محل کو ایک نہایت سنگین مسئلہ اس وقت درپیش ہوا جب صفائی کرنے والی ملازمہ نے ملکہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔
”میں اب یہاں مزید کام نہیں کر سکتی! اس محل کو صاف رکھنا کسی ایک بندے کے بس کی بات نہیں ہے۔“شاہی نوکرانی نے کہا۔
اس نے اپنا استعفیٰ ملکہ نورا کو پیش کیا اور چلی گئی۔ ملکہ نورا نے جب یہ اطلاع شاہی خاندان کو دی تو شہزادی جین نے پریشان ہو کر پوچھا: ”اوہ! تو پھر اب ہم کیا کریں گے؟“
”سب سے پہلے تو محل میں تمہاری سہیلیوں کا آنا بند ہو گا جو سب سے زیادہ گندگی پھیلاتی ہیں۔“ملکہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
”شاید ہم سب مل جل کر محل کو صاف ستھرا رکھ سکیں!“
بادشاہ ہیری نے کہا،”اور مجھے یقین ہے کہ کیپٹن جونز اور کیپٹن اسمتھ بھی ہماری مدد کریں گے۔ میں تو بلکہ برتن بھی خود دھو سکتا ہوں۔“
”کیا کہا؟“ ملکہ نورا چلائی،
”لوگ کیا کہیں گے کہ بادشاہ سلامت اپنے محل کی خود صفائی کرتے ہیں!“
”ہم نئی ملازمہ کے لیے اشتہار دے دیتے ہیں۔“
شہزادی جین نے کہا۔
”اچھا خیال دلایا۔ جلدی سے اشتہار بناؤ۔“
ملکہ نے کہا اور شہزادی نے بڑے سے گتے پر ”ملازمہ کی ضرورت ہے، بہترین تنخواہ ملے گی“لکھ کر محل کے دروازے پر لگا دیا۔
لیکن کئی دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی ملازمہ نہیں آئی۔ محل روز بروز گندے سے گندا ہوتا چلا گیا۔ اب محل میں کھانے کے لیے ایک بھی صاف پلیٹ نہیں تھی اور نہ ہی پہننے کے لیے ایک بھی دھلا ہوا کپڑا تھا۔
ایک صبح ملکہ کو باورچی خانے میں سے گنگنانے کی آواز سنائی دی۔ اس نے باورچی خانے کے دروازے سے جھانک کر دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔ بادشاہ سلامت سنک پر کھڑے برتن دھو رہے تھے۔ کیپٹن اسمتھ پوچا لگا رہے تھے اور کیپٹن جونز کپڑے دھونے میں مگن تھے۔
”رکو! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“ ملکہ نے چیخ کر کہا،
”یہ سب بادشاہ اور اس کے کپتانوں کے کرنے کے کام نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کو جا کر ڈریگنز سے لڑنا چاہیے۔“
”لیکن ہمیں آج تک کوئی ڈریگن ملا ہی نہیں ملکہ!“
بادشاہ نے کہا۔
”آپ نے کبھی انھیں تلاش کرنے کی کوشش جو نہیں کی۔“
ملکہ نے ناراض ہو کر کہا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ اتنی پریشان ہو گئی تھی کہ اس نے فوری طور پر ایک غیر ملکی دورے پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
”میں دورے پر جا رہی ہوں۔ اس دوران محل کی صفائی خود کرنے کا کوئی سوچے بھی نہیں، آپ تینوں کو اس دوران اپنی مہم پر نکل جانا چاہیے۔“
ملکہ نے بادشاہ اور اس کے کپتانوں سے کہا۔
”مہم؟ ڈریگن پکڑنے کی؟“
بادشاہ کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔
”ہاں، اگر وہ مل جائیں تو ان کو بھی پکڑا جا سکتا ہے لیکن بنیادی مہم محل کے لیے ملازمہ ڈھونڈنا ہو گی۔“
ملکہ نے جواب دیا۔
”اور میں کیا کروں گی؟“
شہزادی جین نے پوچھا۔
”تم محل میں رہ سکتی ہو۔ اور ہاں، ہماری غیر موجودگی میں کسی چور کو گھر میں نہیں گھسنے دینا اور نہ ہی اپنی سہیلیوں کو!“
ملکہ نے یہ ہدایات جاری کر کے اپنا سامان باندھا اور شاہی دورے پر چلی گئی۔
ادھر بادشاہ سلامت دونوں کپتانوں سمیت نوکرانی ڈھونڈنے کی مہم پر نکل گئی۔ وہ بہت ناخوش نظر آ رہے تھے۔ شہزادی جین نے انھیں خدا حافظ کہا اور بڑبڑائی:
”یہ تو ناانصافی ہے۔ سب لوگ دوروں اور مہمات پر نکل گئے اور مجھے اس میلے کچیلے بدبودار محل میں اکیلا چھوڑ دیا۔“
