سوال: کروچے کی جمالیاتی تنقید کے نمایاں نکات کیا ہیں؟ تفصیل سے لکھیں۔


جواب:جمالیات کی تعریف


فلسفہ جمال اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن اس کے لیے مروج اصطلاح جمالیات نسبتاً کم عمر ہے۔ جمالیات ترجمہ ہے Aestheticsکا۔ ایک جرمن فلاسفر بام گارٹن نے 1737ء میں یہ اصطلاح وضع کی تھی۔ یہ اصطلاح جن دو یونانی الفاظ کا مرکب ہے، ان کا مطلب ایسے شے ہے جس کا حواس خمسہ سے ادراک ممکن ہو۔ بام گارٹن نے اس اصطلاح کو جمال اور اُس کے متنوع مظاہر کی تفہیم کے لیے خاصے وسیع مفہوم میں استعمال کیا ہے۔
تنقید اور جمالیات:
جہاں تک حسن، اس کی ماہیت، اس کے فن کارانہ اظہار اور تخلیق میں اس کی صورت پذیری کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں بہت موشگافیاں ہوئی ہیں تاہم ان دل چسپ مگر نزاعی مباحث پر روشنی ڈالنے کا یہ محل نہیں۔ اس لیے اپنے موضوع کی حدود میں رہتے ہوئے تنقید اور جمالیات کے باہمی روابط کا مطالعہ کریں تو یہ خاصا قدیم نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ تخلیق میں کسی نہ کسی صورت میں حسن کا مطالعہ ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا عابد علی عابد کے الفاظ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
”ادب بالخصوص شعر فائن آرٹ ہے اور اس کی صفتِ مخصوص حسن ہے۔ اس حسن کا تجزیہ کرنا انتقاد کا منصب ہے۔ (مقالہ بعنوان: ”انتقاد کا منصب“ مشمولہ انتقاد صفحہ 15)
اردو میں جمالیاتی تنقید:
انگریزی میں والٹر پیٹر جمالیاتی تنقید کا اہم علم بردار ہے۔ وہ ادب برائے ادب اور ادب برائے مسرت کا قائل تھا۔ جدید دور میں اطالوی فلاسفر کروچے کے تصورات اظہاریت نے فلسفہ جمال اور جمالیاتی تنقید پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ جمالیاتی تنقید کے قدیم ناقدین میں ابتدائی نقوش کی تلاش مقصود ہو تو محمد حسین آزاد کی کتاب ”آب حیات“ اور شبلی نعمانی کی ”شعر العجم“ کا اس سلسلہ میں نام لیا جا سکتا ہے۔ دونوں کی تنقید خوب صورت اسلوب کی حامل ہے۔ دونوں ے تنقیدی فیصلے احساساتی سطح پر اظہار پاتے ہیں۔
جمالیاتی تنقید کی بنیادی خصوصیات ایسی ہیں جن پر بہت زیادہ اعتراضات بھی ہوتے رہے ہیں۔ سرفہرست یہ ہے کہ جمالیاتی تنقید میں کسی تخلیق کار یا تخلیق کا مطالعہ کرتے وقت عمودی صورت حال، تاریخی ھالات اور اقتصادی امور سے کسی طرح کا سروکار نہیں رکھا جاتا۔ یوں تخلیق کار اور تخلیق زمانی تناظر سے منقطع ہو جاتی ہے۔ جمالیاتی نقاد مطالعہ تخلیق میں اخلاقی، عمرانی اور سماجی امور سے کسی طرح کا سروکار نہین رکھتا۔ اسی لیے جمالیاتی نقاد ادب برائے مقصد اور ادبی افادہ جیسے تصورات کو مسترد کرتا ہے۔
جمالیاتی تنقید میں تخلیق کار کی نفسیات اور تخلیق سے وابستہ شعوری عوامل سے بھی کسی طرح کی دل چسپی نہیں رکھی جاتی۔ جمالیاتی تنقید صرف اظہار حسن اور ابلاغ حسن اور ذوق و وجدان اور جمالیاتی حس سے سروکار رکھتی ہے۔ اس لیے تنقید کے تقریباً سبھی معروف دبستانوں نے جمالیاتی تنقید پر اعتراضات کیے۔ بالخصوص مارکسی اور نفسیاتی ناقدین نے۔
حسن:
”حسن یا فن کیا ہے؟موسیقی، رقص، تصویر، ڈراما یا عورت حسن ہے یا وہ محض داخلی اور ذہنی اشیا ہیں یا وہ کیف،حسن ہے جو ان اشیاء کے ادراک سے حاصل ہوتا ہے۔ حسن کا زندگی میں کیا مقام ہے؟ خیر، صداقت، قوت، مسرت اور افادہ جیسی قدروں سے اسے کیا سروکار ہے؟ فن، فن کار میں پایا جاتا ہے یا تخلیق فن میں؟ کسی فن پارے میں حسن کس طرح تشکیل پاتا ہے؟ اس کے وسائل اور اصول کیا ہیں؟ حسن اور فن کے محاکمے کی کسوٹی کیا ہے؟ یہ اور اس نوع کے بے شمار سوالات جمالیات کے دائرے میں آتے ہیں۔“
