جواب: اُردو افسانے میں حقیقت نگاری کی روایت:
حقیقت نگاری:
حقیقت کے لغوی معنی اصلیت یا سچائی کے ہیں۔ادبی اصطلاح میں ایسی تحریریں حقیقت نگاری کی ذیل میں آتی ہیں۔جن میں تخیلاتی اور جذباتی رنگ آمیزی نہ کی گئی ہو۔تصوراتی یا مثالی دنیا کے بجائے معروضی حقائق کو پیش کرنا اور ٹھوس واقعات کی بنیاد پر زندگی کے حقائق پیش کرنا حقیقت نگاری کہلاتا ہے۔علاوہ ازیں ایک حقیقت نگار سے یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ اس کا نقطہ نظر غیر شخصی ہو۔وہ کچھ بھی کشیدہ رکھے بغیر اپنی بات کو بیان کرے۔حقیقت نگار کے اوصاف آصف بیان کرتے ہوئے عزیز احمد لکھتے ہیں:
”اس کا اسلوب اس کے موضوع سے پوری مناسبت رکھتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی رائے کا بہت کم اظہار کرتا ہے۔ روایت کا وہ پابند نہیں ہوتا۔ واقعی زندگی سے وہ جتنا قریب ہو سکے وہ اتنا ہی بڑا حقیقت نگار ہے۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت نگاری کا زندگی سے گہرا تعلق ہے۔علاوہ ازیں حقیقت نگار کا انداز بہت سیدھا اور صاف ہونا چاہیے۔وہ معروضی حقائق سے مواد اکٹھا کرے خیالی باتوں سے گریز کرے حتیٰ کہ ذاتی رائے کی آمیزش نہ کرے۔ ادب میں حقیقت نگاری ایک رجحان اور تحریک کے طور پر نمودار ہوئی۔یہ تحریک انیسویں صدی کے اواخر میں فرانس میں شروع ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ اسے دنیا بھر میں رواج ہوتا چلا گیا۔ ہمارے ہاں حقیقت نگاری کا رجحان بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا۔
اطلاق:
اردو میں حقیقت نگاری کو زیادہ تر سماجی شعور کی نمائندگی کے لئے استعمال کیا گیا کیا اسی لئے ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ہمارے ہاں سماجی حقیقت نگاری کی اصطلاح سامنے آئی۔جبکہ کہ اس کے بعد نفسیاتی اور جنسی حقائق پر لکھے جانے والے افسانے کے لئے نفسیاتی جنسی حقیقت نگاری کی اصطلاح بھی وضع ہوئیں۔
حقیقت نگاری کی روایت:
مغرب میں حقیقت نگاری کا رجحان ان انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں یہ انداز بیسویں صدی کے آغاز پر اس وقت مقبول ہونا شروع ہوا جب افسانے کی کونپل نئی نئی پھوٹی۔سجاد حیدریلدرم تو رومانی مزاج کے افسانہ نگار تھے البتہ پریم چند کی کہانیاں حقیقت نگاری کی ذیل میں آتی ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ ان کے ابتدائی افسانوں پر ان کی مثالیت پسندی آئی ہوئی ہے مگر بعد میں ان کا رجحان حقیقت نگاری کی طرف ہوگیا۔یہاں ان کا ایک افسانہ کفن خاص طور پر قابل ذکر ہے اس افسانے میں نچلے طبقہ کی زندگی کو کسی بھی رنگ آمیزی کے بغیر جوں کا توں پیش کیا گیا ہے۔جو حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔
وابستگی:
افسانے میں حقیقت نگاری سے مکمل وابستگی کا زمانہ اس وقت شروع ہوتا ہے۔جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ترقی پسندی میں مقصدیت کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔اس عہد میں یہ تصور پیدا ہوا کہ ادب کو سماجی مقصد کے تحت لکھا جانا چاہیے۔اس طرح طبقاتی تضادات جبر و استحصال اور سماجی مسائل میں گھرے ہوئے طبقے کی زندگی اور ان کی نفسیات کو من و عن پیش کرنا یا اس کا تجزیہ سامنے لانا انا افسانے کی ضرورت قرار دیا گیا یا اور یہ ضرورت اسی صورت میں پوری ہوتی تھی کہ واضح اسلوب اور قطعی انداز بیاں اختیار کیا جائے۔
حقیقت نگاری کا فروغ:
ترقی پسند تحریک پر روسی انقلاب اور مارکسزم کے اثرات تھے۔کارل مارکس کے فلسفے میں کیونکہ معاشی مساوات کا پہلو موجود تھا اس لیے سماجی شعور کے فلسفے کو اردو ادب میں بھی جلد مقبولیت حاصل ہوگی۔ اردو افسانے میں حقیقت نگاری کے رجحان کو فروغ دینے میں انقلاب روس اور مارکسزم کے اثرات نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔اس لئے کہ انقلاب اب روس اور مارکسزم نے زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا نیا زاویہ نظر دیا کیا اور ساتھ ہی سماجی انقلاب اور معاشی مساوات کے نظریے پر زور دیا۔