ابھی وہ تلملا ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ شہزادی نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہاں تین خواتین نقاب پہن کر کھڑی ہوئی ہیں۔
”ہم نقاب پوش نوکرانیاں ہیں۔ ہمیں آپ کے والد نے محل کی صفائی کرنے کے لیے ضلع اوم سے بھیجا ہے۔“
ایک نقاب پوش خاتون نے کہا۔
”واہ، زبردست! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن میرے والد کہاں ہیں؟“
شہزادی نے پوچھا۔
”وہ ایک ڈریگن کا تعاقب کرنے گئے ہیں۔“
دوسری نوکرانی نے جواب دیا۔
”آپ تینوں نے نقاب کیوں پہنے ہوئے ہیں؟“ شہزادی نے سوال کیا۔
”دھول مٹی اور جراثیم سے بچنے کے لیے۔ کیا اب ہم کام شروع کر سکتے ہیں؟“
تیسری نوکرانی نے کہا۔
پورا دن تینوں نوکرانیاں چیزیں رگڑتی، جھاڑتی، دھوتی اور چمکاتی رہیں۔ شام تک پورا محل چمک اٹھا تھا۔
”اب جب کہ محل بالکل صاف ستھرا ہو چکا ہے۔ آپ لوگ اپنے نقاب ہٹا سکتی ہیں۔“ شہزادی نے کہا۔
”نہیں! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔“ ایک نوکرانی نے کہا۔
”کیوں نہیں کر سکتے؟“ شہزادی نے حیران ہو کر پوچھا۔
”آں…کیوں کہ ہم اسے پہنے رہنے کے عادی ہیں۔“
دوسری نوکرانی نے جلدی سے کہا اور شہزادی کچھ شک میں مبتلا ہو گئی۔ اسے خیال آیا کہ چور بھی نقاب لگا کر آتے ہیں۔ امی نے کہا تھا کہ گھر میں چوروں کو نہ گھسنے دینا۔ کیا واقعی یہ نوکرانیاں اس کے والد نے ہی بھیجی تھیں یا یہ نوکرانیوں کے بھیس میں چور تھے؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان نوکرانیوں کی حقیقت جان کر رہے گی۔
اگلے دن اس نے صحن میں جھانک کر دیکھا۔ پہلی نوکرانی واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھو رہی تھی۔ شہزادی نے ایک میز پوش اٹھایا اور چپکے سے نوکرانی کے پیچھے پہنچ گئی۔ پھر اس نے ایک جھٹکے سے کپڑا اس کے سر اور منہ پر ڈال کر پیچھے سے پکڑ لیا۔
”مدد! مدد! یہ کون ہے؟“
نوکرانی چلائی۔ لیکن شہزادی نے اسے پکڑ کے کمرے میں بند کر دیا۔ پھر وہ دوسری نوکرانی کے پاس گئی جو تہ خانے میں پوچا لگا رہی تھی۔
شہزادی نے تہ خانے میں بنے ایک قید خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے آواز دی:
”برائے مہربانی! اس کے اندر بھی پوچا لگا دیں۔ یہاں فرش بہت گندا ہو رہا ہے۔“
نوکرانی جیسے ہی قید خانے کے اندر داخل ہوئی، شہزادی نے باہر سے دروازہ بند کر کے تالا لگا دیا۔
تیسری نوکرانی ویکیوم کلینر سے قالین صاف کر رہی تھی۔ اس نے شہزادی کو اپنے پیچھے آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ شہزادی نے ویکیوم کے نوزل کا رخ نوکرانی کی طرف کر دیا۔
”ذرا سی بھی غلط حرکت کی تو میں تمھیں ویکیوم سے کھینچ لوں گی!“شہزادی چلائی، ”اب فوراً اپنا نقاب اتار دو۔“
نوکرانی نے آہستگی سے اپنا نقاب ہٹا دیا۔
”ابو!“ وہ چلائی۔ باقی دو نوکرانیاں کیپٹن اسمتھ اور کیپٹن جونز ثابت ہوئے۔
”یہ سب کیا ہے ابو؟“ شہزادی نے سر پکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ہم تینوں اپنی مہم پر نکلے۔ جنگل کے قریب ہم نے ایک ڈریگن کو دیکھا۔“بادشاہ سلامت نے کہنا شروع کیا۔
”بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم نے ایک ڈریگن دیکھا ہے۔“ کیپٹن اسمتھ نے کہا۔
”لہٰذا ہم نے سوچا کہ گھر واپس لوٹ آنا بہتر ہے۔“ کیپٹن جونز نے بتایا۔
”ہم نے نوکرانیوں کا بھیس بدلا اور محل میں لوٹ آئے۔ کیوں کہ اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنا جنگلوں میں جا کر ڈریگنز سے لڑنے سے بہتر ہے اور زیادہ مفید بھی!“بادشاہ نے کہا۔
٭