جواب: سید ضمیر جعفری کی تصانیف:
سید ضمیر جعفری کی شعری اور نثری تصانیف کی تعداد سے زائد ہے۔ ان میں سے چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں۔
الف) شعری تصانیف:
کارزار، لہو ترنگ،اچھا جزیروں کیگیت،کھلیان، ارمغان ضمیر،قریہ جاں،پنجابی شاعری، امن میلہ،من کے تار یار مافی الضمیر،گنر شیر خان،ضمیریات مسدس بدحالی،متن مجری ری، نشاط تماشا۔
ب) نثری تصانیف:
اڑتے خاکے، کتابی چہرے۔ ملایا اور ملایا کے لوگ۔ آفتاب معرفت،آنریری خسر،گورے کالے سپاہی،میٹھا پانی، سورج میرے پیچھے، نظر غبارے، حفیظ نامچہ،ضمیرحاضر ضمیر غائب۔
ضمیر جعفری کا لسانی ماحول:
ضمیر جعفری کے اسلوب نثر کے براہ راست ذکر سے پہلے اس سیاسی ادبی اور لسانی ماحول کا ذکر ضروری ہے جس میں ان کی ذہنی پرورش ہوئی۔ سید ضمیر جعفری کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے تھا جس میں برصغیر کی تاریخ شیخ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہاں کے گکھڑ سرداروں نے انگریزوں اور دیگر حملہ آوروں کے آگے بھرپور مزاحمت کی اور سکھوں کے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پوٹھوہار کے لوگ گیتوں میں سکھوں کے مظالم کا ذکر موجود ہے۔ اس علاقے کی ادبی روایت میں میں فارسی اور پنجابی دونوں زبانوں کا عمل دخل رہا ہے۔ شاہ جہان کے دور میں یہاں اُردو کا پہلا شاعر شاہ مراد پیدا ہوا۔ اس خطے کو صوفیاء کی اکثریت نے وعظ و تبلیغ کے لئے اپنا مسکن بنایا۔ اسی طرح یہ خطہ جذبہ حریت کے علاوہ ادب و تصوف کی صحت مند روا یات کا بھی امین رہا ہے۔
سید ضمیر جعفری کی تصانیف کا تعارف درج ذیل ہے۔
کتابی چہرے کا تعارف اور نمونہ متن:
186 صفحات پر مبنی یہ کتاب اب پہلی بار 1976ء میں نیرنگ خیال پبلیکیشن راولپنڈی کی طرف سے شائع ہوئی۔ اس میں جعفر صاحب نے اپنے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں نہایت شگفتہ انداز میں خاکے تحریر کیے ہیں۔ خاکہ نگاری یا چہرہ نویسی اردو ادب میں ایک مستقل صنف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب تک اس موضوع پر بھی بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اور بڑے بڑے نامورادباء نے اس صنف ادب کی آبیاری کی ہے جب ہم کسی کا خاکہ لکھتے ہیں تو خاکے کا مطلب آؤٹ لائن ہوتا ہے۔ مگر جب ہم کسی کا خاکہ اڑاتے ہیں تو حق کا مطلب محض خاک اڑانا ہی ہوتا ہے۔
بالعموم اور نو آموز ادباء ان معانی کا ادراک نہیں رکھتے اور جب کسی کا خاکہ لکھنے لگتے ہیں تو خاک لکھنے کے ساتھ ساتھ خاک اڑاتے بھی ہیں۔ جس سے صاحب خاکہ کی توہین و تذلیل کا پہلو نکلتا ہے اور قاری کی طبیعت بھی منغض ہوتی ہے۔ جناب سید ضمیر جعفری کی کتاب کتابی چہرے اس لحاظ سے ایک کامیاب تحریریں ہیں کہ آپ نے کسی کا خاکہ نہیں اڑایا بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکا ہے، اپنے علم کی حد تک انہوں نے صاحب خاکہ کو نہایت سنجیدہ انداز میں قاری سے متعارف کرایا ہے۔ آپ برصغیر پاک و ہند ان کے ایک مانے ہوئے مزاح نگار ہیں، اگر وہ چاہتے تو مزاح کے پردے میں خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ ہاتھ آنے کا شکر بھی جاری رکھ سکتے تھے مگر اس طرح کتاب کی ثقاہت مجروح ہوتی۔ کتاب سترہ خاکوں پر مشتمل ہے اور اس کا انتساب تین مشہور مگر مرحوم شخصیتوں نذیر احمد شیخ، جناب ایڈی اظہر اور جناب ممتاز حسین کے ناموں سے ہے۔
