سوال: طنزیہ و مزاحیہ اُردو نثر نگاری کی پاکستانی روایت کو تشکیل دینے کے لیے کن روایت ساز ادیبوں نے حصہ لیا۔ تفصیل سے تحریر کریں۔

جواب: طنز و مزاحیہ اردو نثر نگاری کی پاکستانی روایت:

تقسیم ہند سے قبل کے اردو ظرافت کے بور سرمائے کی بنیاد پر خالص پاکستانی طنزیہ و مزاحیہ ادبی روایت کی تشکیل میں جن ادیبوں نے اولین طور پر اپنا کردار ادا کیا۔ ان میں کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی، مجید لاہوری، عبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی، ابن انشاء، محمد خالد اختر، انتظار حسین، ارشاد احمد خان اور ابراہیم جلیس کے نام بہت اہم ہیں۔ ان میں بیشتر لکھاری قیام پاکستان سے پہلے سے ہی اپنی پہچان بنانے کے عمل میں مصروف تھے۔

مقامی حالات:


پاکستان میں مزاح کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہاں کے حالات کو جاننا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ طنزومزاح کا تعلق براہ راست خارجی حالات کے ساتھ ہوتا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کے مخصوص علاقے نظام کو متاثر کرتے چلے آئے تھے۔ مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی قتل و غارت اور لوٹ مار نے وسیع سطح پر بربادی پھیلائی، گویا آزادی کی خوشیاں اپنے ساتھ دردوالم کی لہر بھی لے کر آئیں۔ لوگوں نے اس درد و الم کو انسان ہے سپنوں کی تعبیر پانے کے لئے برداشت کیا،جو وہ آزادی پاکستان کے حوالے سے لکھتے چلے آئے تھے۔مگر اس میں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی موسیقی اور تکلیفیں پہلے سے بڑھتی گئیں۔ملک کے حکمران طبقے نے سیاسی چالبازیوں اور معاشی لوٹ کھسوٹ کے باعث عوام کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔جیسے فیض احمد فیض نے داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر کہاں ہے۔ پھر ملک میں یکے بعد دیگرے مارشل لاء اور کنٹرو لڈ جمہوری حکومتوں کے نفاذ اقتصادی بدحالی انتہا پسندی عدم تحفظ فرقہ مواریت بیروزگاری کی صورتحال نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ ایسے میں پاکستانی ادب میں مزاح کے مقابلے میں طنز کا غالب آجانا منطقی تھا۔

سیاسی و سماجی شعور:


مزاح اور معروض میں گہرا تعلق ہونے کے باعث اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی ظرافت نگاروں کی تخلیقات کی بنیاد ان کا معاشی و سیاسی اور سماجی شعور تھا جس میں جذبے کی شدت سے ہم آہنگ ہو کر طنز کی نشریات کو جنم دیا۔ ان کے مقصدیت اور جذبے کی شدت ان کے زاویہ نگاہ پر اس قدر حاوی رہی کہ وہ زندگی کی ناہمواریوں کا مضحکہ اڑانیاور لطف اندوز ہونے کے بجائے ان کا تنقیدی نگاہ سے جائزہ لینے پر ہی مجبور رہے۔ اور یوں پطرس کے اندازو میعار میں کوئی شاندار اضافہ ممکن نہ ہو سکا۔

ابن انشاء کی مزاح نگاری:


ابن انشاء کی مزاح نگاری ان کے سفرناموں کالموں اور مضامین میں اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ان کے سفرناموں میں چلتے ہو تو چین کو چلیے دنیا گول ہے ابن بطوطہ کے تعاقب میں اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔جب کہ وہ حرف و حکایت آیت چار درویش باتیں انشاء جی کی آپ سے کیا پردہ سفری کالم، دخل در معقولات آوارہ گرد کی ڈائری بعد میں باقاعدہ کتابی صورت میں سفر ناموں کی شکل اختیار کر گئے۔میں اسی طرح خمار گندم بھی ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح اردو کی آخری کتاب ان کے مضامین پر مشتمل ہے۔ ابن انشاء فطری مزاح نگار اور صاحب طرز ادیب تھے۔انہوں نے مزاح کے اظہار کے لئے تمام حربوں کو استعمال کیا۔ ان کے اسلوب میں سادگی سلاست اور شگفتگی نمایاں ہے زندگی موبائل بہار آئی کم بیانی اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز بہت ہی لطیف اور مرزا غالب ہے۔وہ اپنی تحریروں میں ضرب المثال محاورات اور اشعار کے ذریعے سے بھی خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے اردو مزا کو نیا اسلوب اور لہجہ دیا۔وہ رمز اور مستزاد سے بھی کام لیتے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی:


