درد کے رشتے

تحریر: علی اکمل تصور

”اٹھو بھائی!منزل آگئی ہے۔“ کسی نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تھا۔ میں ایک دم سیدھا ہو گیاتھا۔ لمحے بھر میں، میں مدہوشی سے ہوش میں کی دنیا میں لوٹ آیا تھا۔
اب میں نے اپنے اطراف میں دیکھا، مسافر قطار بنائے بس میں سے نیچے اتر رہے تھے۔ میرے پاس کوئی زیادہ سفری سامان موجود نہیں تھا۔ بس ایک چھوٹا سا دستی بیگ تھا۔ میں اُٹھا اور قطار میں شامل ہوگیا،پھر میں بس میں سے نیچے اتر آیا۔
نیا شہر،نئے لوگ…موسم بھی خوش گوار تھا۔ اس وقت صبح کے سات بج رہے تھے۔ ساری رات سفر میں گزر گئی تھی اور اب وہیں اس شہر کے لاری اڈے میں موجود تھا۔ یہاں سے نکل کر مجھے کسی ٹیکسی یا پھر ویگن کے ذریعے آگے اپنی منزل کی طرف روانہ ہونا تھا۔ میں چل پڑا۔ چلتے چلتے اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے اپنی جیب تھپ تھپائی اور پھر میں مسکرانے لگا۔ میری جیب میں سے پرس غائب تھا۔ بس میں اونگھنے کی حالت میں کسی جیب تراش نے ہاتھ دکھا دیا تھا۔ میرے مسکرانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں میری ذہانت کام آئی تھی۔ میں نے نقدر رقم اپنے لباس کی اندرونی جیب میں چھپا رکھی تھی۔ ا س لیے فکر والی کوئی بات نہیں تھی۔
میں سڑک پر آیا تو ایک منظر دیکھ کر میری بھوک چمک اٹھی۔ سڑک کنارے چند ریستوران نظر آرہے تھے۔ یہاں ناشتے کے لوازمات تیار ہو رہے تھے۔ حلوہ پوری،نان چنے،لسی اور پراٹھے……منہ میں پانی بھر آیا تھا۔ فٹ پاتھ پر ہی میز اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں ایک کرسی پر آبیٹھا،فوراً ہی ایک نو عمر لڑکا میرے پاس چلا آیا۔
”صاحب جی!کیا پسند کریں گے؟“ وہ لڑکا اُس ریستوران کا ملازم تھا۔ ویسے یہاں چار عدد لڑکے نظر آرہے تھے، جو گاہکوں کی خدمت پر مامور تھے۔
”دوپراٹھے،ایک آملیٹ، ایک پلیٹ چنے اور چائے۔“
”جی جناب!“ وہ لڑکا واپس لوٹ گیا۔اب میں اپنے اردگرد کے مناظر دیکھنے لگ پڑا تھا۔ میرے سامنے والی میز پر دو افراد ناشتا کر چکے تھے۔ اُن کی خدمت پر مامور لڑکا بل لے آیا تھا۔ انھوں نے دو سو پچاس روپے ادا کردیے تھے۔
”صاحب میرا انعام؟“ اُس لڑکے نے عجیب سامطالبہ کیا تھا۔
”انعام…کیا مطلب؟“
”صاحب! میں نے آپ کی خدمت کی ہے؟“
”ہم نے ناشتے کا بل دے دیا ہے۔“
”مگر میرا انعام…“
”کیا تمھیں یہاں سے اِس کام کی تنخواہ نہیں ملتی؟“
”ملتی ہے،مگر آپ اپنی خوشی سے کچھ دے دیجیے نا!“ وہ لڑکا تو اڑ گیاتھا۔انھوں نے جان چھڑوانے کے لیے اس لڑکے کوبیس روپے دے دیے تھے اور پھر اس لڑکے کو ناگوار ی سے دیکھتے ہوئے چل پڑے تھے۔
”شکریہ صاحب!شکریہ صاحب!“ وہ لڑکا ڈھٹائی سے پیلے دانت نکال رہا تھا۔ اتنے میں میری میز پر بھی ناشتا سج چکا تھا۔ میں ہر بات بھول کر ناشتے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ بہت ہی پر تکلف ناشتا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ لڑکا میرے پاس آرہا تھا۔ وہ بس ایک ہی بات پوچھتا تھا۔
”صاحب!کچھ اور چاہیے؟کسی اور چیز کی ضرورت ہے توبتائیے۔“ میں اشارے سے اُسے انکار کر دیتا تھا۔ لذیز ناشتا کرنے کے بعد مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی۔ چائے کی چسکی بھرتے ہوئے میں نے اُس لڑکے کو بل لانے کا اشارہ کیا۔ پورے ایک سو روپے کا بل تھا۔ میں نے سو روپیہ اُس لڑکے کوتھما دیا۔ جانے کیوں مجھے احساس ہوا تھا کہ جیسے وہ لڑکا سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا ہو۔
میں جلد بازی میں یہ بات سوچتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا کہ عجیب بدتمیز لڑکے ہیں۔ زبردستی انعام کے نام پر بھیک مانگتے ہیں۔ میں ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ مجھے اپنے عقب سے ایک آواز سنائی دی۔
”صاحب!صاحب جی!“ یہ وہی لڑکا تھا جو میری خدمت پر مامور تھا۔ میرا دماغ گھوم گیا۔ میں سوچنے لگا۔
”انعام نہیں دیا تو پیچھے سے آواز دے رہا ہے۔“
”کیا بات ہے؟“ میں پلٹا اور غصے سے بولا۔
”صاحب جی!آپ کا بیگ۔“
