وہ تینوں برآمدے میں ٹرین بنائے، خوشی سے نعرے بازی کرتے ہوئے گول چکر کاٹ رہے تھے۔
”کشمیر بنے گا پاکستان!“
دس سالہ حسن نے دایاں بازو ہوا میں لہراتے ہوئے جوش و خروش کا اچھا مظاہرہ کیا۔ وہ سب سے آگے تھا۔
”کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔“
سات سالہ خرم جو درمیان میں تھا اس نے آواز بلند کی۔
سب سے پیچھے منی تھی جو بس ”ہی ہی ہی“ کیے جاتی تھی۔ تین سالہ مونا کو سب پیار سے منی پکارتے تھے۔ کمرے سے نکلتے سرمد صاحب نے اپنے تینوں بچوں کو حیرانی سے دیکھا اور پوچھا:
”ارے ارے! یہ کیا چل رہا ہے؟“
”تشمی بنے گا پاتتتان! (کشمیر بنے گا پاکستان) ہی ہی ہی…“
منی کے جواب پر انھوں نے پہلے اسے ناسمجھی سے دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے اسے گود میں اٹھا لیا۔
”ان شاء اللہ میری گڑیا! ہاں بھئی یہ ٹرین کہاں سے چلی اور کہاں جائے گی؟“
”لاہور سے چلی ہے اور سیدھا کشمیر جائے گی۔“
حسن نے یوں فخر سے جواب دیا جیسے سچ مچ کی ٹرین ہو اور بس کشمیر پہنچنا ہی چاہتی ہو۔
”واہ! بیگم آپ بھی آ جائیے۔ اچھا سنیں، امی اور ابو جان کو بھی لے آئیے۔ ٹرین بس چھوٹنے ہی والی ہے۔“
باورچی خانے کی جانب منہ کر کے انھوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے اونچی آواز میں صدا لگائی۔ پھر خرم کو پاس بلاتے ہوئے سوال کیا:
”ادھر آؤ! آپ نے کیا نعرہ لگایا تھا؟“
”کشمیر ہماری شہ رگ ہے!“
”یہ بتاؤ شہ رگ کسے کہتے ہیں؟“
مشکل سوال پر وہ گڑبڑا گیا۔
”ابو! وہ… وہ تو میں نے بس ٹی وی میں سنا تھا۔“
انھوں نے اسے پاس کرتے ہوئے اس کی چھوٹی سی گردن پر ہاتھ رکھا تو منی ڈر گئی۔
”ابو نہیں! بائی تو مالنا نہیں! (ابو نہیں! بھائی کو مارنا نہیں!)“
”بچے اسے شہ رگ کہتے ہیں اور یہ کٹ جائے تو انسان کیا کوئی بھی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا۔“ اس کی گردن کی رگ کو انگلی سے ہلکا سا دبا کر وہ بولے تو تینوں بچوں نے سکون کا سانس لیا۔
”ابو! میلی بی ہے نا…ہی ہی ہی!“
”منی! شہ رگ سب کی ہی ہوتی ہے۔“ حسن نے بڑے ہونے کا فرض نبھایا۔
”بچوں کو یہ بھی تو بتائیے کہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کیوں کہتے ہیں؟“ چائے کی پیالی انھیں پکڑاتے ہوئے بیگم نے صلاح دی تھی۔
”کیوں نہیں، ضرور بتائیں گے۔“ بھاپ اُڑاتی چائے کی پیالی تھامتے ہوئے انھیں جواب دیا اور پھر بچوں کی جانب دیکھا۔
”چلو بچو! شاباش آپ سب اپنے کمرے میں پہنچو۔ حسن آپ اپنی مطالعہ پاکستان کی کتاب کھولو، میں چائے پی کر آتا ہوں۔“
ان کے کہنے پر تینوں سر ہلاتے ہوئے ٹرین بنائے ”چھک چھک چھک“ کرتے اندر کی جانب بھاگے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ ان کے کمرے میں آئے تو تینوں کو بستر پر کتاب کھولے بیٹھے دیکھا۔ سرمد صاحب نے دنیا کا نقشہ کھولا اور اس میں سے پاکستان کے نقشے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
”جب پاکستان کو علیحدہ ملک بنانے کا فیصلہ ہوا تو کہا گیا کہ وہ سب علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی مگر بھارت نے کشمیر کے اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ سے ساز باز کی اور وادی کشمیر پر قابض ہو گیا تاکہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔“
”اوہ! بہت برا ہوا… گندا مہاراجہ!“ بڑے دونوں بچوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
”کشمیر کو جنت ارضی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کشمیر کو ایسا کیوں کہتے ہیں؟“
”جی ابو! مجھے پتا ہے۔ ٹیچر نے ایک بار بتایا تھا کہ کشمیر بہت خوب صورت وادی ہے۔ وہاں پہاڑ، صاف پانی کے چشمے، دریا، اونچے اونچے درخت، سبزہ، وادیاں، پھول اور جھیلیں ہیں۔ اس لیے جنت ارضی کہتے ہیں۔“