اپنی ہر صورت میں جمالیات کا معاملہ حسن،ادراک اور ادراکِ حسن، فن و فن کارانہ قدر اور ذوق سے ہے، فن، حسن کی تخلیق کرتا ہے اس لیے فن کی نوعیت اور انسانی تجربے میں اس کے مقام کے تعین کا مسئلہ جمالیات کا مسئلہ ہے۔منطق، صداقت جوئی کے دانش ورانہ عمل کا نام ہے۔ صداقت کی جستجو اور تحصیل ہی اس کا اوّلین و آخر مقصد ہے۔ اس کے برعکس حسی علم کی تکمیل یا حسی علم کا مقصد حسن سے عبارت ہے۔ اس لیے حسن جمالیات کے دائرے کی چیز ہے۔
بقول ٹی ایس ایلیٹ:
ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ تنقید نہ تو سائنس ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ ا س پر کہا گیا کہ جمالیاتی تنقید تو سائنس کے آس پاس بھی نہیں پہنچ سکی کیوں کہ یہی سمجھنا مشکل ہے کہ حسن آخر ہے کیا اور انسان کے حواس پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
کروچے کے مطابق:
اپنے رسالہ میں کروچےؔ نے علم و عمل کی ذو جہتی یونانی تھیوری کے مطابق یہ درس دیا:
”علم و عمل دونوں جہاں ایک طرف نفس ِ امارہ، نفس ِ مطمئنہ اور نفس لوامہ کے لیے وجدان کا سامان مہیّا کر سکتے ہیں وہاں منطق و ادراک، شعور و عقل کو بھی نشو و نما دیتے ہیں۔موخر الذکر کے لیے تعقل یہ کام کرتا ہے اور اول الذکر کے لیے تخیل اپنا سب سر و سامان بروئے کار لاتا ہے۔ وجدان اپنے آپ میں صرف ایک حسی اور حسیاتی جذبہ ہے اور اس کی تکمیل تبھی ہوتی ہے، جب یہ اظہار کا راستہ تلاش کر لے۔ اظہار کی تجسیم ہی اس کا فرض ہے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو یہ کسی جانور کا خوشی میں چھلانگیں لگانے کا عمل تو ہو سکتا ہے، انسان کا وجدان نہیں۔
(La Critica. Rivista di Letteratura, Storia e Filosofia diretta da B. Croce, 1, 1903 p.372)

کروچے کا مقام:
بینڈیٹو کروچے (1952-1866) جمالیات کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے 1900 میں اس نے اظہار یت پر تین خطبات دیے۔ انہی کو اس نے 1902 میں ’جمالیات‘ نام کی کتاب میں یک جا کر کے شائع کر دیا تھا۔ انگریزی میں اس کی اشاعت 1909 میں عمل میں آئی۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں جمالیات پر اصولی بحث ہے دوسرے حصے میں جمالیات کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔
وجدانی جمال:
کروچے وجدانی جمالیتی ہے۔ وہ جمالیاتی تجربے کو خالص تجربہ کہتا ہے اور اس کے نزدیک وجدان، عقل یا منطق سے بری ہے۔ فن، وجدان ہے اور فنی تجربہ اصلاً وجدانی تجربہ ہے۔ کروچے کے فلسفۂ روح میں وجدان سب سے اولین اور خلقی نوع کا حامل ہے۔ وجدان ہی کو وہ اصلی اور منفرد بھی کہتا ہے اور وجدان ہی اس کے نزدیک کرہ فن ہے۔ فن چوں کہ وجدان ہے اس لیے روح کی ایک نوع کی حیثیت سے وہ دائمی ہے۔
علم کی اقسام:
کروچے علم کی دو اقسام بتاتا ہے۔
1۔ وجدانی علم 2۔ منطقی علم
وجدانی علم:
وجدانی علم کا سرچشمہ تخیل ہے۔ جس سے پیکروں کی تخلیق ہوتی ہے اسے وہ فرد کے علم ا ور علاحدہ علاحدہ اشیاء کے علم سے موسوم کرتا ہے۔
منطقی علم:
منطقی علم کا سرچشمہ عقل ہے جس سے تصورات خلق ہوتے ہیں۔ اسے وہ آفاق کے علم اور اشیاء کے باہمی رابطوں کا علم کہتا ہے۔
اظہار:
اظہار کے ضمن میں کروچے کا خیال ہے کہ وہ ایک خالص انفرادی اور ذہنی عمل ہے۔ وجدانی علم ہی اظہاری علم ہے۔ کسی چیز کے وجدان کر لینے کے معنی اپنے اوپر اس کے اظہار کر لینے کے ہیں۔ا س طرح وجدان کرنا ہی اظہار کرنا ہے۔ کروچے کے معنوں میں دونوں ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر وجدان ہی اظہار ہے۔ اظہار فن کار کی روحانی تجلی ہے۔ جو تاثرات و محسوسات کو مبہم احساس کے منطقے سے نکال کر روح کے درخشاں منطقے میں لے آتا ہے وہ کہتا ہے:
”ہم نے کسی چیز پر ذہنی طور پر دسترس حاصل کر لی گویا اپنے اوپر اس کا اظہار کر لیا۔ اور اپنی پہلی اور بنیادی سطح پر اس تصویر یا مجسمے کی تشکیل ذہن میں ہو جاتی ہے۔ زبان، ساز، رنگ وغیرہ وسائل سے جو مادّی نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ در اصل اظہار کے بعد کا عمل ہے۔ جس کا جمالیاتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“
قاری کی شراکت:
کروچے اظہار کو فن کار کی حد تک ہی مخصوص نہیں کرتا بلکہ قاری بھی اس میں شریک ہے۔ قاری جب کسی تخلیق یا فن پارے سے محظوظ ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے اوپر اس کا اظہار کر لیتا ہے۔ جس کو وہ ایک کامیاب اظہار کا نام دیتا ہے بلکہ حسن ہی اس کے نزدیک اظہار ہے اگر اظہار کامیاب نہیں ہے تو وہ اظہار بھی نہیں ہے۔
”قبح ایک ناکام اظہار ہے۔ حسن میں وحدت ہوتی ہے اور قبح انتشار کو مختص ہوتا ہے۔ ناکام فن پاروں کے محاسن میں مقدار کا فرق ہوسکتا ہے۔ لیکن حسن کے محاسن میں مقدار کے فرق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حسن کے معنی ہی مکمل حسن کے ہیں اور جو مکمل نہیں ہے وہ حسین بھی نہیں ہے۔ اس کے برخلاف قبح میں مقدار کے لحاظ سے کم یا زیادہ قباحت ممکن ہے۔“
کروچے کے تصورات:
کروچے کے تصوّرات بڑی حد تک وضاحت طلب، اور بیک وقت کئی شقوں پر محیط ہیں۔ اس لیے انھیں خود ان کے تضادات کے پس منظر میں پیش کرنا، یہاں طولِ امل ہو گا۔ تاہم کروچے اپنے ما قبل اور مابعد جمالیتیں کے درمیان ایک زبردست مجتہد اور نظریہ ساز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور جس کے تصورات کئی جدید تر رویوں کے محرک و ماخذ ثابت ہوئے ہیں۔
جمالیاتی تنقید ایک سائنس ہے جو فلسفے سے اصول و معیار اخذ کرتی ہے۔
جمالیاتی تنقید کا کردار:
اکثر ادبی نقاد، فن کی تفہیم و محاکمے کے ضمن میں ادّعائی، داخلی یا شخصی طریق کار کے بجائے معروضی اور منطقی طریق کار سے کام لیتے ہیں۔تجزیے کا یہ طور سائنسی ضبط کا متقاضی ہے۔ فرانسیسی ماہر ریاضیات ہنری پائن کیر کا یہ اصرار کم توجہ طلب نہیں کہ ریاضیاتی دماغ کی صلاحیتِ ممیزہ کا سُراغ منطق سے نہیں بلکہ جمالیات سے ممکن ہے۔جمالیات کے ابتدائی نقوش یونان میں ملتے ہیں۔لیکن اصولی طور پر اٹھارہویں صدی میں جرمن مفکرین نے اس کے مطالعے کی باقاعدہ داغ بیل ڈالی اور جو انتہائی قلیل عرصے میں ایک مرعوب کن موضوع بن گیا۔
کروچے بطور طالب علم:
یونی ورسٹی سے مایوس ہو کر کروچے نے خود سخت جان مطالعہ کر کے بہت کچھ سیکھا۔ اس دور کی کروچے کی تحریریں عالمی سطح پر بہت مقبول ہوئیں۔ اسلوب نفیس ہونے کے ساتھ ساتھ تند و تیز بھی تھا۔
کروچے کا فلسفہ برائے جمال:
کروچے کے فلسفے کا سب سے اہم پہلو اُن کا جمالیاتی نظریہ تھا۔ خاص طور پر یہ کہ فن بنیادی طور پر اظہار خیال ہے۔ یہ ایک فن کار کے جذبات، رویے یا تجربے کا اظہار ہے۔ کروچے فن کے اظہار اور نمائندہ عوامل کے مابین جمالیات میں عصری امتیاز کا ذمہ دار تھا۔ کروچے کے خیال میں آرٹ یعنی فن سائنس اور مابعدالطبیعات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اُس کا ماننا تھا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں، وہ خیال میں کم ہو سکتا ہے۔ فن بہار ہوتا ہے، جو اُسے اپنے دل پر خالص نقش بناتا ہے۔ تمام افکار اسی پر مبنی ہیں۔ فن کار کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ناظرین کے لیے کامل شبیہہ ایجاد کرے۔ کیوں کہ خوب صورتی بنیادی طور پر یہی ہے کہ اپنی مثالی حالت میں اندرونی ذہنی نقشوں کی تشکیل کی جائے۔ کروچے کا کہنا تھا کہ فن جذبات سے اظہار کرتا ہے، خیالات سے نہیں۔ آر جی کولنگ ووڈ نے بعد میں اسی طرح کا مقالہ تیار کیا تھا۔

Leave a Comment