خاکوں کے عنوانات:
خاکوں کے عنوانات خاص دلچسپی میں مثال کے طور پر سنگاپور کا میجر،لاہور کا قطب، چیونٹی اور پہاڑ،اردو ادب کا منگلا ڈیم، اردو ادب کا کوہ کن اردو ادب کی خاتون اول وغیرہ وغیرہ۔ مولانا چراغ حسن حسرت کا کا خاکہ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے نام کے ساتھ مولانا محض اس لیے چپکا دیا گیا ہے کہ لفظ مولانا ان کا تکیہ کلام تھا اور وہ ہر شخص کو مولانا کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور یاروں میں یہ لفظ ان کے نام ہی کا کا حصہ بنا دیا۔ورنہ ان میں مولویوں والی کوئی بات نہ تھی ایک رند بلا نوش تھے۔اس طرح تمام قومی میں ہر صاحب خاکہ کے بارے میں بعض ایسی معلومات ملتی ہیں جن کے بارے میں ادب دوست عوام قطعی بے بہرہ ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے جناب سید ضمیر جعفری کے کے حلقہ احباب کی وسعت کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کی ادبی سرگرمیوں اور شاعرانہ دلچسپیوں کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ تبصرہ کتابی چہرے از از کی زا کانی مشمولہ ماہنامہ نہ پیارا نہ لاہور سالنامہ ڈرامہ 87 اسی صفحات 440 ایسا متن کے جو نمونے یہاں منتخب کیے گئے ہیں ان کی وضاحت اس طرح سے ہے۔
1۔اردو ادب کا حجرہ شاہ مقیم نمونہ
2۔کیونکہ اور پہاڑنمونہ
3۔ سنگاپور کا میجر حسرت نمونہ
4۔ ادب میں لال قلعوں کا معمار
باکمال انشا پرداز:
عزیز ملک دور حاضر کا ایک باکمال انشا پردازہیں۔ ان کی تخلیقات عصری ادب کی پہلی قطار میں جگہ پاتی ہیں۔اس کی سی با لڑ پرشکوہ،سروقد،من چھاؤنی نثر آج تک کم اہل قلم لکھ سکے ہیں وہ کاتنے اور بھاگنے کا قائل نہیں۔وہ ایک ایک لفظ چن کر کر تول کر تراش کر لکھتا ہے اس کے جس فقرے کو نچوڑ کر دیکھیے، ایک بوتل خون چھلک کر باہر آ جائے گا۔ اس کا اپنا ہونے جگر۔ وہ اپنے موضوع کو پہلے پرندوں کی سی ممتا خدا کے ساتھ چوگا کھلاتا ہے۔ پھر قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔اس کا تو آنا اور دیکھ اسلوب نگارش اس کی اپنی ٹکسال کا ڈھلا ہوا سکہ ہے جس پر اس کے نام کی مہر کندہ ہوتی ہے۔ تخلیق ق ترتیب کے عمل میں وہ قدم قدم پر پر اپنی روح کی آگ اور اپنی نگاہ کے حسن کو کچھ اس فن سے ہم آہنگ کرتا ہے کہ اس کے الفاظ شعلہ گل کی طرح دمک اٹھتے ہیں۔ اس کی نثر پنجاب کے دیہات کی ان صحتمند سنڈول سندریوں کی طرح ہے جو پنگھٹوں سے بھرے ہوئے دو دو گھڑے سر پر اٹھا کر ہنستی بولتی اٹھکیلیاں کرتی چلی جاتی ہیں۔
اس کے فن کا موضوع زندگی ہے زندگی کی محرومیاں،تلخیاں،خوبیاں اور برائیاں سبھی کچھ سنائی اور اور نقطہ نگاہ کی آنچ نے اس کی تحریروں کو بیک وقت عظمت دلبری کا ایک مہا بلی بنا دیا ہے۔ وہ اردو ادب میں موتیوں کا سوداگر ہے۔ مگر ادب میں جتنا اس کا مرتبہ ہے اتنی اس کی شہرت نہیں ہے۔ شہرت فی زمانہ آتی نہیں، لائی جاتی ہے۔
شاعر حفیظ پبلک پراپرٹی ہے۔میں ایک عرصے سے روزمرہ کے حفیظ کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں مگر وہ جو انہوں نے کہا ہے کہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
سو میں بھی ارادے باندھتااور توڑتا ہی رہ گیا اور حفیظ صاحب اتنے میں شخص سے شخصیت بن گئے۔
یہ شعر شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت پر بھی حاوی ہیں چنانچہ سوائے شاعری کے ان کی کوئی چیز آسان نہیں رہ گئی۔ بازار میں آپ کو بھی ان کے ہمراہ سودا سلف خرید کر دیکھئے ایک روپے کی چیز پر پانچ روپے کی فاعلا تن فاعلات کرتے ہیں۔ سبزی والے کے کھانے سے ٹماٹر اس طرح چھانٹتے ہیں جیسے انتخابی کلام داغ کر رہے ہوں۔ گوشت کی عمدگی اور تازگی کے مسئلے پر قصابوں سیاس شد و مرد کی بحث کرتے ہیں کہ محض اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے،آپ اب تک کسی قصاب کے ہاتھوں قتل نہیں ہو چکے۔ گوشت ترکاری سے یاد آیا کہ شاعری کے علاوہ پیدل چلنا اور ہانڈی ریندھنا ان کے محبوب مشغلے ہیں۔ نہ وہ دوسروں کا شعر آسانی سے پسند کرتے ہیں ہیں نہ دوسروں کی ہانڈی کو۔ گھر میں اپنا کمرہ اور پانی ہانڈی الگ رکھتے ہیں ان کا کمرہ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ
”آگ ہے، ہانڈی ہے، چولہاہے، دھواں ہے۔ زندگی صوفہ کرسیاں میز ملاقاتیوں کے لیے رکھے ہیں۔ملاقاتی نہ ہو تو ان پر کتابیں بیٹھی رہتی ہیں۔ خود فرش پر نشست رکھتے ہیں۔ سونا بھی فرش پر پسند کرتے ہیں۔ تین طرف کتابیں،خطوط،کاغذات، چوتھی طرف چولہا،کھانے پینے کے برتن،چینی،اچار،چورن،معجون، مربعے وغیرہ۔ ایک طرف ذہن کی ورکشاپ پر غزل ابل رہی ہے، دوسری طرف طرف چولھے پر قیمہ ادھر مصرع ترادہر لقمہ تر ہر ساتھ ساتھ دوستوں سے گلخپ۔“ چیونٹی اور پہاڑ ڑ۔ص46-45(حفیظ جالندھری)
شاعری کی معنوی اولاد:
شعر شاعری کی معنوی اولاد ہوتے ہیں ہیں حفیظ صاحب سچ مچ اسے کلیجے کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ وہ اس کی نوک پلک فی الواقعہ اسی لگن اور ممتا سے سنوارتے ہیں۔ جس طرح کوئی سگھڑماں اپنے بچے کو بنا سنوار کر بودی چپڑ کر مدرسہ میں بھیجتی ہے۔ آپ اس کا بستہ بھی خود باندھتے اور اس ہنرمندی سے باندھتے ہیں کہ نہ کوئی الف گرتا ہے اور نہ کوئی ی دبتی ہے۔ الفاظ کو وہ اس طرح ناپ ناپ کر اور گن گن کر سکتے ہیں کہ پاؤچھٹانک والے وزن میں بھی شاید اس کے مصرے ہم وزن نہیں نکلیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش ان کے ہاں ہر لحظہ جاری رہتی ہیں۔ وہ اپنے شعر کے کسی چوکھٹے کو قطعی نہیں سمجھتے۔ ہم نے انہیں 1973ء میں 1913ء کے اشعار سے دست و گریباں دیکھا ہے۔ ان کی ہر پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن ان کی دوسری کتاب کا پہلا اڈیشن معلوم ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی طرح ان کے شعر کی برومندی بھی ان کے بے پایاں محنت کا ثمر ہے۔ قدرت نے ان کو شاعر ہی پیدا کیا تھا لیکن اگر وہ فن پر اتنی عرق ریزی نہ کرتے تو پیدا ہو کر شاعر کا انگوٹھا ہی چوستے رہتے ہیں۔ (چیونٹی اور پہاڑص49)
ذائقہ اور کلاسیکی مذاق:
