سوال: ترقی پسند تنقید کے اہداف کیا تھے؟ کیا ترقی پسند فکر نے اُردو تنقید کو نئے رجحانات دیے؟ تفصیل سے بیان کریں۔


جواب: ترقی پسند تنقید


ترقی پسند تنقید سے تشکیل پانے والے دبستان نقد، تنقید کے دیگر تمام دبستانوں سے اس بنا پر جداگانہ اور منفرد ہے کہ بقیہ تمام تنقیدی دبستان علمی (نفسیاتی یا عمرانی) ادبی(رومانی) اور تخلیقی (جمالیاتی یا تاثراتی) تصورات پر استوار ہیں۔ جب کہ ترقی پسند تنقید کی فکری اساس اس صدی کے اہم ترین معاشی تصور اور مادی فلسفہ یعنی مارکسیت پر مبنی ہے۔ اس لیے اسے بالعموم مارکسی تنقید کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات اسے سوشلسٹ تنقید،، انقلابی تنقید یا سائنٹفک تنقید بھی کہا گیا ہے۔
ترقی پسند تنقید کی فکری اساس اور اہداف:
ترقی پسند تنقید میں زندگی، معاشرہ اور عمومی صورت حال کا تجزیہ مادی جدلیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے یعنی مادی رشتے پیداوار کے بدلتے انداز، آلات اور پیداوار کی نئی صورتیں، اقتصادی عوامل پر یہ سب زندگی اور معاشرہ میں تبدیلی لاتے ہیں۔
ترقی پسند تنقید کا موضوع اپنے تمام متنوع خصائص اور گوناگوں مسائل کے ساتھ ادب و شعر عوام کے لیے ہیں۔ اس لیے تنقید کے تناظر میں تخلیقات کا مطالعہ کرتی ہے۔ یعنی ادب نے کس حد تک عوام کے مسائل کو نمایاں کیا اور اُن کے دکھ درد کے بارے میں آگہی کا ثبوت دیا۔
ترقی پسند تنقید میں اظہار اور اسلوب کے سلسلہ میں حقیقت نگاری سے کام لیا جاتا ہے یعنی زندگی جیسی بھی ہے، بری بد رنگ، قبیح، کریہہ…… اسے ویسا ہی پیش کیا جائے۔ زندگی کی حقیقی تصویر کشی کے لیے اس نے سوچنے اور سیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس نے ادب میں آمریت کی بجائے جمہوریت کی ہے۔
انتہا پسندی:
ترقی پسند تحریک کی تنقید شروع میں اتنہا پسندی کا رجحان زیادہ تھا۔ اس انتہا پسندی کے جوش میں انھوں نے میرتقی میر سے لے کر غالب تک بعض اچھے شعرا ء کو صرف اس جرم کی پاداش میں یکسر قلم زد کر دیا کہ انہوں نے طبقاتی کشمکش میں کسی طرح کا کردار ادا نہیں کیا۔ اکبر الہ آ بادی، حالی، سرسید، اقبال وغیرہ ان کے لیے ناقابلِ قبول قرار پائے۔ لیکن اس ابتدائی جارحیت کے بعد مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، عزیز احمد اور دیگر سلجھے ہوئے ناقدین نے اشتراکیت کے بارے میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے عصری ادب میں نئی جہات دریافت کیں۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کے شعراء پر نئے زاویے سے روشنی ڈال کر ان کی عظمت میں اضافہ کیا۔انھوں نے پہلی مرتبہ مارکسی تنقید کی ابتداء کی۔ اس سلسلے میں جدلیاتی، مادیت، طبقاتی کشمکش اور انقلاب کو سامنے رکھ کر ادب کے مسائل پر غور کیا گیا۔
ترقی پسند تحریک کی دین:
ترقی پسند تنقید دراصل ترقی پسند تحریک کی دین ہے۔ ترقی پسند تحریک 1936ء میں وجود میں آئی، جس کا بنیادی مقصد ادب اور زندگی کی رشتہ جوڑا تھا۔ جب ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو اُس کے زیر اثر جو ادب تخلیق ہوا، اُس نے اپنی پرکھ کے لیے مارکسی تنقید کی ضرورت محسوس کی۔
مارکسی تنقید:
مارکسی تنقید کو ہی ترقی پسند تنقید اور سماجی تنقید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مارکسی تنقید ایک ایسی تنقید ہے، جسے اُردو میں باقاعدہ ایک دبستان قرار دیا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے زندگی میں رونما ہونے والے مسائل کو اپنا موضوع بنایا یعنی سماج اور اُس سے وابستہ مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنے لگے اور ادب برائے زندگی کا تصور پیش کیا۔
ادب برائے زندگی:
ایک مارکسی نقاد ادب پارے میں صرف داخلیت، عشق و محبت یا رومانی باتوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ وہ ایسے ادب کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے ادب پارے جس میں عوام کی ترجمانی نہیں ہوتی، عوام کی کشمکش اور ُن کے دکھ درد کو نہیں پیش کیا جاتا تو ایسے ادب کا کوئی فائدہ نہیں، یہ مارکسی نقادوں کا ماننا تھا۔ اسی لیے مارکسی نقادوں نے ادب برائے زندگی کے تصور کو عام کیا۔
عوامی دوست:
مارکسی تنقید یا ترقی پسند تنقید کا بنیادی سوال یہی ہے کہ ادیب طبقاتی کشمکش میں کس طبقے کی حمایت کر رہا ہے۔ کیا دم توڑتی ہوئی قدروں کے گیت گاتا ہے یا زندگی میں رونما ہونے والے مسائل کو پیش کرتا ہے اور عوام و محنت کش طبقہ کے ساتھ شانہ ملا کر چلتا ہے۔ اگر وہ عوام کا دوست ہے اور عوامی مسائل کو نمایاں کرتا ہے تو ترقی پسند نقاد انہی زاویوں سے کسی فن پارے کا جائزہ لیتے ہیں۔ ترقی پسند تنقید میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادیب کیا کہتا ہے،ا سے کسی سے دل چسپی نہیں ہوتی کہ وہ کیا کہتا ہے۔ یعنی ترقی پسند تنقید ان تمام نظریات کو پیش نظر رکھتی ہے جو عوام، مزدور، کسان اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
سماجی محرکات:
بنیادی طور پر کہا جا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تنقید نے جاگیردارانہ نظام کے خالف آواز اُٹھائی اور انوں نے جو عام بھولے بھالے انسانوں کا استحصال کیا، ان کے خلاف تخلیقات پیش کیں۔ یعنی سماجی محرکات اور ان میں رہنے والے تمام لوگوں کے مسائل کو پیش کرنا ترقی پسند ادیبوں کا بنیادی مقصد تھا۔ اسی لیے ترقی پسند تنقید میں اسی حوالے سے بات کی جاتی ہے اور کسی بھی ادب پارے کی تنقید میں اس بات کو ذہن میں رکھا جاتا ہے کہ اس میں ادب اور زندگی کا تصور پیش کیا گیا ہے یا نہیں۔
ترقی پسند تصورات:
طبقاتی کشمکش، اونچ نیچ، ذات پات، رنگ بید خواہ وہ کسی سطح پر ہو، ان تمام باتوں کو ترقی پسند تنقید نگار پیش نظر رکھتے ہیں اور ان ہی روشنی میں وہ کسی بھی ادب پارے کی تنقید کرتے ہیں۔ ترقی پسند تنقید نگاروں میں اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھ پوری، احتشام حسین، ممتاز حسین، عزیز احمد، محمد حسن، قمر رئیس کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان نقادوں نے ادب کے ترقی پسند تصورات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فن پارے کی تنقید کی ہے۔
مخدوم محی الدین:
معروف ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین کا ایک شعر،جو انہوں نے غالباً ترقی پسند تحریک کے سلسلے ہی میں کہا تھا،تحریک کے منشور کی مکمل ترجمانی کرتا ہے
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
ہمہ گیر مقبولیت:
