جواب: مغرب کی رومانوی تحریک
رومانویت نے لسانیات، ہیئت اور تخیل کے پرانے معائر اور نظریات کو بالعموم لائق اعتنا نہیں سمجھا بل کہ اس کی جگہ فکر و خیال کی ایک نئی دنیا کا تصور پیش کیا گیا۔ اس دنیا میں تخلیقی سطح پر جو تنوع، رعنائی، کشش اور بو قلمونی پیدا کرنے کی سعی کی گئی اس کے اعجاز سے مفاہیم اور معانی کا ایک جہان تازہ قلب و نظر کو مسخر کرنے پر قادر تھا۔ رومانویت نے موضوعات کو ندرت، وسعت اور تنوع سے آشنا کیا۔ اس طرح تخیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی امید پیدا ہوئی۔ تخلیق کار کو اپنی پسند کے مطابق تخلیقی اظہار کا طریقہ اپنانے کا موقع ملا اور اس طرح اسلوب پر عائد قدغنوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں حسن کی جلوہ آرائی کے دھنک رنگ مناظر سے مسحور کن سماں پیدا ہو گیا۔
رومان اور رومانیت:
ورڈز ورتھ رومانی شاعر ہے اور اختر شیرانی بھی شاعر رومان کہلاتا ہے، حالاں کہ دونوں کی شاعری اور مقصد حیات میں بہت فرق ہے۔ اگر رومان اور رومانی کے انگریزی میں مروج معانی ملحوظ رکھے جائیں تو پھر اختر شیرانی رومانس کا شاعر قرار پاتا ہے، رومانی نہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اس موضوع پر قلم اُٹھانے والے ماہرین، محققین اور ناقدین نے اس لفظ کے متنوع معانی اور تشریحات پر بطور خاص زور دیا ہے، اس لیے جب ڈاکٹر سید عبداللہ رومانیت (مطبوعہ ماہنامہ ادب لطیف لاہور جوبلی نمبر 1963ء) پر اپنے مقالے کا آغاز یوں کرتے ہیں تو ہی امر اجاگر ہو جاتا ہے کہ کثرتِ تعبیر نے رومان اور رومانیت کے ساتھ کیا سلوک کیا:
”جب ہم اپنی لغات الفنون کی ترتیب کے دوران رومانیت کی اصطلاح پر آئے تو اپنی بے چارگی کا گہرا احساس ہوا، معلوم ہوا کہ یہ لفظ جتنا دل خوش کن اور دل چسپ ہے، اتنا سہل اور بآسانی قابل تشریح نہیں۔ لغات، فرہنگ اور اصطلاحات کے انسائیکلوپیڈیا اور تنقید کی کتابیں ایک ایک اور سب کی سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔“
رومانیت کا آغاز:
انگریزی شعرا، اہل قلم، ناقدین اور دانش ور خاصی دیر تک کلاسیکیت کے زیر اثر رہے مگر کب تک؟ ہر نظریہ اور تصور جب اپنی منطقی انتہا تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اُس کی خامیاں نمایاں ہونے لگتی ہیں، یوں اُس کے خلاف ردعمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ چناں چہ کلاسیکیت کے خلاف بھی رومانیت کی صورت میں ردِعمل ہوا۔
رومانیت کیا ہے؟
انگریزی میں اس سلسلہ میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہمارے ناقدین بالعموم انھی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان نکات کی نشان دہی کی جاتی ہے جو رومانیت میں اساسی اہمیت کا حامل سمجھے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں سرفہرست جذبہ اور تخیل قرار پاتے ہیں۔ رومانیت میں شعرا کا سرچشمہ قوت، الہام سمجھی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ فعال اور قوی تخیل اپنی انفرادی حیثیت میں بذات خود الہام کی سطح تک جا پہنچتا ہے۔ شدتِ جذبات شاعر کے لیے محرک کا کام کرتی ہے۔ ورڈز ورتھ فطرت فطرت پرست تھا، لہٰذا اُس نے انسانی روح پر مناظر فطرت کے حیات بخش اثرات پر بہت زور دیا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کا قائل تھا کہ شاعر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر عوام بلکہ زیادہ بہتر تو یہ کہ عوام کی زبان میں شاعری کرے تا کہ جذبات کا اظہار زیادہ سے زیادہ فطری اسلوب میں ہو سکے۔ رومانوی شعرا اور ناقدین نے حسن کی عکاسی پر بھی بہت زور دیا ہے۔
٭جان کیٹس شیلے:
جان کیٹس شیلے انگریزی ادب کا ایک عظیم شاعر اور رومانوی تحریک کی ایک اہم شخصیت تھا۔ اس کی خوب صورت شاعری حسوں کو متاثر کرتی ہے۔ اردو شاعرہ پروین شاکر نے کیٹس کو شاعر جمال کہا ہے۔ شیلے 13اکتوبر1795ء میں انگلستان میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی جان کیٹس شیلے کو شاعری سے شغف ہو گیا تھا اور اُس نے کلاسیکل ادب پڑھنا شروع کر دیا۔
کوئین میب:
شیلے کی مشہور نظم کوئین میب کی اشاعت کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ انقلابی خیالات پرمبنی یہ نظم شیلے کے ان خیالات کی ترجمانی کرتی ہے جن پر اس کے فکری اور شعری نظام کی بنیاد قائم ہے۔ شیلے پورے نظام کو بدلنا چاہتا تھا۔ معاشرے میں اصلاحی نظام لانا چاہتا تھا۔ جس میں عام انسان کو سہولت مل سکے۔ وہ فطری ماحول کو واپس لانا چاہتا تھا۔وہ اس میں ایک جگہ کہتا ہے۔
”مجھے واپس اس دھرتی ماں کی طرف جانے دو، جہاں میں اپنے ہاتھوں سے کھیتوں اور جنگلوں سے اپنی خوراک حاصل کر سکوں۔“ شیلے نے اس کتاب کی اشاعت کا انتظام خود کیا۔ 120 کاپیاں پریس سے نکلوائیں۔ 50جاننے والوں کو اس نے چوری چوری تقسیم کیں اور 70پریس میں رکھوا دیں اور سختی سے منع کر دیا کہ یہ تقسیم نہ کی جا ئیں۔ جس دوست کے پاس یہ کاپیاں محفوظ تھیں اس کا نام ولیم کلارک تھا۔ 1821 ء میں (شیلے کی وفات سے ایک سال پہلے) وہ یہ کتاب مارکیٹ میں لے آیا۔
بقول ایک نقاد، لوگ اس کتاب پر جھپٹ پڑے۔ شیلے نہیں چاہتا تھا کہ اس کے خیالات کی وجہ سے لندن کے لوگوں میں اس کے خلاف مزید نفرت پھیلے۔ چنانچہ اس نے ولیم کلارک کے خلاف مقدمہ کیا۔ حکومت نے ولیم کلارک کو جیل بھیج دیا۔ کتاب ضبط کرلی۔ 1830ء میں اس کتاب کے 12ایڈیشن چھپے۔ شیلے اپنے نظریات کی مقبولیت دیکھنے کیلئے زندہ نہ رہا۔ کہتے ہیں اتنا کچھ لکھنے کے باوجود شیلے کو اپنی شاعری سے ساری زندگی میں صرف 40پاؤنڈ کا فائدہ ہوا۔
کتاب سے استفادہ:
اس کے خیالات سے پوری دنیا مستفید ہوئی اور یہاں تک مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کی شاعری اور اس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شیلے کا ڈراما بڑی اہم تخلیق ہے۔ یونانی المیہ نگار اسکائی لیس کے مشہور ڈرامے کی یہ جدید شکل ہے۔ شیلے نے اس میں اپنی فکر اور نظریات کو شامل کر کے اسے آزادی اور ظلم اور آمریت کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اسکائی لیس کے ڈرامے میں ہیرو کو آسمان سے آگ چرا کر زمین کے انسان کو دینے کے جرم میں کاکیشیا کی چوٹی پر باندھ دیا گیا تھا جہاں عقاب دن بھر اس کو نوچتے رہتے تھے۔