میں جلد بازی میں اپنا دستی بیگ وہیں پر بھول گیا تھا۔ یہ بیگ اس لحا ظ سے قیمتی تھا کہ اس میں میری تمام تعلیمی اسناد موجود تھیں۔ اگر یہ بیگ گم ہو جاتا تو اس شہر میں میرے آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔ اب میں شکر گزار نظروں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میرے دل چاہ رہا تھا کہ اب میں خوشی سے اُس لڑکے کو انعام دوں۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے بیگ پکڑ لیا اور پھر اپنی جیب میں سے ایک سو روپے کا نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ لو بیٹا!یہ انعام ہے تمھارا۔“
”نہیں صاحب!میں نے جو کیا،وہ فرض تھا میرا۔ اس ہوٹل سے مجھے تنخواہ ملتی ہے، وہ کافی ہے میرے لیے۔ باقی مہمانوں کا اور اُن کے سامان کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔ خوش ہو کر کوئی انعام دے تو وہ مجھے بھیک جیسا لگتا ہے۔“ اتنا کہہ کر وہ لڑکا پلٹ گیا تھا اور میں شرمندہ ہوگیا تھا۔
اس کے متعلق میں نے کتنا غلط سوچا تھا۔ پھر میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا اور پھر ٹھیک نوبجے میں اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا۔ بہت سے امیدوار مجھ سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے۔ ہم سب کو انتظار گاہ میں بیٹھا دیا گیا۔ ہم سب یہاں نوکری کے حصول کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے۔ پھر میرا نمبر آنے پر میرا نام پکارا گیا۔ گھبراہٹ تو ہو رہی تھی مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پالیا تھا، پھر میں خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھا اور اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے تین بزرگ آدمی بیٹھے تھے۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں نے اپنی فائل ان کی طرف بڑھادی۔ چند لمحے خاموشی کے عالم میں گزر گئے۔ پھر ان میں سے ایک بزرگ بولا:
”آپ کی تعلیمی قابلیت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ اس نوکری کے اہل ہیں،مگر چند سوالات کا جواب ضروری ہے۔“
”جی سر!“ میں پوری طرح تیار تھا۔
”یہ بتائیے کہ ہمارے ادارے کی مصنوعات، بازار اور خریدار کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟“
”جہاں تک میں سمجھتا ہوں،قدیم زمانے کے انسان اور آج کے انسان کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہیں مگر آج کے جدید دور میں جو مصنوعات متعارف ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ اُن کی ضروریات کا خریدار کو احساس دلانا ہی ہمارا اصل کا م ہے۔“
”میں سمجھا نہیں،ذرا وضاحت کیجیے۔“
”سادہ سی بات ہے جناب! ایک ہوتی ہے ضرورت،دوسری ہوتی ہے ضرورت پیدا کرنا …… دونوں میں فرق ہے۔ صابن سے سر دھونا، ضرورت اور خریدار کو شیمپو سے سر دھونے پر مجبور کر دینا، ضرورت پیدا کی گئی۔“
”بہت خوب!“ ایک بزرگ نے میری بات کی تعریف کی تھی۔
”اب یہ بتائیے کہ جب ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں تو کچھ نظر کیوں نہیں آتا؟“
”اس کا مطلب یہ ہے جناب کہ آپ مجھے نوکری نہیں دینا چاہتے۔“ میں نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔
”اب آپ جاسکتے ہیں۔“
’شکریہ جناب!“ میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اب اُس شہر میں میرا کا م ختم ہو چکا تھا۔ دل پر بوجھ لیے میں اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا مگر میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ پاک نے میرے حق میں کیا فیصلہ کیا ہے۔
