جواب: دانتے الیگیری
ادبیات عالیہ میں دانتے کی طویل نظم ڈیوائن کامیڈی کا رتبہ بہت اونچا ہے۔ علمیت، تخیل، طنز، سیاسی دانش مندی اور مذہبی حوالے سے یہ کتاب بے نظیر ہے۔ نقادوں کی رائے ہے کہ یہ کتاب کسی اور زمانے میں کسی اور شاعر کے قلم سے ممکن ہی نہ تھی۔ اُس نے یہ کتاب ایک ایسی بحر میں لکھی ہے جس کا موجد وہ خود ہی تھا اور ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا شاعر اس بحر میں بھی دانتے کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
اگرچہ ارسطو کے بعد مغربی تنقید میں سب سے اہم نام لون جائی نس کا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ یوں حائل ہے کہ لون جائی نس کی تصنیف کے دریافت ہونے میں چھ سو سال لگ گئے۔ اگرچہ علویت کے بارے میں on the sublime پہلی صدی عیسوی کی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے لیکن دنیا اِس کتاب سے پہلی مرتبہ 1554ء میں رہ بور ٹیلو کے ذریعے متعارف ہوئی لیکن صحیح معنوں میں اس کی شہرت اُس وقت ہوئی جب فرانسیسی نقاد بولو نے 1674ء میں اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں شائع کیا۔
دوسرا عظیم شاعر:
اس دوران سرزمینِ مغرب میں دانتے نامی ایک شاعر نے جنم لیا جسے ہومر کے بعد مغرب کا دوسرا عظیم کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اٹلی کے شہر فلارنس کا رہنے والا تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر سے اُس کی شہرت ایک غنائی شاعر کی حیثیت سے پھیلنے لگی۔ اُس نے اپنے زمانے کےشاعر گوئیڈو کوال کانٹی سے فیض حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس کی عظیم تصنیف طربیہ خداوندی کو لاطینی زبان کی بجائے اطالوی زبان میں لکھنے کا فیصلہ بھی گوئیڈو کے مشورے کا نتیجہ ہے۔ گوئیڈو اطالوی زبان کا حامی تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دانتے لاطینی کے بجائے اطالوی زبان میں اُس سے مراسلت کرے۔ جب دانتے نے شاعری شروع کی تو تیرہویں صدی عیسوی کے شعرا نے اطالوی زبان کو اتنا نفیس اور لطیف بنا دیا تھا کہ اُس زمانے میں یورپ کی کوئی زبان اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اگر اطالوی زبان اتنی ترقی نہ کر چکی ہوتی تو دانتے کے لیے اس زبان
میں طربیہ خداوندی لکھنا ممکن نہ ہوتا۔ عظیم تصنیف کے لیے زبان کا ترقی یافتہ ہونا اور پختہ ہونا ضروری ہے۔
ستار طاہر کی نظر میں ڈیوائن کامیڈی:
دانتے کی شہرہ آفاق بے مثل شاہکار”ڈیوائن کامیڈی“ کے بارے میں محترم ستار طاہر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
”یہ ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنے پڑھنے والوں سے خاصا ذوق،علم،پس منظر اور تاریخ و دینیات کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کا مطالبہ کرتی ہے۔جب تک پڑھنے والا بہت سی معلومات کا مالک نہ ہو اور بہت اچھا شعری ذوق نہ رکھتا ہو، وہ اس عظیم فن پارے سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتا۔بڑی شاعری کے مطالبے بھی یقیناً بڑے ہوتے ہیں۔“
یقیناً محترم ستار طاہر کی رائے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ دانتے کی“ڈیوائن کامیڈی”کو پڑھنے کے لیے بہت حوصلہ اور ہمت چاہیے۔ کتاب میں جس طرح ”عذاب جہنم“کے واقعات بیان کیے گئے ہیں،انھیں پڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
ڈیوائن کامیڈی کا ترجمہ:
اس کتاب کا ایک خوبصورت ترجمہ ”طربیہ خداوندی“کے نام سے جناب عزیز احمد نے کیا تھا۔
ستار طاہر لکھتے ہیں:
”ہمارے ہاں کے محققوں اور عالموں کو یہ توفیق نہیں حاصل ہوئی کہ وہ دانتے اور اس کے لازوال شاہکار ”ڈیوائن کامیڈی”پر اسلام کے گہرے اثرات کا سراغ لگاتے اور اس پر تحقیق کرتے۔لیکن پچھلی آٹھ نو دہائیوں سے بعض یورپی مستشرقین نے اس پر شاندار اور قابل قدر کام کیا ہے۔اس ضمن میں سب سے اہم کتاب پروفیسر ماگئیل آسین کی”اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی ہے۔“