انقلاب روس اور مارکسزم کے علاوہ وہ اس عہد کی سیاسی سماجی اور ادبی تحریکوں نے بھی حقیقت نگاری کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کیا۔یہ وہ عہد تھا کہ ہر سطح پر خارجی حکایت کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔قومی آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور سماج نت نئی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔سو ایک واضح شعور اور واضح اسلوبیاں ہی سے خارجی آقای کی تفہیم اور ترسیل ممکن دکھائی دیتی تھی۔
یہی وہ حالات تھے جنہوں نے سماجی حقیقت نگاری کا تصور پیدا کیا یا اس طرح ہندوستان بھر میں ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ایسے بے شمار افسانہ نگار سامنے آئے جنہیں سماجی حقیقت نگاری کہا جاسکتا ہے ان میں کرشن چندر راجندر سنگھ بیدی شادی شدہ احمد عباس اس سعادت حسن منٹو و عصمت چغتائی احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ مذکورہ بالا افسانہ نگاروں کے سبھی افسانے حقیقت نگاری کی مکمل تعریف پر پورے نہیں اترتے۔مثال کے طور پر کرشن چندر کے اکثر افسانوں میں رومانوی عنصر بھی مل جاتے ہیں۔علاوہ ازیں ان کی نثر پر کہیں کہیں تخیلاتی اور شعری رنگ بھی موجود ہے۔
حقیقی دنیا:
ادب میں اشیاء اشخاص اور واقعات کو کسی قسم کے تعصب، عینیت، موضوعیت اور رومانیت سے آلودہ کیے بغیر دیانت و صداقت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش حقیقت نگاری کہلاتی ہے۔ بالفاظ دیگر حقیقت نگاری کے معنی ہیں، خارجی حقائق (مثلا سماجی زندگی اور اس کے مسائل) کوحتی المقدور معروضی صحت کے ساتھ پیش کرنا کسی خیالی یا مثالی دنیا کی بجائے اس ناقص مگر حقیقی دنیا کو موضوع بنانا، بایست کے بجائے ہست کی تصویریشی۔ حقیقت پسند ادیب تخیل پر امر واقعہ کوترجیح دیتا ہے۔ ماضی کی بجائے حال کے مسائل و معاملات کوا ہم جانتا ہے۔ چونکہ زندگی کی موضوعی تصو یر کشی اس کا مقصود ہے۔ اس لیے وہ اپنی ذات کو ادب پارے میں نمایاں کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ وہ زندگی کے ایسے کراہت انگیز کوائف ومظا ہرکو بھی موضوع بناتا ہے جن کا وجود مسلم ہوتا ہے۔
مگر نفاست پسند ادیب انھیں قابل اعتنا نہیں جانتے۔ وہ زندگی کو رنگین شیشوں میں سے دیکھنے کی بجائے اپنی ننگی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے جوں کا توں پیش کردے۔ پریم چند کا انسان فن حقیقت نگاری کی روایت میں ایک اہم سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ کفن پڑی بھیا یک تصویر ہے۔ پریم چند کے ہاں بھی حقیقت نگاری کی ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔
گورکی کہتا ہے:
بغیر کسی رنگ و روغن کے آدمیوں اور ان کی زندگی کا سچا بیان حقیقت نگاری کہلاتا ہے۔
پریم چند کی حقیقت نگاری:
پریم چند نے اپنے افسانوں میں حقیقت بیان کی، انہوں نے نہ صرف عوامی زندگی کی ترجمانی کی، بلکہ محنت کش طبقہ کے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو بہترین انداز میں پیش کیا۔ پریم چند نے اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری کے ذریعے معاشرہ کی اصلاح کے لیے اپنی تمام ممکنہ فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ان کا افسانہ ”کفن“ ہے۔ پریم چند نے کفن میں سماج کی حقیقت بیان کی ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے غربت وافلاس، اپنوں کی بے حسی و بے بسی و لاچاری معاشرتی استحسالی، طبقاتی فرق۔ گھٹیامعاشرتی رسومات وغیرہ۔ جیسی حقیقت کی ہو بہو تصویر پیش کی ہے۔
پریم چند حقیقت نگاری کے بارے میں درج ذیل رائے رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
