تحریر:کشف بلوچ
وہ ہر روز خواب میں آسمان سے من و سلویٰ اترتے دیکھتا اور دن بھر زمین پر انہیں ڈھونڈتا پھرتا۔
لیکن فجر سے لیکر عشاء تک اس کے نصیب میں صرف تین سوروپے ہوتے۔ایسے میں وہ جب زیر تعمیر عمارت کے نیچے بیٹھ کر مالکان اور مزدوروں کا بچا ہوا سوکھا نان اور تھال کے پیندے سے لگا مصالحہ کھرچ کھرچ کر کھاتا تو نہ جانے کیوں اسے خواب میں آسمان سے اترتے من و سلویٰ کی یاد بہت ستاتی۔اس نے یہ نام پچھلے نمازِ جمعہ میں مسجد کے امام کے خطبے کے دوران سنا تھا۔
اگرچہ امام صاحب نے اپنی تقریر کے دوران حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم کے کچھ اور واقعات کا بھی تفصیلًا تذکره کیا مگر یہ نام تو جیسے اس کے حافظے میں محفوظ ہوگیا۔
دینو نہ تو اس زمانے کا تھا اور نہ ہی اس نے من و سلویٰ کا ذائقہ چکھا تھا مگر اپنے مطلب کی چیزیں انسان کو دیر تک یاد رہ جاتی ہیں
بارہا تپتی دوپہروں میں سیمنٹ کی بوریاں اٹھاتے ہوئے دینو کو جب رات کی کھائی ہوئی آدھی روٹی اور پتلے شوربے میں تیرتے آلوؤں کے قتلوں کا ذائقہ تک بھول جاتا تب اس کا جی ریڑھیوں پر سجی کسی اچھی چیز کھانے کو للچاتا، مگر خرچ کرنے سے پہلے ذہن حساب کتاب کے دھندوں میں ایسا الجھتا کہ جیب کی طرف جاتا ہاتھ ہوا میں معلق رہ جاتا۔دینو اپنے خیال کو ایک پرے دھکیل کر پھر سے کام میں جت جاتا۔اس نے اتنے دکھوں کا بار اٹھایا تھا کہ اب اسے کوئی بوجھ بوجھ نہ لگتا۔
ویسے بھی جس نے جوان بیٹے کا بھاری لاشہ اٹھایا ہو اسے سیمنٹ،آٹے کی بوریاں بھاری نہیں لگتی۔
چھ مہینے پہلے اس کے اکلوتے جوان بیٹے کو آناً فاناً پیٹ میں درد ہوا اور وہ بوڑھے باپ کو ہسپتالوں کے دھکوں، دوائيوں پر اٹھنے والے اخراجات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قرض سے چھٹکارا دلاتے ہوئے اجل کا ہاتھ تھامے چپکے سے ان دیکھے جہان کی جانب چل دیا۔
”قرض اور مرض تو جیسے غریب آدمی کے ساتھ ساری عمر چھپن چھپائی کھیلتے رہتے ہیں،مرض سے ہاتھ چھڑایا تو قرض نے گردن پکڑ لی۔“ دینو اکثر تنہائی میں سوچتا۔۔
دینو عموماً دوپہر کے وقت گدھا گاڑی پر سامان ٹھیک وہیں لے جاتا، جہان وہ کھانے کے عین وقت پہنچ سکے۔
مگر وہ اس عمر میں بھی کسی کا احسان نہیں لیتا تھا۔اس کھانے کے بدلے وہ کچھ دیر اردگرد بکھرا کچرا سمیٹنے میں مزدوروں کی مدد کردیتا۔یہ خوداری ہی تھی جو اس نے بیٹے کے مرنے کے بعد کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت مزدوری کو ترجیح دی۔ورنہ اس جیسے کئی بوڑھے اپنا حق سمجھتے ہوئے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک مانگتے۔مگر دینو جانتا تھا کہ اس کا باپ وارثت میں اس کے لیے مفلسی چھوڑ کر گیا تھا۔پہلی چیخ سے لے کر آخری ہچکی تک اس کے ہاتھ کی لکیروں میں مشقت لکھی ہوئی ہے۔دینو دوپہر کے کھانے کے پیسے علیحده سے جمع کرلیتا۔
