یقین ___ علی اکمل تصور

وہ میرے آگے چلا جا رہا تھا۔مجھے گرد آلود راستے پر اس کے قدموں کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ بائیں جوتے کا تلوا نصف تھا، باقی پاؤں کا نشان انگلیوں کی مدد سے مکمل ہورہا تھا۔میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے زور کی چھینک آئی تھی۔ منہ صاف کرنے کے لیے میں نے اپنی جیب سے رومال نکالا تو کسی نے مجھ سے کہا،

”یہ آپ کا ہے صاحب….؟“ میں چونک پڑا…! اس کے ہاتھ میں میرا پرس تھا جو رومال نکالتے وقت میری جیب سے گر پڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اس کا شکریہ ادا کرتا وہ چل پڑا۔
وہ ایک طالب علم تھامیلے بوسیدہ کپڑے… کندھے پر بستہ…ہاتھ میں تختی…اس گاؤں میں چالیس سال پہلے کا تعلیمی نظام ابھی تک رائج تھا۔ وہ تعلیمی نظام جس نے آج تک مجھے دھوکا نہیں دیا تھا۔
جب میں اس کے سکول پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ ٹاٹ پر بیٹھا قلم، دوات کی مدد سے تختی لکھ رہا تھا۔میں اس کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔
”تم نے میرا پرس واپس کیوں کیا جب کہ تمہیں نئے جوتوں کی بھی ضرورت ہے….؟“ میں اس سوال کا جواب لینے کے لیے اس کے پاس آیا تھا۔ وہ مسکرا کر بولا،
”مجھے الف…ب…پہ…یقین ہے صاحب!

Leave a Comment