The end of the f***ing world

تبصرہ: محسن حیات شارف

”میں جیمز ہوں۔ سترہ سال کا اور مجھے یقین ہے کہ میں سائیکو ہوں۔“
جیمز کہ جسے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ خوشی، دکھ، تکلیف کسی بھی طرح کا کوئی احساس اس میں نہیں۔ اس لیے چھوٹی عمر میں ہی اپنا ہاتھ جلا لیا اور بلی ،چوہوں جیسے چھوٹے چھوٹے جانور مارنے شروع کر دیے تاکہ وہ کچھ محسوس کر سکے مگر وہ اس میں ناکام رہا اور آخر اس نے فیصلہ کیا کہ کچھ محسوس کرنے کے لیے کوئی بڑا قتل کیا جائے اور اس کے لیے ایلیسیا ٹھیک رہے گی۔
”اور یہ ہے ایلیسیا۔ جو ہر بات کو بہت شدت سے محسوس کرتی ہے۔“
جو اپنی ماں، سوتیلے باپ اور دو ننھے جڑواں سوتیلے بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اپنے باپ کے پاس جانا چاہتی ہے۔ کیونکہ اس گھر میں اپنے سوتیلے باپ کے سامنے اسی اپنی ماں کی حیثیت کا اچھی طرح علم ہے کہ وہ کبھی بھی اس کے لیے نہیں بول سکے گی۔ بہتر یہی ہے کہ وہ گھر سے بھاگ کر باپ کے پاس چلی جائے۔ اور اس کام میں اس کا ساتھ دینے کے لیے جیمز بہتر رہے گا۔
اور پھر شروع ہوتا ہے ان کا سفر کہ جس میں لڑتے جھگڑتے ایلیسیا اپنے باپ تک پہنچنا چاہتی ہے اور جیمز کسی ایسے موقع کی تلاش میں کہ وہ چوہے بلیوں کو مارنے سے ایک قدم آگے بڑھے اور اسی دوران ان کے ہاتھوں ایک پروفیسر کا قتل ہو جاتا ہے۔ یہ قتل ان پر کیسے نفسیاتی اثرات ڈالتا ہے۔ ان کی شخصیات میں کیا توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور ان کے خیالات میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ شاندار عکاسی کی گئی ہے۔ اس قتل کو چھپانے اور سفر جاری رکھنے کے لیے وہ مزید جرم کرتے ہیں اور شک اور تفتیش کا دائرہ ان کے گرد تنگ ہوتا جاتا ہے۔
مرنے والے پروفیسر کی گرل فرینڈ بونی انتقام لینے کے لیے ان کا پیچھا کرتی ہے۔ ہر قسط کے ہر سین میں تجسس برقرار رہتا ہے۔ بونی کا یہ جملہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ
”میں نے سزا کے بارے میں بچپن سے ہی جان لیا تھا اور یہ بھی کہ یہ سزائیں بہتری کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔“
اس سیریز میں دراصل مختلف انسانوں کی نفسیات کو بہتر طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ الجھی پیچیدہ نفسیات کو ڈسکس کرتی اچھی سیریز ہے۔

Leave a Comment