جواب:ترقی پسند تحریک کا پس منظر
ترقی پسند ادب کی تحریک نے برصغیر میں اُس زمانہ میں جنم لیا جب یہ خطہ غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ ساتھ ہی بے کاری، ناداری اور اُن کی پیدا کردہ عمومی مایوسی اور ذہنی پژمردگی نے نئی نسل کو باغی بنا دیا تھا۔ اس لیے اس تحریک کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی تناظر میں مطالعہ کیا گیا ہے تا کہ طلبہ ان عصری میلانات سے آگاہ ہو سکیں جو تخلیق اور تخلیق کار کو متاثر کیا کرتے ہیں۔
ہمہ گیر تحریک:
ترقی پسند تحریک ایک ہمہ گیر تحریک تھی جس نے ادبی تصورات پر گہرے اثرات ثبت کیے۔ جو اصناف ادب خاص طور سے ترقی پسندی سے متاثر ہوئے ان میں افسانہ،شاعری اور تنقید قابل ذکر ہے۔جس زمانے میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی، اردو افسانے میں دو غالب رحجانات پیدا ہوئے تھے۔یعنی پریم چند کی اصلاح پسندی اور نیاز فتح پوری اور بلراج کی رومانیت پسندی موجود تھے۔اس کے بعد حقیقت نگاری کا رحجان عام ہونے لگا۔یہ رحجان روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کے تراجم سے مستحکم ہوتا گیا۔چناں چہ چیغوف وغیرہ کے افسانوں سے اردو کے افسانہ نگار واقف ہوگئے۔ ان میں پریم چند،احمد علی،اخترحسین رائے پوری اور سجاد ظہیر شامل ہیں۔اس کے بعد ترقی پسند افسانہ وجود میں آنے لگا۔حقیقت پسند اور ترقی پسند افسانے میں فرق یہ ہے کہ حقیقت پسند افسانہ خارجی سچائیوں کو سائنسی قطعیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔اس میں افسانہ نگاری کی ذاتی رائے و جدان اور بصیرت کا م نہیں آتی۔زیادہ سے زیادہ حقائق کی ترجمانی کرتا ہے۔ جہاں تک ترقی پسند افسانے کا تعلق ہے اس میں حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ حقیقت یعنی سماجی اور طبقاتی نظام کو بدلنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔اس طرح سے ترقی پسند افسانہ سماجی مسائل کی عکاسی بھی کرتا ہے اور ان مسائل کا مناسب حل بھی تجویز کرتا ہے۔
کل ہند کانفرنس:
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو ادب تخلیق کیا گیا اس کے بارے میں منشی پریم چند نے”کُل ہند کانفرنس“ کے صدارتی خطبے میں کہا ہے کہ:
”جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو،روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے،ہم میں قوت وحرارت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جا گے،جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچااستقلال نہ پیدا کرے۔وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ہماری کسوٹی پر وہی ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو،حسن کا جوہر ہو،تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت،ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔ ترقی پسند مصنفین کو یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ورنہ ان کی بہت سی محنت اکارت جائے گئی۔ان کے خیالات کیسے ہی بلند پائیہ اور انقلاب انگیز کیوں نہ ہو ں،پت جھڑ کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے۔“
بحوالہ خلیل الرحمن اعظمی ”اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک“ ص۔۵۱
وسیع نقطہ نظر:
ترقی پسند افسانے نے اہل وسیع نقطہ نظر پیش کیا ہے۔اس میں پہلی بار قومیت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامیت اور دنیا کے دبے کچلے ہوئے عوام اور ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ ترقی پسند افسانے نے تعصبات کی دھند کو صاف کیا۔انسانوں کے درمیان جو اونچی دیواریں کھڑی ہوگئیں تھیں انھیں ڈھا کر انسان کو بحیثیت ایک کُل کے پیش کرنے کی کوشش کی۔ترقی پسند افسانہ عوام کی دوستی کی ایک نمایاں مثال ہے۔اس نے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا اور انھیں اپنی خودی کا احساس دلایا۔ترقی پسند افسانے کے بارے میں ڈکٹر صادق لکھتے ہیں
”ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اردو افسانے کی روایت کو نہ صرف یہ کہ آگے بڑھایا بلکہ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی اقدار زندگی کے نئے مسائل اور فن کی نت نئی راہوں کو اپنے فن میں سمو کر ایک نئی روایت قائم کی۔اپنی فکر اور فن کے زریعے ترقی پسند افسانے کی بنیاد مستحکم کرنے والے افسانہ نگاروں میں علی عباس حسینی، اختر حسین رائے پوری، رشید جہاں،حیات اللہ انصاری، سہیل عظیم آبادی،اپندرناتھ اشک، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، خواجہ احمد عباس، عزیز احمد، دیوایندرسیتارتھی،مہندر ناتھ اور ہنس راج رہبر کے نام خاص ہیں۔ ان میں کرشن چندر،منٹو، بیدی، عصمت چختائی، حیات اللہ انصاری اور احمد ندیم قاسمی کو نمائندہ ترقی پسند افسانہ نگار قرار دیا جاسکتا ہے۔“ بحوالہ ڈاکٹر محمد صادق،”ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ“،۱۹۸۱ ء ص ۱۳۴
یہاں ضمنی طور پر اس بات کی وضاحت بھی مطلوب ہے کہ کیا ترقی پسندی صرف مارکسی افسانہ نگاروں تک ہی محدود و مخصوص ہے؟ظاہر ہے ترقی پسندی کا مطلب معاشرتی خرابیوں مثلاًظلم،،پسِ ماندگی،جہالت اور استحصال کے خلاف قلمی جہاد کرنا ہے۔ظاہر ہے یہ ایسا انسان دوستانہ فریضہ ہے جو ہر فن کار شعوری یا غیر شعوری طور پر انجام دیتا ہے۔ایک باضمیر اور حساس فن کار رجعت پرست ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ ایسی قوتوں کا ساتھ دیتا ہے جو انسانی اقدار کا تحفظ کرتی ہیں اور انسانی بھلائی اور ترقی کو اپنا نظرئیہ بناتی ہیں۔اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر فن ترقی پسند ہے۔ہاں یہ ضرورت ہے کہ ایسے فن کار کا شعوری طور مارکسیت کے علم کے سہارے پرانے نظام کو بدلنا چاہتا ہے اور بہتر معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے۔اول الذکر افسانہ نگاروں میں منٹو اور اور اختر نیوی کا نام لیا جاسکتا ہے۔جبکہ موخر الذکر افسانہ نگاروں میں کرشن چند،راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
ارتقائی جائزہ:
یہاں پر ان افسانہ نگاروں کا ایک ارتقائی جائزہ پیش ہیں جو شعوری طور ترقی پسند رحجانات کی آب یاری کرتے رہے ہیں۔ ان میں سرفہرست پریم چند کا نام ہے۔پریم چند نے ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی صدارت کی۔ وہ ترقی پسند ی کے مفہوم سے واقف تھے۔ انہوں نے ہندوستانی دیہات میں پیشوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے بارے میں حقیقت پسند انہ افسانے لکھے۔موصوف نے اردو افسانے کو داستانی ماحول کی خواب آوری سے نکال کر زندگی کی ٹھوس حقیقت سے سامنا کرایا۔
آغاز:
ترقی پسندافسانے کا آغاز منشی پریم چندسے ہوتا ہے۔پریم چند کے زمانے میں جتنی بھی کہانیاں لکھی گئیں تھیں ان میں ترقی پسند خیالات جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ترقی پسند افسانے کا بنیادی مقصد سماجی مسائل کو اجاگر کرناتھا۔ترقی پسندافسانہ نگاروں نے زیادہ زور ان باتوں پر دیا کہ ہر ایک انسان کو یکسان حق ملے،لوگوں میں محبت، اخوت اور انسانیت کا جذبہ پیداہو، روح اور ذہن کو بیدار کیا، انسانی قدروں کو آگے لے گئے وغیرہ۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ترقی پسند افسانے سے پہلے جو افسانے لکھے گئے اُن میں ان چیزوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔مثال کے طور پر ایک غریب طبقے کے حالات، ان کے احساسات و جذبات کو یکسر نظرانداز کیا گیا تھا۔ لیکن پریم چند نے ترقی پسند ادیبوں کے اندر ایسا جوش بھر دیا کہ اس پسماندہ طبقے کی روداد پیش کی جانے لگی،غریبوں اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم کو دکھایا گیا،سرمایہ داروں کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ غرض غریبوں، کسانوں اور دکھی انسانوں کے دکھ درد کو ترقی پسند افسانہ میں پیش کیا گیا۔ الغرض ترقی پسند افسانے لکھنے کا پہلا اور آخری مقصد طبقاتی کشمکش اور عصری مسائل کی طرف توجہ دلانا تھا۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو پریم چند کے بعد آنے والے افسانہ نگاروں نے بھی اپنائے۔ جن افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی سے اپنا رشتہ جوڑ لیااور اسے مضبوط کیا اُن میں اختر حسین رائے پوری،علی عباس حسینی،رشید جہاں، سہیل عظیم آبادی، حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، اپندر ناتھ اشک، منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، خواجہ احمد عباس، اختر انصاری، اختراورنیوی، بلونت سنگھ،عزیز احمد وغیرہ کا تعاون قابل ذکر ہے۔
