تحریر: محمد فیصل علی
جنگل میں ہر چیز معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ چاروں طرف فطرتی حسن پھیلا ہوا تھا اور اس حسن سے فیض یاب ہونے والے جانور چہلیں کرتے نظر آرہے تھے۔
ایک روز چڑیا کے گھر میں شور مچا تو آس پاس کے چرند پرند متوجہ ہوئے اور کان لگائے۔ چڑیا خوشی کے عالم میں چیخ رہی تھی:
”ہمیں مل گیا، ہم امیر ہوگئے۔“
”کیوں شور مچا رکھا ہے؟ کیا ملا ہے تمہیں؟“مینا نے اسے چبھتی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔
”آؤ، بیٹھو بتاتی ہوں۔“ چڑیا نے پرجوش انداز میں اس کا ہاتھ تھاما۔
”نہیں، نہیں میں نہیں بیٹھ رہی۔ میں تو شور سن کر رک گئی کہ خبر لے لوں۔“
مینا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور پھر سے اڑ گئی۔ چڑیا بے چاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
اب مینا تجسس میں پڑ گئی۔ اس نے ادھر ادھر سے سن گن لینا شروع کر دی اور شام کو اسے پتا چل ہی گیا کہ چڑیا کو کیا ملا ہے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ چڑیا اور چڑا خوراک کی تلاش میں گئے اور دانہ دنکا تلاش کرتے کرتے کافی دور نکل آئے۔ اچانک انہیں ایک زخمی تتلی ملی۔ یہ تتلی مکمل سنہری رنگ کی تھی جیسے سونے کی بنی ہوئی ہو۔ یہ تتلی کوئی عام تتلی نہیں تھی بلکہ یہ تو پرستان کی تتلی تھی۔ چڑیا اور چڑے نے مل کر اسے اٹھایا اور اس کا علاج معالجہ کیا۔ وہ اس حسن سلوک پر بہت خوش ہوئی۔ اس نے چڑیا اور چڑے کو ایک سبز چابی دی اور بتایا کہ یہ چابی تمہاری نیکی کی وجہ سے ملی ہے۔ یہ چابی ایک صندوق کی ہے جو نیلے غار میں پڑا ہے۔ وہاں جاؤ اور صندوق کھول کر اپنی ضرورت کے مطابق سونا لے لو اور اپنے بچوں پر خرچ کرو۔ چڑیا اور چڑا بہت خوش ہوئے، انہوں نے تتلی کا شکریہ ادا کیا اور اس صندوق سے سونا لے آئے۔
مینا نے جب یہ سنا تو اسے حسد اور لالچ نے گھیر لیا۔ اگلے روز وہ سنہری تتلی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ کافی تگ و دو کے بعد اس نے تتلی کو ڈھونڈ لیا اور ایک تیز خنجر اس کے گلے پر رکھ کر بولی:
”جان کی امان چاہتی ہو تو مجھے بھی خزانے والے صندوق کی چابی دو، جیسے تم نے چڑیا اور چڑے کو دی تھی۔“
تتلی نے پہلے تو اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ لالچ و حسد سے کام نہ لےمگر مینا مسلسل اسے دھمکاتی رہی، تب سنہری تتلی نے اسے ایک سرخ چابی دی اور غار کا پتا بھی بتا دیا۔ مینا فاتحانہ انداز میں اڑتی ہوئی وہاں پہنچی۔ جیسے ہی اس نے صندوق کھولا تو اس میں سے ایک بہت بڑا سانپ نکل آیا۔ اس نے مینا کو دبوچ لیا اور کہنے لگا:
”میرے پاس اسے بھیجا جاتا ہے جو لالچی اور حاسد ہو۔“
یہ کہہ کر اس نے مینا کو زور سے ڈنک مارا۔ دوسرے ہی لمحے مینا غائب ہو چکی تھی اور اس کی جگہ سرخ رنگ کی چابی موجود تھی۔
Sunehri titli kahani
Muhammad Faisal Ali
Bed time stories for kids
Bed time stories in urdu