ترقی پسند تحریک اپنے خاص سیاسی،ادبی اور سماجی تناظرمیں جس قدر مقبول ہوئی اسی قدر اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بھی بنایا گیا۔اس تحریک کی ہمہ گیر مقبولیت میں جہاں اس کے جدت پسند منشور اور اس کے تحت تخلیق ہونے والے ادب کا عمل دخل ہے،جو فکر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ثابت ہوا،وہاں ان شخصیات کی شب وروز کی محنت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے پورے خلوص کے ساتھ اس کے منشور پر عمل کیا۔خود ترقی پسندوں کی نظر میں اس کے مقابلے میں کوئی اور تحریک ٹھہرتی ہی نہیں۔
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری:
ترقی پسند تحریک کو اساس فراہم کرنے والوں میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اہم نام ہے۔اپنے ایک مقالے”ادب اور زندگی“میں جو ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا،انہوں نے لکھا:
”۱۔صحیح ادب کا معیاریہ ہے کہ وہ انسانیت کے مقصد کی ترجمانی اس طریقے سے کرے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے اثرقبول کرسکیں،اس کے لیے دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ پہلے ہوناچاہیے۔
۲۔ہر ایمان دار اور صادق ادیب کا مشرب یہ ہے کہ قوم وملت اور رسم وآئین کی پابندیوں کو ہٹا کر زندگی،یگانگی اور انسانیت کی وحدت کا پیغام سنائے۔
۳۔ادیب کو رنگ ونسل اور قومیت ووطنیت کے جذبات کی مخالفت اور اخوت اور مساوات کی حمایت کرنی چاہیے اور ان تمام عناصر کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کرنا چاہیے جو دریائے زندگی کو چھوٹے چھوٹے چوبچوں میں بند کرنا چاہتے ہیں۔“
پہلے پانچ سال:
ترقی پسند تحریک کے پہلے پانچ سال ادبی سے زیادہ تبلیغی اہمیت رکھتے ہیں۔اس عرصے میں ادب پر کم اور”ترقی پسندی“پرزیادہ زور دیا گیا۔
٭اردو کے لیے ایک نئی فکری جہت:
ادب،ادیب اور سماج کے باہمی تعلق کے بارے میں مختلف سوال اسی دور میں اُٹھائے گئے جس کی بازگشت بہت دیر تک ترقی پسندوں کی تحریروں میں سنائی دیتی رہی۔اس تحریک کے زیرِ اثر یہ بات پہلی بار کہی گئی کہ سماج میں تبدیلیاں محنت کش طبقے کی حرکت وعمل سے آتی ہیں۔گوکہ اس طبقے کا اب تک استحصال ہوتارہا ہے۔چنانچہ ادب کاکام سماج کی ایسی تبدیلی میں حصہ لینا ہے جو انسانوں کے استحصال کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے،اور یہ بات بھی بالکل نئی تھی کہ ادب ان معنوں میں الہامی نہیں ہوسکتا کہ انسانی زندگی کے سیاق وسباق سے مطلق آزاد ہوجائے۔ادب کی نشو ونما سماجی عوامل کے زیرِ اثر ہی ہوتی ہے۔اس نظریے کی بدولت اردو والے ایک نئی فکری جہت سے آشنا ہوئے۔
فن اور سیاست:
ترقی پسند تحریک ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تحریک بھی تھی۔علی سردار جعفری نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سیاست ہر جگہ ہے،ہر طرف ہے،فن اور ادب کی ہر تخلیق میں ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کہیں سیاست ترقی پسند ہے اور کہیں رجعت پرست۔جب فن پارے میں ترقی پسند سیاست ہوتی ہے تو فوراً انگلیاں اُٹھتی ہیں کہ یہ فن نہیں سیاست ہے اور اگر سیاست رجعت پرست ہے تو وہ اعلیٰ درجے کا فن ہے،تفریح (Entertainment)ہے۔
ترقی پسند تنقید کے مقاصد:
ترقی پسندتحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
1۔فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
2۔ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
3۔واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
4۔ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
5۔ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