مرشدکھانے سے زیادہ پینے کے قائل تھے۔ تاہم ادب کی طرح کھانے کا بھی بڑا ہی کلاسیکی مذاق رکھتے تھے۔ ذائقہ تو بعد کی بات تھی۔ کھانے کی صورت بری ہوتی تو اس پر بھڑک اُٹھتے۔ طبیعت منغض ہو جاتی، اشتہا مر جاتی۔ کھانا کھانے کے بجائے کھانا نہ کھانے کے حق میں تقریر کرتے۔ نوابان اودھ سلاطین کشمیر اور قطب شاہی علی ولی کھانوں کے مطنجوں دسترخوانوں کے متعلق وہ جو وسیع ذاتی معلومات رکھتے تھے۔ ان معلومات نے اپنے مرشد کو اس ضمن میں کچھ اور بھی مشکل پسند بنا دیا تھا۔ ذائقہ اور تنوع کے لحاظ سے کشمیری کھانے کو کو کھانا کا بادشاہ مانتے۔ شب دیگ گوشتابہ،یک مخوانہ،آفتابہ وغیرہ کشمیری کھانوں کی ایک طویل فہرست تھی جو ہمیں ہر کھانے پر سننا پڑتی۔ بارہا مرشد نے شب دیگ خود اپنے ہاتھ سے دم کرنے کا پروگرام بنایا لیکن دیگ میسر آ سکی نہ شب۔
ایک مرتبہ ایک چینی لکھ پتی کی دعوت پر جب کوئی پچاس کورسوں کے ڈر سے سابقہ پڑا، جس میں چینی باورچیوں نے چڑیا کی ایک چونچ میں ترش،نمکین شیریں مچھلی تک کر سامنے رکھ دی تھی تو مرشد د چینیوں کی عظمت کے قائل ہوگئے تھے مگر قیادت کا جھنڈا ضلع بھر بھی کشمیر میں لہراتا رہا۔ (سنگاپور کا میجر حسرت ص34/35)
ادب میں لال قلعوں کا معمار:
نقوش اردو کے ان مجلوں میں سے ہے ہے جو گھٹنوں چل چل کر جوان نہیں ہوئے بلکہ براہ راست عالم شباب میں پیدا ہوئے اور غالباً اپنی عمر کے معاصرین میں تنہا مجلہ ہے کچھ مدت اسپتال میں رہنے کے باوجود خود انکی صحت اور جوانی میں کوئی فرق نہیں آنے پایا بلکہ اس کی کی چھب اورپھبن میں برابر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ طفیل اس کی روح رواں تھے مگر وہ رواں کی طرح نہ ان دریا اندر کہیں گردش کرتے رہتے تھے۔ ابتدا میں ایک خاصی اسی مدت تک وہ مکتبہ فروغ اردو زیادہ اور نقوش کم تھے۔ نقوش کا غلبہ عام تھا مگر طفیل کا نام خواص تک ہی محدود تھا۔ ادب میں لال قلعوں کا معمار ص 152(محمد طفیل)
اُڑتے خاکے:
انتساب:
سید ضمیر جعفری کی کتاب ”اُڑتے خاکے“ کا انتساب کچھ یوں ہے:
گورنمنٹ کالج کیمبل پور میں اپنے گورودیو
پروفیسر لال ایش کمار
کے چرنوں میں
وحید قریشی کے تاثرات:
دل چسپ فکاہیہ تحریروں پر مبنی اس کتاب کا مسودہ جب وحید قریشی کو پیش ہوا تو انھوں نے کچھ یوں تاثرات قلمبند کیے:
زیر نظر مجموعہ اُن فکاہیہ تحریروں پر مشتمل ہے جو انھوں نے گذشتہ برسوں میں تخلیق کیں اور اُن پر قارئین سے بے تحاشا داد بھی وصول کی اور وہ اس قند مکرر سے قارئین کو دوبارہ تالیاں بجانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے احیا کے زمانے میں تالیاں بجوانے کا شوق کسے نہ ہو گا۔ پھر پیر و مرشد اس میں کیوں دوسروں سے پیچھے رہ جائیں جب کہ ان کے ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ (خصوصاً خواتین حلقوں میں)
ضمیر جعفری زندگی اور معاشرے سے گہری کومٹمنٹ رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین ان کے ضمیر کی آواز ہیں۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے موضوع پر بڑی سے بڑی تحریر پیش کرنے پر قادر ہیں۔ ان کی ہنرکاری اور لفظی بازی گری نہیں بلکہ فکر کی گہرائی اور زندگی کی رنگارنگی سے حرارت حاصل کرتی ہے۔ ان کے فکاہیہ نثری شہ پاروں میں ان کی ہنر مندی اور جولانی فکر کا حسین امتزاج ان کے طویل سفر کی علامت ہے۔ یہ مجموعہ یقینا لطیف ادب میں سنگ میل کی حیثیت ثابت ہو گا۔“ وحید قریشی
