پھر وہ جوش میں ہوش کھو بیٹھا۔ پھر تینوں کا نقصان ہو گیا۔ کار کا بھی، موٹر سائیکل کا بھی اور منظور کا بھی۔ منظور کے ابو کو جب اِس حادثے کا علم ہوا تو وہ بہت برہم ہوئے۔ اُنھوں نے کار والے کے نقصان کا ازالہ کر دیا۔ منظور کو دوستوں کو ڈانٹا اور موٹر سائیکل کی مرمت کے لیے پیسے بھی دیے۔ اب منظور میں ہسپتال تھا۔
اگلے دو ہفتوں میں اُس کے زخم بھر چکے تھے۔ ابو نے پھر اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر دھاک کے وہی تین پات۔ وہ نصیحت کا اثر لینے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔
جب وہ تندرست ہوا تو پھر سے اپنے دوستوں کے پاس چلا آیا۔ اُس کے ابو کی ڈانٹ سن کر دوست ناراض تھے۔ اُنھوں نے منظور کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ وہ بہت غصے میں تھے۔
”موٹر سائیکل تو دویارو! بڑے دن ہو گئے چکر لگائے۔“ منظور لگاوٹ سے بولا۔
”موٹر سائیکل چلانے کا اتنا شوق ہے تو اپنی خرید لو۔ آخر ایک امیر باپ کے بیٹے ہو۔“ یہ طعنہ سن کر منظور کو غصہ آ گیا۔ وہ ابو کے پاس آیا۔
”ابو جی! مجھے موٹر سائیکل خریدنی ہے۔“ منظور نے بلا تمہید کہا۔
”بیٹا! اللہ تعالی کی ذات کا ہزار بار شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک کیا، میں تمھیں دس موٹر سائیکل دلا سکتا ہوں مگر جو چیز فائدہ دیتی ہے، وہی چیز نقصان پہنچانے کا باعث بھی بنتی ہے۔ ابھی تم موٹر سائیکل چلانے اور سنبھالنے کے قابل نہیں ہوئے۔ جب ہو جاؤ گے تو دلا دوں گا۔“ ابو جی کا یہ ٹکا سا جواب سن کر منظور پھر سے اپنے دوستوں کے پاس چلا آیا۔
”ابو جی تو نہیں مانتے، کوئی ترکیب بتاؤ یارو!“ منظور اپنے جنون میں پاگل ہوا جا رہا تھا۔ اُس کے دوستوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ بدلہ لینے کا اچھا موقع تھا۔ اُن کے خیال کے مطابق منظور کے ابو نے اُنھیں ذلیل کیا تھا۔
”ایک کام کرتے ہیں۔ تم اپنے ہی گھر میں چوری کر لو۔“ ایک دوست نے ترکیب بتائی۔
”نہیں، نہیں! مروانا ہے کیا؟“ منظور گھبرا گیا۔
”تو پھر کسی اور کے گھر چوری کر لیتے ہیں۔ ہم تمھاری مدد کریں گے۔ تمھارے لیے نئی موٹر سائیکل خریدنے کے بعد اگر پیسے بچ گئے تو وہ ہم آپس میں تقسیم کر لیں گے اور اگر پکڑے گئے تو زیادہ سے زیادہ ہوگا کیا! گدھے کی سواری ہی کرنی پڑے گی نا۔ وہ تو ہم دیہاتی روزانہ ہی کرتے ہیں۔“ منظور کے ایک دوست نے تفصیل سے ترکیب بتائی۔ منظور کو یہ ترکیب پسند آئی۔
”چوری کیا کرنا ہے؟“
”وہ غفور ہے نا، اُس کی بھینس کھول لیتے ہیں۔ ہم باہر کھڑے ہو کر پہرہ دیں گے۔ اگر کوئی آیا تو تمھیں ہوشیار کر دیں گے۔“ اپنے دوستوں کی باتیں سن کر منظور خوش ہو گیا۔ پھر اُسی رات واردات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دیوار میں نقب سب نے مل کر لگائی۔ جب راستہ بن گیا تو منظور دبے پاؤں آگے بڑھا۔ وہ بھینس کے قریب پہنچا۔ ابھی وہ بھینس کا رسا کھول ہی رہا تھا کہ ایک آواز فضا میں گونجی:
”چور……چور……چور!“ یہ منظور کے دوست تھے۔ وہ شور مچا کر بھاگ نکلے تھے اور منظور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور اب وہ پنچایت میں سر جھکائے کھڑا تھا۔ اپنے ابو کی نصیحت پہ کان نہ دھرنے والے کو سزا سے پہلے ہی سزا مل چکی تھی۔ اب اُس نے خود کو نئی سزا کے لیے تیار کر لیا تھا۔ نظام دین سے رحم کی توقع نہیں تھی۔ پھر سب کے کانوں سے نظام دین کی آواز ٹکرائی:
”چور کو سزا دینے کا اہتمام کیا جائے۔ گدھا لایا جائے۔“
سزا میں استعمال ہونے والی تمام اشیا اب میدان میں موجود تھیں۔ اب منظور آگے بڑھا۔ پہلا کام منہ کالا کرنے کا تھا۔
”رُک جاؤ بیٹا! تمھارے بجائے یہ سزا میں بھگتوں گا۔ ایک بیٹے کے سامنے اُس کا باپ ذلیل ہو، یہی تمھاری سزا ہے۔“ نظام دین کا فیصلہ سن کر کتنے ہی لوگ چیخ پڑے۔ منظور، نظام دین کا بیٹا تھا۔ وہ تو تڑپ کر رہ گیا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ نظام دین چبوترے سے نیچے اُتر آیا۔ منظور اُن کے قدموں سے لپٹ گیا۔ وہاں موجود کتنے ہی لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایسا فیصلہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اِس فیصلے کو کوئی بھی برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔
”بیٹا منظور! خرابی تم میں نہیں، خرابی تو شاید میری ہی تربیت میں رہ گئی ہے جو تم ایسے ہو گئے۔ اِس لیے اِس سزا کا میں ہی حق دار ہوں۔“ نظام دین آگے بڑھا اور گدھے کے پاس پہنچ کر رُک گیا۔
”میرا چہرہ کالا کیا جائے۔“ نظام دین نے حکم دیا۔ نظام دین کے ہر حکم پر فوراً عمل کیا جاتا تھا مگر آج، آج سب بُت بنے کھڑے تھے۔ آج وہاں نظام دین کے حکم پر عمل کرنے والا کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر نظام دین مسکرانے لگا، پھر بولا:
”لگتا ہے کہ آج انصاف کے سارے تقاضے مجھے خود ہی پورے کرنے پڑیں گے۔“ پھر نظام دین نے اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ کالا کیا۔ پرانے جوتوں کا ہار خود ہی اپنے گلے میں پہن لیا، پھر خود ہی وہ گدھے پر سوار ہو گیا۔ اب گدھا چل پڑا۔ اُسے گاؤں کی ہر گلی، ہر کوچے کا چکر لگانا تھا۔ گاؤں کے تمام لوگ آنکھوں میں نمی لیے نظام دین کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ سب خاموش تھے۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی غل غپاڑہ……!
آج ایک منصف نے اپنے چور بیٹے کو بہت بھیانک سزا دی تھی۔ آج گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں اس منصف کے لیے پیار اور احترام میں اور بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ آج ایک منصف نے خود کو سزا دے کر انصاف کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔
٭٭٭