پریم چند:
ترقی پسند تحریک کے افسانے کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ ترقی پسند افسانے کی روایت کا رشتہ براہ راست پریم چند کی حقیقت نگاری سے وابستہ ہے۔ منشی پریم چند گو کہ اردو کے پہلے افسانہ نگار نہیں ہیں، لیکن افسانہ نگاری میں اس اعتبار سے ان کو ایک بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو داستانوی ماحول سے نکال کر اس کا رشتہ زندگی سے قائم کیا۔ پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی رو پ میں نظرآتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پریم چند نے انسانی عظمت اور محنت کو بھی بلند مقام عطا کرنے کی سعی کی۔ پریم چند کی ان خصوصیات کی بنائپر ان کو پہلا ترقی پسند افسانہ نگار خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں سوا سیر گیہوں، کفن، زیور کا ڈبہ وغیرہ شامل ہیں۔
کر شن چندر:
کرشن چندر کی ابتدائی شہر ت اور مقبولیت کا سبب ان کا رومانی طرز نگارش ہے۔ وہ طبعاً رومانی فنکار تھے۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس رومانی فضا ئمیں کھوئے نہیں رہے اور جلد ہی اس فضا سے نکل کر وہ حقائق کی دنیا کی طرف گامزن ہو گئے۔ چنانچہ ”طلسم خیال“ کے بعد ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”نظارے“ کے نام سے شائع ہوا تو اس مجموعے کے افسانوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے زاویہ نظر میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلی آ رہی تھی۔ اور ”ان داتا“ میں تو کرشن چندر رومان پرست کی بجائے تلخ حقیقت نگار اور انقلاب پسند کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔
کرشن چندر کی عظمت کی کئی وجوہات ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ ان کے افسانوں کے موضوعات میں برا تنوی ہے۔ ان کے افسانوں میں فطرت کے حسن اور عورت کی رومانی دلکشی کے علاوہ اپنے عہد کی وسیع عکاسی بھی ملتی ہے۔ ان کے مشاہدے کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ اپنے موضوعات، اپنے گرد وپیش کی دنیا سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات میں سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں۔
دوسری بات کرشن چندر منظر کشی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ بقول محمد حسن منظر نگاری میں آج تک ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں فطر ت کا سار حسن سمٹ کر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ اپنے طرز نگارش کے ذریعے وہ افسانے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے اُن کی نثر کو شاعری کہا ہے جو شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی محفل لوٹ کر لے جاتا ہے۔
کرشن چندر نے فسادات کے موضوع پر بھی قلم اُٹھایا چنانچہ ان کے مجموعے ”ہم وحشی ہیں“ کے سارے افسانے فسادات سے متعلق ہیں۔ اُن کے باقی مجموعوں نام یہ ہیں۔ طلسم خیال، نظارے، ہوائی قلعے، گھونگھٹ میں گوری جلسے، ٹوٹے ہوئے تارے، ان داتا، ہم وحشی ہیں، تین غنڈے، زندگی کے موڑ پر، نغمے کی موت اور پرانا خدا وغیرہ
سعادت حسن منٹو:
ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ایک اور اہم نا م سعادت حسن منٹو کا ہے۔ منٹو کاشمار اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے کچھ افسانے متنازع رہے ان پر فحش نگاری کے الزامات لگے، ان پر مقدمات چلے لیکن ان سب کچھ کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ اردو کا اہم اور عظیم افسانہ نگار ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی نمایا ں خوبی یہ ہے کہ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ جس کی بنائپر افسانوں میں یکسانگی پیدا نہیں ہوتی۔ منٹو اپنے افسانوں میں اگر طرف جوان لڑکوں لڑکیوں کی جنسی الجھنوں، غریب، مزدور، سماج میں کچلے ہوئے طبقے اور طوائف کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ تو دوسری طرف ان کے افسانوں کا موضوع ہندوستان کی جنگ آزادی، جدوجہد اور تقسیم بھی ہیں۔ اسی طرح ان کے کردار بھی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں ہر طبقے اور ہر شعبے کے کردار نظر آئیں گے۔ کالج کے لڑکے لڑکیوں سے لے کر پہلوان اور استاد تک، قریب قریب معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے کردارمنٹو کے افسانوں میں ملیں گے۔
