(بیسویں صدی کی عہدساز شخصیت صحافی، مفکر اور مصنف علامہ محمد اسدؒ (سابق یہودی لیوپولڈ ویز) کی شہرۂ آفاق آپ بیتی “دی روڈ ٹو مکہ” سے ایک ناقابلِ فراموش واقعہ مع ترجمہ نذر قارئین کیا جاتا ہے)
تحریر:احمد خلیق، لاہور
ساری رات زید درد سے بےچین ہوتارہا۔ وہ طلوع آفتاب سے کافی پہلے جاگ گیا تھا۔ اس کے اچانک ہلنے جلنے سے میں بھی اپنی بےآرام نیند سے بیدار ہو گیا۔
اس نے بتایا: “مجھے صرف ایک اونٹنی نظر آ رہی ہے”، اور جب ہم نے جائزہ لیا تو واقعی ایک اونٹنی غائب تھی- زید کی اونٹنی ۔ زید نے چاہا کہ وہ میری اونٹنی پر جائے اور اسے تلاش کرے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ اپنے زخمی پاؤں کی وجہ سے چل کر اونٹنی پر سوار ہونا اور اترنا تو دور کی بات، وہ کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں تھا۔
”زید تم آرام کرو، تمھاری جگہ میں جاؤں گا؛ اپنے ہی نشانات کو دیکھتے ہوئے واپسی کا راستہ ڈھونڈنا اور لوٹنا میرے لیے مشکل نہیں ہو گا۔“
سو طلوع آفتاب کے ساتھ ہی میں گمشدہ اونٹنی کے نشانات کے پیچھے نکل کھڑا ہوا، جو صحرا کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئی تھی۔ میں ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، حتی کے تین گھنٹے مسلسل چلتا رہا مگر بھٹکے ہوئے چوپائے کے نشانات آگے سے آگے ہی جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے، جیسا کہ وہ جان بوجھ کر یہ حرکت کر رہا ہو۔ دوپہر ہونے میں ابھی خاصا وقت تھا جب میں کچھ دیر آرام کے لیے اپنی اونٹنی سے نیچے اترا۔ کچھ کھجوریں کھا کر زین سے بندھی چھاگل سے پانی پیا۔ سورج آسمان میں بلند ہوتا جا رہا تھا لیکن نہ جانے کیوں اس میں چمک اور حدت نہیں تھی۔ مٹیالے بادل بےحس و حرکت محسوس ہو رہے تھے۔ ایک عجیب قسم کی بوجھل فضا نے پورے صحرا کو گھیر رکھا تھا اور ریتیلے (/ریتلے)ٹیلوں کے کنارے معمول سے زیادہ نرم دکھائی دے رہے تھے۔
ابھی میں اس ماحول پر غور ہی کر رہا تھا کہ ایک بلند ٹیلے کی بالائی سطح پر مجھے عجیب و غریب سی ہل چل محسوس ہوئی- کیا یہ کوئی جانور تھا؟شاید گمشدہ اونٹنی ہو؟ لیکن جب میں نے مزید غور سے دیکھا تو حرکت ٹیلے سے اوپر نہیں بلکہ بالائی سطح میں ہی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سطح میری جانب لہروں کی مانند انتہائی آہستگی سے بڑھ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹیلے کی پیچھے سے ایک گہری سرخی بلند ہوئی جس سے آسمان کا کنارا چھپ گیا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اس سرخی نے سارے صحرا کو اپنے حصار میں لےلیا۔ ریت کے تھپیڑے میرے منہ پر پڑنے لگے اور بھنور نے مجھے گھیر لیا۔ ہوا کا شور کان کے پردے پھاڑ نے لگا اور پورے صحرا کا ماحول ایک سا نظر آنے لگا ۔ آس پاس کے تمام ٹیلے بھی اولین ٹیلے کی نقالی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ منٹوں، سیکنڈوں میں پورا آسمان گہری بھوری رنگت میں ڈوب گیا اور فضا ریت کے بگولوں سے اَٹ گئ، جس سے دن میں رات کا سماں ہو گیا۔ جی ہاں! یہ ریت کا طوفان تھا!!!
