سوال: ایذرا پاؤنڈ کی تنقیدی فکر کے جدید انگریزی تنقید پر کیا اثرات پڑے؟ ٹی ایس ایلیٹ اور ’نئی تنقید‘ کے حوالے سے بیان کریں?

جواب:ایذرا پاؤنڈ


ایذرا پاؤنڈ نے اپنے زمانے کے ہر نئے ابھرتے ہوئے شاعر کی نہ صرف فنی مدد کی بلکہ بعض کی مالی مدد بھی کی۔ بزرگ شاعروں میں اُس کی دوستی ڈبلیو بی ییٹس سے بھی تھی۔ عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود اُس نے ییٹس کو شاعری میں فنی مشورے دیے تھے اور جہاں تک ایلیٹ کا تعلق ہے، اُس کی سب سے مشہور نظم The Waste Land بہت طویل تھی۔ پاؤنڈ نے امریکی شاعر روبرٹ فروسٹ کی بھی فنی مدد کی۔ وہ جیمز جوائس اور ونڈھم لیوس کا بھی دوست اور مددگار رہا۔ اُس نے جوائس کے عظیم اور ضخیم ناول یولی سس کی طباعت میں اُس کی مدد کی۔ امریکہ میں Imagistsنام کے انگریزی اور امریکی شاعروں کا ایک گروپ 1909ء اور 1917ء کے درمیان منظر عام پر آیا۔ پاؤنڈ نہ صرف اس گروپ کاایک رکن تھابلکہ اُس نے اُس گروپ کی بڑی حوصلہ افزائی کی اور خود بھی امچسٹ شاعری تخلیق کرتا رہا۔

غرضیکہ پاؤنڈ نے بیسویں صدی کے ادب کی ہر جدید تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا۔
ٹی ایس ایلیٹ:
ٹی ایس ایلیٹ پاؤنڈ کی شاعری اور تنقید نگاری دونوں کا زبردست مداح تھا لیکن اس مداحی میں پاؤنڈ کے استحقاق سے زیادہ اس کی دوستی کو بھی دخل تھا۔ 1954ء میں ایلیٹ نے پاؤنڈ کے ادبی مضامین کا ایک مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا اور پاؤنڈ کی تنقید نگاری کے بارے میں کہا کہ اس کی تنقید اپنی قسم کی سب سے اہم معاصرانہ ادبی تنقید ہے۔
پاؤنڈ کے مضامین کا موازنہ:
ایلیٹ نے یہ دکھانے کے لیے کہ تنقید میں شاعروں کی کارکردگی کیا ہے، پاؤنڈ کے مضامین کا موازنہ ڈرائیڈن کے مضامین ورڈز ورتھ کے مقدمات اور کالرج کی کتاب Biographia Literariaسے کیا۔ رینے ویلیک جو جدید مغربی تنقید کا نہایت معتبر مؤرخ ہے، اُس نے کہا کہ تنقید میں پاؤنڈ کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔
پاؤنڈ کے مشورے:
پاؤنڈ شاعروں کو مشورے دینا غیر فائدہ مند تصور نہیں کرتا تھا۔ چناں چہ اُس کی تنقیدی تحریریں نوجوان نسل کے لیے مشوروں سے بھری پڑی ہیں لیکن اس کی زیادہ تر تنقیدی کتابوں میں خودنمائی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ تنقید کو اپنا فریضہ ادا کر کے غائب ہو جانا چاہیے۔ پاؤنڈ کو اصرار تھا کہ اگر نقاد اپنے ادبی ورثے پر ذاتی یقین نہیں رکھتا تو اُسے لکھنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسے نقاد ماضی کے کاموں کے ساتھ اتنی ہی بڑی غداری کرتے ہیں، جتنی بڑی حال کے جھوٹے فن کاروں کے ساتھ۔ اُس کے نزدیک ضروری تھا کہ نقاد صاف صاف بتائے کہ وہ ادب میں کن چیزوں سے نفرت کرتا ہے۔
پاؤنڈ کو تنقید کی تاریخ سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ وہ نقادوں میں صرف فرانسیسی نقاد ڈی گورما کو عزیز رکھتا تھا۔ لیکن اُس نے گورما پر جو تین مضامین لکھے، اُن میں تنقید کے بارے میں اپنے خیالات سے بحث نہیں کی۔
پاؤنڈ کا عقیدہ:
پاؤنڈ کا عقیدہ تھا کہ شاعری ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔ اس میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، وہ سطحی ہوتی ہیں۔ پاؤنڈ کی نظر میں ادبی نظریے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بعض اوقات پاؤنڈ فن برائے فن کا دفاع کرتا ہے اور آرٹ کے سماجی کردار سے انکار کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک آرٹ اور درختوں کے وجود میں کوئی فرق نہیں۔
جوائس کی حوصلہ افزائی:
پاؤنڈ نے جوائس کو دریافت نہیں کیا تھا لیکن اُس نے جوائس کی حوصلہ افزائی کی اور دوسروں کی نسبت اس کی سب سے زیادہ مدد کی۔ وہ جو اُس سے ملنے سے پہلے اُس کے افسانوں کے مجموعہ ڈبلینرز Dubliners اور اُس کے پہلے ناول A Portrat of the Artist as a Young Manپر تحسینی مضامین لکھ چکا تھا۔ ایلیٹ کی طرح پاؤنڈ بھی جوائس کے ناول Ulyssesکے پرجوش مداحوں میں سے تھا۔ لیکن وہ جوائس کے آخری ناول Finnigaus Wakeکو سخت ناپسند کرتا تھا۔ یہ ناول خوابوں کی بے ربط زبان میں لکھا گیا ہے۔ اسے ادب کے چند خاص ماہرین ہی پڑھ سکتے ہیں۔
بصیرت پر اعتماد:
پاؤنڈ کو اپنی بصیرت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ لیکن اُن سے ایک کامیابی ضرور حاصل کی۔ اُس نے ادبی مذاق میں انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ نئی تحریروں میں پاؤنڈ کے ہاں بڑا وزن تھا۔ اُس کی تنقیدی قوت امتیاز و انتخاب غضب کی تھی۔ وہ امریکن شاعر روبرٹ فروسٹ، ولیم کارلوس ولیمز، میرین مور، ٹی ایس ایلیٹ اور جیمز جوائس کا حامی اور مددگار تھا۔ اگر تنقید کا ایک فریضہ نئی صلاحیتوں کی دریافت اور ادب کی آیندہ رفتار کی پیشین گوئی ہے تو پاؤنڈ یقینا اپنے زمانے کا ایک اہم نقاد تھا۔
جدید تنقیدکی شروعات:
ٹی ایس ایلیٹ نے ادب میں خود کو کلاسیکی کہا اور وہ کلاسیکیت کا نہایت عمدہ نمونہ تھا لیکن اُس نے اپنی شاعری میں ایک جدیدیت پسند کی حیثیت کی حیثیت سے جتنے بھی تجربے اور تکنیک سے کام لیا، اُس کی مثال دوسروں کے ہاں نہیں ملتی۔ اُس نے اپنی نظموں میں قدیم شاعروں کی پیوند کاری اور اپنی شاعری میں اساطیر کے استعمال سے خیال اور معنی کی جو تہہ داری پیدا کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُس میں قدیم ادب کے مختلف مکاتب سے فائدہ اُٹھانے کا جو ہنر تھا، وہ اسی تک محدود تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مغرب کی جدید تنقید اُس کی شاعری سے پیدا ہوئی۔
انسانوں کا ذہنی ارتقا:
ایلیٹ کے ہاں روایت کا تصور عظیم فن پاروں میں موجود انسانوں کا ذہنی ارتقا بھی ہے۔ عام روزمرہ زندگی میں اٹھنے بیٹھنے، چلتے پھرتے حتیٰ کہ سلام دعا کے طریقوں تک میں پوشیدہ ہے۔ روایت کا یہ مطلب نہیں کہ محض چند تعصبات کو زندہ رکھا جائے بلکہ روایت سے مراد یہ ہے کہ عادت و اطوار، رسوم و رواج، مذہبی عقائد یہ تمام چیزیں جو ایک جگہ رہنے والوں کی دلی تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں برقرار رکھاجائے ایسی روایت جس کے ساتھ مکمل آگاہی اور شعور شامل نہ ہو بیکار ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کن چیزوں کو رد کر دینا ضروری ہے اور کن چیزوں کو ان کی خوبیوں کی بنائپر برقرار رکھنا چاہیے۔ روایتی شعور سے مراد پچھلے شعرائکی نقالی نہیں بلکہ سماج کی بنیاد ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے ان کی تکمیل میں حصہ لینا ہے۔ اس وہ طرح تاریخی سماجی اور روایتی شعور اور اثرات جو فرد کو اپنی آغوش میں لیے ہوتے ہیں انھیں کلچر یا روایت کا نام دیتا ہے۔ کلچر وہ چیز ہے جو زندگی کو صحت عطا کرتی ہے۔ اور اس میں تمام علوم و فنون شامل ہیں۔