رات گئے جب وہ گھر میں داخل ہوتا تو دو آنکھیں اس کے انتظار میں جاگ رہی ہوتیں۔اس کے اکلوتے بیٹے کی نشانی صفو جس کے نرم پیر کئی دنوں سے جوتوں سے خالی تھے۔ دینو اپنی پوتی کو زمین پر ننگے پیر بھاگتے دیکھتا تو اس کے دل پر آرے سے چل جاتے۔
اس دن کے بعد دینو نے دوپہر کی روٹی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ جمعہ کے روز جلدی گھر آجاتا تھا۔
اس روز دینو نے دروازے پر قدم رکھا ہی تھا کہ تنگ گلی کو مڑتی اس کی بیوی پلٹی اور اسے بتایا:
”صفو کی ماں کو ڈاکٹرنی کے پاس لے جارہی ہوں،کسی وقت بھی خوشخبری آ سکتی ہے،پیسے لے کر آجانا۔“
جاتے جاتے اسے سرگوشی میں بتایا اور گلی کا موڑ مڑ گئی۔اس کی بہو کے چہرے پر درد کے رنگوں سے پھوٹتی خوشی دیدنی تھی۔دینو کی کمزور لاغر ٹانگوں میں جیسے گاڑی کے پہیے فٹ ہوگئے۔وہ جلدی سے اندر آیا۔
کمرے سے نکلتی پوتی کی جانب بڑھا ہی تھا کہ یاد آنے پر باہر کی طرف دوڑا۔جلدی میں گدھا گاڑی اندر لانا بھول گیا۔گدھا نالی کے اوپر اگی گھاس پر منہ مار رہا تھا۔
”دادا کیا میرا بھائی بہت مہنگا مل رہا ہے؟“
چھپر میں گدھا باندھتے ہوئے دینو کو پشت پر پوتی کی آواز سنائی دی تو رسے کو گرہ لگاتے ہوئے ٹھہر گیا۔
”تجھے یہ کس نے کہہ دیا کہ بچے بازار سے ملتے ہیں؟“دینو نے کندھے پر رکھے مٹیالے رنگ کے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے اسے گود میں بھر لیا۔
”دادی نےجاتے وقت کہا کہ ہم تمہارا بھائی لینے جا رہے ہیں،دعا کرنا صفو تیرا بھائی سستے میں مل جائے۔“
پوتی کے معصومانہ جواب پر دینو کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ امڈ آئی۔
اسے بیٹھے بہ مشکل پندرہ منٹ ہوئے تھے کہ پڑوسی نے دینو کو آ کر اطلاع دی کہ ڈاکٹرنی تجھے بلا رہی ہے۔ دینو جب بھاگم بھاگ ایک ہزار کا نوٹ بٹوے میں سنبھالے وہاں پہنچا تو ڈاکٹرنی نے کہا:
”پیچیدگی کے باعث آپریشن کی نوبت آگئی ہے۔اب کیس ایک ہزار سے بڑھ کر دس ہزار تک پہنچ گیا ہے۔بندوست کر سکو تو ٹھیک ورنہ…“
اور اس ورنہ سے آگے والے الفاظ کے سننے سے پہلے ہی دینو گھر پلٹ آیا۔دینو کی بہو کو چوتھا مہینہ چڑھا تو اس کی بیوی نے لڑکے کی آس لگا لی۔
وہ اسے ٹوکتا تو وہ بیٹے کو یاد کرکے رو دیتی۔ اسے لگتا اس کا بیٹا مرا نہیں ہے وہ تو بس چند دنوں کے لیے کھدی ہوئی زمین میں جا کر لیٹ گیا ہے۔