پروفیسر کی تحقیق یہ ہے کہ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کے نفس مضمون اور اس کی بیشتر تفصیلات اسری اور معراج نبوی کی روایتوں سے مستعار لی ہیں۔”جہنم کا جو نقشہ دانتے نے کھینچا ہے وہ ابن عربی کی کتابوں میں بیان کیے گئے نقشے سے بہت ملتا جلتا ہے۔دانتے نے ڈیوائن کامیڈی میں جس شہر کا ذکر کیا ہے عیسائی تصورات میں اس سے پہلے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، جب کہ اسلامی روایت میں ایک شہر آتشی کا ذکر موجود ہے اور دانتے نے اسی تصور سے استفادہ کیا۔
واقعہ معراج کا تصور:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر گئے تو جبرائیل ان کے ہم رکاب تھے“ڈیوائن کامیڈی”میں دانتے ورجل کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ لیکن جنت میں وہ بیاترچے کو اپنی رہنمائی کا فرض سونپتا ہے۔معراج نبوی میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ جب جبرائیل ایک مقام پر مولانا روم کی زبان میں کہتے ہیں کہ“اس سے آگے میں جاؤ ں تو میرے پر جل جائیں گے۔اور اس کے بعد آپ ﷺ اکیلے ہی آگے بڑھتے ہیں۔
ڈیوائن کامیڈی میں بھی دانتے بیاترچے کے ساتھ ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جس سے آگے بیاترچے نہیں جاتی بلکہ دانتے کو اکیلے ہی جانا پڑتا ہے۔پروفیسر آسین کی تحقیق یہ ہے کہ یہ مماثلت اتفاقیہ نہیں بلکہ واقعہ معراج سے لی گئی ہے۔
شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کی دو تصانیف کا بھی“ڈیوائن کامیڈی”پر گہرا اثر ہے۔۔ایک تو الاسرالی مقام ا لاسرالی”اور دوسری کا نام ہے”فتوحات مکیہ”مختصر یہ کہ یقینی امر ہے کہ دانتے پر شیخ اکبر ابن عربی کا بے حد اثر ہے۔
ابنِ عربی بتاتے ہیں کہ شیطان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ برف میں جما ہوا گل رہا ہے۔چونکہ وہ آتشی مخلوق ہے اس لیے اس کے لیے اس سے سخت سزا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ڈیوائن کامیڈی کے جہنم میں دانتے بھی شیطان کو برف میں دھنسا اور گلتا ہوا دکھاتا ہے۔
ڈیوائن کامیڈی ایک طویل نظم ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔جہنم،اعراف اور بہشت۔
علم و دانش کے معمار میں تذکرہ:
دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کے حوالے سے جناب احمد عقیل روبی اپنی شہرہ آفاق کتاب”علم و دانش کے معمار“ میں لکھتے ہیں:
”ڈیوائن کامیڈی نے مغرب یورپ اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انگریزی شاعر چاسر اور خاص طور پر ملٹن اس کے بہت زیادہ زیر اثر رہے۔ ملٹن کی“پیراڈائز لاسٹ“پر ڈیوائن کامیڈی کے بہت گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔جہاں تک دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا تعلق ہے تو کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ دانتے نے نظم کو لکھنے سے پہلے خود بھی اثرات قبول کیے۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظم کی تشکیل اور فکری گہرائی میں عربی اور اسلامی نظریات کا بہت دخل ہے۔1919میں سپین کے ایک سکالر نے جو کیھتولک پادری تھا۔ اس نے ڈیوائن کامیڈی میں اسلامی فلاسفی اور فکر کی نشاندہی کی اور کہا کہ دانتے نے جہنم کی تشکیل میں بہت سے واقعات اسرئی اور معراج النبی کی روایتوں سے لیے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دانتے عربی زبان سے واقف تھا۔اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ کتاب المعراج کا لاطینی ترجمہ ہوچکا ہے ممکن ہے اس کی کوئی کاپی دانتے کے ہاتھ لگ گئی ہو لیکن کچھ نقاد اس بات سے متفق نہیں۔“
طربیہ ء خدا وندی ایک تمثیل:
طربیہ خداوندی ایک تمثیل ہے۔ اِس کا موضوع اخلاق اور مزاج فلسفیانہ ہے۔ اِس کا مطالعہ تین سطحوں پر کیا گیا ہے۔ ایک لغوی معنی کی سطح پر، دوسرا تمثیلی سطح پر اور تیسرے صوفیانہ سطح پر۔ دانتے نے اس کتاب کا نام طربیہ اس لیے رکھا کہ اس کی کہانی مصائب، ابتلا اور ناامید سے امید اور خوشی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ سیدھی سادی دیسی زبان میں اس لیے لکھی گئی ہے کہ گھروں میں رہنے والی عورتیں بھی اسے سمجھ سکیں۔ دانتے کا اس کا نام طربیہ رکھا تھا لیکن سترہویں صدی عیسوی میں اس کے مداحوں نے ”خدا وندی“ کا لفظ اس میں شامل کر دیا۔ دانتے کے زمانے میں تمثیلی رنگِ سخن بے حد مقبول تھا۔ اس وقت مذہب و شاعری ایک چیز تھی۔ نہ صرف شاعری دینیات تھی بلکہ دینیات بھی شاعری تھی۔
دانتے کا مقالہ:
دانتے کا مقالہ عام بول چال کی زبان کا ادبی استعمال، مغربی تنقید کے ارتقا میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے اپنی عمر کے آخری دور میں یہ مقالہ اطالوی زبان میں اس لیے لکھا کہ وہ اہل علم جو اطالوی زبان (دیسی زبان) کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اس بات سے واقف ہو سکیں کہ دانتے نے اطالوی زبان کو اپنے زبان کے اظہار کا ذریعہ کیوں بنایا۔
دانتے کو اعتراف تھا کہ لاطینی زبان خوب صورت زبان ہے۔ وہ زیادہ شائستہ اور نفیس زبان بھی ہے لیکن وہ دانتے کے زمانے میں بولی نہیں جاتی تھی۔
پہلی تنقیدی تحریر:
دانتے کا یہ مقالہ اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا ہے کہ یہ پہلی تنقیدی تحریر ہے جس میں دیسی زبان کے ادبی استعمال پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے یہ رجحان سامنے آتا ہے کہ دانتے کے دور میں قومیت کا تصور تیزی سے ابھرنے اور پھیلنے لگا تھا۔ ہر ملک کو اپنی قومیت پر ناز تھا۔ دیسی زبانیں قومی زبان بننے لگی تھیں۔ دانتے کی یہ تصنیف اس رجحان کی ابتدا اور سب سے پہلی کوشش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ”طربیہ“ پر مسلمان مفکرین فارابی، ابنِ سینا، امام غزالی، ابن رشد اور محی الدین ابن عربی کے افکار کا اثر نمایاں ہے۔
دانتے کا تنقیدی نظریہ:
سولہویں صدی عیسوی میں یورپ میں ایک تحریک کا آغاز ہوا جو ”نشاۃ الثانیہ“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اپنی قومیت، اپنے قومی سرمائے کی اہمیت اور اپنی زبان کے فروغ کی ضرورت کا احساس دلایا جائے لیکن دانتے نے طربیہ خداوندی میں اپنے ملک کی زبان کی استعمال کی تھی۔ اُس نے عام بول چال کی زبان کا ادبی استعمال لکھ کر اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کتاب سے دانتے کے نظریات کا علم ہوتا ہے۔ وہ شعر وا دب کے لیے لاطینی زبان کی بجائے اپنی قومی زبان کو اپنانے کا حامی ہے۔ وہ شاعر و ادیب کو عامیانہ زبان سے بچنے کا مشورہ دیتا ہے۔ زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بتاتے ہوئے وہ اس پر زور دیتا ہے کہ جس طرح ایک بہترین سپاہی کو بہترین گھوڑے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح بہترین خیالات صرف بہتر زبان ہی میں ادا ہو سکتے ہیں۔ مرصع کاری کو وہ ضروری سمجھتا ہے کیوں کہ اس کے سہارے بہترین اسلوب وجود میں آتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دانتے اپنے فن پر رائے زنی کر کے تنقید میں ایک نئے باب کا آغاز کرتا ہے۔
نشاۃ الثانیہ:
یورپ میں نشاۃ الثانیہ ایک عظیم تخلیقی دور ہے۔ نشاۃ الثانیہ سے قوم و میت کا آغاز ہوتا ہے اور ہر قوم نے اپنے قومی سرمائے اور اپنی زبان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ لاطینی جو سارے یورپ کی علمی ادبی زبان تھی، رفتہ رفتہ ٹکسال باہر ہونے لگی اور دیسی بولیاں نشوونما پانے لگتی ہیں۔
دانتے پہلا شخص ہے جس نے نشاۃ الثانیہ سے پہلے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا قومی بولیاں لاطینی کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ اس نے دیسی زبان کے ادبی استعمال کی حمایت کی اور اپنی عظیم تصنیف اطالوی زبان میں لکھی۔ وہ کہتا تھا کہ لاطینی فطری زبان اس لیے نہیں رہی کہ وہ اب بولی نہیں جاتی۔ یوں زمانہ دانتے کی تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کا معترف ہو جاتا ہے۔