جواب: کالم نویسی…تاریخ پاکستان کے پس منظر میں:
جب پاکستان بنا تو اس وقت لاہور اُردو صحافت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اس وقت یہاں زمیندار، آزاد، نوائے وقت، انقلاب اور احسان شائع ہو رہے تھے۔ ہندو اخبارات ہندوستان میں منتقل ہو گئے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت روزنامہ انقلاب میں مولانا عبدالمجید سالک کا فکاہی کالم ”افکار و حوادث“ روزنامہ ”احسان“ میں مولانا چراغ حسن حسرت کا کالم ”سند باد جہازی“ کے قلمی نام سے روزنامہ آزاد میں مجید لاہوری کا کالم ”مطائیات“ روزنامہ زمیندار میں علامہ لطیف انور کا کالم ”فکاہات“ اور روزنامہ نوائے وقت میں حمید نظامی کا کالم ”سر راہے“ شائع ہو رہے تھے۔ روزنامہ احسان میں ظہیر کاشمیری نے ”مجنوں“ کے قلمی نام سے کالم ”حکایات جنوں“ لکھنا شروع کیا جو دو سال تک جاری رہا۔ کچھ عرصہ بعد مجید لاہوری کراچی چلے گئے جہاں روزنامہ جنگ میں ”حرف و حکایات“ کے عنوان سے نیا کالم جاری کیا۔ یہ کالم عوامی مزاج کے مطابق ہوتا تھا جس کی وجہ سے بہت جلد مقبول ہو گیا۔
روزنامہ امروز کا اجرا:
1948ء میں لاہور سے نیا اُردو اخبار ”امروز“ جاری ہوا۔ اخبار کے مدیر مولانا چراغ حسن حسرت نے ”حرف و حکایت“ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ انھی برسوں میں کالم نویسی کو نئی جہتیں ملیں اور بعض مخصوص شعبوں کے بارے میں کالم لکھنے کے رجحان نے جنم لیا۔ چناں چہ کھیلوں سے متعلق ایک تخصیصی کالم بھی ”امروز“ میں شائع ہوتا رہا۔ یہ کالم سید سلطان عارف ”گاہے گاہے“ کے عنوان سے لکھتے تھے۔
قیام پاکستان کے دو سال بعد لاہور کے اخبار ”وفاق“ میں لاہور کی ڈائری کے عنوان سے م۔ش کا کالم چھپنے لگا۔ اس کالم میں لاہور شہر کی سرگرمیوں اور مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی امور پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ 1950ء میں نوائے وقت میں ظہیر کاشمیری کا سماجی اور ثقافتی کالم ”شہر خیال“ شائع ہوتا رہا۔ کراچی کے اخبار جنگ میں شوکت تھانوی کا کالم ”وغیرہ وغیرہ“ اور ”پہاڑ تلے“ یکے بعد دیگرے شائع ہوئے۔ 1962ء میں چراغ حسن حسرت روزنامہ امروز کی ادارت سے علیحدہ ہوئے تو ان کی جگہ احمد ندیم قاسمی مدیر مقرر ہوئے جنھوں نے فکاہی کالم ”حرف و حکایت“ اپنے قلمی نام ”پنج دریا“ سے جاری رکھا۔ 1959ء میں وہ بھی امروز سے علیحدہ ہو گئے اور اس قلمی نام سے روزنامہ ”ہلال پاکستان“ میں ”موج در موج“ کے عنوان سے لکھنے لگے۔ اس کے بعد وہ روزنامہ ”احسان“ سے وابستہ ہو گئے اور وہاں بھی ”پنج دریا“ کے قلمی نام سے ہی فکاہی کالم ”مطائیات“ لکھتے رہے۔ کچھ عرصے بعد 1964ء میں احمد ندیم قاسمی قلمی لحاظ سے روزنامہ جنگ سے وابستہ ہو گئے اور اس میں ہفتہ وار کالم ”لاہور لاہور ہے“ لکھنے لگے۔ جس میں تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر نہایت صاف ستھری اور سادہ پیرائے میں اظہار خیال کیا جاتا تھا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے کراچی کے اخبار ”حریت“ سے بھی منسلک رہے جس میں ان کا کالم ”موج در موج“ شائع ہوتا تھا۔ 1972ء میں احمد ندیم قاسمی نے ”امروز“ میں دوبارہ ”حرف و حکایت“ لکھنا شروع کیا۔ لاہور سے روزنامہ تسنیم جاری ہوا جس میں نصراللہ خان عزیز کا فکاہی کالم ”تکلف بر طرف“ شائع ہونے لگا۔
کوہستان کا کردار:
روزنامہ ”کوہستان“ لاہور نے اردو صحافت کی تاریخ میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ 1961ء میں ”کوہستان“ میں ”میری ڈائری“ کے عنوان سے شہر کے مختلف سماجی، ادبی اور علمی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ کالم کی زبان نہایت سادہ اور عام فہم تھی اور کالم نگار ایک عام آدمی سے مخاطب ہوتا تھا۔ یہ کالم احسان بی۔ اے کئی سال تک لکھتے رہے۔ 1959ء میں حافظ مظہرالدین کا اسلا می کالم ”نشان راہ“ شروع ہوا جس کی دینی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔ حافظ صاحب نے فکاہی کالم ”آج کی باتیں“ بھی جاری کیا جسے بعد میں مولانا ابو صالح اصلاحی اور عالی رضوی لکھتے رہے۔ ابو صالح اصلاحی قاہرہ میں پی آئی اے کی افتتاحی پرواز کے حادثے میں جاں بحق ہوئے اور یہ کالم عالی رضوی نے جاری رکھا۔ 1964-67ء کے دوران روزنامہ کوہستان میں ایم ارشد ”جائزہ“ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ یہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا کالم تھا کہ اس میں عالم اسلام کے حالات و واقعات پر روزانہ تبصرہ کیا جاتا تھا۔ 1974ء میں لاہور سے روزنامہ جمہور جاری ہوا توایم ارشد اس سے وابستہ ہو گئے اور ادارتی صفحے پر ”خبروں کا پس منظر“ لکھتے رہے۔
1965ء میں جنگ کراچی میں فکاہی کالم ”تلخ وشیریں“ انعام درانی لکھتے رہے۔ یہ کالم کچھ عرصہ تک روزنامہ حریت کراچی میں چھپتا رہا۔ جنگ کراچی میں ابن انشاء کا کالم ”دخل در معقولات“ بھی زبان و بیان کی نفاست اور شستگی کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ اس اخبار میں ”وغیرہ وغیرہ“ کا کالم کچھ عرصے کے لیے پیر علی محمد راشدی نے اپنا علیحدہ کالم ”مشرق و مغرب“ کے عنوان سے جاری کیا جس میں بین الاقوامی حالات کا تجزیہ کیا جاتا تھا۔
غیر مزاحیہ کالم:
روزنامہ کوہستان میں حکیم آفتاب احمد قرشی کا طبی کالم ”آپ کی صحت“ بہت مقبول ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی حکیم ریاض احمد قرشی نے یہ کالم جاری رکھا۔ روزنامہ مشرق میں حکیم نور احمد نے ”طب اور صحت“ کے عنوان سے جاری کیا۔ روزنامہ امروز میں ”کھیل اور کھلاڑی“ کے عنوان سے الیاس بیگ کا کالم کچھ عرصہ تک جاری رہا۔ اس کے شبلی بی کام اقتصادیات کے موضوع پر کالم لکھتے رہے۔
خواتین کالم نویس:
1960ء کی دہائی میں کالم نویسی کے میدان میں خواتین بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے لگیں۔ روزنامہ کوہستان میں نزہت اکرام، سلمیٰ جبین اور امینہ عنبرین نے خواتین کے کالم لکھے۔ لاہور امروز میں رخشندہ حسن اور فرزانہ نظیر کے کالم مشہور ہوئے۔ مساوات لاہور میں پروین سحر، نرگس پروین اور نیر عباسی لکھتی رہیں۔ ان کے علاوہ معروف خواتین کالم نگاروں میں شمیم اختر۔ ش۔ فرخ اور شمیم اکرام الحق کے نام قابل ذکر ہیں۔
کالم نویسیوں کے اہم موضوع:
پاکستان کی تاریخ میں 1958ء میں مارشل لاء کا نفاذ، 1971ء میں سقوط ڈھاکہ، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ آئینی بحران، 1973ء کا سیلاب، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مسئلہ، افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد، ملک میں نظام اسالم کا نفاذ، جمہوریت کی بحالی، طرز حکومت، کم آمدنی والے لوگوں کے لیے رہائش کا مسئلہ، صنعتی ترقی، ایٹمی پروگرام، قو می یک جہتی، مسئلہ کشمیر، صوبائی عصبیت اور سماجی اور اخلاقی اقدار کالم نویسوں کے اہم موضوع رہے اور انھوں نے ان موضوعات پر پرمغز اور معرکتہ الآرا تحریریں لکھیں جن سے نہ صرف عوام کے ذہنوں پر گہرے نقوش پیدا ہوئے اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اثرات مرتب ہوئے بلکہ اردو صحافت کا معیار اور وقار بھی بلند ہوا۔