نظم : بندوق لاشے گن رہی تھی
شاعر : زین عباس
لہو آلود ہاتھوں سے ٹپکتے خون کے قطرے
صلیبوں پر کھلی بانہوں کا نوحہ تھے
کئی رستی ہوئی آنکھیں
بدن کے چیتھڑوں اور گنگ آوازوں کی شاہد تھیں
سڑک پر رینگتے کچھ گولیوں کے خول
دیواروں پہ چپکے خون کے چھینٹوں کا ماتم تھے
مری بندوق لاشے گن رہی تھی
(یہ وہی خنّاک جوکر تھی
فقط جو حکم کی رسی پہ چلتی تھی)
لہو آلود وہ ننانوے !
ننانوے لاشے مری گنتی میں چبھتے تھے
اچانک
جاگتی معصوم آنکھیں میری گنتی میں اتر آئیں
مرے منہ میں گزارش کپکپائی
”سر ! یہاں چھ سال کی معصوم آنکھیں سانس لیتی ہیں“
مگر رسی اچانک تازیانہ بن کے میرے کان پر برسی
مری بندوق میرے ساتھ چیخی
”سو….!!!“