انھوں نے خرم کے کندھے پر تھپکی دی۔
”شاباش بچے! جنت سے مراد انتہائی حسین و جمیل، خوب صورتی اور نعمتوں سے مالا مال پرسکون جگہ اور ارضی کا مطلب زمین۔ یعنی زمین پر جنت کا ٹکڑا جو کہ وادی کشمیر ہے۔ اچھا یہ بتاؤ آزاد کشمیر کیا ہے؟“
سرمد صاحب نے سوال کے جواب پر حسن اور خرم کے چہرے سپاٹ پا کر خود ہی بتانا شروع کیا:
”کشمیر کے وہ حصے جو آزاد اور پاکستان میں شامل ہیں، انھیں آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ تو ہے مگر وہاں علیحدہ حکومت قائم ہے۔ کل دس اضلاح اور دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ آزاد کشمیر میں تعلیم کا تناسب 74 فیصد تک ہے۔ وہاں کے تقریباً سبھی بچے اسکول جاتے ہیں۔“
”واؤ! ابو ہمیں آزاد کشمیر دیکھنے جانا ہے۔ وہ بھی بہت خوب صورت ہو گا نا…؟“
”بالکل، ٹھیک ہے ہم سب اگلی چھٹیوں میں چلیں گے۔ ان شاء اللہ۔“
”ابو! مقبوضہ کشمیر میں بچے اسکول جاتے ہیں؟“
”بچے اسکول جانا چاہتے ہیں مگر وہاں امن نہیں ہے۔ آئے دن بھارتی فوج بچوں، بزرگوں، مردوں، عورتوں پر ظلم کرتی ہے۔ گھر میں سوئے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اغوا کرتے اور پھر مار پیٹ کر کے مار دیتے ہیں۔ وادی میں اسی ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ بیٹا! وہاں ہر کسی پر اتنا ظلم ہوتا ہے جو میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتا۔“
انھوں نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ تینوں بچے سہم گئے۔ اگر وہ انھیں بچوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں اور تصویریں دکھا دیتے تو پتا نہیں ان کے معصوم دلوں پر کیا گزرتی۔
”دندا بارت… بوت دندا بارت۔ (گندا بھارت، بہت گندا بھارت)“ منی نے چپ توڑی تھی۔
”ابو! کشمیر کیسے آزاد ہو گا؟“ سب سے اہم سوال حسن نے پوچھا تھا۔
”کشمیر کی آزادی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پورا ہونے میں ہے۔ اچھا سوچو کہ کشمیر ایک گھر ہے جیسے ہمارا گھر۔ اگر ہم نے کوئی فیصلہ کرنا ہے تو گھر کے بڑے ہر طرح سے سوچیں گے۔ گھر والوں کو کیا چاہیے، کیا نہیں… ان سے پوچھیں گے۔ اسی طرح کشمیری عوام کا فیصلہ ہے کہ انھیں آزادی چاہیے۔ وہ نہیں چاہتے کہ بھارت کشمیر پر قابض رہے۔“
”ابو! کشمیر آزاد ہو گیا تو کشمیری اپنی مرضی سے جئیں گے، انھیں کوئی تنگ تو نہیں کرے گا نا؟ ہم سب تو یہ ہی چاہتے ہیں کہ کشمیر آزاد ہو جائے۔“
”جی بیٹا! جب ظالم وادی سے نکل جائے گا تو پھر وہاں امن ہو جائے گا۔ کشمیری آزادی سے جیں گے۔ بچے سکون کی نیند سوئیں گے، اسکول جائیں گے، انھیں اپنے بڑوں کی محبت اور شفقت ملے گی۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور رہے گا مگر وہاں بھی آزاد کشمیر کی طرح خود مختار حکومت بن جائے گی تاکہ ان کے حقوق کوئی نہ چھین سکے۔“ وہ سنجیدگی سے حسن اور خرم کو سمجھا رہے تھے تب ہی انھیں منی کی چہکتی آواز سنائی دی۔
”جے دیتو تشمی بن دیا پاتتتان! (یہ دیکھو کشمیر بن گیا پاکستان) ہی ہی ہی ہی…!“منی نے بھائی کے بستے سے نیلی پنسل نکال کر کشمیر کے حصے کے گرد گہری لکیر کھینچ کر پاکستان کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔
وہ سب اس کی معصومیت پر مسکرانے لگے۔
”ان شاء اللہ!“ کہہ کر جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلے، بچے کتاب بند کر پھر سے ٹرین بنا کر کھیلنے لگے تھے۔
”کشمیر بنے گا پاکستان!“
”کشمیر ہماری شہ رگ ہے!“
”کشمیر چاہے آزادی!“
نعروں کی پرجوش آوازیں کانوں میں پڑیں تو وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے سوچنے لگے، ”واقعی پاکستان کا نقشہ بھارتی تسلط سے پاک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار کشمیر کے ساتھ ہی مکمل لگتا ہے۔“