لومڑ نے ملازمت کی

(جاوید بسام)

بہرام نے شہر سے باہر ایک فارم ہاؤس بنوایا تھا۔ ایک دن وہ وہاں آیا ہوا تھا کہ پھاٹک پر دستک ہوئی۔ وہ باہر آیا تو اس نے ایک عجیب سی مخلوق کو کھڑے دیکھا۔ اس نے پیلے رنگ کا لمبا چوغہ پہن رکھا تھا۔ جس کے کنارے پر نارنجی پٹی تھی اور اس کی موٹی بالوں بھری دم چوغے سے باہر جھانک رہی تھی۔ وہ اپنے پچھلے پیروں پر انسانوں کی طرح کھڑا تھا۔ آہٹ سن کر وہ پلٹا تو بہرام اسے دیکھ کر اچھل پڑا۔ وہ لومڑ تھا۔
لومڑ نے فوراً ادب سے سلام کیا اور بولا:
”جناب! مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کو ملازم کی ضرورت ہے۔ میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔“
اس کی بات سن کر بہرام کو ہنسی آ گئی، وہ بولا:
”ہاہاہا!مرغیوں کی دیکھ بھال کے لیے لومڑ ملازم۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کسی چور کو بینک کا چوکیدار بنادیا جائے۔“
”جناب! آپ اگر میری پوری بات سن لیں تو شاید مجھے فوراً ملازمت دے دیں گے۔“لومڑ بولا۔
”اچھا! تم ایسا سمجھتے ہو؟“ بہرام نے آنکھیں نچا کر کہا اور اسے اندر بلالیا۔ دونوں لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
لومڑ بولا،”جناب! میں ایک الگ قسم کا لومڑ ہوں۔ میری سوچ دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔ میں ہر کام کو مشن سمجھ کر انجام دیتا ہوں۔ اگر آپ مجھے ملازم رکھ لیں گے تو مجھے اپنے کام سے مخلص پائیں گے اور میں گوشت بالکل نہیں کھاتا۔ کیونکہ میں ایک سبزی خور لومڑ ہوں۔“
”سبزی خور لومڑ!“ بہرام زور سے ہنسا۔ ”تم اچھا مذاق کرلیتے ہو۔“
”یہ مذاق نہیں، میں نے عرصہ ہوا گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو میں اس کا ذائقہ بھی بھول گیا ہوں۔“ لومڑ بولا۔
بہرام اسے پُر سوچ نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس کا پرانا ملازم کام چھوڑ کر چلاگیا تھا۔ اسے ملازم کی ضرورت تھی۔ وہ خود بہت دُور رہتا تھا اور روزانہ فارم پر آنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس نے کئی لوگوں سے ملازم کا کہہ رکھا تھا مگر اب تک کوئی نہیں آیا تھا۔ آخر وہ بولا:”اچھا بالفرض میں تمہیں ملازم رکھ لوں تو تم تنخواہ کیا لوگے؟“
”کچھ بھی نہیں۔ میری ضروریات بہت کم ہیں۔ میں بس گھاس پھوس کھا کر گزارا کرلوں گا اور فارم کے کسی کونے میں آرام کرلوں گا۔“ لومڑ بولا۔
”مجھے یقین نہیں آتا۔ تم روز چپکے سے کسی مرغی پر ہاتھ صاف کردو گے۔ اتنی مرغیوں میں مجھے کیسے پتا چلے گا۔“ بہرام نے کہا۔
”جناب! آپ میری ایمان داری پر شک کر کے میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ میں ایسا نہیں ہوں۔“ لومڑ ناراضی سے بولا۔
”خیر چلو میں تمہیں ملازم رکھ لیتا ہوں۔ مگر یاد رکھو! جوں ہی مجھے محسوس ہوا کہ تم میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہو، میں تمہارا سر پھوڑ دوں گا۔ میرا نشانہ اتنا سچا ہے کہ میں مکھی کے سر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرسکتا ہوں اور میرے پاس بندوق بھی ہے۔“
بہرام برآمدے کی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ جہاں دیوار پر دو نالی بندوق ٹنگی تھی۔