تنقید ی نظریات:
مغربی ادب میں ہر بڑے شاعر نے اپنے تخلیقی تجربوں کو تنقیدی پیرائے میں ضرور پیش کیا ہے چاہے بعد میں اس کی اہمیت رہے یا نہ رہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان تنقیدی نظریات کی مدد سے خود شاعر کے ذہنی اور تخلیقی سفر کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بعض ناقدین ایلیٹ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی تنقید کو ایک بڑے شاعر کی رائے کے طور پر زیادہ اہمیت ملی ہے۔ چونکہ وہ شاعر بڑا تھا اس لیے اس کے تنقیدی نظریات ادبی دنیا پر چھا گئے ممکن ہے جزوی طور پر بات درست بھی ہو لیکن سوا ل یہ ہے کہ بیسویں صدی میں بعض دوسرے بڑے شاعروں نے بھی تنقید پیش کی لیکن انھیں اتنی اہمیت نہیں ملی۔ صاف ظاہر ہے کہ ایلیٹ کی تنقید میں اتنی گہرائی اور معنویت تھی کہ اسے تسلیم کرنا پڑا۔ خود اس نے اپنی تنقید کو Work Shop Criticismقرار دیا۔ یعنی اس کی تنقید اس کے شاعرانہ تجربات کی ذیلی پیداوار ہے ایلیٹ کے نزدیک شاعروں کی تنقید ان کے شعر ی تجربات کے لیے فضاۂموار کرنے کا ایک وسیلہ ہے اس سلسلے میں اس کا اعتماد اس بیان سے واضح ہے کہ،
”شاعری پر تنقید کا حق صرف شاعروں کو ہونا چاہیے۔“
نقاد کے فرائض:
ایلیٹ کے نزدیک ایک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف نئے اقدار کا تعین کرے بلکہ قدیم فن پاروں کی حسنِ ترتیب کو تازہ علم کے ذریعے بدل ڈالے اس کے خیال میں تقریباً ایک صدی کے بعد ایسے نقاد کی ضرورت ہے۔ جو ماضی کے ادب کا ازسرنو جائزہ لے۔ ماضی کے شعراء اور عظیم فن پاروں کو نئے ترتیب کے ساتھ پیش کرے اس طرح جدید فن پاروں کا قدیم سے موازنہ بھی ہو جاتا ہے اور کئی گمنام شاعروں کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ نقاد کا کام یہ بھی ہے کہ ادب کے وہ گوشے جو مکمل طور پر سامنے نہ آئے ہوں انھیں پیش کر دے خواہ وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو اور اس میں پرانے شاعروں کے کلام کی ازسرنو تشریح بھی شامل ہے۔ کسی نئے اور اہم فن پارے کی تخلیق پرانی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اور نقاد اسے تنظیم نو سے نوازتا ہے۔ ایلیٹ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتاہے تو اس کا اثر ان فن پاروں پر بھی پڑتا ہے جو اس سے پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ نئے فن پارے کی تخلیق سے پہلی ترتیب اور پہلا نظام بگڑ جاتا ہے اور نقاد کو نئے فن پارے کے لیے اس مثالی نظام کو ازسرنو تشکیل دیناپڑتا ہے۔
رومانیت کی رد:
ایلیٹ سے پہلے تنقید میں رومانوی نظریات کا عمل دخل تھا اور شاعر ی کو جذبات اور شاعر کی انفرادیت کا اظہار کہا جاتا تھا۔ ناقدین کے لیے لازمی تھا کہ وہ تخلیق سے زیادہ تخلیق کار پر توجہ دیں ایلیٹ سے پہلے بھی رومانیت کی رد پیش ہونا شروع ہوئی تھی۔
Irbing Babbitنے ”روسو اینڈ روماٹیسزم“ جیسی کتاب لکھی تھی جس میں اس نے روسو کے نظریات کے تحت فرد کی لامحدود آزادی سے پیدا ہونے ہونے والے خطرات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا۔ ٹی۔ ای ہیوم نے بھی اس ایک مضمون کلاسک اینڈ رومانٹیسزم کے نام سے لکھا اور اس میں رومانیت کے ختم ہونے کی نوید اور کلاسیکیت کے دور کی پیشن گوئی کی اس طرح مشہور شاعر Ezra Poundنے بھی ایلیٹ سے پہلے رومانیت سے گریز کا نعرہ لگایا۔ لیکن یہ تمام رد عمل بکھرے بکھرے سے تھے۔ ایلیٹ نے پہلی بار اسے مربوط کرکے اپنے زمانے کا بنیادی رد عمل بنا دیا۔ اور پرزور آواز میں یہ صدا بلند کی کہ:
”میں سیاست میں شاہ پسند، شاعر ی میں کلاسیکیت پسند اور مذہب میں کیتھولک ہوں۔“
ٹی ایس ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ:
گذشہ نصف صدی سے اردو میں ایلیٹ کے ذکرسے یا اس کے خیالات سے اپنی تنقیدی تحریروں کو معتبر بنانے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اس میں ایذرا پاؤنڈ کچھ دب سا گیا ہے۔ پیکر تراشی کی تکنیک کو سمجھنے میں ایلیٹ سے بھی کہیں زیادہ ایذرا پاؤنڈکا کردار ہے۔ پاؤنڈ نے پیکر تراشی کے چار اصول وضع کیے اور ان پر سیر حاصل بحث کی۔
٭موضوع سے منسلک معروضیت کا براہ راست استعمال
٭اسلوب کی سطح پر (معنی خیز)الفاظ کا چناؤ اور ان کے استعمال میں کنجوسی کی حد تک بخل
٭پیکر تراشی کے عمل میں صرف بصری لوازمات کو بروئے کار نہ لا کر دیگر حواسِ خمسہ کومتاثرکرنے والے جمالیاتی (نغمگی، موسیقیت، وغیرہ)عناصر کی شمولیت
٭ایک وقتی جذبے سے کچھ اوپر اٹھ کر تصور کی گنجلک سطح سے حتی الوسع پرہیز
روایت:
روایت کے سلسلے میں ایلیٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ روایت میراث کے طور پر شاعر کے حصے میں نہیں آتی بلکہ اسے بڑی محنت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایلیٹ نے شاعر کے لیے روایت کے ساتھ ساتھ تاریخی شعور کو بھی ضروری قرار دیا ہے تا کہ جب وہ لکھے تو اُسے نہ صرف اپنی نسل کا احساس رہے بلکہ یہ احساس بھی رہے کہ یورپ کا سارا ادب ایک ساتھ زندہ ہے اور ایک ہی نظام میں مربوط ہے۔ کوئی شاعر فن کار، تن تنہا اپنی کوئی الگ مکمل حیثیت نہیں رکھتا۔ اس اہمیت اور بڑائی کا دارومدار اس پر ہے کہ پچھلے شاعروں اور فن کاروں سے اُس کا کیا رشتہ ہے۔ ایلیٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جس طرح ماضی حال کو متعین کرتا ہے، اسی طرح حال ماضی کو بھی بدلتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر حال میں کوئی بہت بڑا شاعر یا ناول نگار پیدا ہو جائے تو ماضی کے بڑے شاعروں اور ناول نگاروں کے درجے پر نظر ثانی ضروری ہے۔
پاؤنڈ کو شاعری کے مقابلے میں نثر سے کم دل چسپی تھی۔ نئی تحریروں میں پاؤنڈ کے ہاں بڑا وزن تھا۔ اگر تنقید کا ایک فریضہ نئی صلاحیتوں کی دریافت اور ادب کی آیندہ رفتار کی پیشین گوئی ہے تو پاؤنڈ یقینا اپنے زمانے کا ایک اہم نقاد تھا۔
……٭……٭……٭……

Leave a Comment