خوف ناک کہانیوں اور ڈراموں میں اکثر ایک ایسی عمارت دکھائی جاتی ہے جہاں بھوت پریت کا بسیرا ہو۔ ایسی کہانیاں لکھنے والوں کے تخیل کی پرواز بہت بلند ہوتی ہے۔ اپنے قلم کی ایک جنبش سے وہ انتہائی عجیب و غریب کردار و واقعات تخلیق کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں اس قدر پراسرار معاملات ہر کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا کرتے تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس دنیا میں ایسی کئی عمارات ہیں جن سے پراسرار کہانیاں وابستہ ہیں۔ ان ہی میں سے ایک عمارت ہمارے اس دفتر کی بھی ہے جہاں گزشتہ سال ہمارا تبادلہ ہوا۔
ہمارے ادارے کے صدر دفتر کی کوئی ایک مرکزی عمارت نہیں ہے بلکہ عملے کو مختلف شعبہ جات کے حساب سے الگ الگ عمارتوں میں بٹھایا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر عمارات کراے پر حاصل کی گئی ہیں۔جس شعبے میں ہماری تقرری تھی، گزشتہ برس اس پورے شعبے کو بندر گاہ سے قریب ایک تئیس منزلہ عمارت کی چھٹی منزل پر منتقل کر دیا گیا۔ ہمارے آنے سے قبل ایک دوسرے شعبے کے لوگ یہاں بیٹھتے تھے۔ ان ہی لوگوں کے ذریعے ہم نئے آنے والوں کو اس عمارت سے منسوب کچھ عجیب و غریب کہانیاں سننے کو ملیں جنہیں ہم یہاں من و عن بیان کر رہے ہیں۔ (دروغ برگردن راوی)
ہمیں بتایا گیا کہ یہ عمارت ایک شمشان گھاٹ کے اوپر تعمیر کی گئی ہے۔ اس نظرئیے کے ثبوت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آج بھی اس عمارت سے بہت قریب ایک مندر موجود ہے جو پوجا پاٹ کے لیے استعمال ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ 1947ء سے قبل یہ کراچی کا ہندو اکثریتی علاقہ تھا۔ شمشان گھاٹ کا ذکر ہو اور قصے میں کسی روح کی بات نہ آئے، ایسا کیسے ممکن ہے! سو اس عمارت میں بھی ایک بی بی ”شکنتلا دیوی“ کے چرچے رہتے ہیں جن کا قیام ویسے تو عمارت کی تیسری بے آباد منزل پر بتایا جاتا ہے لیکن وہ کسی بھی منزل پر چہل قدمی کے لیے پہنچ سکتی ہیں۔
اس ضمن میں سب سے مشہور واقعہ یہ سنایا جاتا ہے کہ دفتر کے ایک صاحب جب غسل خانے میں منہ ہاتھ دھونے گئے تو اچانک انھیں آئینے میں اپنے پیچھے ایک عورت کھڑی نظر آئی۔ عورت کے نصف چہرے پر اس کے سیاہ بال پڑے ہوئے تھے۔ اس کے ماتھے پر بندیا تھی اور وہ ساڑھی پہنے ہوئی تھی۔ وہ عورت بغیر پلک جھپکے انھیں گھور رہی تھی۔ اب دفتر کے مردانہ غسل خانے میں کسی خاتون کا موجود ہونا، ناممکنات میں سے ہے کیونکہ صفائی کے لیے بھی مردانہ اور زنانہ غسل خانوں کا عملہ الگ الگ ہوتا ہے۔
انھوں نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ مذکورہ صاحب غالباً دل کے مریض تھے، سو اس بھیانک منظر کی تاب نہ لا سکے۔ جب تک ان کی چیخ سن کر دوسرے لوگ معاملہ معلوم کرنے وہاں پہنچے، وہ صاحب بے ہوش ہو چکے تھے۔ انھیں ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال روانہ کیا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دل کے مریض کو کسی بھی وقت دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ اس کے لیے شکنتلا دیوی کا جلوہ دیکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت کبھی پتا نہیں چل سکی کیونکہ ان صاحب نے بستر علالت چھوڑنے سے پہلے ہی انتظامیہ کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا تھا۔