منٹو کا زندگی کا مطالعہ کافی وسیع تھا لیکن اُن نے اپنے اردگرد جو کچھ دیکھا اُسے بغیر کسی جھجک کے بیان کر دیا۔ اُن کی حقیقت نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ زندگی کے مختلف حقائق تک ان کی نظریں بڑی بے باکی اور دراکی کے ساتھ پہنچتی ہیں۔ اور ان کو پوری طرح نمایاں کر دیتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ منٹو صرف ایک افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ بقول عبادت بریلوی وہ انسانی نفسیات کا گہرا نباض بھی ہے اس کی ہر کہانی کو اس کا یہی نفسیاتی شعور حقیقت سے ہم آہنگ کر تا ہے۔ اس کے نفسیاتی شعور کے بنائپر رومانی موضوعات تک اس کے یہاں حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ زندگی کی ہر پہلو کی ترجمانی میں اس نے کسی نہ کسی اہم حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ خصوصاً زندگی کے معاملات اور کرداروں کی حرکات و سکنات کو پیش کرنے میں نفسیاتی شعور اپنے عروج پر ہے۔
منٹو کا اسلوب:
جہاں تک منٹو کے اسلوب کا تعلق ہے تو مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ نگاری میں منٹو وہ پہلا افسانہ نویس ہے جس نے افسانے کی نئی زبان دریافت کی اس لیے تو حسن عسکری اُن کے اسلوب کو زندہ اسلوب کہتے ہیں۔ منٹو نے جو کچھ کہا اس میں آورد نا م کو نہیں۔ منٹو کے مشہور افسانو ں میں ٹھنڈا گوشت، بو، دھواں، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالی شلوار وغیر ہ جیسے افسانے شامل ہیں۔
عصمت چغتائی:
ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کا نا م بھی شامل ہے۔ عصمت کے افسانے فنی خوبی اور قدرت زبان و بیان کی بنائپر بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ منٹو کے بعد عصمت چغتائی دوسری افسانہ نگار ہیں جس نے اپنے افسانوں میں جنسی پہلو کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا۔ خصوصاً متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں اور ان کی عورتوں اور بچوں کی نفسیاتی اور جنسی الجھنوں کوانہوں نے بڑی بے باکی سے موضوع بنایا۔ ان کے افسانے ”لحاف“ پر باقاعدہ مقدمہ چلا۔
اس میں شبہ نہیں کہ عصمت کے یہاں فن کی اعلی قدروں کے لیے زبان اور قلم کی جس نیکی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے، البتہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عصمت کو جذبات پر قدرت اور اظہار بیان میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے انہوں نے اپنے افسانوں کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کی جوان کے پلاٹ اور موضوع کے ماحول سے گہری مطابقت رکھتی ہے۔ تقسیم کے بعد کے افسانوں میں اُن کے ہاں سستی جذباتیت اور فن پر مقصدیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی:
اس دور کے ایک اور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ بیدی کے یہاں بھی کرشن چندر کی طرح رومانیت سے حقیقت نگاری کی طرف مسلسل اور واضح سفر دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک بیدی کے افسانوں کے موضوعات کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی دکھوں، پریشانیوں اور محرومیوں کو موضوع بنایا ہے۔ دراصل بیدی خود ایک دردمند شخصیت کے مالک تھے، ان کی دردمند ی شخصیت کی بدولت افسانے پر بھی درمندی کی فضائچھا جاتی ہے۔ جو قاری کو ان کا ہمنوا بنا لیتی ہے۔
نقادوں نے بیدی کے افسانوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ ان کے کردار اپنے ماحول میں مکمل طور پر بسے ہوتے ہیں۔ ان کا سبب یہ ہے کہ بیدی افسانے کی جزئیات، واقعات و کرداروں کے ماحول اور ان کیاالجھنوں کا اور مسائل کا بہ نظر غائر مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں۔ اُن کردار گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان ہی نظر آتے ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ اور ”لاجونتی“ شامل ہیں۔
