جواب:ساختیات کی تعریف
ساختیات کیا ہے؟ بنیادی طور پر ساختیات کے متعلق سوچنے کا ایک طریقہ ہے۔ یعنی یہ کہ کائنات کی بناوٹ کیا ہے اور یہ کن بنیادوں پر قائم ہے۔ ساختیات ساختوں کا علم ہے۔
آج کل ہم ساختیاتی گرامر کا ذکر سنتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زبان کے قواعد کا نظام جو مختلف ہئیتوں اور سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے مثلاً تحریر، تقریر، جملے وغیرہ اور اُن کے معنی کی سطحیں جو گرامر منتقلہ کے زمرے میں آتی ہے اور جن سے زبان کی سطحی ساخت اور گہری ساخت کا پتا چلتا ہے۔
اسی طرح جب ہم سماجیات میں ساختیات کی بات کرتے ہیں تو مختلف سماجی ہئیتوں اور عناصر مثلاً کلچر، اقتصادیات، سیاسیات اور ان کے آپس میں رشتوں کی بات کرتے ہیں جن کے ذریعے سماجی ہئیت قائم ہوئی۔ اُردو میں لفظ سٹرکچر کا متبادل لفظ وضع یا ساخت ہے۔ سٹرکچر وضعیات یا ساختیات کہلائے گا۔ ساختیات کی اصطلاح زیادہ مستعمل ہے۔
ایک تنقیدی اصطلاح:
ساختیات (انگریزی: Structuralism) لسانیات کی ایک تنقیدی اصطلاح ہے جس کے مطابق قاری اور مصنف کے خیالات و نظریات اور مہارت و اسلوب سے زیادہ ان کی ساخت کو اولیت حاصل ہے۔ماہر ساختیات اور اردو کے نظریاتی انتقادات کے محقق اور ادیب احمد سہیل نے لکھا ہے،
”ساختیات کو سادے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ مظاہر کا تجزیاتی مناجیات/ طریق عمل کاعلم یا سائنس ہے۔ اس کا بنیادی مکالمہ ”انسانی مظاہر“ سے ہی ہوتا ہے۔ ساختیات کے مظہر میں ثنوئی اختلافات کا نظام موجود ہوتا ہے۔ جس میں افترقات کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جاتا ہے اور ساخت سے معنویت/ معنیات اخذ کی جاتی ہیں۔ جو اصل میں فکر کا طرز نظر اور رسائی ہوتی ہے۔ اس نظریے کو سب سے پہلے ارسطو نے چھیڑا۔ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ فارسی زبان میں اسم ’ساخت‘ کے ساتھ فارسی قواعد کے مطابق’ی‘ لاحقی نسبت اور ’ات‘ بطور لاحقی جمع مونث لگانے سے ’ساختیات‘ بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ادبی تخلیق کی پرکھ یا تنقید کی ایک شاخ جس میں الفاظ و تراکیب کی حرفی و نحوی ساخت کو بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔“
ایک غلط تاثر:
اردو تنقید پر ہمیشہ تدریسی تنقید کا مہیب اور شیطانی سایہ رہا ہے۔ یہ پیشہ ور قسم کے نقاد اپنے قارئین کو بھی کمرہ جماعت میں بیٹھا ہوا طالب علم تصور کیے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ساختیات تنقید کے سلسلے میں یہ غلط تاثر بھی عام ہے کہ جامعات اور کالجوں کے اساتذہ ہی اس کو سمجھا سکتے ہیں کیونکہ اس کام میں تمام کا تمام ”لائبریری ورک“ ہوتا ہے۔ لہٰذا ساختیاتی تنقید کو پران چڑھانے کے لیے متن TEXT کے نقادوں کو عنانِ ساختیات سنبھال لینی چاہیے۔ یعنی جو متن یا سیاتی تنقید نہیں لکھ سکتا وہ ساختیاتی تنقید میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
تخلیقی اظہار کا مطالعہ:
ساختیات کا تعلق کسی تخلیق کی ظاہری ساخت یا بنارٹ سے نہیں ہوتا بلکہ موضوعی سطح پر جو تخلیقی اظہار ہوتا ہے اس کا مطالعہ ساختیات کرتی ہے۔ تخلیق کا ظاہری ڈھانچہ اور لسانی رنگ و روپ اور اس کی ہیت سے ساختیات کا کوئی علاقہ نہیں۔