یہ تو تھیں سنی سنائی باتیں! اب ہم وہ باتیں بتانے جا رہے ہیں جو ہم نے خود دیکھیں اور جو شاید اتنی پراسرار نہ لگتیں اگر ہمارے کانوں میں سینکڑوں بار شکنتلا دیوی کا قصہ نہ انڈیلا گیا ہوتا۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں بتایا کہ اس عمارت کی تئیس منزلیں ہیں اور یہاں مختلف اداروں کے دفاتر ہیں۔ لیکن عمارت کی تیسری منزل ہمیشہ سنسان رہتی ہے اور لوگ اس ویرانی کا ذمہ دار شکنتلا دیوی کو قرار دیتے ہیں۔
دل چسپ بات تو یہ ہے کہ اس منزل پر لفٹ کا ”کال بٹن“ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کیونکہ یہ منزل کبھی آباد ہی نہیں ہوئی۔ لیکن اب سنیے! جب بھی ہم صبح چھٹی منزل پر جانے کے لیے اس لفٹ میں سوار ہوتے تھے، تو دروازہ بند ہونے کے فوراً بعد دوبارہ کھلتا اور پھر بند ہو جاتا۔ چونکہ اس عمارت کی لفٹس عموماً خراب رہتی تھیں لہٰذا ہم نے اس بات کو فنی خرابی سے زیادہ کچھ نہ سمجھا تاہم دیگر ساتھیوں کے خیال کے مطابق جب لفٹ کا دروازہ دوسری بار خود بخود کھل کر بند ہوتا تھا تو دراصل اس میں ”کوئی“ ان دیکھی سواری داخل ہوتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اس حقیقت کی نشاندہی کیا کرتے تھے کہ یہ لفٹ تیسری منزل پر خود بخود جا کر رکتی تھی جب کہ لفٹ چلتے وقت کسی نے بھی تیسری منزل کا بٹن نہیں دبایا ہوتا تھا۔ جی ہاں! یہ سچ تھا کہ روز یہ لفٹ صبح تیسری منزل پر جا کر رکتی تھی، دروازہ کھلتا اور پھر بند ہوتا تھا جیسے کوئی ”سوار“ وہاں اتر گیا ہو۔ شام میں بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ گراؤنڈ فلور کا بٹن دباؤ تو لفٹ پہلے تیسری منزل پر رکتی تھی۔ (یاد رہے کہ اس منزل پر لفٹ کال کرنے کا بٹن موجود نہیں تھا۔) ایک لمحے کے لیے کھلتی، بند ہوتی اور ”کوئی“ ہمارے ساتھ گراؤنڈ فلور تک سفر کرتا۔
بعض اوقات تو سوچ کر گھبراہٹ ہوتی کہ کہیں وہ نظر نہ آنے والی سواری ہمارے برابر میں ہی نہ کھڑی ہو! (ویسے کیا روحوں کو بھی اوپر نیچے آنے جانے کے لیے لفٹ کی سہولت درکار ہوتی ہے؟)
عمارت میں چونکہ زیادہ تر سرکاری دفاتر ہیں لہٰذا لفٹ کی سہولت محدود اوقات کے لیے میسر تھی۔ سرکاری دفاتر کی چھٹی بہت سویرے ہو جاتی اور ہمارے دفتر کے لیے بڑی مشکلوں سے چھ بجے ایک لنگڑی لولی سی لفٹ چلائی جاتی۔ اگر چھ بج کر پانچ منٹ ہو جاتے تو لفٹ چلنا بند ہو جاتی اور سیڑھیوں سے نیچے اترنا پڑتا۔ گرمیوں میں تو خیر رہتی لیکن سردیوں کی شاموں میں چھ بجے کافی اندھیرا ہو جاتا۔ خواتین تو خواتین، مرد حضرات بھی سیڑھیاں اکیلے اترنے سے گریز کرتے، نہ جانے کیوں؟
عمارت کی انتظامیہ نے زینے پر روشنی کا کوئی انتظام نہیں رکھا تھا۔ اب جو منزلیں آباد تھیں، وہاں دفاتر کی انتظامیہ نے اپنی اپنی منزل پر روشنی کر رکھی تھی لیکن چونکہ تیسری منزل سدا کی بے آباد تھی سو وہاں گھپ اندھیرے کا راج رہتا تھا۔ ہم اگرچہ بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتے لیکن جانے انجانے، تیسری منزل تک پہنچ کر ہمارے پیروں کے نیچے گویا پہیے لگ جاتے اور ہم نہایت برق رفتاری سے یہ بیس سیڑھیاں طے کیا کرتے جو تیسری سے دوسری منزل تک پہنچاتی تھیں۔
ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ چند سیڑھیاں اترنے کے بعد ہی ہمیں اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ہم نے کبھی پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی حماقت نہیں کی۔ ہمیشہ خود کو یہی یقین دلایا کہ یہ کسی دفتر کا ملازم ہو گا جو سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا ہے، شکنتلا دیوی تو چھ بجے والی لفٹ سے نیچے جا چکی ہو گی!