میری ڈری سہمی، اکڑوں بیٹھی اونٹنی نے اٹھنا چاہا۔ میں نےتیز تر ہوتے جھکڑ میں بمشکل اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر نکیل سے پکڑ کر اسے بٹھا دیا۔ یہ کرنے کے ساتھ ہی رسی سے اس کے اگلے دو پائے اور حفظ ما تقدم کے طور پر، ایک پچھلی ٹانگ بھی باندھ دی۔ پھر میں نے اپنے آپ کو نیچے گرا لیا اور عبایہ سے سر کو ڈھانپ لیا۔ میں نے اپنا چہرہ اونٹنی کی بغل سے رگڑا تاکہ اڑتی ہوئی ریت سے میرا دم نہ گھٹ جائے، ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی اپنی تھوتھنی میرے کندھے سے رگڑ رہی ہے تاکہ اس کا بھی یہی حال نہ ہو۔ مجھے صاف پتا چل رہا تھا کہ جس طرف سے میں اونٹنی کی پناہ میں نہیں ہوں، وہاں ریت کی ڈھیری بننے لگتی ہے۔ چنانچہ مجھے ہر تھوڑی دیر بعد اپنی جگہ بدلنی پڑ رہی تھی تاکہ میں زندہ درگور نہ ہو جاؤں۔
آخر کار جب طوفان تھم گیا تو میں اٹھا اور خود کو جھٹکنے لگا تاکہ اپنے ارد گرد جمع شدہ ریت کی ڈھیری سے نجات حاصل کر سکوں۔ میری اونٹنی بھی ریت میں آدھی دھنسی ہوئی تھی مگر کوئی بات نہیں، اس طرح کے مشکل حالات اور طوفان اس نے زندگی میں کئی بار دیکھے اور سہے تھے۔ پہلی نظر میں لگا کہ طوفان نے ہمیں کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایا ماسوائے اس کے کہ میرا منہ، کان اور ناک ریت سے بھر گئے تھے اور زین میں پڑی بھیڑ کی کھال اڑ گئی تھی۔ لیکن جلد ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ میرے ارد گرد موجود تمام ٹیلوں کے خطوط بدل چکے تھے۔ مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ اب گمشدہ اونٹنی کے ہی نہیں بلکہ میرے نشانات بھی غائب ہو چکے ہیں۔ گویا میں ایک تازہ ہل جوتی ہوئی زمین پر کھڑا تھا۔
اب تلاش فضول تھی اور واپس لوٹ جانا ہی واحد راستہ نظر آ رہا تھا یا کم از کم سورج کی مدد اور مشرق و مغرب کی آگاہی کے سہارے سے واپسی کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنا! صحرا میں اکثر و بیشتر سفر کرنے والے آدمی کے خون میں یہ جبلی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں یہ دونوں امدادی سہارے کامل بھروسے کے لائق نہیں تھے کیونکہ ریت کے ٹیلے آپ کو ایک سیدھ میں چلنے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے سبب آپ کے لیے اطراف و جوانب کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔
طوفان گزرنے کے بعد اب مجھے پیاس لگ رہی تھی۔ مگر میں کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ چند گھنٹوں میں ہی اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹ جانے کی امید پر میں چھاگل سے پانی کا آخری گھونٹ بھی پی چکا تھا۔ لیکن مجھے یہ حوصلہ بھی تھا کہ فاصلہ زیادہ نہیں ہے اور اگرچہ میری اونٹنی کو پانی پیے دو دن ہو چکے تھے، جب ہم ایک کنویں پر رکے تھے، لیکن وہ مشاق و مہم جُو تھی اور اس پر اعتماد کیا جا سکتا تھا کہ مجھے صحیح سلامت واپس لے جائے گی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ہماری قیام گاہ فلاں جانب ہو گی سو اونٹنی کا رخ اس جانب پھیر کے برق رفتاری سے سفر کا آغاز کر دیا۔
