سوال: اُردو ادب پر سرسید تحریک نے جو اثرات مرتب کیے، اُن پر ایک جامع نوٹ تحریر کریں۔

جواب: اُردو ادب پر سر سید تحریک کے اثرات:


سر سید تحریک کے بانی سرسید احمد خاں اپنی علمی، ادبی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی خدمات کے باعث برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار رہے ہیں۔ان کی مذکورہ متنوع شعبوں میں اہم خدمات کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔جس کا کسی ایک کتاب میں احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ان کی علمی و ادبی خدمات اہم ہیں، تو مذہبی اور سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔وہ ذی شعور اور روشن خیال مصلح قوم و ملت اور دوراندیش سیاست داں تھے۔لیکن بدقسمتی سے مورخین نے سرسید کی اس روشن خیالی نئی تعلیم کی حمایت کو غلط سمجھا اور ان کی تقاریر کو اپنیمطلب اور مفاد کے پیش نظر رکھتے ہوئے کئی غلط باتیں سرسید کی ذات سے منسوب کردی تھی۔جس سے ان کی شخصیت وکردار کاصحیح اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے۔اسی مشکل کو آسان کرنے کے لیے زیر نظر کتاب ”سرسید تاریخی و سیاسی آئنیے میں“ کے تحت ان کے سیاسی کارناموں کو تاریخی حوالوں اور واقعات کے تناظر میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔جس میں مصنف کامیاب ہیں۔
علی گڑھ تحریک:
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک“ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
سقوطِ دلی:
لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
فکری جہت کی تبدیلی:
ابتدا میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوؤں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
رسالہ تہذیب الاخلاق:
1869 ء میں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔
اُردو ادبیات زاویہ:
علی گڑھ تحریک کا ایک بڑا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا۔ طبعی علوم، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی سلیس افسانوی نثر، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔ سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی۔ سرسید تحریک نے اردو ادب کے جن شعبوں کو متاثر کیا،اُن کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
اُردو نثر:
چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لیے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کی بجائے گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے مقفٰی اور مسجع اسلوب سے نجات دلا کر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر سامنے آئی۔
سوانح اور سیرت نگاری:
علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا۔ اٹھارویں صدی میں مسیحی مبلغین نے ہادی اسلام حضرت محمد اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کرکے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ مسیحی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اس لیے اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ سرسید کی ”خطبات احمدیہ“ مولوی چراغ علی کے دورسالے ”بی بی حاجرہ“ اور ”ماریہ قبطیہ“ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات الا“ میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا۔
لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ مولانا شبلی نے نامور ان اسلام کوسوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ مولانا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ”یادگار غالب“ ”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدی“ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریا ں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔
تاریخ نگاری:
سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لیے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لیے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقائکے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“، ”المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا اللہ نے ”تاریخ ہندوستان“ مرتب کی۔
اسلاف کی عظمت:
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لیے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید:
”ہر فن کے لیے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“ اس لیے علی گڑھ تحرے ک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لیے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔
علی گڑھ تحریک اور تنقید:
علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کی بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقائرکھنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبد اللہ سرسید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سر انجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقائکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔
تنقیدی رجحانات:
اگرچہ سرسید احمد خان نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیالات نے تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈالا۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلیٰ تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔ سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے انداز بیان کی بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا۔ سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔
ادب اور زندگی:
علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی۔ گو کہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی۔ تاہم ان کے رفقاء میں سے الطاف حسین حالی نے ”مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ”یادگار غالب“ میں کیا۔ مولانا حالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم“ ہے۔
طرزِ ادا:
سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قار ی کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی۔ لیکن انشائکے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقائمیں سے مولانا شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکائاللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے۔
علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی:
اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کیے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلاً سپکٹیڑ، ٹیٹلر اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجرائکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سرسید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو مذکورہ بالا رسائل کا تھا۔
بے شمار جہتوں سے تعارف:
سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لیے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essayکی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہو گیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔
تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان، محسن الملک اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا۔ چنانچہ محسن الملک، وقار الملک، مولوی چراغ علی، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔
علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری:
علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید احمد خان، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کر دیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انہیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔
کرداروں کی تخلیق:
اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی، وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لیے انہیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔
علی گڑھ تحریک اور نظم:
علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی۔ اس کا سبب خود سرسید احمد خان یہ بتاتے ہیں:
”ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“ اس بنائپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔
سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نے چر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہاؤ میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا:
”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“ چنانچہ سرسیداحمد خان کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبد الحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔
مجموعی جائزہ:
علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاء سے ہوتا ہے۔ سوانح نگار، سیرت نگاری، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔
……٭……٭……٭……

Leave a Comment