شیلے نے ا سے ایک ایسے انسان کا روپ دے دیا ہے جو ظلم اور آمریت کے خلاف سر نہیں جھکاتا۔ آمریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھتا ہے اور آخر فتح اس کی ہوتی ہے۔ اور وہ آزادہو جاتا ہے۔ میں قریب قریب انہی نظریات کا پر چار ہے۔ شیلے کے بارے میں نقادوں کا یہ خیال ہے کہ شیلے دراصل انسانوں کے اندر سوئے جذبوں کو جگانا چاہتا تھا۔ جو بات ٹالسٹائی نے بہت بعد میں کہی کہ انقلاب انسانوں کے اندر سے نمودار ہوتا ہے۔
شیلے اسی جذبے کو انسانوں کے اندر پیدا کر نا چاہتا تھا۔ انسان خوشگوار زندگی صرف اس وقت گزار سکتا ہے جب وہ آزاد ہو اور اسی آزادی کے لئے شیلے انسانوں کو اکساتا ہے۔ شیلے کا نظریہ تھا کہ غلامی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شیلے کے بارے میں مشہور ے کہ وہ پرندوں کو بھی پنجروں میں رکھنے کے خلاف تھا۔ پیرس سے جب وہ گدھے پر سامان رکھ کر لندن جا رہا تھا تو ایک گاؤں کے قریب اسے ایک چڑی مار ملا جو چڑیوں اور فاختاؤں کو پکڑ کر جا رہا تھا۔شیلے نے اسے روکا اور سب پرندوں کی قیمت ادا کر کے پرندوں کو آزاد کر دیا۔
غنایت اور مٹھاس:
شیلے رومانوی شعرا (ورڈز ورتھ، کولرج، بائرن اور کیٹس) میں سے واحد شاعر تھا جس میں غنائیت اور مٹھاس کا عنصر سب سے زیادہ تھا۔ فطرت کی خوبصورتی اور حسن کا وہ زندگی بھر عاشق رہا۔ نقاد کہتے ہیں کہ ورڈز ورتھ آخری عمر میں نیچر سے کچھ دور ہو گیا تھا لیکن شیلے ساری عمر فطرت اور فطرت کی رعنائیوں میں ڈوبا رہا اور اسی سے اس نے انقلابی سوچ کو مضبوط تر بنایا۔ کزامیاں اس کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے:
”شیلے کا تعلق انسانوں کے اس مخصوص گروہ سے تھا جنہوں نے جذبات اور ادراک کے مرکب سے انقلابی ذہن کو تیار کیا۔ بچپن سے جوانی تک یہ چنگاری اس کے اندر سلگتی رہی۔“ شیلے کو ساری زندگی مشکلات کا سامنا رہا جن کا شیلے نے بڑے صبر اور جرا?ت سے مقابلہ کیا۔
مخلوق سے محبت:
یہ حوصلہ شیلے نے محبت سے حاصل کیا۔ اس کی محبت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی۔ اس کے حصار میں ہر جاندار مخلوق آتی تھی۔ جن میں جانور، پرندے، درخت، پھول، بادل، ہوا سب ہی شامل تھے۔ شیلے میں کائنات سے ہم کلام ہونے کا ہنر موجود تھا۔ وہ کبھی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کبھی سے اور کبھی بادل سے…! ہو یا کیٹس پر لکھی گئی ڈراما ہو یا نظم اس کی بے مثال عنائیت، تمثال اور جذبہ ہر سطر میں موجود ہوتا ہے۔