دفتر کا ایک ہندو چپڑاسی قسم کھا کر کہتا تھا کہ ہندؤوں کے مذہبی تہوار دیوالی سے ایک روز پہلے اس نے اس تاریک منزل کے ٹوٹے ہوئے دروازے کے اندر دیے جلتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اس کی بات کو گپ سمجھ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے لیکن ٹوٹے دروازے سے ہمیں ایک اور بات یاد آ گئی۔
اس منزل پر اندر کی طرف جانے والی راہداری کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا جسے عمارت کی کنجوس انتظامیہ پھر سے لگوانے کی زحمت نہیں کرنا چاہتی تھی، غالباً اس انتظار میں کہ جب یہاں کے لیے کوئی خرایدار ملے گا تو دروازہ بھی لگوا لیا جائے گا۔ اس دروازے کے حوالے سے عجیب بات یہ تھی کہ روز صبح یہ ٹوٹا ہوا دروازہ اپنے چوکھٹے پر ٹکا ہوا نظر آتا تھا جس کو لکڑی کے دو موٹے پھٹوں کی مدد سے کھڑا کیا جاتا تھا لیکن ہر شام کو یہی دروازہ زمین پر آڑا ترچھا گرا ہوا نظر آتا تھا۔
اس ٹوٹے ہوئے دروازے کے پیچھے مہیب تاریکی کی جانب نگاہ اٹھتے ہی بے ساختہ ہماری زبان پر آیت الکرسی کا ورد جاری ہو جاتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ روز عمارت کی انتظامیہ اس دروازے کو چوکھٹ میں اٹکا دیتی ہے تاکہ سیڑھیوں سے آنے جانے والوں کا راستہ نہ رکے۔ لیکن اول تو ہمیں یہاں کی انتظامیہ اس قدر محنتی نہیں لگتی تھی، دوم یہ کہ اگر انتظامیہ روز صبح یہ دروازہ چوکھٹ سے ٹکا دیتی تھی تو روز شام اسے زمین پر کون گرا دیتا تھا؟ کیا نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ محنت بھی انتظامیہ ہی کرتی تھی؟
دن کی روشنی میں اس منزل کی نیم تاریک راہداری کا فرش پان کی پیک سے مزین نظر آتا تھا۔ معلوم نہیں کون جی دار تھے جو یہاں کھڑے ہو کر پان چبایا کرتے تھے؟ یا ممکن ہے کہ شاید شکنتلا دیوی ہی پان سے شوق فرمایا کرتی ہوں؟ ہارر فلمیں اور ڈرامے دیکھنے والے اصحاب کا اصرار تھا کہ یہ پان کی پیک نہیں بلکہ خون کے جمے ہوئے دھبے ہیں جو پرانے ہونے کی وجہ سے سیاہی مائل نظر آتے ہیں۔
ہم ایسی ہر عجیب بات کی کوئی نہ کوئی تاویل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن بعض دفعہ ہمیں اس کوشش میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً ایک بار ہماری ساتھی خاتون نے نہایت خوف زدہ ہو کر ہمیں بتایا کہ خواتین کے مرکزی غسل خانے کے اندر جو تین بیت الخلا بنے ہوئے ہیں، انھوں نے وہاں کسی عورت کے رونے کی آوازیں سنی ہیں جب کہ تینوں بیت الخلا اس وقت بالکل خالی تھے۔
ہم نے انھیں تسلی دی کہ اس عمارت کے بیرونی حصوں میں بے شمار کبوتروں کی رہائش ہے اور ان ہی کبوتروں کی غمگین غٹرغوں کو آپ خاتون کے رونے کی آواز سمجھی ہوں گی۔ ہماری ساتھی نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ (بعد میں ہم نے اپنے ذہن میں کبوتر کی غٹر غوں اور خواتین کے رونے کی آواز کا تصور کیا تو ہمیں بھی دونوں آوازوں میں کوئی خاص مشابہت نظر نہیں آئی!)
بہرحال، صرف دس مہینے کے بعد ہی ہمارے دفتر کی انتظامیہ نے اس عمارت کی چھٹی منزل خالی کر دی۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ انھیں یہ عمارت بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ اگرچہ ناقص انتظامات کے باعث اس عمارت کا کرایہ دفتر کی دیگر عمارات کے مقابلے میں بہت کم تھا لیکن پتا نہیں، ہماری انتظامیہ کو یہ عمارت کن معنوں میں مہنگی پڑ رہی تھی۔ بہرحال، ہم تو خوشی خوشی اس بھوت بنگلے کو چھوڑ کر واپس اپنی پہلے والی بلڈنگ میں لوٹ آئے۔
کیا آپ اس عمارت میں پیش آنے والے ان عجیب و غریب واقعات کی کوئی بہتر تاویل پیش کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں اس عمارت کی تیسری منزل پر واقعی غیر مرئی مخلوق کا قبضہ تھا یا یہ سب واقعات محض نظر و سماعت کا دھوکا تھے؟ ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا!