دی لیجنڈ آف مولا جٹ..The legend of Maula Jatt

”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ کا ہر سو چرچا ہے، ہر کسی کی اپنی پسند اور رائے ہے جس کی وجہ سے یہ مووی خوب زیر بحث ہے۔ جن لوگوں نے ابھی تک یہ مووی نہیں دیکھی، وہ الجھن میں مبتلا ہیں کہ یہ دیکھنے لائق ہے یا نہیں، ایسا کیا ہے دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں…؟
آپ کی یہ الجھن سلجھانے کے لیے ذیل میں چند بڑے تجزیہ نگاروں کے دل چسپ تبصرے پیش کیے جا رہے ہیں، پڑھیے اور کسی نتیجے پر پہنچ جائیے۔

علی سید:


ہم میں سے اکثر اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو پہلی مولا جٹ maula jatt کو سینما میں جا کر نہیں دیکھ سکے۔ ”مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مر سکدا“ کی دھمک۔ ”نواں آیاں اے سوہنیا“ کی اٹھان۔ دارو نتھنی کی اتھری چال۔ مکھو جٹی کے اندازِ دلبرانہ۔ ناصر ادیب کے قلم کی باریک کاٹ اور یونس ملک کی ہدایتکاری اور سرور بھٹی کی پیشکاری ہم لوگ یہ سب اس طرح سینما میں جا کر جذب نہ کر سکے۔ ہاں مگر ہم اس نسل سے ضرور تعلق رکھتے ہیں جنہیں بلال لاشاری، ناصر ادیب، فواد خان، حمزہ علی عباسی، ماہرہ اور حمائما کی شکل میں لیجنڈ The Legend of Maula Jatt سینما میں مل گئی اور ہم اس موقع کو مِس نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسے موقع روز روز نہیں بلکہ لائف ٹائم آتے ہیں۔
مولا جٹ maula jatt ریلیز ہو گئی اور آج دوسرا دن تھا۔ کل سے ریویوز پر ریویوز آ رہے ہیں کہ فلم ریلیز نہیں ہوئی بلکہ ایک تاریخ رقم ہو گئی ہے۔
ملک سے باہر سنے پلیکس کے ٹکٹ کاؤنٹر پر جہاں سب ہالی ووڈ کی اور بھارتی فلمیں لگی ہوں وہاں پاکستانی فلم کا پوسٹر دیکھنا اور اس کے لیے ٹکٹ مانگنا ایک الگ ہی احساس ہوتا ہے۔ سینما کی دیوار پر لگے پروموشن کے لیے بڑی سکرین پر مولا جٹ کا ٹریلر مستقل چل رہا ہو تو آپ بچوں کو خوشی و فخر کے ملے جلے جذبات سے دکھاتے ہیں۔
فلم شروع ہوئی اور شروع ہوتے ساتھ ہی پہلا سین۔ نہ کوئی تمہید نہ وقت کا ضیاع فلم شروع سے ہی ناظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ایسی گرفت جو فلم ختم ہونے کے تک ہلکی نہیں پڑتی۔ آپ مجبور ہیں بار بار تالیاں بجائیں۔ ہال میں قہقہے۔ سیٹیاں تالیاں۔ فلم آپ کو ہلنے نہیں دیتی۔ کہانی پرانی مولا جٹ والی نہیں ہے، اُس میں پنجاب کی ثقافت تھی اور یہ والی ۴۰۰ سالہ پرانی کہانی پر بنی ہے۔ کردار وہ ضرور ہیں مگر انہیں الگ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ آؤٹ آف دس ورلڈ۔ لارجر دن لائف۔
بے مثل ہدایتکاری۔ ایکشن سیکئوئنس۔ کامیڈی۔ لوکیشنز۔ سب لاجواب۔
اداکاری میں پاکستانی فلمی تاریخ کا آج تک کا سب سے بڑا ولن کا رول نوری نت رہا ہے جو مصطفٰی قریشی صاحب نے ادا کیا۔ اور ۷۵ برس کے بعد اس رول کے بعد یہ دوسرا ولن کا رول آیا ہے اور وہ بھی نوری نت کا ہی رول ہے جو حمزہ علی عباسی ادا کر گیا ہے۔ آنکھیں بند کرو تو لگے گا لیجنڈ مصطفیٰ قریشی بول رہے ہیں۔ ایسے کردار کسی ایک اداکار کی زندگی میں ہی نہیں ایک پوری نسل کی زندگی میں ایک بار ہی آتے ہیں۔ اس کے لیے آپ حمزہ کی جتنی بھی تعریف کریں وہ کم ہے۔ فواد خان اور ماہرہ تو جب ایک ساتھ ایک فریم میں آ جائیں تو ناظرین ویسے ہی فریفتہ ہو جاتے ہیں اور یہ تو پھر فلم تھی بڑا پردہ۔ بڑی فلم۔ فواد خان نے مولا جٹ کا کردار خوب ادا کیا۔ اتنا وجیہہ مولا جٹ کہ آنکھیں نہ ہٹیں۔ ماہرہ کی زبان سے پنجابی سننا کمال تھا، آوازیں آ رہی تھیں ہائے کتنی کیوٹ لگ رہی ہے پنجابی بولتے ہوئے۔ اگر نوری نت اور مولا جٹ کا کردار کرنا آسان نہ تھا تو آسان چکوری بیگم کا کردار دارو نتنی بھی نہ تھا جو حمائمہ خان نے ادا کیا اور کمال کر دیا۔ دارو نتھنی کے انداز میں چلنا کیا انداز تھا۔ ہمیشہ کے لیے اب وہ جہاں بھی جائے گی دارو نتھنی کے نام سے جانی جائے گی۔
فلم کے ایکشن کے لیے ٹیم ہالی ووڈ سے آئی تھی۔ آپ کو ایسا ایکشن پاکستانی ہندوستانی کسی فلم میں نہ ملے گا۔ صائمہ بلوچ نے رجّو کی شکل میں کمال رقص کی پرفارمنس دی۔ لگتا ہے وہ ناچ نہیں رہی رقص کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کی تال پر پورا ہال جھوم اٹھا۔ اور پھر جس انداز میں وہ نشہ کے ترنگ میں آ کر جھومتی ہے، پیسہ وصول۔ ماکھا نت۔ مودا گاڈی۔ دانی۔ شفقت چیمہ اور سردار جٹ کے رول میں سرپرائز انٹری بابر علی اور ریشم۔ کس کس کا نام لیا جائے۔
یہ فلم ایک بار دیکھنے والی نہیں ہے۔ کم سے کم چار پانچ بار تو دیکھیے۔ ایک بار گھر والوں کے ساتھ۔ ایک بار دوستوں کے ساتھ اور پھر جس کے ساتھ بھی آپ کو اچھا لگے۔ میں اس ہفتے دوبارہ جاؤں گا۔
یہ فلم ہٹ نہیں ہے سپر ہٹ بھی نہیں ہے یہ بلاک بسٹر بھی نہیں ہے، یہ لائف ٹائم فلم ہے سپر بلاک بسٹر۔ یہ فقط پاکستانی نہیں عالمی ریکارڈ قائم کرے گی۔
یہاں فلم کے ساتھ عربی اور انگلش سب ٹائٹل آ رہے تھے۔ مگر پڑھنے کی کیا ضرورت، فلم کی اپنی زبان ہوتی ہے جو دیکھنے والے کو سمجھ آ جاتی ہے۔
پاکستانی سینما کو دو فلموں نے بدل کے رکھ دیا اور مزے کی بات کہ دونوں مولا جٹ تھیں۔ ایک ۱۹۷۸ میں اور دوسری ۲۰۲۲ میں۔ مولا جٹ اب پنجاب کی شناخت بن چکی۔ جیسے ہیر رانجھا تھی پنجاب کی رومانوی داستان۔ دیوداس تھی بنگال کی رامانوی داستان۔ انارکلی مغل ہندوستان کی رومیو جیولیٹ برطانیہ کی ویسے مولا جٹ پنجاب کی شناخت۔
Hatts off to Bilal Lashari for bringing a master piece for Pakistani cinegoers.
TheLegendOfMaulaJatt
Ali Syed

عدنان رحمت:


ماچوازم آن سٹیروئڈز مولا جٹ maula jatt کی اس فلم کے پوسٹر پر ہر کردار کے ہاتھ میں گلے کاٹنے اور ہڈیاں توڑنے کے آلات ہیں اور شکلوں پہ وحشت اور آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ یہ اگر اعلانیہ ہارر فلم ہے اور محدود آڈینس کے لیے ہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر اسے کلچرل مائل سٹون اور پہلے سے مینٹلی ڈسٹربڈ قوم کے لیے تحفہ قرار دیا جا رہا ہے تو پھر ہم ویمپائر اور زومبی ہی بنے بیٹھے رہیں۔ کیا ماس سکیل پر تفریح کی کوئی اس سے شائستہ شکل نہیں ہو سکتی؟

سید بدر سعید:


دی لیجنڈ آف مولا جٹ the legend of maula jatt
ابھی فلم نہیں دیکھی۔ کوشش ہے فلم اکیلے نہ دیکھنی پڑے ۔بہرحال ریویو پڑھ رہا ہوں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ فلم کا کرداروں کے نام کے علاوہ سلطان راہی والی مولا جٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نام محض پبلسٹی سٹنٹ کے لیے تھا ورنہ کہانی، خیال ،لوکیشن، کاسٹوم وغیرہ میں سے کچھ میچ نہیں ہے البتہ لکھاری ایک ہی ہے۔ اس لیے یہ فلم ”مولا جٹ“ کے ٹرانس اور بیک گراؤنڈ سے نکل کر دیکھنی چاہیے۔
فلم نے پنجابی فلموں (punjabi films) کا روایتی اسٹال ختم کیا جو کہ اچھا اضافہ ہے،ممکن ہے جٹ اور گجر مارکہ فلموں سے جان چھٹ جائے اور کہانی بیسڈ فلم ملنا شروع ہو، بلال لاشاری کا نام ہی فلم کی پروڈکشن اچھی ہونے کی علامت ہے۔ ایسے فلم سازوں کی ہر فلم دیکھنی چاہیے، شاید سینما ٹرینڈ بدلنے لگے۔
فلم مار دھاڑ پر مشتمل ہے، ڈائیلاگ اچھے ہیں لیکن چند کرداروں کو پنجابی اسٹائل میں بات کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔ اگر ایسا تھا تو فلم اردو میں بھی بنائی جا سکتی تھی لیکن یہ دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کر پاؤں گا کہ کون سی زبان بہتر تھی۔ جو گنڈاسہ دکھایا گیا وہ پنجابی کلچر والا گنڈاسہ نہیں ہے۔ ویسے تو پنجابی کلچر سے گنڈاسہ نکال دینا چاہیے ،اسے پروموٹ کرنا بےفائدہ ہے
باقی فلم دیکھنے کے بعد…

جواد شیرازی:


دا لیجنڈ آف مولا جٹ the legend of maula jatt
بھائی مانا کہ فلم ایک لارجر دین لائف شے ہوتی ہے اور اس میں زندگی سے ماورا ڈرامہ ہوتا ہی آپ کی تصوراتی حس کی تسکین پہنچانے کے لیے ہے مگر کیا وہ اس بھونڈے طریقے سے پیش کیا جاتا ہے؟یار ہم نے بالی ووڈ میں ہیلو فلم میں خدا کو انسانوں کو موبائل کال پر بات کرتے سنا،ہم نے میٹ جو بلیک میں موت کو زندہ انسانوں کے ساتھ نہ صرف میل جول کرتے دیکھا بلکہ ایک خاتون سے محبت کی پینگیں بھی بڑھاتے دیکھا مگر کیا پاکستان میں تخلیقیت اتنی گھٹیا معیار کی ہے کہ ہم اس مولا جٹ جیسی حقیقت سے میلوں دور مووی کو بنائیں؟
میں نہیں مانتا کیونکہ ابھی دو ماہ پہلے کملی جیسی شاہکار تخلیقی مووی بنی ہے۔ یہ کیا بکواس ہے کہ برگر لوگ اٹھ کر (جنہوں نے گاؤں شاید اپنی پوری زندگی میں نہ دیکھا ہو) پنجابی فلم پر ایسے ہاتھ صاف کریں جس میں اصل پنجاب ہو نہ ہی پنجابی زبان صحیح ہو۔ یہ بلال لاشاری اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ یہ کیا پاکستان کا مارٹن سکورسیسی ہے؟وی ایف ایکس کا اچھا استعمال آ گیا،کیمرہ لائیٹ وغیرہ بہتر کرنا آ گیا تو اب آپ کیا یہ واہیات سٹوری فلم کریں گے؟
میں آپ کو کیا سٹوری بتاؤں کہ گاؤں میں ہونے والی خونی لڑای کو ڈھائی گھنٹے پر کھینچا ہے۔تلواریں،گنڈا سے، نیزے، خون،کٹا ہوا سر…کیا یہ پنجاب ہے؟ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ آپ گجر دا ویر ٹائپ کوئی فلم دیکھ لیں۔ اس کا آئی کیو اس سے شاید بہتر ہی ہو۔
بلال لاشاری نے اپنے والد کے اولڈ سٹی چئیرمینی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہی قلعے میں بھرپور شوٹنگ کی مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پنجاب کا کون سا ایسا گاؤں ہے جہاں داخلے کے لیے باقاعدہ گیٹ ہوں؟پنجاب کا کون سا ایسا سرکس ہے جہاں انسانوں کی ڈنڈوں سے لڑائی ہوتی ہو؟پنجاب کا کون سا ایسا گاؤں ہے جہاں شراب خانوں میں شراب پی جاتی ہو؟
ایکٹنگ کا کیا ذکر کیا جائے کہ ہر ڈائیلاگ جب آپ نے اونچی آواز میں چہرے پر درشتی لا کر ادا کرنا ہو تو اس میں خاک اداکاری ہو گی؟فواد خان تو چلو پھر ٹھیک رہا مگر مصطفیٰ قریشی کی بھونڈی نقل کرتا اوور ایکٹنگ کا شکار حمزہ علی عباسی احمق ہی لگا ہے۔گوہر رشید کا کردار کچھ شیڈز لیے ہوئے تھے لیکن اسے کلین شیو دکھا کر بلال ایک اور حماقت کا شکار ہوا ہے۔سب سے زیادہ مزہ مجھے پاکستان کی سب سے اوور ریٹڈ اداکارہ ماہرہ خان کو دیکھ کر آیا۔ ڈائریکٹر کی حماقت سے اس کو میلے میں بغیر میک اپ کے دکھایا گیا اور گہری رات کو گہری لپ سٹک میں۔ اس کے اتنے گھٹیا ایکسپریشن تھے کہ میں تو عش عش کر اٹھا۔ اگر کچھ بہتر ایکٹنگ تھی تو حمائمہ ملک کی تھی۔ایک عورت کے لیے مستحکم لہجہ اپنا کر سفاک تاثرات دینا مشکل امر ہے لیکن اس نے بخوبی نبھایا۔
میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ مارشل لا میں چھائی سیاسی گھٹن میں اس وقت مولا جٹ لوگوں کے لیے ایک کتھارسس کا باعث تھی لیکن آج کون سا جبر ہے؟بلال لاشاری آج ہیرو کو گنڈا سہ نہیں کیمرے والے موبائل کی ضرورت ہے۔آج ہیرو کو خون کی ندیاں بہانے کی بجاے سوشل میڈیا لائیکس اور فالوورز کی فوج کامیاب کرتی ہے۔معلوم نہیں کہ خود برگر ہو کر اسے یہ شے کیوں نہیں معلوم؟
پنجابی زبان کا اس فلم میں جو بلتکار ہوا ہے اس کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں:
موت دے کنویں نہیں بھائی موت دے کھوُ ہوتا ہے
جس طرح نہیں جیِویں ہوتا ہے
اِس طرح نہیں اِنج ہوتا ہے
جد تک نہیں جِدوں تیِکر ہوتا ہے
کچھ وی نہیں نہیں کُج وی نئیں ہوتا ہے
اوسے طرح نہیں اونج ہوتا ہے
ہمیشہ واسطے نہیں ہمیشہ لئی ہوتا ہے
کسی نے نہیں کسے نے ہوتا ہے
پتھر نہیں روڑا ہوتا ہے
مجھے یقین ہے ناصر ادیب نے تو یہ نہیں لکھا ہو گا مگر ان برگروں نے اپنی روانی میں اسی طرح ادا کر دیا ہو گا۔
اگر آپ جٹ گجروں کی فلمیں پسند کرتے ہیں، لاؤڈ ساؤنڈ ایفیکٹس اور ہر ڈائیلاگ میں بڑھکیں پسند کرتے ہیں،کٹے ہوئے انسانی سر، انسانی خون سے آپ کو رغبت ہے تو پھر یہ فلم بالکل آپ کے لیے بنی ہے۔
ویسے میں حیران ہو رہا تھا کہ کملی جیسی شاہکار فلم یہاں نارمل گئی اور اس فلم کے نام پر شرمندگی کو گرینڈ اوپننگ، پھر مجھے خیال آیا کہ یہاں ایک ٹین کے خالی ڈھکن کو بھی لوگ اس لیے جان نچھاور کرنے کی حد تک پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی لاؤڈ ہے اور بڑھک باز ہے۔
یہ دونوں صفتیں ہمارے ملک میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔
اگر آپ اہلِ ذوق ہیں،پڑھے لکھے ہیں اور فلم کے نام پر کوئی کوالٹی وقت صرف کرنا چاہتے ہیں تو 🙏کر عرض ہے اس پر وقت اور پیسہ نہ ضائع کیجیے گا۔
ٹھیک ہے ہم پاکستانی سینما کو پروموٹ کرتے ہیں مگر فلم کے نام پر ہولناک مذاق برداشت نہیں ہو سکتا۔ مجھے تو شرمندگی ہو رہی ہے کہ جو ہندوستانی یا غیر ملکی اس فلم کو دیکھیں گے وہ پاکستانی پنجاب کا کیا تصور کریں گے؟
بلال لاشاری پنجاب کی عظیم دھرتی کا تصور پامال کرنے پر دل کی گہرائیوں سے لعنت۔

وارث علی:


ایک نئی فلم ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ (the legend of maula jatt)ابھی کل ریلیز ہوئی ہے اور کچھ لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی اور ہمارے ہاں اب بھی ہیرو کے ہاتھ میں گنڈاسا ہے۔ جو کہ اس فلم کے ساتھ بالکل نا انصافی ہے، پہلے تو لوگوں کو اوریجنل ”مولا جٹ“ maula jatt فلم کو بطور ایک cult سمجھنا ہوگا، لالی ووڈ میں مولا جٹ جیسا cult status شاید کسی اور فلم کو نہیں ملا۔ اس کی مثال خود یہ نئی آنے والی فلم ہے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اوریجنل مولا جٹ فلم کے نام پر ایک ہائی بجٹ فلم بن رہی ہے۔ اب اگر گنڈاسے کی بات کریں تو یہ فلم کوئی 2022 کے سال کی کہانی نہیں دکھا رہی بلکہ یہ اسی زمانے کی کہانی دکھا رہی ہے جب لڑائی کے لیے جدید رائفلز نہیں بلکہ گنڈاسے استعمال ہوتے ہیں۔ لوگ viking movies بھی تو دیکھتے ہیں یا پھر 300 یا اس جیسی اور فلیمں جہاں بادشاہ ہوتے ہیں اور ہیرو تیر تلوار سے لڑتے ہیں۔ فلمیں آپ کی روزمرہ زندگی سے relate کریں ایسا ضروری تو نہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ جب فلم انڈسٹری گری ہوئی تھی تو ایسی تھڑڈ کلاس پنجابی فلمیں بنتی رہی ہیں جو مولا جٹ والا فارمولہ لگا کر کامیابی حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کی بری سٹوری، بری ایکٹنگ اور فحاشی کی وجہ سے لوگوں نے ان فلموں کو بلکل ہی ریجکٹ کردیا، اس لیے انہیں مولا جٹ سے کمپیئر کرنا نہیں بنتا۔
پھر وہ لوگ آتے ہیں جنہیں فلم میں ”اچھا میسج“ چاہیے، بھائی آپ کو میسج چاہیے تو کوئی اخلاقیات کی محفل میں بیٹھو، کسی تبلیغی اجتماع میں چلے جاؤ (اچھے پیغام کے لیے)۔ یہ فلموں میں میسج کیوں چاہیے آپ کو؟ فلمیں تفریح کے لیے ہوتی ہیں، انٹرٹینمنٹ کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر فلم کی سٹوری، کردار، سین آپ کو اچھے لگتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ فلم اپنے بنیادی مقصد یعنی آپ کو انٹرٹینمنٹ دینے میں کامیاب ہوگئی ہے، اب اس سے کسی اچھے میسج کی ضرورت نہیں۔ کوئی ایک آدھی ایسی فلم ہوتی ہے جو کسی اہم معاشرتی مسئلے کے اردگرد بنی ہو، جیسے پاکستانی فلم بول (bol) تھی، لیکن ایسی کتنی فلمیں ہٹ ہوئیں؟ یا کتنی آپ نے دیکھیں؟ کیا آپ نے پاکستانی فلم زندہ بھاگ zinda bhag دیکھی؟ کیا آپ نے فلم کاغذ (kaaghaz) دیکھی ؟ کیا آپ نے فلم سُودیس (swades) دیکھی ؟ کیا آپ نے ہوسٹل (hostel) دیکھی؟ اور بھی بہت سی فلموں کی مثال میرے پاس ہے۔ ان سب فلموں میں ایک اچھا میسج ہے، ایک عام آدمی کی زندگی کی مشکلات دکھائی گئی ہیں، لیکن ایسی فلموں سے سینما نہیں چلتا، فلمیں چلتی ہیں انٹرٹینمنٹ کی وجہ سے۔
ہمارے ملک کی فلم انڈسٹری ابھی دوبارہ اٹھ رہی ہے اور گرو grow کر رہی ہے، اچھی فلمیں بن رہی ہیں، اس وقت زیادہ تر عوام کو ایسی ہی فلمیں پسند آتی ہیں۔

علی سجاد شاہ:


ایٹریم ہال بھرا ہوا تھا۔ فلم کے آخری ڈائیلاگ کے بعد تالیوں کی گونج میں، میں باہر نکلا ہوں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کے سینما بینوں کو ادراک ہوگیا کہ پنجابی کوئی alien زبان نہیں ہے۔ اس زبان میں ادا کیے گئے مکالموں پر ہنسا جاسکتا ہے اور ان کا لطف بھی لیا جاسکتا ہے۔
مولا جٹ اب تک کی پاکستان کی سب سے بہترین فلم ہے یا نہیں، میں اس کا فیصلہ شوبز لکھاریوں، بلاگر اور ناقدین پر چھوڑ دیتا ہوں مگر مولا جٹ پنجابی زبان کی اب تک کی سب سے بہترین فلم ضرور ہے۔ انڈین پنجابی سینیما بھی اتنا گرینڈ یونیورس تخلیق نہیں کرسکا جو بلال لاشاری نے کر دکھایا ہے۔ ایک اچھے ہدایتکار کی طرح اس نے مولا جٹ سے کردار لیے، چند مکالمے لیے اور پھر اپنا جادو چلایا۔
دوسرے ہاف میں آنے والے دوسہڑے گیت، حمزہ علی عباسی، گوہر رشید، صائمہ بلوچ کی بے داغ اداکاری کی وجہ سے اس فلم کو دو مرتبہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک بار تو لازمی دیکھیں۔

عزیر صفدر:


دی لیجنڈ آف مولا جٹ the legend of maula jatt میں سےگردن اتارنے والا سین اور ٹن ٹن ٹن والا شعر نکال دیا جائے تو اسے مہذب لوگ دیکھتے ہوئے uncomfortable نہیں ہوں گے، اوور آل فلم دیکھے جانے کے قابل ہے، گرافکس اور سیٹ تو ہالی ووڈ کے قریب قریب لگے۔ ماہرہ خان کے علاوہ سب نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ ماہرہ کی اداکاری اور بڑے میاں صاحب کی تقریر نیوز کاسٹرز سے متاثر ہوتی ہے۔ حمزہ علی عباسی اگر میڈیا میں آ کر اسلام بیچنا چھوڑ دے تو ورلڈ کلاس ایکٹر ہے، اسے پہلی دفعہ اس کی اصل جگہ دیکھا ہے۔
حمائمہ ملک نے دارو بن کر کمال کر دیا، تالاب والا سین اس کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا، اتنے سخت سینسرشپ والے ماحول میں اس مضبوط کردار کے لیے جگہ نکالنا اپنے آپ میں کمال ہے۔
باقی مجھے سٹوری، پلاٹ، ڈائیلاگ ڈیلیوری، سکرین پلے، میوزک اور سینمیٹوگرافی وغیرہ کا زیادہ نہیں پتا تو ان سب چیزوں کے ساتھ فواد خان کے بڑے کردار پر بھی تبصرہ نہیں کروں گا۔
یہ مووی صرف بڑی سکرین کے لیے بنی ہے، ضرور دیکھیں، لیکن اس سے پنجاب کو جج مت کریں پنجاب ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی بندہ پنجاب نہ آیا ہو تو اسے فلم دیکھ کر ایسا لگے کہ پنجاب میں یا تو وحشی رہتے ہیں یا پھر بے غیرت۔
یہ پنجاب کی نہیں ایک خیالی دنیا کی کہانی ہے، اسے اسی نظر سے دیکھیں۔
بلال لاشاری نے پاکستان سینما میں نئی روح پھونکی ہے، شاید یہ چراغ مہتاب بن جائے، کیا پتا؟
رات 2 سے 5 بجے والا شو بھی ہاؤس فل ہونا اس بات کی نشانی ہے۔

تنویر آفریدی:


ضروری نہیں کہ بڑی پروڈکشن عظیم فنکاروں کا نیم البدل بھی ہو…
سو اور دو سو کروڑ کی دعوے دار فلم پاکستان کی سب سے بڑی اشتہاری مہم کے باوجود پورے ملک سے عوام کو سنیما گھروں تک لانے میں ناکام رہی آج فلم کی ریلیز کا دوسرا دن تھا۔ امید تھی کہ سنیما گھر کے باہر عوام کا بے قابو ہجوم ہوگا ٹریفک پولیس ٹریفک کی بحالی کے لیے موجود ہوگی لیکن سب خلاف توقع ہوا اگرچہ میں ابتداء ہی سے یہی نتیجہ اخذ کررہاتھا۔
مولا جٹ کی دن رات تشہیر نے اسے ایک برانڈ تو بنا دیا تھا لیکن فلم کو برانڈ بنانے سے زیادہ توجہ اس کے تخلیقی مواد پر مرکوز ہونی چاھئے اور وہ بھی مولاجٹ کے معاملے میں جسکا نام سنتے ہی ذہن و دل میں سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، آسیہ چکوری جیسے عظیم فنکار سامنے آ کر کھڑے ہو جائیں۔
اس قدر بڑی پروڈکشن کا اسکرین پلے کس قدر بڑا ہونا چاہیے یہ اندازہ مسلسل فلم دیکھنے والا کوئی بھی فلم بین با آسانی لگا سکتا ہے۔ ساری پروڈکشن کا دارو مدار اگر موت کے کنویں جیسے ایک ایک مقام پر لڑی جانے والی لڑائی سے ہے تو ڈائریکٹر کی سوچ کے قربان جائیے۔ سمجھ نہیں آیا کہ فلم میں کس معاشرے کس مذہب کس تہذیب یا کس قوم کو دکھایا گیا ہے؟ کردار پنجابی بول رہے ہیں زکرکوٹ مٹھن کا ہے جس کی زبان سرائیکی ہے لباس نہ جانے کون سے خطے کے ہیں؟؟؟ صرف پروڈکشن مہنگی بتانے کے لیے سارے اسکرپٹ کو کنفیوز کردیا گیا۔ مذہب بھی کنفیوز، بچھو مار دھونی دینے والامذہب ڈھونڈنا پڑے گاکہ کون سا کہلاتا ہے؟
فلم بہت ڈارک ہے، اندھیرے میں دو گھنٹے چالیس منٹ بیٹھ کر اندھیرا ہی دیکھا تو کیا دیکھا۔
لوی ڈوی گوچی گوچی،ببلو ڈبلو فواد خان کو داڑھی مونچھیں لگا کر اگر مولا جٹ بنایا جاسکتا ہے تو پھر انجمن کو مونچھیں لگا کر نوری نت بھی بنایاجاسکتا ہے۔ مزکورہ مولا جٹ کا پرانی مولا جٹ سے مقابلے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ عظیم فنکاروں کی عظیم فلم تھی کاش گوچی گوچی فواد اور چیکو چیکو حمزہ کی فلم کا نام کچھ اور ہوتا تو شاید یہ فلم بچ جاتی۔ لیجنڈز آف مولاجٹ legends of maula jatt میں ماہرہ خان اپنے تمام تر اسٹارڈم کے باوجود حمائمہ ملک کی دھواں دار پرفامنس کے آگے دکھائی ہی نہیں دی۔ فلم کی ایک اور ہائی لائٹ گوہر رشید ہے جس نے ماضی کی مولا جٹ میں ادیب والا کردار نبھایا اور تمام بڑے اسٹارز پر حاوی دکھائی دیا۔ ماضی کی فلم میں آسیہ والا رول ماہرہ نے برباد کیا جبکہ راہی مرحوم کے کردار کو فواد نے بد رنگ بنادیا البتہ حمزہ مصطفیٰ قریشی صاحب کے لب و لہجے کی نقل کرکے کسی حد تک بچ گیا۔کاش مولا جٹ کاکردار شان سے کرا لیا جاتا تونتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔
روایتی فلمی اداروں بابرعلی، ریشم شفقت چیمہ اور نیر اعجاز کو بری طرح ضائع کرکے روایتی اداکاروں کو پیغام دیا گیا کہ اب تم لوگوں کی اتنی ہی جگہ ہے باوجود اس کے فلم کا بوجھ انہی چند عظیم فنکاروں نےاپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔
فلم کا سب سے بڑا المیہ موسیقی ہے۔ یہ کام موجودہ فلم سازوں کو سرے سے آتا ہی نہیں۔ پاکستانی پنجابی فلم وہ بھی دو گھنٹے چالیس منٹ وہ بھی سنگیت کے بغیر؟ ایک سچویشن میں جہاں صائمہ بلوچ سے رقص کرایا گیا وہاں بھرپور فلمی ماحول نظر ہی نہیں آیا، کم از کم دیوداس جیسا رقص اور موسیقی ہونی ہی چاہیےتھی لیکن ایسا لگا کہ جیسے چائے کاکوئی اشتہار چل رہا ہےاور لڑکی کا شرارہ گول گھومنے کے بعد ایک ٹیگ لائن آجائے گی (مزہ زندگی بھر کا)
موت کا کنواں دو گاؤں ایک جیل دس پندہ اداکار چالیس پچاس ایکسٹراز چالیس کروڑ بجٹ کی باتیں دوسو کروڑ کاروبار کے دعوے۔ میں نے خود دو شوز کی عوام دیکھی گیلری میں سو سے کم افراد تھے دوسرے ملٹی پلیکسز میں بھی کم و بیش یہی صورتحال بتائی گئی۔
ناصر ادیب صاحب نے اپنے اسکرپٹ کی ترتیب اور منظر نامے میں درد و بدل پر جو سمجھوتا کیا وہ انہیں بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پر فارمی سنیما کی ایک بڑی امید بھی دم توڑ گئی۔
لیکن میں گزارش کروں گا کہ یہ فلم ایک بار ضرور دیکھیں اور یہ ذہن نشیں کر کے جائیں کہ آپ مولا جٹ نہیں بلکہ فواد خان کی نئی فلم دیکھنے جارہے ہیں۔

دانش احمد انصاری:


1979ء میں ریلیز ہونے والا مولا جٹ کے بارے میں بہت سن رکھا تھا کہ اس فلم نے پاکستان میں بڑے بڑے ریکارڈ قائم کیے اور ریکارڈ توڑے بھی، لیکن کبھی یہ فلم دیکھنے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ اب جبکہ ”دی لیجنڈ آف مولاجٹ“jatt the legend of maula سینما گھروں کی زینت بننے والی تھی تو ایسے میں بطور فلم ناقد کے میں نے سوچا کہ پہلے مولا جٹ دیکھ لی جائے، تا کہ دونوں فلموں کا موازنہ بھی کیا جا سکے اور دیکھا جا سکے کہ کہاں دونوں فلموں میں لوپ ہولز موجود ہیں اور کہاں زیادہ بہتر کام کیا گیا ہے۔ چنانچہ مولا جٹ maula jatt میں نے ستمبر کے شروع میں ہی دیکھ لی۔ فلم میں درجنوں خامیاں نظر آئیں، جیسے پوری فلم میں کیمرہ مین کیمرے کو ایسے ہلا رہا ہے، جیسے گھوڑے پر سوار ہو کر فلم شوٹ کی جارہی ہو۔ اسی طرح ایکشن مناظر وہی روایتی تھے، شاید اس زمانے میں محدود وسائل میں ایسا ہی کچھ تیار کیا جانا ممکن ہو، البتہ فلم کے مکالمے بہت دلچسپ تھے، جو آج بھی اکثر لوگ دھراتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح فلم میں پنجاب کے کلچر کو بھرپور طریقے سے دکھانے کی شعوری کوشش کی گئی تھی، میں ”شعوری“ کیوں کہا یہ یہ آگے جا کر بتاتا ہوں۔
اب آتے ہیں نئی ریلیز ہونے والی فلم ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ )the legend of maula jatt)کی طرف…
بھیا! سب سے پہلے تو میں اس فلم کی تمام کاسٹ اور خصوصی طور پر بلال لاشاری bilal lashari کو سلام پیش کرتا ہوں، مجھے یہ دیکھ کر بیک وقت حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ پاکستان میں اس قدر اعلی پائے کی فلم بنائی گئی ہے۔ یعنی فلم کی سینماٹو گرافی سے لے کر ڈائیلاگز تک اور کاسٹیوم سے لے کر وی ایف ایکس اور سیٹ تک، ہر چیز لاجواب ہیں، براوو۔
اگر یہ فلم انڈیا میں ریلیز ہوتی تو شاید بڑے ریکارڈ توڑتی۔ یہ میرے جذبات ہیں، ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ (the legend of maula jatt) کی کہانی اگرچہ پہلی والی فلم سے کچھ مختلف ہے، لیکن یہ فلم پریڈکٹ ایبل Predictableتھی، یعنی ناظرین اندازہ لگا سکتے تھے کہ اب اگلے سین میں کیا ہونے والا ہے، یوں سسپنس والا احساس صرف چند مناظر تک ہی محدود رہا۔ فلم دیکھنے کے بعد پہلا تاثر جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ اس کہانی پر ایک مکمل سیزن عکس بند کیا جا سکتا ہے اور یقینی طور پر اگر اس فلم کو کم سے کم وقت میں بھی کٹ کیا جائے تو یہ3گھنٹے کی بنتی ہے، لیکن 2گھنٹے اور20منٹ تک محدود رکھنے کی وجہ سے کئی ایسے مناظر مس کر دیے گئے، جو میرے ذہن میں تھے کہ اب یہ ہونا والا ہے۔
مثال کے طور پر اکثر ایسے ایکشن مناظر تھے، جن کے بارے میں ، میں سوچ رہا تھا کہ اب اگلے منظر میں سنسنی خیز میوزک کے ساتھ ہیرو کھیتوں میں سے دوڑتا ہوا اپنی منزل کی جانب جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ ہیرو ایک جگہ سے دوڑنا شروع ہوا اور اگلے ہی لمحے یا اگلے ہی منظر میں وہ اپنی منزل تک پہنچ گیا، میں سمجھ سکتا ہوں کہ محدود وقت کی وجہ سے بہت سے مناظر کٹ کرنے پڑگئے۔ تاہم فلم کی کہانی، وی ایف ایکس، مکالموں، اداکاری ، حتیٰ کہ کہیں بھی مجھے جھول نظر نہیں آیا۔ ہر کردار کے ساتھ انصاف کیا گیا اور ہر کردار کو سکرین پر آنے کا مناسب وقت دیا گیا۔
ایکٹنگ کی بات کروں تو سب سے لاجواب اداکاری میری رائے میں حمائمہ ملک اور گوہر رشید نے کی ہے۔ او ہو ہو ہو…کمال است۔ میں نے کبھی حمائمہ کو بڑی سکرین پر نہیں دیکھا۔ حمائمہ نے اچھی پنجابی بولی۔ میں بذات خود روزمرہ زندگی میں پنجابی نہیں بولتا، لیکن مجھے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کس لہجے یا کس روانگی سے بول رہا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات حمائمہ کمال ہے آپ کی اداکاری ، خاص طور پر سنسر شپ سے بیچ بچاؤ کر کے حمائمہ سے جو پول والا سین کروایا گیا ہے، یہ سین شاید حمائمہ ہی اس بہترین انداز میں ادا کار سکتی تھیں۔
گوہر نے چند ڈائیلاگ ایسے بولے کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ سائیکو کردار، جو کہ میرے نزدیک اداکاری کی دنیا میں ایک مشکل کردار سمجھا جاتا ہے گوہر نے بڑی مہارت سے نبھایا ہے، خوب است…
فواد نے اچھی اداکاری کی، مکالمے بھی بھرپور ادا کیے، لیکن کوئی آؤٹ آف دی باکس پرفارمنس نہیں تھی، جس پر ان کی بہت زیادہ تعریف کی جائے، ہاں اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔ حمزہ علی عباسی نے جو کر دکھایا ہے، میں تو فین ہو گیا ہوں بھائی! ان کی آواز میں وہ جادو نظر آیا، جس کے بغیر شاید یہ فلم مکمل نہ ہو پاتی، بھاری بھرکم، رعب اور دبدبے والی خوفناک آواز اور زبردست اداکاری۔
آخر میں چند لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینا چاہوں گا اور اوپر ریویو کے شروع میں جو ”شعوری“ والی بات کی اس کے حوالے سے بھی بتا دوں کہ فلم میں پنجابی کلچر کو نہیں بلکہ شعوری طور پر کچھ اور ہی دکھایا گیا ہے۔ آپ بس ایک کام کریں کہ بلال لشاری کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویو سن لیں، انہوں نے صاف بتا دیا ہے کہ فلم کی کہانی زماں اور مکاں سے پرے ہے، یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ فلم کی کہانی کس زمانے کی عکاسی کر رہی ہے۔ یعنی یہ کہانی آپ کو ایک ایسی فکشنل دنیا میں لے جاتی ہے، جس میں پنجابی کلچر کی رمق بھی ہے اور فکشن کے لوازمات بھی۔ اسے آپ گیم آف تھرونز کی جادوئی دنیا کی طرح کا فکشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی پنجاب میں آپ کہیں بھی ایسے اکھاڑے یا موت کے کنوے نہیں دیکھیں گے، جس میں گنڈاسے اور تلواروں سے لڑائی ہوتی ہو، یا ماضی میں ایسا کیا جاتا ہو، بلکہ اسے بھی فکشنلی ہدایتکار بلال نے اپنی طرف سے ایڈ کیا ہے تاکہ فلم میں دلچسپی کا سامان پیدا ہو سکے۔ فلم میں گانا کوئی نہیں اور شاید اتنی سیریس فلم میں بنتا بھی نہیں تھا۔ میرے رائے میں اگر گانا ایڈ ہو جاتا تو پھر بھی ٹھیک تھا، لیکن ایک فلو میں کہانی چل رہی تھی، گانے نے اس فلو کو خراب کر دینا تھا۔
بہرحال میری طرف سے فلم کو 10میں سے 10نمبر۔ کمال است، کمال است، کمال است۔

محمود ظفر اقبال ہاشمی:


جس شخص نے بچپن میں اپنے اکلوتے بیٹے کو تلوار، بندوق اور پستول جیسا کوئی کھلونا محض اس وجہ سے لے کر نہ دیا ہو کہ اس کے خیال میں اس سے بچوں کی نفسیات میں تشدد، ہیجان اور ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے، وہ بھلا تشدد، قتل و غارت اور دشمنی سے بھرپور ورک آف آرٹ کیسے پسند کرسکتا ہے…مگر کیا کیجیے، فلم تو بس ایک فلم ہوتی ہے، ٹکٹ پر پیسے خرچ کرکے پاپ کارن کھاتے ہوئے دو تین گھنٹے اصل زندگی سے فرار، خواہ اس میں انسانوں کا قتل ہو یا انسانیت کا، بس اسے تیکنیکی طور پر نہایت مہارت کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے!
بلاشبہ پونے تین گھنٹے پر محیط “دی لیجنڈ آف مولا جٹ” بحیثیت ہدایت کار بلال لاشاری کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس معیار کی ایکشن فلم کم از کم پاکستان میں پہلے کبھی نہیں بنی، فلم کے ایکشن sequences کسی طرح ہالی ووڈ سے کم نہیں، اس کی عکاسی، تدوین، صوتی اثرات، کاسٹیومز، آرٹ ڈائریکشن، بیک گراؤنڈ موسیقی اور لوکیشن کا انتخاب نہایت اونچے درجے کا ہے، اس کی کہانی تقریباً بے عیب اور مکالمے برجستہ ہیں۔ بلال لاشاری اور ان کی پوری ٹیم ایک شاندار فلم پیش کرنے پر بھرپور مبارک باد کے مستحق ہیں!
مگر مجھے اس فلم کے حوالے سے کچھ شدید اعتراضات بھی ہیں!
اس فلم کی کہانی کو بلال لاشاری نے اپنی perception کے مطابق تبدیل اور پیش کیا ہے مگر یہ پہلی مولا جٹ کے دو خوب صورت عناصر empathy اور انصاف سے یکسر عاری ہے۔ پہلی مولا جٹ فلم میں مولا جٹ کا دشمن کی بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے بہن کہنا اور آخر میں جب مولا جٹ کے ہاتھوں نوری نت کا انجام محض آخری وار کے فاصلے پر تھا تو اسی منہ بولی بہن دارو کی مداخلت پر مولا جٹ کا نوری نت کی جان بخش دینا اور پھر نوری نت کا اپنی ٹانگ خود کاٹ کر انصاف کے تقاضے پورا کرنا…دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں نوری نت کے ہاتھوں میں رحم کی کوئی لکیر نہیں اور قتل اس کا شوق ہے!
دی لیجنڈ آف مولا جٹ barbarian اور gladiators دَور کی نمائندگی کرتی ہے جب کسی پولیس اور قانون کا تصور نہیں تھا۔ غالباً یہ اس دَور کے جٹ اور نت قبیلے کی کہانی ہے (نت دراصل جٹ قبیلے ہی کی ایک شاخ ہے) جب یہ دونوں راجپوت قبیلے مذہب اسلام کی بندشوں سے آزاد تھے (فلم کے پہلے ہاف میں مولا جٹ کی کثرت مے نوشی سے یہی تاثر اُبھرتا ہے)۔ بلال لاشاری کے ذہن میں یقیناً بین الاقوامی فلمی معیار اور مارکیٹ ہوگی جہاں شاید دی لیجنڈ آف مولا جٹ فلم اس شکل میں قابلِ قبول ٹھہرتی ہے!
مجھے اس فلم کی کاسٹنگ پر شدید اعتراض ہے۔ شدید محنت کے باوجود مرکزی کرداروں (سوائے حمزہ علی عباسی کے) فواد خان، ماہرہ خان، گوہر رشید اور دیگر پنجابی لہجہ اور تلفظ اپنانے میں ناکام رہے، حتی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود حمیمہ ملک اور فارس شفیع بھی ٹھیٹھ پنجابی تلفظ قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے!
جس دیسی فلم میں کوئی گانا نہ ہو مجھے وہ بغیر چاند کا آسمان لگتا ہے۔ کم از کم دو ایسے مواقع ایسے تھے جب دو گانے فلم کا حصہ بن سکتے تھے۔ میرے خیال میں ماہرہ اور فواد کا تاروں بھرے آسمان تلے سین اور آخر میں جشن کے سین فلم میں دو بہترین گانوں کی وجہ بن سکتے تھے۔ عین ممکن ہے یہاں بھی بلال لاشاری کے ذہن میں ہالی ووڈ فلم کا معیار تھا مگر کیا کروں، دیسی فلم بین ہوں سو تشنگی رہ گئی!
کیا میرے دیس کی مٹی سے جڑی ایسی کوئی کہانی نہیں جس پر بین الاقوامی معیار کی فلم بنائی جاسکے؟ کوئی ایک ایسی کہانی جو دنیا کو محبت، انسانیت، امن، برداشت، انصاف اور اتحاد کا پیغام دے سکے؟
خون خرابے، عداوت اور تشدد سے بھرپور فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ صرف ایک بار دیکھنے کا لائق ہے، وہ بھی اس لیے کہ مَیں پاکستانی سینما کا عروج پھر سے دیکھنے کا متمنی ہوں۔ کاش کوئی نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اور انہیں نئے دَور کے تقاضوں میں ڈھال کر ہماری کلاسیک فلمیں ہیر رانجھا، آئینہ، بندش، ارمان، نیند اور انتظار بھی بنانے کے متعلق سوچے، کوئی سید نور کی سرگم جیسی منفرد میوزیکل فلم پھر سے بنائے۔ اگر پرانی فلموں کا ری میک نہیں تو کیا ہمارے فلم رائٹرز کے ذہن اتنے بانجھ ہوچکے ہیں کہ وہ بار بار دیکھے جانے کے قابل بالکل نئی فلمی کہانیاں تخلیق نہیں کرسکتے جو آج کے دَور سے مطابقت رکھتی ہوں؟ میرے پاس ”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ کے لیے دس میں سے پانچ نمبر ہیں!

عارف انیس:


مولے نوں مولا نہ مارے!
آج لندن کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ایک خاص دعوت پر “لیجنڈ آف مولا جٹ” کی خصوصی سکریننگ دیکھی۔
بلال لاشاری اور ٹیم نے کمال کر دکھایا۔
اگر سال بھر میں ایک پاکستانی فلم دیکھنی ہے تو یہ فلم دیکھیے گا۔ یہ فلم سینماٹوگرافی، ساؤنڈ اور تکنیک کے حوالے سے شاید لالی ووڈ کی سب سے انقلابی چھلانگ ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ فلم پر بالی ووڈ کی کوئی چھاپ نہیں ہے. اس نے اوریجنل فلم کو بھی نئی زندگی بخشی ہے۔
خون خرابہ زیادہ ہے مگر اس ضمن میں “ارطغرل” سے کم ہے، ہاتھ ہولا رکھا گیا ہے۔
گیم آف تھرونز اور گلیڈی ایٹر کا پنجابی الاپ ہے۔
پوری فلم میں ایک گانا بھی نہیں، ایک الاپ ہے اور وہ خوب ہے۔
پنجابی ہے مگر گوڑھی نہیں۔ فلم دیکھنے والی ٪70 خواتین تھیں جو بی بی سی، سکائی، فیس بک اور اسی طرح کے بین الاقوامی اداروں سے وابستہ تھیں۔
اداکاری خوب ہے۔ تقریباً ہر کردار نے کھل کر ایکٹنگ کی ہے۔خواتین کا کردار بھی زوردار ہے اور ولین تو زوردار ہے ہی سہی۔
فلم کے دوران حاضرین نے تقریباً سات بار تالیاں بجا کر داد دی۔ سب سے زیادہ تالیاں نوری نت کے گرنے پر بجیں۔
پاکستانی سینما کی ری برتھ خوش آئند خبر ہے!

شکیل احمد چوہان:


بلال لاشاری کی دی لیجنڈ اف مولا جٹ “the legend of maula jatt”
اس فلم کا ٹریلر دیکھ کر ہی مجھے لگا یہ پاکستان کی تیکنیکی اعتبار سے اب تک کی سب سے بہترین فلم ہو گی۔ آپ میری بات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔
انسان کے کیے کاموں میں غلطی رہ ہی جاتی ہے یقیناً اس فلم میں بھی غلطیاں ہوں گی، مگر میرے حساب سے خوبیاں بہت زیادہ ہیں۔
اب جن کا کام ہی تنقید کرنا ہے وہ کیا کریں….؟
کسی کو اس کے پوسٹر میں سارے کردار قصاب دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو ہالی وڈ کی بری سے بری فلم کی بھی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
کسی یوٹیوبر کو اس بات پر غصہ ہے کہ فلم کی کاسٹ ان کے پاس انٹرویو دینے خود کیوں نہیں پہنچی۔
ایک صاحب سالوں سے فنون لطیفہ سے جڑے ہیں مگر مجال ہے خود کبھی شارٹ فلم بنانے کی بھی ہمت کی ہو مگر دوسروں کی بنائی فیچر فلموں پر تنقید کرنے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتے۔
ایک جناب تو انگلش میں رائٹ اپ لکھ کر پنجابی زبان میں بننے والی مولا جٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے پائے گے ہیں۔
پنجابی زبان کی بات چل پڑی ہے تو اس پر بھی تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں۔
آپ پنجاب میں بائی روڑ سفر کریں تو ہر 50 کلو میٹر کے بعد پنجابی زبان کا لب و لہجہ بدلتا چلا جائے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں پنجابی فلموں کا ہر اداکار ٹھیٹ پنجابی ہی بولتا رہا ھے ، پرانی ”مولا جٹ“ maula jatt کی ہی مثال لے لیں، کیا اس میں ”نوری نت“ noori natt کا کردار نبھانے والے عظیم اداکار مصطفیٰ قریشی صاحب (mustafa qureshi) کا لب و لہجہ ٹھیٹ پنجابی تھا کیا…؟
اسی طرح ماکھا نت کا کردار نبھانے والے ”ادیب صاحب“ کے لہجے سے پنجابی بولتے ہوئے بھی اُردو کی خوشبو آ رہی تھی، مگر کسی نے ان پر اس طرح تنقید نہیں کی جس طرح آج کی مولا جٹ میں کام کرنے والے اداکاروں پر کی جا رہی ہے۔
انڈیا میں درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جب بڑے بڑے ادکاروں نے پنجابی کردار نبھائے تو ان کا لہجہ ایسا نہیں تھا جیسا پنجاب کی دھرتی سے جنم لینے والے پنجابی اداکاروں کا ہوتا ہے۔
انڈین پنجابی فلم ”بھا جی ان پرابلم“ (bhaji in problem) اس فلم میں گریٹ اوم پوری (om Puri)نے بھی کام کیا تھا، کیا ان کا لب و لہجہ اس فلم کی دوسری کاسٹ جیسا ہی تھا…؟
اسی طرح پاکستانی فلم ”زندہ بھاگ“ (zinda bhag) کی مثال لے لیں ۔کیا اس فلم میں پہلوان کا کردار نبھانے والے عظیم نصیر الدین شاہ (naseer udin) کا لب و لہجہ خالص لاہوری تھا…؟ کیا ہمیں اس لہجے کو جواز بنا کر شاہ صاحب اور پوری صاحب کی عظمت سے ہی انکارکردینا چاہیے…؟
میرے پسندیدہ ترین اداکار ”عرفان خان“(irfan khan) نے قصہ نامی فلم میں ایک سکھ (ਸਿੱਖ) کا کردار نبھایا تھا کیا اس فلم میں عرفان صاحب کا لہجہ اور تلفظ ٹھیٹ پنجابی تھا…؟
حال ہی میں عامر خان (amir khan) کی فلم لال سنگھ چڈھا (lal singh chadda) کو ہی دیکھ لیں ۔ کیا اس میں عامر خان جیسے بڑے اداکار کا لب ولہجہ کسی بھی اینگل سے پنجابی لگ رہا ہے…؟
اگر اتنے بڑے بڑے اداکار اپنے رول کے مطابق ٹھیٹ پنجابی یا پنجابی لہجہ نہیں اپنا پائے تو …اس فلم کی کاسٹ کو بھی تھوڑی سی رعایت دے دیں۔
اس معمولی سی کمی کو چھوڑیں اور فلم کی ایڈوانس بکنگ کروائیں۔ ہم تو اس فلم کی ٹکٹیں لے چکے ہیں۔
میں نے اوپر بھی عرض کیا کہ بلال لاشاری کی یہ فلم ہر لحاظ سے پاکستان کی سب سے بہترین اور شاندار فلم بننے جارہی ہے۔ جس کے لیے میں ایڈوانس میں ہی فلم کی پوری ٹیم کو مبارک باد دیتا ہوں۔
امید ھے بزنس کے لحاظ سے بھی دی لیجنڈ اف مولا جٹ (the legend of maula jatt) پاکستانی سینما کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔
فلم دیکھنے کے بعد شکیل احمد چوہان کے تاثرات:
میں ہر اچھی فلم پہلی فرصت میں سینما جا کے دیکھتا ہوں اور دوستوں کے ساتھ نجی محفلوں میں ان فلموں پر دل کھول کر بات بھی کرتا ہوں، مگر سوشل میڈیا پر میں نے کبھی کسی فلم پر تفصیلی رائے نہیں دی۔
مولا جٹ کے حوالے سے کافی سارے دوستوں نے مجھے کہا کہ میں اس فلم پر کچھ لکھوں سچ پوچھیے تو میں خود بھی اس فلم پر بات کرنا چاہ رہا تھا، کیونکہ یہ فلم اس قابل ہے۔
اپنی بات کے بعد اب آتے ہیں فلم کی طرف…
پرانی مولا جٹ maula jatt اور دی لیجنڈ اف مولا جٹ the legend of maula jatt میں چھ کرداروں اور چند مکالموں کے علاوہ کوئی مماثلت نہیں ہے۔ ان میں سے بھی چند کردار صرف نام ہی کی حد تک پرانی فلم سے ملتے ہیں۔ اس فلم کے کرداروں کی دنیا ہی الگ ہے۔ اس فلم میں ایک تصوراتی پنجاب دکھایا گیا ھے جو اسے دوسری تمام پنجابی فلموں سے الگ کھڑا کرتا ہے۔
مولا جٹ کی کہانی عام سی بدلے کی روایتی کہانی ھے۔ جسے بڑے اچھے اور نئے انداز کے ساتھ اسکرین پر پیش کیا گیا ہے۔
یہ ایک Timeless کہانی ہے اس کے باوجود ہے، یہ بتانا ضروری تھا کہ جس جیل میں نوری نت قید ہے وہ کس نظام کے تحت کام کر رہی ھے…؟ اس سوال کا جواب فلم دیکھتے ہوئے نہیں ملتا۔ میرے نزدیک یہ اس کہانی کا اکلوتا جھول ہے۔
فلم کا اسکرین پلے ایک لمحے کے لیے بھی دیکھنے والوں کی توجہ کسی دوسری جانب نہیں جانے دیتا۔ اسکرین پلے بڑی برق رفتاری سے آگے بڑھتا ھے اور ہر وقت اسکرین پر ایک ہلچل سی مچی رہتی ہے۔ جب جب مولا اور مکھو اسکرین پر آتے ہیں تب تب وہ ہلچل چند منٹوں کے لیے تھم سی جاتی ہے۔ اسکرین پلے کا تھم جانا بھی اس کی خوبی ہی ہے، فلم دیکھتے ہوئے آپ کو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا۔ مکھو کا کردار دشمنی کی بنجر زمین پر کھلے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند ہے اور مولا ایک ہیرے کی طرح جو صرف مکھو جیسے پھول کی پتیوں سے ہی کٹ سکتا ہے۔
ناصر ادیب صاحب (nasir adeeb)کے مکالموں کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ پرانی مولا جٹ سے چند ہی مکالمے لیے گئے ہیں مگر ان کو جن سچویشنز میں استعمال کیا گیا ہے وہ بہت ہی شاندار ہیں۔
تمام اداکاروں نے اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے۔ خاص طور پر حمزہ علی عباسی اور حمائمہ ملک ان دونوں نے تو اپنے اپنے کرداروں کو امر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹے سے کردار میں صائمہ بلوچ نے بھی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔
ماضی کی فلموں میں مولا کا کردار نبھانے والے سلطان راہی صاحب (sultan rahi) اور شان صاحب (shan) کے سائے سے بھی بچتے ہوئے فواد خان (fawad khan)نے مولا کا کردار اپنے انداز سے نبھایا ہے اور یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس کے برعکس حمزہ علی عباسی ایک دو مقام پر چند لمحوں کے لیے پرانے نوری نت جناب مصطفیٰ قریشی کے پاس سے گزرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا بلال لاشاری نے ان سے شعوری طور پر کروایا ھے۔
فلم کے ٹیکنکل شعبوں کی اگر بات کریں تو تیکنیکی اعتبار سے اس سے اچھی فلم آج تک پاکستان میں نہیں بنی۔ یہ فلم بالی ووڈ سے بہت آگے اور ہالی وڈ کے قریب قریب پہنچ جاتی ہے۔
یہ سارا کمال بلال لاشاری (bilal lashari) جیسے Genius کا ہے جس نے محدود سے بجٹ اور مختصر ترین وسائل کے ساتھ یہ کارنامہ کر ڈالا۔ اس کارنامے کے لیے بلال صاحب کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
فلم کے لیے جو بھی سیٹ لگائے گے ہیں وہ سب پردہ اسکرین پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے علاوہ مغلیہ دور کی عمارتوں خاص طور پر لاہور کے شاہی قلعے کو اتنی ذہانت کے ساتھ پردہ اسکرین پر دکھایا گیا ہے کہ دیکھنے والے اسے پہچان ہی نہیں پائیں گے۔
آرٹ ڈائریکش ہی کی طرح فلم کے کاسٹیوم بنانے والوں نے بھی فلم کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
بیک گراؤنڈ Vfx، سینماموٹو گرافی، ایڈٹینگ اور ایکشن ان تمام شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کمال کر دکھایا ہے، مزے کی بات یہ ہے ان میں سے بھی بہت سے شعبوں میں بلال لاشاری ہی پیش پیش ہیں۔
ہمارے ملک میں آج کل ایک اور چلن پروان چڑھ رہا ہے کہ ہم اپنے اپنے شعبوں میں برا کام کرنے والوں کو تو کچھ نہیں کہتے، ہاں اچھا کام کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بناتے ہیں۔ آج کل یہی کچھ اس فلم کے ساتھ سوشل میڈیا کے کچھ دانشور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کی باتوں پر کان نہ دھریں… اگر آپ اچھی فلم کے شوقین ہیں تو آپ کو بلال لاشاری کے اس ماسٹر پیس کو سینما میں جاکر ضرور دیکھنا چاہیے۔

Leave a Comment