احمد علی:
ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانہ نگاری میں ایک نام احمد علی کا بھی ہے۔ احمد علی کو پہلے پہل شہرت ”انگارے“ کی وجہ سے ملی۔ انگارے افسانوں کا ایک مجموعہ ہے، جس میں احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانے بھی شامل تھے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید انگارے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے افسانوں کا ایک نیا مجموعہ ”شعلے“ پیش کر دیا۔ احمد علی نے اپنے افسانوں میں مٹتی ہوئی تہذیب پر بڑی جرات اور بے باکی سے ظفر عزیز اور اس کے قلعے کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کے خلاف رد عمل احتجاج کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور انگارے کے خلاف اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیونکہ فن اور خیالات دونوں کے اعتبار سے یہ ایک باغیانہ مجموعہ تھے۔ اس لیے بعد میں اس کتاب کو ضبط کر لیا گیا۔
احمد علی اگرچہ منٹو وغیرہ کی طرح مشہور نہیں ہوئے لیکن ان کے ہاں گہرا شعور ملتا ہے۔ ان کے ہاں حقیقت اور ماورائے حقیقت دونوں کا شعور ملتا ہے۔ ان کی بہترین کہانیوں میں ہماری گلی، پریم کہانی، شامل ہیں۔ احمد علی کا انداز رمزیہ اور لب و لہجہ فلسفیانہ ہے ان کے ہاں اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار کا شعور ملتا ہے۔
رشید جہاں:
ڈاکٹر رشید جہاں کو بطور افسانہ نگار ”انگارے“ نے متعارف کرایا۔ تاہم افسانہ ان کی زندگی کا مقصد نظر نہیں آتا بلکہ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی ہربات صنف نازک کا مرثیہ معلوم ہوتی ہے۔
اختر حسین رائے پوری:
ڈاکٹر انور سدید، اختر حسین رائے پوری کی افسانہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اختر کی افسانہ نگاری آسکر وائلڈ اور موپاساں کے زیر اثر شروع ہوئی تھی۔ تاہم ”محبت“ اور ”نفرت“ کے افسانوں میں زندگی کی پیکار اور آویزش کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اور ان میں سیاسی بیداری کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ ان کے آخری دور کے افسانوں ”دیوان خانہ“ میں معاشرتی شعور اور ”جسم کی پکار“ میں جنسی احساس کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔
خواجہ احمد عباس:
خواجہ احمد عباس ایک ایسا افسانہ نگار ہے جو زندگی کی تعبیر صرف ترقی پسند نظریات کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس کے افسانوں میں سماجی مسائل اور سیاسی الجھنوں کو اہمیت حاصل ہے۔ خواجہ احمد عباس ترقی پسند تحریک کا ایسا رپورٹر ہے جس پر افسانہ نگار کا گمان کیا جاتاہے۔ اس کے کردار حقیقی ہونے کے باوجود غیر فطری نظرآتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی:
احمد ندیم قاسمی کے رومانی افسانوں میں بیشتر ماحول وادی سون سکسیر کا دیہی منظر نامہ ہے۔ جبکہ سماجی حقیقت نگاری کے لیے احمد ندیم قاسمی نے ہماری دیہی اور شہری معاشرت دونوں کو چنا ہے۔ جبکہ گھریلو ماحول بھی اُن کے ہاں ملتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے سماجی حقیقت نگاری کے لیے کہانی میں مکالمہ نگاری کو خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ”کہانی لکھی جا رہی ہے۔“ میں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ندیم صاحب متوسط طبقے کی منافقت کی بھی اچھی تصویر کشی کرتے ہیں۔”گھر سے گھر تک“، ”سفارش“ میں ادنیٰ طبقوں کی منافقتوں کی اچھی فطرت اور و ذہنیت کے انتہائی پست پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔
فسادات کے حوالے سے لکھے گئے افسانوں میں احمد ندیم قاسمی کو اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ ان میں جانبداری نہیں برتی گئی۔ کیونکہ ندیم صاحب اس بات سے آگاہ تھے کہ اچھے برے لو گ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ ہے۔
کچھ افسانہ نگاروں کا ذرا تفصیل سے اوپر ذکر ہوا، ان کے علاوہ اور بھی بے شمار افسانہ نگار اس دور میں افسانے لکھ رہے تھے مثلاً عزیز احمد، اختر اورینوی، حیات اللہ انصاری، بلونت سنگھ وغیرہ۔