فہرست:
اُڑتے خاکے کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو بہت ہی انوکھے اور لطیف موضوعات سے سامنا ہوتا ہے۔ چند پر لطف عنوانات درج ذیل ہیں:
چاچا دینا
خاندان کیخسرو
لالہ مصری خان کا خضاب لگانا
شیخ صاحب کا قبلہ
ڈائری کا خیالی پلاؤ
عجب آزاد مرد
دیباچہ:
اُڑتے خاکے کا دیباچہ کرنل محمد خان نے لکھا جو خود خوش اسلوب اور مزاح کی دنیا کے ناور ادیب ہیں۔ محمد خان کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”دراصل سید ضمیر جعفری کی کتاب مستطاب کا تعارفی دیباچہ لکھنے کے لیے میرا انتخاب ہے ہی ناموزوں۔ اس نظم و نثر کے تاجدار کا تعارف نامہ اگر اکبر الٰہ آبادی (بہشت بریں سے آ کر) یا مشتاق احمد یوسفی (خلد فرنگ سے لوٹ کر) لکھتے تو کوئی بات بھی ہوتی۔ میں کہ اس پیر ظرافت کا ایک ادنیٰ سا مرید ہوں۔ میری کیا بساط کہ مرشد کے سامنے زبان کھولوں۔“
اسی دیباچے میں ذرا آگے کرنل محمد خان کہتے ہیں:
”مولانا (مودودی) تو اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ضمیر، اللہ کے کرم سے بدستور لکھ رہے ہیں۔ ان کی ہر نئی نثری تحریر یوں لگتی ہے جیسے کسی دور دیس سے کوئی نادر سوغات آئی ہو۔ میں ہر ایسی تحریر کو ہزار شوق سے پہلے دیکھتا ہوں پھر آنکھوں سے لگاتا ہوں اور پھر لفظاً لفظاً پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتا ہوں جیسے دنیا جہان کی رعنائیاں اور دلربایاں سمیٹ رہا ہوں۔“ محمد خان (راولپنڈی کلب)
اقتباسات:
”ابن الوقت جس روز سمجھ میں آ گیا۔ یہ سمجھیے کہ ختم ہو گیا ……کیا ……ادراک کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے ”ابن الوقت“ وہاں سے شروع ہوتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ابن الوقت کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے؟ یہ دراصل ایک نہایت نازک سے توازن کا مسئلہ ہے۔ لوگ توازن کھو بیٹھے، پہچانے گئے، جنھوں نے سلیقے سے کام کیا وہ بسا اوقات اپنے وقت کے اکابرین میں شامل ہو گئے۔“
”حکیم سینا میری طفلی ہی کے زمانے میں جس کو آج پچیس تیس برس گزر چلے ہیں، اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں کوئی آدمی اپنی افادیت کھو دینے کے بعد محض ایک رائے، چرچا مشغلہ یا قہقہہ رہ جاتا ہے۔“
سنگاپور کا میجر حسرت:
”دفتر میں میرا ان کا واسطہ کچھ ویسے کم تھا، کچھ میں اس واسطے کو اور بھی کم رکھتا تھا۔ اس واسطے سے بس یہ سمجھیے کہ کچھ خوف ہی آتا تھا۔ مرشد جب آواز دیتے دل دہل جاتا۔ الٰہی خیر! نہ معلوم کون سا محاورہ الٹا جا پڑا ہے؟ کس روزمرے کو تکلیف پہنچ گئی ہے؟ کہیں کوئی شترگربہ تو نہیں پکڑا گیا؟ کسی جملے کی نشست و برخاست نہیں ہو گئی؟ کوئی بندھنے والا خیال کھل تو نہیں گیا؟ خدا معلوم تذکیر و تانیث کا کون سا شاخسانہ اُٹھنے والا ہے؟ ہمیں مرشد کے سامنے اپنے جہالت کے اعتراف و قرار میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔“
……٭……٭……٭……٭……