سوال: ”جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تا کہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔“ سرسید نے ان الفاظ میں اپنے مضامین کی کس خصوصیت کی نشان دہی کی ہے؟

جواب: سرسید:

ادبی مضمون نگاری کے پیش رو:



ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے سرسید کو صنف مضمون نگاری کا بانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے، ”سرسید تو خود تماشا گاہ حیات کا کردار بنے ہوئے تھے۔ اس لیے وہ اگر مصلح پہلے تھے تو اور ادیب بعد میں، تو یہ ان کے حالات کی مجبوری تھی۔ ان حالات نے ایک ادیب ہم سے چھین لیا اور ایک مصلح ادیب ہمیں دے دیاتا ہم اس مصلح ادیب کی اُردو ادب میں یہ حیثیت مسلم ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے مضمون نگاری کی۔“
ادب کو کڑے پیمانوں پر پرکھنے والے بعض ماہرین نے سرسید کے مضامین پر اعتراضات بھی کیے ہیں اور انھیں غیر معیاری قرار دیا ہے لیکن یہاں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سر سید اُردو میں اس صنف کے پیشرو تھے اور ان سے پیشتر مضمون نگاری کا کوئی نمونہ ہمارے ادب میں اس انداز میں نہیں ملتا کہ مقصد کو سامنے رکھ کر کسی ایک سیاسی، سماجی، معاشرتی، علمی، سائنسی یا ادبی موضوع پر معلومات کا ذخیرہ انتہائی سادہ انداز میں قارئین تک پہنچایا جائے۔ دوسرے سر سید اس صنف سے قوی کام لینا چاہتے تھے اور اپنی سوئی ہوئی قوم کو مستقبل کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے۔ تعلیمی مضامین میں پیشتر قومی اخلاق اور قومی اصلاح کے مقاصد کے ہیں، مذہبی مضامین میں مناظرانہ انداز اور جدت پسندی کار فرما نظر آتی ہے جب کہ ادبی مضامین پیشتر ایسے موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں جو سرسید کی دانست میں اس دور میں وقت کی ضرورت تھے۔ مثلاً ان کے ادنیٰ مضامین میں سے چند کے عنوانات پر سرسری نظر ڈالتے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ سر سید ان مضامین میں سے بھی قومی اصلاح کا کام لینا چاہتے تھے۔
اپنی مدد آپ، آزادی رائے، گزرا ہوا زمانہ، بحث و تکرار، کاہلی، امید کی خوشی، خوشامد، سراب حیات، انسان کے خیالات وغیرہ۔ مندرجہ بالا عنوانات سے کون سا ایسا ہے جس سے قومی اصلاح کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو۔
سر سید کا اُسلوب نثر اُن کے منتخب کے حوالے سے:
سرسید کے مضامین میں اسلوب کا تنوع ملتا ہے، جیسا کہ مولانا حالی نے لکھا ہے:
”سر سید کے ہاں ہر مقام کے مقتضاء کے موافق ان کی تحریروں کا رنگ خود بخود بدل جاتا ہے۔ اگر ان کے علمی و تاریخی مضامین میں دریا کے بہاؤ جیسی روانی ہے تو مذہبی اور پولیٹیکل تحریروں میں چڑھاؤ کی تیرائی کا سا زور ہے۔ اعتراضات کے جواب میں متانت اور سنجیدگی ہے اور بے دلیل دعووں کے مقابلے میں ظرافت و خوش طبعی اور نصیحتیں نشتر سے زیادہ دل خراش اور مرہم سے زیادہ تسکین بخش ہیں۔ مضامین سرسید کے اسالیب کی تقسیم یوں کی جا سکتی ہے۔
٭عالمانہ
٭سادہ
٭شوخ و ظریفانہ
٭تمثیلی
٭مکالماتی
اُردو ادب اور سرسید:
اردو زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کہتا ہے:
”اس نے زبان (اردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق“ کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔“
اُردو نثر کا مقام:
سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں، داستانوں، تذکروں، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا۔ سرسید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذریعہ بے دخل کروا دیا تاکہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے ربط کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی۔
جدید اردو نثر کے بانی:
بقول مولانا شبلی نعمانی:
”اردو انشاء پردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے۔“
سرسید احمد خان، ”اردو نثر“ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتدا کی۔
رہنمائے قوم:
سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام برطانوی اعانت سے اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم سیاسی بے بسی کا شکار تھی اور اس پر مایوسی طاری تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی تہذیب اور تمدن ادبار کا شکار تھی۔ عزت نفس مجروح اور فاری البالی عنقا تھی۔ (سرسید اور ان کے جیسے حضرات کی معاونت سے بننے والی) حکمران قوم کا عتاب، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نااہلی (کہ ایسے دین وایمان فروش پیدا کیے) اور احساس زیاں کی کمی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کا زندہ رہنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا۔ سرسید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجودہ ادبار کے اندر بھی ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہو امقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی۔ سرسید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلا ح و بہبود اور ترقی کے لیے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی، تمدنی، سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد او ر یقین پیدا کرنا تھا۔
مضمون نگاری:
سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی۔ وہ بیکن، ڈرائڈن، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائے ہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔
سرسید کا اسلوب:
سرسید کہتے ہیں:
”ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف، جیسی کہ دل میں موجود ہو، منشیانہ تکلفات سے بچ کر، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
سادگی:
سرسید احمد کی نثر سادہ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“
بے تکلفی اور بے ساختگی:
سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے، وہ اپنے مضمون”امید کی خوشی“ میں لکھتے ہیں۔
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی،خوشی کے لیے۔ نام آوری، نام آوری کے لیے، بہادری،بہادری کے لیے، فیاضی، فیاضی کے لیے، محبت، محبت کے لیے، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔“
مدعا نویسی:
سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لیے دقت کا موجب بنتی ہے۔
شگفتگی اور ظرافت:
سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں،
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،
”اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“
متانت اور سنجیدگی:
سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔ بقول سید عبد اللہ،
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“
اثر آفرینی:
سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ،
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“
روانی:
سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ، فن تعمیر، سیرت، فلسفہ، مذہب، قانون، سیاسیات، تعلیم، اخلاقیات مسائل ملکی، وعظ و تدکیر، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“
متنوع اسلوب:
سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔
موضوعات کی رنگا رنگی:
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، ادبی، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔
خلوص و سچائی:
سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے۔ جملے طویل ہیں۔ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں، بے رنگ اور بے کیف، جملوں، بوجھل، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔ اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔
پھیکا پن
سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں:
”کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھاؤ۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی، اس دعوت کو دینے کے لیے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دیے۔“
مجموعی جائزہ:
مجموعی طور پر سر سید کے مضمون نگاری کی خصوصیات کو سرسید ہی کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
”جہاں تک ہم سے ہو سکا، ہم نے اُردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں کوشش کی مضمون ادا کرنے کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگینی عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیال سے بھری ہوتی ہیں اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا۔ تک بندی سے جو اُس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی ہے، ہاتھ اُٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا، سادگی عبارت پر توجہ کی۔ اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو، جو اپنے دِل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تا کہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔“
……٭……٭……٭……

Leave a Comment