شیلے کے آخری ایام بائرن کے ساتھ اٹلی میں گزرے۔ جہاں اسکے ساتھ اس کے چند دوست بھی تھے جن میں مشہور شاعر لی ہنٹ اور ٹری لانی بھی تھا۔ سمندر اور سمندرکا پانی بچپن ہی سے شیلے کو بہت حیران کرتا تھا اور وہ کہتا تھا اوریہ بات سچ ثابت ہو ئی اور 8جولائی1822ء کو پانی سالگرہ سے ایک ماہ قبل تیس برس کی عمر میں شیلے ایک سمندر ی طوفان کی نذر ہو گیا۔ وہ بائرن کی کشتی لے کر اپنے دو دوستوں کے ساتھ سمندری سفر پر جانے کے لئے تیار ہوا۔
کشتی کے ایک طرف اس نے کا نام لکھوایا۔ بائرن کو یہ بات پسند نہ آئی اور شیلے کو کے حروف مٹانے کے لیے کہا۔ شیلے نے یہ بات نہ مانی اور اپنے لیے دوسری کشتی حاصل کی۔ دوستوں کو ساتھ لیا اور سمندری سفر پر روانہ ہو گیا۔ میری شیلے نے شیلے کی 1822ء میں لکھی نظموں پر دیباچہ لکھ کر ایک کتاب شائع کی تو اس کے دیباچے میں یہ بات لکھی کہ شیلے نے جس کشتی پر سفر شروع کیا وہ سفر کے قابل نہ تھی اسے لوگوں نے روکا مگر وہ سفر پر جانے کے لیے بضد تھا۔
شیلے کی موت:
شیلے کی موت کے بعد مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کسی نے کہا شیلے ان دنوں بہت نا اُمید تھا اور مرنا چاہتا تھا۔ کسی نے کہا اس کشتی کو بائرن کی کشتی سمجھ کر بحری قزاقوں نے لوٹنے کی غرض سے حملہ کیا۔ کسی نے اس کی موت کو سیاسی قتل قرار دیا۔ کیونکہ اس پر پہلے ایک حملہ ہو چکا تھا۔ بہر حال اس کی موت کے ایک دن بعد اخبار میں جلی حروف میں اس کی موت کی خبر چھپی۔ شیلے۔ شاعر سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔ اب اسے پتا چل گیا ہو گا کہ خدا ہے کہ نہیں۔
٭ولیم ورڈز ورتھ
انگریزی زبان کا معتبر ترین شاعر اور نقاد
ولیم ورڈز ورتھ انگریزی زبان کا شاعر تھا۔ اُس نے اپنے دوست کالرج کے ساتھ مل کر انگریزی ادب میں رومانوی تحریک کی بنیاد رکھی۔ فطرت ورڈز ورتھ کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے۔ ولیم ورڈ زورتھ سات اپریل 1770ء کو اپنے متوسط گھرانے میں Lake District کے ایک گاؤں Cock Mouth میں پیدا ہوا۔ابتدائی چند سال ناز و نعم میں پرورش پائی پھر ماں باپ فوت ہو گئے اور چچا نے اس کی پرورش کی۔ اس کا ابتدائی سکولHawk Shead میں تھا۔ سکول کے اردگرد فطرت کے خوبصورت نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ فطرت سے محبت کا آغاز اسی گاؤں سے ہوا۔ 1787ء میں وہ کیمبرج پڑھنے چلا گیا لیکن کالج کے نصاب سے اسے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس نے وہی پڑھا جو اسے پسند تھا۔
فطرت سے محبت:
انگریزی زبان کا شاعر ولیم ورڈز ورتھ دو حوالوں سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ فطرت سے محبت اور ایس ٹی کولرج سے دوستی۔ ورڈز ورتھ، کولرج کو اپنا روحانی بھائی کہا کرتا تھا۔ دونوں نے اکٹھے شاعری شروع کی۔ دونوں ایک ہی فلسفے کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھے۔ منصوبہ بندی کے تحت نظمیں لکھیں۔ تنقیدی نظریات دئیے، ایک عرصہ اکٹھے رہے، دونوں نے اکٹھے کتاب چھپوائی جس کا نام Lyrical Ballads تھا۔جب اس کتاب کے لئے دونوں نے نظمیں لکھیں تو اپنا اپنا دائرہ عمل مقرر کر لیا۔