ساختیات تنقید ہمارے یہاں لسانی ماڈل کے حوالے سے روشناس کروائی گئی۔ خاص کر لیوی اسڑوس کے بشریاتی ماڈل کو لے کر ہمارے یہاں اسی ماڈل کے حوالے سے ادب کو پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش نہایت ہی احمقانہ تھی۔ کیونکہ اسٹروس کے بشریاتی ماڈل کو سمجھنے سے پہلے اس کے ریاضیاتی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔ ہمارے یہاں نقادوں کے سامنے جہاں ریاضی کی بات ہوتی ہے تو ہمارے نقاد صاحبان کے قلم ٹھہر جاتے ہیں اور ”ذہن“ سوچنے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ان نقادان فن نے لسانیات اور ادب کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر کے جس قسم کا بھونڈا انداز اپنایا ہے اس سے اردو تنقید کو نقصان پہنچا ہو یا نہ ہو مگر ان کے غیر تخلیقی اور غیر تنقیدی ذہن کے نیچ پن کی قلعی ضرور کھل گئی۔
موضوعات:
یہ امر اپنی جگہ مسلمی ہے کہ ساختیات کا علم صرف لسانیاتی علم (حوالہ) ہی نہیں بلکہ عمرانیاتی، بشریاتی، طبعیاتی، نفسیاتی، حیاتیاتی، حیوانیاتی، نباتاتی، ریاضیاتی، شماریاتی اشارہ فہمی کے علوم بھی ساختیات کے اہم موضوعات ہیں۔ مگر جب اردو کے حوالے سے ساختیات کی بات کی جائے تو نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم ثقافتی بشریات اور نظری عمرانیات کے موضوع پر تھوڑی بہت نظر رکھتا ہو۔ یوں تو روایتی طور پر ہمارے تمام تنقیدی ڈھانچہ تاثراتی ہے مگر ساتھ تھوڑی سی عملی تنقید بھی لکھی گئی یا مفروضے تشکیل دے کر یا نظریاتی حوالے سے ادبی تخلیقات کو پرکھا اور جانچا گیا اور یوں فن ان تنقیدی تحریروں سے غائب ہو گیا اور نظرئیے کی بازگشت ہر طرف سنائی جانے لگی۔
ہر ادب میں ساختیاتی عنصر ملتا ہے دنیا میں ایسی کوئی تخلیقی اور علمی تحریر نہیں جو اپنی ساختیاتی جواز نہ رکھتی ہو۔ یہ ناممکن ہے لسان و زبان، جمالیات، تشیہات، استعارے، علامات، فلسفیانہ متن، معاشرتی اور سیاسی بے چینی اور تخلیق کار کی ذاتی واردات اپنے ساختیات پیکر میں قارئین کے ذہن میں نہ آتے ہوں۔
وسیع معانی:
ساختیات ایک ادبی اور لسانی اصطلاح ہونے کے باوجود اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔کیو نکہ ساختیات نہ صرف زبان کی ساخت اور ڈھانچے کے تعلق سے جانکاری فراہم کرتی ہے بلکہ یہ متن میں لفظ اور معنی کے رشتے کے نظام سے تعلق رکھتی ہے۔اس کے مطابق متن بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر معنی قائم ہوتاہے تو وہ انہی رشتوں کے نظام سے ہوتا ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ فلسفہ ساختیات کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”ساختیات کا فلسفیانہ چیلنج یہ ہے کہ ذہن انسانی حقیقت کا ادراک کس طرح کرتا ہے اور حقیقت جو معروضِ وجود ہے کس طرح پہچانی اور سمجھی جاتی ہے۔یہ بات خاطرنشان رہنا چاہیے کہ ساختیات صرف ادب یا ادبی اظہار سے متعلق نہیں بلکہ اساطیر،دیو مالا،قدیم روایتیں،عقائد،رسم ورواج،طورطریقے،تمام ثقافتی معاشرتی مظاہر مثلاً،لباس وپوشاک،رہن سہن،خوردنوش،بودوباش،نشت وبرخاست وغیرہ یعنی ہروہ مظہر جس کے ذریعے ذہن انسانی ترسیل معنی کرتا ہے یا اداراک حقیقت کرتا ہے،ساختیات کی دلچسپی کا میدان ہے۔“
اصل معنی تک رسائی:
ساختیات اپنے سابقہ نظریات کے ردعمل میں ایک ایسا تنقید ی نظریہ ہے جو فن پارے کے سطحی معنی یا ہئیت کو موضوعِ بحث بناکر مصنف کی ذات کو مرکزیت عطا کرکے فن پارے کو وحدانی اور مستقل معنی پہنانے پر اصرار کرتی ہے۔ساختیات نہ صرف چَھپے ہوئے الفاظ تک خود کو محدود رکھتی ہے بلکہ متن کے اندر چُھپے معنی اور معنیاتی نظام کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کرتی ہے۔یعنی زبان کی سطحی واقفیت سے تفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں بلکہ متن کے اصل معنی تک رسائی حاصل کرنے سے ہوتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب متن مصنف کے معنوی امکانات اور زبان کے تمدنی انسلا کات کے علم سے آگہی رکھتا ہو تب جا کے متن کی نچلی تہوں میں چُھپے معنی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ساختیاتی مطالعہ کی انتہا شعر وادب کی شعریات کا مطالعہ نہیں بلکہ شعریات کی تلاش وجستجو میں مضمر ہے جس سے متن کے اُس معنیاتی نظام سے شناسائی ہوتی ہے جس سے معنی متشکل ہوتے ہیں۔
ثقافتی تناظر میں تجزیہ:
ساختیاتی تنقید میں فن پارے کا تجزیہ ثقافتی تناظر میں ہوتا ہے۔کیو ں کہ ساختیاتی نقادوں کا ماننا ہے کہ فن پارہ اپنے دور کی ثقافتی معاشرتی نظام کا مظہر ہوتا ہے لہٰذا فن پارے میں جو زبان تشکیل پاتی ہے اُس کے معنیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے اُس کے ثقافتی تنا ظر میں جھا نکنا ضروری ہے کیو نکہ فن پارہ خود مختار اورخود مکتفی یا خودکفیل نہیں ہوتا ہے۔ساختیاتی تنقید کے نظریے کے مطابق فن پارے میں پہلے سے ہی طئے شدہ معنی نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ فن پارے کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد قاری کی ذہنی ساخت فن پارے کو معنی عطا کرتی ہے۔اس طرح ساختیات سوسئیر کے نظریہ لسان کے قریب ہو جاتی ہے جس کے مطابق اشیاء بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں بلکہ انسان اُن کے لئے معنی خلق کرتا ہے۔گوپی چند نارنگ اس ضمن میں رقمطراز ہیں:
”نقاد فن پارے کا محض تماشائی نہیں ہے۔نہ تو فن پارہ کوئی تیارشدہ (Ready made) مال ہے نہ نقاد محض اس کا صارف (Consumer) ہے۔ساختیات کے نزدیک نقاد فن پارہ کو اپنی قرأت (Reading) سے معنی دیتا ہے۔چنانچہ نقاد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ نیازمندانہ طور پر فن پارے کے امکانات کے آگے سرجھکا دیں۔اس کے برعکس نقاد عملی طور پر معنی کی تعمیر کرتا ہے۔وہ فن پارے کو ”موجود“ بناتا ہے۔“
متن کی گہرائی تک اترنا:
فن پارے کی معیناتی تکمیل نقاد یا قاری کی ذہنی ساخت میں مضمر ہے۔حالاں کہ فن پارے کے جو معنی متعین کیے جاتے ہیں بظاہر وہ اُس کے معنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ صحیح معنی تک پہنچنے کے لیے نقاد کو متن کی گہرائی میں اُتر کر الفاظ کی نشست وبرخاست سے واقفیت حاصل کرکے فن پارہ کے اندر استعمال ہوئی زبان کے معنیاتی رشتوں کے نظام کو جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ساختیاتی نظریہ کا آغاز فرانس سے ہوا اور اس سلسلے میں Claude levi Strouss کی تصنیف Anthropology Structuralism بڑی اہمیت رکھتی ہے۔اس کے بعد روس میں اس کو تقویت ملی جس میں پیلی فنیوف،شکلووسکی،اچن بام اور ٹوما چوسکی کا نام اہمیت کے حامل ہیں۔اردوتنقید میں جن نقادوں کی خدمات اس سلسلے میں نا قابل فراموش ہیں اُن میں گوپی چند نارنگ،شمس الر حمن فاروقی،ڈاکٹرشارب ردولوی،ڈاکٹر فہیم اعظم،قمر جمیل،ڈاکٹر وزیر آغا،احمد سہیل اور قاضی قیصرالالسلام کے نام شامل ہیں۔