”مکھی کا سر! یہ کیا ہوتا ہے؟“لومڑ نے بے خیالی میں پوچھا۔
”مکھی…تم مکھی کو نہیں جانتے؟ اس کا سر۔“ بہرام لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔
”اچھا! جو برسات میں بہت پریشان کرتی ہے؟“
لومڑ نے پوچھا تو بہرام نے سر ہلایا۔ غرض لومڑ نے فارم پر کام شروع کردیا۔ وہ ہر وقت پیلا چوغہ پہنے رہتا تھا۔ جس کے کنارے پر نارنجی پٹی تھی اور پچھلے پیروں پر چلتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہر وقت ایک چھڑی بھی رہتی تھی۔ آغاز میں مرغیاں اور دوسرے جانور اسے دیکھ کر ڈرے، لیکن پھر وہ اس کے اچھے رویے کی وجہ سے پسند کرنے لگے۔ وہ بہت محنتی تھا اور ہر وقت کام میں لگا رہتا تھا۔ کچھ دنوں میں بہرام نے محسوس کیا کہ اس کے فارم کی حالت اچھی ہوتی جارہی ہے۔
ایک دن لومڑ نے اس سے پوچھا:”جناب! زمین کا ایک بڑا ٹکڑا خالی پڑا ہے۔ کیا میں وہاں سبزیاں اگالوں؟“
بہرام نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا:
”کیا تم کاشت کاری بھی کرلیتے ہو؟“
”ہاں! میں جنگل کا باسی ہوں۔ یہ میرے لیے اتنی مشکل بات نہیں ہے۔“ لومڑ بولا۔
بہرام نے اسے اجازت دے دی۔ کچھ دنوں میں وہ ٹکڑا مختلف پودوں سے ڈھک گیا۔ لومڑ بہت جانفشانی سے کام کررہا تھا۔ ایک دن اس نے بہرام کو بتایا کہ مرغیوں کے چوزے نکل آئے ہیں۔ آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ وہ اسے فارم کی شمالی دیوار کی طرف لے گیا۔ جہاں انڈے والی مرغیوں کے پنجرے تھے۔ بہرام نے دیکھا پنجرے میں ڈھیر سارے چوزے چوں چوں کررہے ہیں۔ وہ حیران رہ گیا اور بولا:”میرا تو خیال تھا کہ آٹھ، دس مرغیاں انڈوں پر بیٹھی ہیں؟ یہ اتنے چوزے کیسے نکل آئے؟“
”نہیں جناب! میں نے تیس مرغیوں کو انڈوں پر بٹھایا تھا۔ سب کے بچے نکلے ہیں اور صحت مند ہیں۔“ لومڑ بولا۔
”بہت خوب! تم اچھا کام کر رہے ہو۔“بہرام خوش ہوکر بولا۔
”آپ ان کے لیے نئے پنجروں کا بندوبست کرلیں۔ ہمیں جلد ہی ان کو الگ کرنا ہوگا۔“بہرام نے سر ہلایا۔
وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ بہرام کا فارم ترقی کررہا تھا۔ اب وہ سبزیاں بھی بیچنے لگا تھا۔ لومڑ ہر وقت کام میں لگا رہتا تھا۔ بہرام جب اسے محنت کرتے ہوئے دیکھتا تو سوچ میں پڑجاتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک لومڑ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اسے ابھی بھی لومڑ پر یقین نہیں تھا۔ وہ اس پر گہری نظر رکھتا تھا۔
ایک دن وہ فارم پر آیا تو اس نے ایک مرغی ذبح کی، گوشت بناکر مصالحہ لگایا۔ پھر اسے انگیٹھی پر بھوننے لگا۔ پورے فارم پر اشتہا انگیز خوشبو پھیل گئی۔ لومڑ اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس نے مرغی کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا تھا۔ جب مرغی تیار ہوگئی تو بہرام نے لومڑ کو بلایا اور بولا:
”لو آج میری طرف سے یہ کھالو۔“اس نے کچھ بوٹیاں تشتری میں رکھ کر اسے دیں۔
”شکریہ، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں گوشت نہیں کھاتا۔“ لومڑ نے کہا۔