”میں حقیقت پسند نہیں ہوں۔ کہانی میں چیز جیوں کی توں رکھی جائے تو وہ سوانح عمری ہوجائے گی۔ دستکاری کی طرح ادیب کا حقیقت نگار ہونا ضروری نہیں، وہ ہوبھی نہیں سکتا۔ ادب کی تخلیق گروہ انسانی کو آگے بڑھانے اٹھانے کے لیے ہوتی ہے، مثالیت ضرور ہولیکن حقیقت پسندی اور فطری انداز کے برعکس نہ ہو۔ اسی طرح حقیقت نگار بھی مثالیت کو نہ بھولے تو بہتر ہے۔“
ان کی اس حقیقت نگاری سے یہ پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جیسا ماحول پایا اس کو ویسا پیش کیا۔ اگر وہ چاہتے تو ہندوستانی دیہات کو جنت کا ٹکڑا بنا کر پیش کر سکتے تھے مگر پریم چند نے انھیں ویساہی دکھایا جیسے وہ حقیقت میں تھے۔ ان کی یہی حقیقت نگاری ہے جس کی وجہ سے وہ ہم عصر انسانہ نگاروں سے ممتاز اہمیت رکھتے ہیں۔ جس طرح شاعری میں نظیر اکبر آبادی کی نظر عوام کی خوشیاں، عوام تہواروں میلوں ٹھیلوں پر ٹھہرتی اس طرح پریم چند کی نگاہ عوام کے دکھ درد ان کے مسائل پر جا رکتی ہے انہوں نے اپنا قلم غریب کسانوں۔کچے گھروندوں اوع ان کے مکینوں، جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے ڈسے ہوئے لوگ کے لیے وقف کر دیا۔انہوں نے اپنے دیہات کی پسماندگی کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ سادہ نثر لکھنے کی نباد میر امن۔سر سید اھمد خان اور نذیر احمد ڈال چکے تھے مگر روزمرہ کی عکاسی جتنے سادہ انداز میں پریم چند نے کی،یہ انہی کے حصے میں آئی۔ جب پریم چند صاف،واضح اور سادہ نثر لکھ رہے تبھی وہاں اردو ادیب تشبہات و استعارات کے طوطے مینا بنا رہے تھے۔ ماروائی کرداردوں کے مقابلے میں پریم چند نے حقیقی اور عام زندگی کھ کرداردوں کو موصوع سخن بنایا۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کا خمیر عام زندگی سے اتھایا تھا ان کے کردار عملی تھھ ان کی تقلیق کردہ ماحول ان کا آنکھوں دیکھا تھا۔
پریم چند ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
”افسانہ حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اس میں تخیلی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔“
پریم چند کی صورت میں سماجی حقیقت نگاری اور سیاسی حالات کے تجزیے سے افسانے نے اپنا نیا سفر شروع کیا۔
دل چسپی اور خوب صورتی:
حقیقت نگاری کے گہرے شعور کے ساتھ نگارش میں دلچسپی اور خوبصورتی پیدا کرنے میں پریم چند کایہ بڑا کارنامہ ہے۔ سرسید احمد خاں اور نذیر احمد گو پریم چند سے پہلے ہی سیدھی سادی نثر نگاری کی داغ بل ڈال چکے تھے اور سادگی اور پرکاری کا خوبصورت سنگم بنا چکے تھے پرپھر بھی افسانہ نگاری کے میدان میں کسی نے سادگی اور روزمرہ زندگی کے ان کو اس شدت اور بے باکی کے ساتھ محسوس نہیں کیا تھا۔ پریم چند اس دور میں افسانہ نگاری کررہے تھے جب ہمارے انشاء پرداز آراستہ عبارت، تشبیہ و استعارہ کی چاشنی اور ماورائی الجھے ہوئے فلسفیانہ کرداروں کے چکر میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے کردارعملی نہ تھے۔ پریم چند نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ زندگی۔متالطم اور موج زن زندگی کا دروازہ کھول دیا وہ صرف خیال اور آرائش کے ادیب نہ تھے۔ ان کے پاس کوئی ماورائی جادو، کوئی جدید سے جدید مغربی موضوع سخن نہ تھا۔ مگران کا چونکا دینے والا حربہ تھا۔ حقیقت نگاری اور سادگی تھی۔
مغرب میں حقیقت نگاری کے نام سے جوتحریک چلی تھی اس کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی حقیقت نگاری کو بہت کچھ تاریکی اور اداسی تفصیل پسندی کا مترادف سمجھاجانے گا لیکن پریم چند کی حقیقت نگاری کتابوں کی بجائے عملی زندگی کی حقیقت سے پیدا ہوئی تھی۔ اس لئے ان کے پاس اپنے خیالات کیلئے صرف ایک دلیل ہے، حقیقت اورعمل کی دلیل۔ ان کے ہاں تاثر محض انفراری پسندیدگی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ واقعات کے بے کم و کاست بیان سے پیدا ہوتے ہیں۔
……٭……