ایک ہفتے بعد ہی رجسٹرڈ ڈاک سے خط آگیا۔ میں اس نوکری کے لیے منتخب ہو چکا تھا۔ میرے لیے تو وہ دن عید کا دن تھا۔ وہ اجنبی شہر میرے لیے اب اجنبی نہیں رہنے والا تھا،پھر میں دوبارہ اُس شہر کی طرف لوٹا۔ میں نے پوری نیت او ر لگن کے ساتھ کام کیا۔ سال گزرتے چلے گئے اور ترقی ہوتی چلی گئی۔ میں نے اپنے گھر کے افراد کو بھی اپنے پاس بلالیا تھا۔ پھر پندرہ سال گزر گئے۔ اب میں اپنے شعبے کا انچارج بن چکا تھا۔ اُس ادارے میں چند ملازم ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کی جگہ پر چند محنتی نوجوانوں کی ضرورت تھی۔ اخبارات میں ملازمت کا اشتہار دے دیا گیا تھا اور پھر ٹھیک دس دنوں کے بعد میں اسی کمرے میں بیٹھا تھا، جہاں کبھی میں نے ملا زمت کے حصول کے لیے انٹرویو دیا تھا۔ اب وقت بد ل چکا تھا۔ اب میں ملازمت کے حصول کے لیے آنے والے نوجوانوں کا انٹرویو لینے والا تھا۔ نوجوان آتے رہے سوال جواب ہوتے رہے۔ اب آخری نوجوان رہ گیا تھا اور میں بھی اکتا چکا تھا۔ اُس نوجوان کا نام شہباز تھا۔ اُس کا نام پکارا گیا تو میں نے دیکھا، ایک شرمیلا نوجوان کمرے میں داخل ہوا۔
”آؤ،بیٹھو!کیا نام ہے تمھارا؟“ میں نے احمقانہ سا سوال پوچھا تھا۔
”جی شہباز قادر۔“
”قادر آپ کے ابو کا نام ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”جی ہاں۔“ جانے کیوں اُس کی آواز میں درد کی لہر سمٹ آئی تھی۔
”کیا کام کرتے ہیں وہ؟“
”جی وہ میرے بچپن میں وفات پا گئے تھے۔“ اُس کا یہ جواب سن کر میں سنبھل گیا تھا۔ اب میں نے اُس کی اسناد کا جائزہ لیا۔ وہ دوسرے نوجوانوں کی نسبت ہر حوالے سے اِس نوکری کا اہل تھا۔ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر میں نے پوچھا۔
”یہ بتائیے کہ ہمارے ادارے کی مصنوعات، بازار اور خریدار کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟“ تاریخ خود کو دہرا رہی تھی۔ یہ وہی سوال تھا جو کسی نے مجھ سے پوچھا تھا۔
”جہاں تک میں سمجھتا ہوں، قدیم زمانے کے انسان اور آج کے انسان…“ وہ میرے والا جواب دہرا رہا تھا۔
”ضرورت اور ضرورت پیدا کرنے میں فرق ہے جناب؟“
گھر میں کھانا،ضرورت اور فاسٹ فوڈ کے نام پر گھر سے باہر جا کر کھانا،ضرورت پیدا کی گئی ہے جناب!“ مجھے تو چکر آگیا تھا۔ یہ نوجوان تو میرے نقش قدم پر تھا۔ میں اُٹھا، وہ بھی میرے احترام میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب کوئی افسر نہیں تھا،کوئی ملازمت کا امیدوار نہیں تھا۔ بس ایک یتیم کے سامنے ایک یتیم آکھڑا ہوا تھا۔
”کیسے؟آخر کیسے؟“ میرے وجود میں جیسے کوئی بچہ سسک پڑا تھا۔ وہ میرے سوال کا مطلب سمجھ گیا تھا۔
”جناب!ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی باپ کا سایہ رخصت ہوگیا۔ دن رات کام کیا،ساتھ میں تعلیم حاصل کی اور اب آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔
”اپنا پرس دکھاؤ!“ میرے تمام سوالوں سے زیادہ عجیب یہ سوال تھا۔ وہ نوجوان گھبرا گیا تھا،مگر میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اگر ہمارے درمیان تمام باتیں مشترک تھیں تو اِس بات کو بھی مشترک ہونا چاہیے تھا۔
”س…سر…!“
”پرس دکھاؤ!“ میں نے حکم دیا تھا۔ اُس نے خاموشی سے پرس میرے حوالے کر دیا تھا۔ میں نے پرس کھول کر دیکھا اور پھر میری آنکھیں سلگنے لگیں۔ پرس میں بس پچاس روپے موجود تھے۔ میں نے پرس اُسے واپس دے دیا اور بولا:
”تمھاری ملازمت پکی ہے، کل سے کام پر آجانا!“ یہ خوش خبری سن کر اس نوجوان کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ پھر میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک ہزار کا نوٹ نکال لیا۔
”یہ لو تمھاری سچائی اور ہمت کا انعام۔“ جانے کیوں اُس نوجوان پر کپکپی سی طاری ہوگئی تھی۔
”صاحب!آپ اب تک نہیں سمجھے۔ میں یہاں نوکری کروں گا، مجھے تنخواہ ملے گی، وہ تنخواہ میرے لیے کافی ہوگی۔ خوش ہو کر جب کوئی انعام دے تو وہ مجھے بھیک جیسا لگتا ہے۔“ اب میں لرز کر رہ گیا تھا۔ جس نے مجھے بہت پہلے پہچان لیا تھا۔ اُسے میں نے اب پہچانا تھا۔ یہ تو وہی لڑکا تھا،جس نے مجھے ناشتا کروایا تھا۔ میرے بیگ کی حفاظت کی تھی اور اُس وقت بھی انعام کی رقم نہیں لی تھی۔ میں سسک پڑا اور پھر میں نے اُسے اپنے گلے سے لگا لیا۔وہ بھی رو رہا تھا۔ یہ درد کے رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ آج اس درد کے رشتے نے ہمیں بھی ایک رشتے میں باندھ دیا تھا۔
……٭……٭……

Leave a Comment