ایک گھنٹہ گزرا، دوسرا اور پھر تیسرا لیکن زید اور خیموں کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آیا۔ حد نگاہ تک پھیلے ہوئے نارنجی مائل ٹیلوں میں کوئی جانا پہچانا وصف دکھائی نہیں دے رہا تھا، بلکہ اگر کوئی طوفان وغیرہ نہ بھی آیا ہوتا تب بھی ان کے درمیان کسی دیکھی بھالی خصوصیت کو ڈھونڈ نکالنا مشکل تھا۔
دن کے آخری پہر میرا گزر سنگ خارا (granite) کی ابھری ہوئی چٹانوں پر ہوا، جو اس بے آب وگیاہ ویرانے میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں اور میں دیکھتے ہی پہچان گیا کہ کل سہ پہر میں اور زید ان کے پاس سے گزرے تھے، جس کے چند گھنٹوں بعد ہم نے رات کے قیام کے لیےجگہ کا انتخاب اور بندوبست کر لیا تھا۔ میں کافی حد تک پرسکون ہو گیا۔ گو یہ یقینی بات تھی کہ میں اس جگہ سے کافی پیچھے آ چکا تھا جہاں میں زید کو پانے کی امید کر رہا تھا-شاید دو تین میل فاصلے کا فرق پڑ گیا ہو مگر مجھے لگا کہ اب اسے ڈھونڈ نکالنا مشکل نہیں رہا کیونکہ جس رخ پر ہم کل گئے تھے، یعنی جنوب مغربی سمت میں، اب بھی سیدھا سیدھا اسی جانب جانا تھا۔
مجھے یاد آیا کہ چٹانوں اور ہماری رات کی قیام گاہ کے مابین تین گھنٹوں کا دورانیہ تھا لیکن اب تین گھنٹے چلنے کے باوجود بھی زید اور ٹھکانے کا کوئی اتاپتا نہیں ملا۔ کیا میں نے انھیں دوبارہ کھو دیا ہے؟ میں سورج کی گردش کو ذہن میں رکھ کرجنوب مغربی سمت میں مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ مزید دوگھنٹے گزر گئے لیکن پھر بھی اس جگہ اور زید کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ سکا۔جب رات اتر آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ فی الحال آگے چلنا بے معنی ہے، بہتر ہے کہ آرام کیا جائے اور صبح کی سپیدی کا انتظار کیا جائے۔ میں نے اونٹنی سے اتر کے اسے پہلے کی طرح باندھ دیا۔ پھر کچھ کھجوریں نکال کر کھانے کی کوشش کی لیکن مجھے شدت کی پیاس لگی تھی، سو انھیں اونٹنی کے آگے ڈال دیا اور خود اس کے بدن سے سر ٹیک کر لیٹ گیا۔
مجھ پر اونگھ کی حالت طاری تھی۔ نہ مکمل سویا ہوا اور نہ کامل جاگا ہوا۔ جہاں ایک طرف تھکاوٹ کے باعث وقفے وقفےسے خوابیدہ ہوتا رہا وہیں دوسری طرف اس کیفیت کو پیاس کی شدت ختم کر دیتی تھی جو لمحہ بہ لمحہ تکلیف دہ ہوتی جا رہی تھی اور کہیں نہ کہیں اس سونے جاگنے کے بیچ میں ایک بے نام سا خوف تلملا رہا تھا، جس کے متعلق کوئی انسان سوچنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ سوچ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا دیتی ہے۔ اگر میں زید اور پانی سے بھری چھاگلوں تک واپس نہ پہنچ سکا تو کیا ہو گا؟ کیونکہ کم ازکم میں اتنا جانتا تھا کہ اب چاروں طرف کئی دنوں کی مسافت کے بقدر نہ پانی ہے اور نہ ہی ٹھہرنے کا کوئی مناسب ٹھکانہ ہے۔