مشتاق یوسفی پاکستانی مزاح میں ایک بڑا اور اہم نام ہے۔
”ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔“
ابن انشاء کا یہ بیان یوسفی کے ادبی قد کاٹھ پوری طرح احاطہ کرتا ہے۔ یوسفی تقسیم سے قبل ریاض کے طور پر مختلف رسائل میں لکھتے تھے۔ لیکن ساٹھویں کے بعد چھپنے والی چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت اور آب گم نامی کتابوں نے انہیں شہرت دوام بخشی۔ ان خاکوں کومونتا ژ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ خود شفیق رحمان سے متاثر ہونے کے باوجود اپنی طرز میں پطرس اور رشید احمد صدیقی کے قریب تر ہیں۔ لفظی الٹ پھیر، تکرار اور تقدیم و تاخیر ان کے مزاح کی بنیادی تکنیک ہیں۔ جب کہ بدلہ سنجی اور شگفتگی بھی بہت نمایاں ہے۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت روایت کے ساتھ وابستہ ہے۔ انگریزی اور اردو ادبیات اور روایات و اقدار کی ہم آہنگی اور نقاد سے وہ دلچسپ صورتحال پیدا کرتے ہیں۔

مشتاق یوسفی کا فن:


یوسفی عربی، فارسی، ہندی،پنجابی، سندھی اور بلوچی کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور برجستگی و بے ساختگی قول و محال، خیال معکوس، لفظی تحریف و تصرف بھی مزاح کے حربوں کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اشعار مسرو اور لفظوں کی تحریف کی شاندار پیش یوسفی ہی سے منسوب ہے۔ جو ان کی تحریروں میں بہت نمایاں ہے۔ وہ ”اچانک“سے شرارت و حیرت کو پیدا کرکے ”مسکروا“دینے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ تفکر و تکلیف آمیزگفتگو اور تبصرے سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔یوسفی واقعہ رجحان ساز اور روایت ساز ہیں۔

کرنل محمد خان:


کرنل محمد خان کو بیٹھے بٹھائے”بجنگ آمد“ سے خوبصورت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن اس کے بعد ”بسلامت روی“ اور ”بزمِ آرائیاں“ نامی کتابیں بھی آئیں،جن میں اول الذکر سفرنامہ اور موخرالذکر مضامین کا مجموعہ ہے۔ ”بدیسی مزاح“ ان کے علاوہ ہے۔ کرنل صاحب خالص مزاح نگار ہیں، جن کے ہاں طنز نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوسفی اور رشید احمد صدیقی کی طرح ان کے مزاح کی ذہنی سطح بہت بلند ہے۔ بے ساختگی و برجستگی اور آمد ان کی بنیادی خصوصیات ہیں، جب کہ تکنیکی حوالے سے شگفتگی و بلا سنجی کے علاوہ مزاح کے دیگر مروجہ روز ان کے ہاں ناپید ہیں۔ البتہ خوبصورت زبان و شاعرانہ تراکیب کا استعمال کافی ہے، اس حوالے سے ان کا زاویہ نگاہ ان کی جگہ جگہ مدد کرتا ہے، جس کی مدد سے بھی انتہائی درد انگیز صورتحال پر بھی مزاح کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

محمد خالد اختر:


محمد خالد اختر نے سیاحت کے شوق میں پاکستان کا جھنڈا ہمارا ہے جس کے نتیجے میں جگہ جگہ کے مقامی اثرات ان کی تحریروں میں در آئے ہیں۔ یہی ان کی تحریر کی بنیادی خوبی بھی بن گئی ہے۔ ان کا مزاح نہایت ہلکا پھلکا، لطیف اور تبسم آمیز ہے۔ خالد کا مزاح حقیقتا طنز سے جنم لیتا ہے۔ چچا عبدالباقی، بیس سو گیارہ،چاکیواڑہ میں وصال، مکاتب خضر اور کھویا ہوا افق ان کی اہم ترین کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب میں کہانیاں،دوسری سیاسی طنز پر مشتمل فینٹسی،تیسری سفرنامہ،چوتھی ناول اور آخری دو تحریفات ہیں۔ محمد خالد اختر مشاہدے کے ذریعے انگریزی ادب کے تناظر میں نئے معنی تلاش کی ہے۔ انگریزی کے اثرات کے نتیجے میں انگریزی الفاظ، تراکیب اور محاوروں کی بنیاد پر ایک الگ تھلگ اور اجنبی زبان لکھی ہے۔انگریزی اور عالمی ادب کے مطالعے نے ہی ان کی نثر میں کاٹ اور مزاح میں بے ساختہ پن پیدا کیا ہے۔ مکتبہ خضر،خطوط غالب کی تحریف انہوں نے انتہائی کامیابی سے کی ہے،کیونکہ ان کا اسلوب شوکت تہانوی، فرحت کاکوروی،ابن انشاء اور انور سدید کی کاوشوں کی نسبت غالب کے قریب تر ہے۔