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کھالو میں خود کہہ رہا ہوں۔“ بہرام نے کہا۔مگر لومڑ نے تشتری نہ لی اور واپس اپنے کام میں لگ گیا۔
کچھ دنوں بعد بہرام نے دیکھا۔ لومڑ دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ہڈیاں نکل آئی تھیں اور کھال لٹکنے لگی تھی مگر وہ اسی طرح محنت اور لگن سے کام کررہا تھا۔ اسے دیکھ کر بہرام سوچ میں پڑگیا۔ آخر اس نے ایک دن کچھ فیصلہ کیا اور لومڑ کو اپنے پاس بلایا۔ وہ لان میں کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ جب لومڑ آگیا تو اس نے دوسری کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ لومڑ بیٹھ گیا تو وہ بولا:”سنو! میں ایک صاف گو آدمی ہوں اور ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔ تمھیں مجھے بتانا ہوگا کہ تم یہاں کیوں کام کر رہے ہو؟ اور گوشت چھوڑ کر گھاس پھوس کیوں کھارہے ہو؟ ورنہ میں تمہیں نوکری سے نکال دوں گا۔“
یہ سن کر لومڑ گھبرا گیا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا:
”آپ نے مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ آپ کی دونوں باتوں میں سے دوسری کا جواب دے سکتا ہوں۔ گھاس پھوس میں اس لیے کھارہا ہوں کہ اگر میں گوشت کھاتا تو آپ مجھ پر کبھی اعتبار نہ کرتے اور نہ نوکری دیتے۔“
”ہاں، اس کا تو مجھے بھی اندازہ ہے۔ مگر مجھے اپنی پہلی بات کا بھی جواب چاہیے۔“ بہرام غصے سے بولا۔
لومڑ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا:”اگر آپ مجبور کر رہے ہیں تو سنیں،جب میں بچہ تھا تو آپ نے میرے اوپر ایک احسان کیا تھا۔ ایک دفعہ آپ جنگل سے گزر رہے تھے کہ ایک بھالو نے مجھ پر حملہ کردیا۔ آپ کے پاس بندوق تھی۔ آپ نے ہوائی فائر کرکے بھالو کو بھگا دیا تھا۔ میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ آپ نے مجھے پیار کیا اور پھر غار کے قریب لے جاکر چھوڑ دیا۔ اس وقت میری ماں کھانے کی تلاش میں گئی ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے آپ کو اکثر جنگل سے گزرتے دیکھا۔ ایک دن میں نے آپ کا پیچھا کیا اور فارم تک چلایا آیا۔ میں آپ کے کام آنا چاہتا تھا۔ پھر جب میں نے سنا کہ آپ کو ملازم کی ضرورت ہے تو میں کام کرنے یہاں چلا آیا۔“یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
بہرام کی نظر اس پر جمی تھی۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر وہ تیزی سے اٹھا اور پنجرے سے ایک مرغی نکال کر ذبح کی۔ پھر گوشت بنایا اور لومڑ کے آگے رکھ کر بولا۔ آج سے تمھیں روز گوشت کھانے کو ملے گا۔ میں اتنا ظالم نہیں ہوں کہ گوشت کھانے والے جانور کو گھاس کھلاؤں، سمجھے! اگر تم راضی نہیں ہو تو چلتے پھرتے نظر آؤ۔ تمہارا یہاں کوئی کام نہیں ہے۔“
لومڑ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آخر وہ تشتری پر جھک گیا۔
اگلے دن بہرام وہاں آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پیلے رنگ کا نیا چوغہ تھا۔ جس کے کنارے پر نارنجی پٹی تھی وہ بولا:
”میاں لومڑ! تمھارا چوغہ بہت خراب ہوگیا ہے۔ میں تمہارے لیے نیا لایا ہوں اور آج سے تم میرے ملازم نہیں بلکہ دوست ہو۔ ہم مل کر کام کریں گے۔“٭

Leave a Comment