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی میں منزل کی تلاش میں دوبارہ چل پڑا۔ رات میں نے حساب کتاب لگایا تھا کہ میں یقیناً جنوب کی سمت میں بہت دور نکل آیا ہوں، چنانچہ زید کی قیام گاہ شمال یا شمال مشرقی سمت کے درمیان کہیں ہو گی جہاں میں نے رات بسر کی ہے۔اب جو ان سمتوں میں ہم چلے تو بھوک، پیاس اور تھکاوٹ سے برا حال ہو گیا، جس کے باعث ایک وادی سے دوسری وادی میں سفر جھولتے جھالتے طے ہو رہا تھا، ہماری ڈولتی چال سے ٹیلے کبھی دائیں طرف آ جاتے تو کبھی بائیں طرف۔ دوپہر میں ہم آرام کرنے رکے۔ میری زبان تالو سے جا لگی تھی اور پھٹے پرانے چمڑے کی مانند محسوس ہو رہی تھی؛ گلا درد سے دکھ رہا تھا اور آنکھیں جل رہی تھیں۔ اونٹنی کے شکم سے لگ کر ، عبایہ سر پر ڈال کر میں نے تھوڑی دیر سونے کی کوشش کی، مگر سو نہیں سکا۔ سہ پہر کے وقت ہم منزل کے تعاقب میں پھر روانہ ہوئے۔ اس دفعہ رخ مشرقی سمت کی جانب تھا- کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس بار ہم مغرب کی طرف زیادہ نکل گئے ہیں۔ مگر ہنوز زید اور قیام گاہ دونوں نظروں سے اوجھل تھی۔
ایک اور رات آ گئ۔ پیاس عذاب بن چکی تھی اور پانی کی تڑپ نے اس قدر بےکل کر دیا تھا کہ ذہن میں خیالات منظم طور پر تشکیل نہیں پارہے تھے۔ مگر جیسے ہی صبح کا اجالا پھوٹا، میں ایک اور دن کے لیےعازمِ سفر ہو گیا۔ چلتے چلتے صبح ، دوپہر اور پھر سہ پہر ہو گئ۔ سامنے بس ریت کے ٹیلے اور جھلساتی تپش تھی۔ قطار اندر قطار ٹیلے سر اٹھائے کھڑے تھے جن کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا تھا۔ آیا یہی تو میری زندگی کا اختتام نہیں تھا؟ میری زندگی بھر کی بھاگ دوڑ کا، میری عمر بھر کی تلاش اور جستجو کا؟ ان لوگوں کے ہاں ، جن کے درمیان میں ایک اجنبی (غیر ملکی)ہونے کے باوجود گھل مل کر رہا ہوں، اب نہیں رہوں گا؟
“یا اللہ! مجھے یوں فنا نہ فرما!” میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔
اس سہ پہر میں ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گیا تاکہ حدود اربعہ کا بہتر طور پر جائزہ لے سکوں۔ اچانک دور مشرقی سمت میں مجھے ایک جانا پہچانا سا سیاہ نقطہ دکھائی دیا۔ میں خوشی سے چلانا چاہتا تھا لیکن اب اس کی بھی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ یہ یقینا زید کے پڑاؤ کی جگہ ہے اور پانی کی چھاگلوں کی، دو بڑی پانی سے لبالب بھری چھاگلوں کی!میرے گھٹنوں میں دفعتا جنبش پیدا ہوئی اور میں اونٹنی پر سوار ہو گیا ۔آہستہ آہستہ، محتاط انداز میں ہم اس سیاہ نقطے کی طرف بڑھے جو ناممکن تھا کہ زید کے ٹھکانے کے علاوہ کوئی اور جگہ ہو۔ اس دفعہ میں نے ہر احتیاطی تدبیر اختیار کی تاکہ نقطہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ میں بالکل ناک کی سیدھ میں چل رہا تھا، چاہے مجھے ٹیلوں کی بلندی چڑھنا پڑے یا ریت کی گہری وادیوں میں اترنا پڑے، یا سفر کی طوالت کے باعث دوہری تہری مشقت اٹھانی پڑے، مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔ بس حوصلہ تھا تو اس بات کا کہ تھوڑی سی ہی دیر میں، زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں میں، میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاؤں گا۔ اور آخرکار جب ہم نے آخری ٹیلے کی چوٹی پار کی تو منزل بالکل میرے سامنے تھی۔ میں نے اونٹنی کی لگام سنبھال کر نیچے اس سیاہ مقام کی طرف دیکھا جو اب آدھا میل دور رہ گیا تھا، تو میرا دل دھڑکنا بھول گیا کیونکہ میرے سامنے وہی سنگ خارا کی ابھری ہوئی کالی چٹانیں تھیں جن کے پاس سے میں تین دن پہلے زید کے ساتھ اور دو دن پہلے اکیلے آیا تھا۔
پورے دو دن سے میں دائرے میں گھوم رہا تھا!!!
جب میں زین سے نیچے لڑھکا تو میرا وجود مکمل طور پر نچڑ چکا تھا۔ اب میں نے اونٹنی کو باندھنے کی بھی پروا نہیں کی، اگرچہ وہ خود اتنی تھک چکی تھی کہ کہیں بھاگنا اس کے لیے بھی وبال جان تھا۔ میں نے رونے کی کوشش کی، مگر پھولی ہوئی، سوجی ہوئی آنکھوں کا پانی خشک ہو چکا تھا۔مجھے آخری دفعہ روئےہوئے کتنا عرصہ گزر چکا تھا۔۔۔ مگر اب تو یوں لگتا تھا کہ ہر چیز کو گزرے ہوئے ہی ایک مدت ہو چلی تھی۔ ہر چیز ماضی تھی، حال ختم ہو چکا تھا۔ باقی تھی تو صرف پیاس۔۔۔ گرمی۔۔۔ اور عذاب!
مجھے پانی پیے ہوئے قریباً تین دن ہو چلے تھے، اور اونٹنی کے معاملے میں یہ وقفہ پانچ دن کا ہو چکا تھا۔ اونٹنی شاید ایک دن اور گزارا کر سکتی تھی، ہو سکتا ہے دو دن کر لیتی ،لیکن میں نہیں، میں ایک دن بھی مزید زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ ممکن ہے مرنے سے پہلے میں پاگل ہو جاتا، کیونکہ جسمانی تکلیف اور ذہنی خوف آپس میں الجھ چکے تھے اور ہر ایک دوسرے کو بڑھاوا دے رہا تھا، ایک مسلسل جھلساہٹ ، سرسراہٹ اور چیڑ پھاڑ تھی۔۔۔جو جاری تھی!
میں آرام کرنا چاہتا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اب میں لیٹ گیا تو پھر کبھی نہیں اٹھ سکوں گا۔ میں گرتے پڑتے زین پر سوار ہوا اور لاتوں اور مکوں کے ذریعے اونٹنی کو مجبور کیا کہ وہ کھڑی ہو، اس کشمکش میں میں قریب قریب دو دفعہ گرنے والا ہو گیا جب اونٹنی پچھلے پایوں پر کھڑا ہونے کے لیے آگے کی جانب جھکی اور پھر جب اس نے اگلے پائے کھولنے کے لیے پیچھے کی طرف ہچکولا کھایا۔ ہم سست رو چال میں، درد و اذیت سے کراہتے ہوئے، مغرب کو منزل مان کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاں مغرب کی سیدھ میں۔ آہ۔۔۔ ایک بھیانک مذاق! “مغرب کی سیدھ” اس فریب زدہ، قطار در قطار ٹیلوں کے سمندر میں کیا معنی رکھتی تھی؟ پر مجھے ابھی جینا تھا، سو ہم آگے بڑھتے رہے۔
ہم رات بھر اپنی باقی ماندہ طاقت کی بدولت ہولے ہولے چلتے رہے۔ یقینا صبح ہو چلی تھی جب میں زین سے نیچے گر گیا۔ مجھے چوٹ نہیں لگی، کیونکہ ریت نرم اور ملائم تھی۔ اونٹنی تھوڑی دیر کے لیے کھڑی رہی، پھر ایک گہری سانس کھینچتے ہوئے پہلے اپنے گھٹنوں پر جھکی، اس کے بعد اپنی پچھلی ٹانگوں پر، اور آخر میں اپنی لمبی گردن ریت پر پھیلاتے ہوئے میرے پہلو میں اکڑوں بیٹھ گئ۔ میں اونٹنی کے بدن سے بننے والے معمولی سے سایے میں اپنا عبایہ لپیٹ کر لیٹ گیا تاکہ باہر کی حدت و تپش سے محفوظ رہ سکوں اور اندر کی پیاس، درد اور خوف سے کچھ نجات پا سکوں۔ میں مزید نہیں سوچ سکتا تھا۔ میں آنکھیں نہیں موند سکتا تھا۔ آنکھ کے پپوٹوں کی ذرا سی بھی جنبش ڈھیلوں کے لیے گرم دھات کی مانند تھی۔ پیاس اور گرمی؛ پیاس اور جگر پاش خاموشی؛ ایک ایسی صحرائی خاموشی جو تنہائی اور مایوسی کے کفن میں آپ کو لپیٹ لیتی ہے یہاں تک کہ خون کی گردش کانوں میں سنائی دینے لگتی ہے اور اونٹنی کا کبھی کبھار سانس کھینچنا ان آوازوں میں سب سے نمایاں لگنے لگتا ہے۔ انھیں سن کر یہ خوفناک ترین خیال مجھے ستانے لگا کہ ہم دونوں انسان اور حیوان کے لیے ، زندگی کے آخری لمحات میں، ان بدنصیب ترین ساعتوں میں، زمین پر سنائی دینے والی یہ آخری آوازیں ہیں۔
ہم سے بہت اوپر، شاید افق سے بھی بالا، گہرے زرد آسمان پر اس سخت گرمی میں ایک آزاد منش گدھ ایک معمولی سے دھبے کی مانند مسلسل چکر کھا رہا تھا۔
میرا گلا سوج کر سکڑ گیا تھا۔ ہر سانس کے ساتھ ہزاروں اذیت ناک سوئیاں زبان کی جڑ میں حرکت کرنے لگتی تھیں۔ میری بڑی سی موٹی سوجی ہوئی زبان ، جو بظاہر حرکت کرنے کے بھی قابل نہ تھی، درد کے مارے اب بس سے باہر ہو چکی تھی، کبھی آگے ہوتی، کبھی پیچھے ہوتی جیسے منہ کے خشک خلا میں “رندہ” چل رہا ہو۔ میرا جسم اندر سے جل رہا تھا اور تمام داخلی اعضاء بَل کھا رہے تھے جو ایک نہ ختم ہونے والے عذاب کی گرفت میں جکڑے ہوئے تھے۔ چند لحظوں کے لیے سلیٹی آسمان میری وَا آنکھوں کے سامنے سیاہ ہو گیا۔
میرا ہاتھ خود بخود ہلا اور رکاب میں لٹکی چھوٹی رائفل کے بٹ سے جا لگا۔ کچھ دیر کے لیے ہاتھ بے حس و حرکت رہا لیکن دماغ پوری صراحت کے ساتھ میگزین کے اندر پانچ بہترین گولیاں دیکھنے لگا اور لبلبی پر دباؤ بھی جو فوری انجام کی ضمانت دے سکتا تھا۔۔۔ کسی نے کان میں سرگوشی کی: “جلدی سے حرکت میں آؤ اور رائفل پکڑو، اس سے پہلے کہ تم ہلنے جلنے کے قابل بھی نہ رہ جاؤ!”
اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے ہونٹ ہل رہے ہیں اور ان بے آواز الفاظ کو گویائی دے رہے ہیں، جو میرے ذہن کے تاریک گوشوں سے نکل نکل کر آ رہے تھے:
“ہم تمھیں آزمائیں گے۔ ۔ ۔ ضرور بالضرور آزمائیں گے۔” اور دیکھتے ہی دیکھتے مبہم الفاظ واضح ہو کے ترتیب وار ہوتے چلے گئے- یہ قرآن پاک کی آیت تھی:
“اور دیکھو ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر کریں انھیں خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ “ہم سب اللہ ہی کے ہیں، اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔” (سورۃ البقرۃ: 155، 156)
اگرچہ ہر طرف آگ اور سیاہی تھی، مگر اب اس آتشیں سیاہی میں مجھے اچانک ہی ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا محسوس ہوا اور اس کی مدھر گنگناہٹ میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ ہاں! ہوا کی گنگناہٹ، جیسے درختوں میں سے گزرتے ہوئے، جیسے پانی پر چلتے ہوئے پیدا ہوتی ہے۔ پانی جو ایک چھوٹی سی سست رو ندی کی صورت میں ہرے بھرے کناروں سے گھرا ہوا موجود ہوتا ہے، بالکل ویسی ندی جیسی بچپن میں میرے گھر کے پاس تھی۔ کچھ دیر اس حسین و جمیل منظر میں کھوئے رہنے کے بعد میں نے آنکھیں کھول دیں۔ میری اونٹنی بَلبلا رہی تھی اور پہلو میں ہونے کی وجہ سے مجھے پتا چل گیا کہ وہ اپنے پایوں کو حرکت دے رہی ہے۔ وہ اپنے پچھلے پایوں پر ادھ کھڑی ہوئی، جبکہ اس کا سر اور گردن اوپر کو اٹھے ہوئے تھے، اس کے نتھنے پھیلے ہوئے تھے جیسے دوپہر کی ہوا میں کوئی اچانک خوشگوار بو اس تک آئی ہے۔
وہ دوبارہ بَلبلانے لگی اور مجھے صاف محسوس ہوا کہ اک شدید بے قراری اس کی لمبی گردن سے ہوتی ہوئی نیچے کندھوں اور ادھ اٹھے بدن میں ڈھلک رہی ہے۔ میں نے اونٹوں کو اس طرح بَلبلاتے اور ناک میں بولتے دیکھا تھا، جب کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد انھیں پانی کی پہلی خوشبو پہنچتی ہےلیکن یہاں تو کہیں پانی نہیں تھا ۔ ۔ ۔ یا پھر۔۔۔۔۔آیاواقعی تھا؟ میں نے اپنا سر اٹھایا اور اس سمت میں آنکھوں کو گھما لیا جس طرف اونٹنی نے سر کو کیا ہوا تھا۔ اس کا رخ قریب ترین ٹیلے کی طرف تھا، جس کی بلندی زیادہ نہیں تھی اور اس سے پرے سلیٹی آسمان کی تاریکی اور خاموشی تھی۔ لیکن نہیں۔۔۔کوئی آواز آ رہی تھی!۔ بالکل ہلکی سی آواز جیسے پرانے ہارمونیکا کی تاروں کا ارتعاش، بہت ہلکا اور نازک۔ یہ ایک بدو کی آواز تھی جو نازک مگر اونچے سروں میں اپنے اونٹ کی چال کے ساتھ تال ملا کر لے سے گنگنا رہا تھا- ٹیلے کے دوسری جانب، بالکل قریب ، نہ ہونے کےبرابر فاصلہ، لیکن لمحے کے دسویں حصے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھ سے اور میری آواز سے بہت دور ہے۔اف! اس پار انسان تھے، لیکن میں ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ چلنا تو دور کی بات میں تو اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا تھا۔ میں نے چیخنے کی کوشش کی مگر بیٹھے ہوئے گلے سے سوائے بڑبڑاہٹ کے کچھ نہیں نکلا اور پھر میرا ہاتھ خود بخود ہی رکاب میں لٹکی رائفل کے بٹ سے جا ٹکرایا۔۔۔ اور میں نے چشم تصور سے میگزین کے اندر پانچ اعلی گولیاں دیکھیں۔
میں رکاب سے اپنی پوری قوت صرف کر کے رائفل اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد بولٹ کو کھینچنا پہاڑ کو سر پہ اٹھانے کے مترادف لگ رہا تھا، لیکن جیسے تیسے کر کے میں نے یہ مرحلہ بھی سر کر لیا۔ پھر رائفل کو بٹ کے سہارے پر کھڑا کر کے میں نے اوپر ہوا میں گولی چلا دی۔ یہ گولی انتہائی کم آواز پیدا کر کے سنسناتی ہوئی، خلا میں گم ہو گئ۔ میں نے بولٹ کو ایک بار پھرکھینچا اور ایک اور گولی چلائی، ساتھ ہی کسی ردعمل کی طرف کان لگا دئیے۔ ہارمونیکا طرز کی گنگناہٹ رک گئی۔ ایک لمحے کے لیے بالکل خاموشی چھا گئ۔ یکایک ایک آدمی کا سر، پھر اس کے کندھے ٹیلے کی بالائی سطح پر نمودار ہوئے؛ پھر ایک اور آدمی اس کے ساتھ آ ملا۔ وہ چند لمحے نیچے کی طرف دیکھتے رہے، پھر مڑ کے پیچھے دوسرے ساتھیوں کو چلا چلا کر کچھ بتانے لگے۔ سب سے آگے نظر آنے والے شخص نے ہاتھ پاؤں کے بل بالائی سطح پار کی اور پھر ڈھلوان پر آدھا دوڑتا، آدھا پھسلتا میری طرف آنے لگا۔
میرے اردگرد اب خاصی گہما گہمی تھی یعنی دو تین مرد۔ کیا بھِیڑ ہے اس وحشت ناک تنہائی کے بعد! وہ مجھے اوپر اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں اور پیروں کی حرکات و سکنات عجیب وغریب محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔ میں اپنے ہونٹوں پر بھڑکتی ہوئی ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا، جیسے برف اور آگ ساتھ ساتھ ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک باریش بدو کا چہرہ مجھ پر جھکا ہوا ہے جو اپنے ہاتھ سے ایک میلا گیلا چیتھڑا میرے منہ پر مل رہا ہے۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں پانی کی ایک کھلی ہوئی چھاگل تھی۔ میرا ہاتھ خود بخود اس کی طرف بڑھا، لیکن بدو نے بڑی نرمی سے میرا ہاتھ پیچھے کر دیا اورچیتھڑے کو پانی سے بھگو کے دوبارہ چند قطرے میرے ہونٹوں پر ڈال دئیے۔ مجھے اپنے دانت بھینچنے پڑے تاکہ پانی میرے گلے کو جلا نہ دے لیکن بدو نے میرے دانتوں کو الگ کر کے تیسری بار پانی کے کچھ قطرے میرے منہ میں ڈالے۔ یہ پانی نہیں تھا۔ یہ تو پگھلا ہوا سیسہ تھا۔ یہ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے تھے؟ میں اس اذیت اور کرب سے بھاگ جانا چاہتا تھا، مگر ان شیطانوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا۔۔۔ اف! میری جلد جل رہی تھی۔ میرا تمام وجود جیسے آگ کے شراروں میں گھرا ہوا تھا۔ کیا وہ لوگ مجھے مارنا چاہتے تھے؟ آہ! اے کاش مجھ میں اتنی طاقت ہوتی کہ رائفل کے ذریعے میں اپنا دفاع کر سکتا! لیکن یہ تو مجھے اٹھنے تک نہیں دے رہےتھے۔ انھوں نے مجھے پھر پکڑ کر نیچے لٹا دیا اور میرا منہ کھول کر اس میں قطرہ قطرہ پانی انڈیلنے لگے جو چاروناچار مجھے نگلنا پڑا۔ مگر، حیران کن طور پر اب یہ چند لمحے پہلے کی طرح مجھے اندر سے جلا نہیں رہا تھا
بلکہ سر پر رکھا ہوا گیلا رومال بھی اب اچھا محسوس ہو رہا تھا اور جب انھوں نے میرے پورے جسم پر پانی پھینکا تو بدن سے چپکے گیلے کپڑوں کے سبب مجھے ایک راحت آمیز جھرجھری آ گئ۔
پھر جیسے چہار سو اندھیرا ہو گیا، میں ایک گہرے کنویں میں گر رہا تھا، میرے گرنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اس کی وجہ سے میرے کانوں میں ہوا کا شور گونج رہا تھا۔ اور پھر یہ شور بڑھتے بڑھتےگرج کی صورت اختیار کر گیا، ایک گرج دار اندھیرا، مزید اندھیرا، مکمل اندھیرا۔۔۔
بہت دل چسپ تحریر