6۔بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
7۔ ترقی پسند اہل قلم کی تخلیقات کی تحسین۔
8۔ مخالفین کے اعتراضات کا علمی سطح پر جواب
9۔ ماضی کے تخلیق کاروں، تخلیقات اور فکری سرمایہ کی از سرِ نو پرکھ۔ تبدیل شدہ حالات سے عصری تقاضوں کے تناظر میں اُن کی اہمیت کا تعین کرتے ہوئے انھیں قبول یا مسترد کرنا۔
ترقی پسند ادب کی تحریک باغیانہ اور انقلابی تھی اور اسی لیے متنازعہ بھی۔ ترقی پسند اہل قلم نے زندگی نے جن موضوعات کا انتخاب کیا اور معاشرہ کے جن مسائل کو تخلیق کے محدب عدسے تلے رکھ کر نمایاں کیا۔ معاصر ادبی رویوں میں بالکل ایک نئی چیز تھی، لہٰذا مروج تنقیدی پیمانوں سے اُن کی پرکھ ممکن نہ تھی۔

٭ترقی پسند تنقید کے اردو ادب پر اثرات:
ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جس کی وجہہ سے ادب شاہی سر پرستی سے نکل کر عوام کی دہلیز پر آ گیا۔ اس تحریک نے پہلے ادیبوں اور شعراء کے ذہنوں پر اثر کیا اور ادباء و شعراء نے ادبی اصناف میں طبع آزمائی کے ذریعے عوام کے دلوں پر اثر کیا۔ ترقی پسندوں نے ادب کو افسانہ، آزاد نظم اور رپورتاژ نگاری کے فن سے ہمکنار کیا، وہیں ناول نگاری کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا۔ ترقی پسند تحریک کے پیش نظر ان کے نظریات کو پیش کرنا تھا۔
اردو ادب کے لیے ایک نئی تحریک:
ترقی پسند تحریک اردو ادب کے لیے ایک نئی تحریک تھی جو بیسویں صدی کے چوتھے دہے میں وجود میں آئی، اس تحریک کا آغاز دراصل1917ء کے روسی انقلاب سے ہوا۔ روسی انقلاب کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوئے۔ ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں تیزی آئی۔ سیاسی کشمکش کی بدولت نوجوان طبقے میں اشتراکی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔ شعراء اور ادباء لینن اور کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ جولائی 1935ء میں پیرس میں دنیا بھرکے ادیبوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ لندن میں مقیم ہندوستانی ادیبوں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے س کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے چند دنوں بعد کچھ ہندوستانی طلبا ء جو لندن میں مقیم تھے ان کو ساتھ لیکر۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کا قیام عمل میں لایا۔ اس ہندوستانی انجمن کا پہلا جلسہ لندن میں منعقد ہوا۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کو بنایا گیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی، جس کے قیام کا مقصد فن اور ادب کو رجعت پرستوں سے آزادی دلانا، ادب کو عوام کے قریب لانا، ادب کے ذریعہ سماجی مسائل کو پیش کرنا، نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے ان مقاصد کو لوگوں نے پسند کیا اور اس تحریک کا خیر مقدم کیا۔ اس تحریک کو منشی پریم چندجیسے نامور ادیب و مشہور افسانہ نگار کی سرپرستی حاصل تھی ساتھ ہی علامہ اقبال اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے بھی اس تحریک کی حمایت کی اس تحریک سے اتفاق رکھنے والوں میں منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی، سردارجعفری، جاں نثار اختر، مجاز، حیات اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل شامل ہیں۔
……٭……٭……٭……٭……

Leave a Comment