نو مہینے پورے ہوتے ہی پھر سے بچے کی صورت میں اس کی گود میں آجائے گا۔دینو بیوی کی یہ بات سن کر اسے سمجھانے کا ارادہ ترک کر دیتا۔جوان بیٹے کھونے والی مائیں ایسی پاگل پن کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔
اسے پوتے کی خواہش تھی یا نہیں، وہ یہ تو نہیں جان پایا مگر اسے اپنی پوتی سے بے حد پیار تھا۔ دو ہوجاتیں تب بھی اس کے پیار میں ذرا فرق نہیں آتا۔
اس کے آس پاس اور جان پہچان کے لوگوں کے مالی حالات اس سے ڈھکے چھپے نہ تھے۔ اس لیے ان کا بھرم رکھتے ہوئے بہو کے میکے جا پہنچا،مگر دروازے میں داخل ہوتے ہی سوچا کہ واپس مڑ جائے۔
مٹی میں کھیلتے بچوں نے دینو چاچا کے نام کو دونی کا پہاڑہ سمجھ لیا۔
”دینو چاچا آیا ہے۔“
”دینو چاچا آیا ہے۔“
اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئے۔
وہ کچھ دیر بعد کھڑے کھڑے بہو کی حالت کا بتا کر باہر نکل آیا۔
دینو اس ارادے سے آیا تھا کہ ایک دو ہزار مانگ لے گا مگر سامنے بیٹھی ان کی جوان لڑکی کو دیکھ کر زبان دانتوں تلے دبا لی۔جب دینو کا بیٹا مرا، ان دونوں میاں بیوی کو خدشہ تھا کہ کرمو اپنے بیٹی کو ساتھ لے جائے گا مگر وہ حیرت سے گنگ رہ گئے جب وہ بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے چل دیا۔
ہفتے کی صبح دینو کی بہو کے ہاں بڑے آپریشن سے بیٹا پیدا ہوا۔ اس کی بیوی بچوں میں بتاشے بانٹتی پھرتی تھی اور اس کی پوتی بھائی کا منہ چومتی چومتی نہ تھکتی۔
دینو اس رات پوتی کو بازو پر لٹائے سوچوں میں گم تھا۔
نیند میں بھی اس کے چہرے پر ہنسی تھی۔گم ہو جانے کے ڈر سے وہ اپنے نئے جوتے بغل میں چھپائے سو رہی تھی۔
گھر میں دوڑتے چوزوں کو حلال کرکے بہو کے لیے یخنی اور اس کے گھر والوں کے لیے کھانا تو بنا لیا تھا مگر جب کھانے کی باری آئی تو روٹیاں کم پڑ گئیں۔مجبوراً دینو کو صرف شوربے پر اکتفا کرنا پڑا۔
”غریبی برص کے داغ ہیں جنہیں چھپانے میں بندے کی عمر گزر جاتی ہے۔“ دینو سوچ کر رہ گیا۔
وہ خالی پیٹ کافی دیر تک مہمانوں سے کھانے کی تعریفیں سنتا رہا۔ ہر کروٹ پر خالی پیٹ میں مروڑ اٹھتے اور اس کے لیے رات گزارنا مشکل ہوگیا۔
اگلی صبح وہ اٹھا تو پہلی بار اسے اپنا آپ مزید بوڑھا لگنے لگا۔گدھے کو بیچ کر پوتے کو اس دنیا میں لانے کے بعد اسے گدھا گاڑی اپنے بوڑھے بازوؤں سے خود کھینچنی پڑی۔
دینو گدھا گاڑی کھینچ کر گھر سے باہر لایا تو محلے کے شریر بچوں نے اسے گھیر لیا اور بڈھا گاڑی، بڈھا گاڑی ،بڈھا گاڑی کہہ کر ہنسنے لگے۔