ساختیات اور ادب:
مغربی نقاد اور شاعر ایذرا پاؤنڈ نے ایک بار کہا تھا:
”بڑا ادب صرف زبان ہوتی ہے جو اپنی آخری حد تک پُر معنی ہوتی ہے۔“
ایذرا پاؤنڈ ساختیاتی فکر کا آدمی نہیں تھا لیکن ادب میں زبان کی اہمیت کا اندازہ تو ہمارے قدما کو بھی تھا لیکن سمجھتے تھے کہ زبان کا کام نمائندگی ہے۔ وہ اچھے ادب کے لیے ایک ذریعہ ہے لیکن ساختیاتی فکر میں زبان کا کوئی’میڈیم‘کا رول نہیں ہے۔ بلکہ زبان خود ادب ہے۔ زبان ہی آرٹ ہے اور ادب کی جمالیات ہوتی ہے۔ ساختیات میں ادب کے اندر زبان ہوتی ہے۔ ساختیات کی کچھ خصوصیات ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔
ساختیات کی خصوصیات:
نظریہ کل:
کل ہم اُسے کہتے ہیں جس میں بہت سی وحدتیں شامل ہیں۔ یہ وحدتیں خود الگ الگ ہوتی ہیں مگر کل میں شامل ہونے کے لیے ان کو آپس میں نظام اور قوانین کے تحت گتھم گتھا ہونا پڑتا ہے اور اس طرح ان کی جو ہئیت یا انفرادیت ہوتی ہے، وہ پہلے سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہے۔ یہ کل محض خودمختار وحدتوں کی جمع نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے۔
نظریہ تحرک:
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی سٹرکچر ہمیشہ ایک طرح کا نہیں رہتا۔ بلکہ جن قوانین و ضوابط کی پابندی ہوتی ہے وہ اس کی ساخت میں تبدیلی لاتے رہتے ہیں یا یوں کہیں کہ ساختیں کرتے رہتے ہیں۔
جیسے ہماری عمارت کی ساخت میں تجدید کا عمل برابر جاری رہتا ہے۔ جیسے بنیادی اسم، فعل اور مفعول کے جملوں کو بہت سے جملوں میں بولتے اور لکھتے وقت تبدیل کرنا۔ بنیادی لفظ اور جملے دوسرے جملوں میں تبدیل ہونے کے بعد بھی اپنی بنیادی ساخت برقرار رکھتے ہیں۔
نظریہ خود نظمی یا خود ضبطی:
لسانی معاشرتی نظام کی ساخت میں جو نظم و ضبط اور تبدیلی رونما ہوتی ہے، وہ ساخت خود متعین کرتی ہے۔ جملوں میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ بول چال میں جو فرق پیدا ہوتا ہے، اُردو معلی سے عوامی اُردو کا استعمال، محاورے وغیرہ کی شکست و ریخت اور تجدید یہ سب لسانی نظام کے اندر ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی بیرونی یا خارجی ساخت کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لسانی نظام ایک بند نظام ہے۔ بند نظام کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ یعنی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ ہی نہیں سکتے۔
شمس الرحمان فاروقی کہتے ہیں:
اک لفظ وہ بھی بند جہاں کس طرح بنے
پرچھائیوں سے کون و مکاں کس طرح بنے
تغیر و تنظیم میں خود مختار:
لفظ جو خود اپنے کو Regulateکرتا ہے اور اپنی تغیر تنظیم میں خود مختار ہے لیکن کسی بھی خارجی حوالے کا محتاج نہیں ہے۔ جہاں معنی پیدا کرتا ہے۔ ساسر کے دور میں زبان کے متعلق جو خیال تھا وہ یہ کہ زبان الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ہر چیز ٹھوس ہے اور جوہریا صفات کی مالک ہے۔ زبان کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ تاریخی مطالعے سے ہی ممکن ہے۔
……٭……٭……٭……٭……
ساختیات کے متعلق مزید مواد حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://asaanurdu.com/saakhtiyat-aik-jaaiza/
1 thought on “سوال: ساختیات سے کیا مراد ہے؟ ساختیاتی تنقید کے اہداف کیا ہیں؟ اردو کے تناظر میں وضاحت کریں۔”