محمد رستم کیانی:


محمد رستم کیانی کی صرف ایک کتاب ”افکار پریشان“ہی ہے۔ جو مختلف مجالس اور ہاروں میں کی گئی ان کی تقریر کا مجموعہ ہے۔ شگفتہ بیانی،لفظی الٹ پھیر،رعایتوں اور لطیف طنز پر مشتمل ان کا طنز ان کو انفرادیت بخشتا ہے۔ کیانی تلمیحات،شعر و ادب حکایات واقعات اور زبان کے علاوہ تفکر فلسفہ سے بھی کام لیتے ہیں،اسی لئے ان کے مزاج سے پڑھے لکھے لوگ ہیں خط اٹھا سکتے ہیں۔

سید ضمیر جعفری:


سید ضمیر جعفری شاعر ہونے کے علاوہ ایک پختہ کار مزاح نگار بھی ہیں۔ ان کا اسلوب بے ساختہ، بذلہ سنجی اور خوش باشی سے مزین ہے۔ ان کی کتابوں میں میں اڑتے ہوئے خاکے مافیالضمیر ضمیر خان ضمیر غائب ولایتی زعفران اور ایک ناولٹ ”آنریری خسر“کے علاوہ وہ نیم نقد و مزاح پر مشتمل شخصی خاکے نما مضامین پر مشتمل مجموعہ ”کتابی چہرے”بھی ہے۔
متذکرہ بالا مزاح نگاروں نے اپنا مقام ادب میں بنایا ہے اور صاحبہ نے اسلوب کہلاتے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ساتھ صحافتی مزاح نگاری میں نام پیدا کرنے والے بھی کیا ہم صحافی اور ادیب ہیں۔

مجید لاہوری:


مجید لاہوری شاعر ادیب اور صحافی تینو حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی شہرت روزنامہ جنگ میں حرف حقایت نامی کالم لکھنے سے ہوئی،پھر انہوں نے نمک دان کے نام سے مزاحیہ رسالہ بھی شروع کر دیا تھا۔ ان کے طنز و مزاح دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ عوامی انداز میں لکھتے تھے،لہٰذا ان کے مزاح کی تکنیک محض لفظی مزاح اور چیرپھاڑ تک محدود ہے۔ مختلف نسلوں کے مخصوص لب و لہجہ اور بمبئی کی اردو اور وہاں کے کرداروں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرتے تھے،اس لئے فکری گہرائی ان کے ہاں ناپید تھی۔ ان کے کرداروں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

نصراللہ خان:


نصراللہ خان آداب عرض کے نام سے کالم لکھتے تھے۔ سادگی،شگفتگی،بذلہ سنجی ان کے اسلوب کی اہم خصوصیات ہیں۔ ان کی حس مزاح بہت تیز ہے۔ وہ ریاعت لفظی لفظی الٹ پھیر استعمال نہیں کرتے بلکہ بات سے بات نکالتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی:


احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ جہت انسان ہیں۔ فکاہیہ کالم نگاری بھی ان کا ایک پہلو ہے۔ جبکہ ”کیسر کیاری“ کتاب اس کے علاوہ ہے۔ جس میں مزاحیہ مضمون اور ڈرامے شامل ہیں۔ یار ایک بڑا ہے جس میں انہوں نے حرکات و سکنات اور مضحکہ خیزصورتحال سے مزاح پیدا کیا ہے۔ وہ پنج دریا اورعنقا کے نام سے حرف وحکایت نامی کالم لکھتے رہے۔ صحافی نظامی انہیں کمال حاصل تھا۔ ارشاد احمد خان نمک دان میں لکھتے رہے شوخی اور شگفتگی اور سادگی و پرکاری ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ منو بھائی کے ہاں طنز اور ضلع جگت کے علاوہ لطیفہ بازی ان کے کالم گریبان کی اہم خوبیاں ہیں۔

عطاء الحق قاسمی:


عطاء الحق قاسمی آج کل سب سے کامیاب صحافی مزاح نگار ہیں۔ روزن دیوار سے ان کی رجحان ساز اور روایت ساز کالم نگاری کا ثبوت ہیں۔ وہ مزا کے لیے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ روزن دیوار،شہر گویا تجاہل کا عالمانہ کالم والم،جرم ظریفی،اسے معمولی دو دفعہ اور مجھ کو بھی شرمسار کر نا میں کالم مجموعہ کے علاوہ انہوں نے خاکے اور سفر نامے بھی تحریر کیے ہیں۔
……٭……

Leave a Comment