چھوٹے چھوٹے واقعات کو نظموں کا حصہ:
ورڈز ورتھ نے حقیقی زندگی کا انتخاب کیا اور عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو نظموں کا حصہ بنایا۔ کولرج نے مافوق الفطرت عناصر کی مدد لی۔ اور اپنی نظموں میں حیرت اور طلسمی فضا کو شامل کیا۔ مثلاً ورڈ ز ورتھ اپنی نظم Good Blacke and Harry Gill میں ایک عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو ایک کنجوس کسان کے کھیت سے چند چھڑیاں چرا لیتی ہے۔ کسان اسے بُری طرح مارتا ہے اور عورت اسے بددعائیں دیتی ہے۔ کولرج کی مشہور نظم Ancient Mariner میں وہ Pacific سمندر کی طرف جانے والے ملاحوں کا ذکر کرتا ہے جو ایک پرندےAlbatrossکو مارتے ہیں اور پھر اس جرم کی پاداش میں مصیبتوں سے دو چار ہوتے ہیں۔
رومانویت کا نمائندہ شاعر:
پرندے کو مارنے والا ملاح ایک ایسے درد میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس درد میں کمی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے جرم کی کہانی سناتا ہے۔ کولرج کی یہ نظم بیان، اسلوب، موسیقیت اورخوبصورت تشبیہہ و استعاروں سے مزین ہے جب کہ ورڈز ورتھ اپنی نظم میں سادہ بیانی، علاقائی اور زمینی فضا قائم رکھتا ہے۔ انگریزی شاعری میں ورڈزوتھ کو ایک اہم ترین مقام حاصل ہے۔ ورڈ زورتھ رومانویت اور رومانوی تحریک کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے تنقیدی نظریات اور شعری رجحان سے انگریزی شاعری پر خاطر خواہ اثر چھوڑ ا اور پوری دنیا نے اس کی شاعری اور تنقیدی نظریات کو تسلیم کیا۔
حقیقت کا ادراک:
اس نے انسان اور فطرت کو ایک نئے زاویے سے دیکھا اور دونوں کو ایک رشتے میں باندھنے کا فرض ادا کیا۔ اس نے اپنے مشاہدے اور تجربے پر اعتماد کیا، حقیقی زندگی اور ارد گرد بکھرے فطرت کے نظاروں اور اشیامیں حقیقی مسرت اور خوشی کا کھوج لگایا۔ اس نے بتلایا کہ انسان ان چیزوں میں خوشی تلاش کر رہا ہے جہاں وہ موجود نہیں ہوتی۔ اس نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں حقیقی مسرت کی وضاحت کی۔
فطرت سے قربت:
ورڈز ورتھ بچپن ہی سے فطرت کے قرب کا عادی رہا۔ اس نے بچپن ہی میں فطرت کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوبصورتی، سچائی اور مسرت کے بے پناہ خزانے ڈھونڈ لیے تھے اور اب وہ اپنی شاعری سے لوگوں کو ان کا پتا بتلانا چا ہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ غم اور خوشی کا ذریعہ کیا ہے؟ وہ اپنے قارئین کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔
رومانوی تحریک کا امام:
تنقیدی نظریات تشکیل دیے، رومانوی تحریک کا امام کہلایا۔ عام انسانوں کی معصومیت اور زندگی کی اپنی شاعری میں عکاسی کی۔ قلم ہمیشہ چلتا رہا، بس جب اس کی بیٹی ڈورا(Dora)فوت ہو ئی تو اس کا دل شاعری سے اچاٹ ہو گیا۔ ورڈزورتھ کے شعری کارنامے قابل رشک ہیں۔ وہ اپنی شاعری اور تنقیدی نظریات کو وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم واضافے کے ساتھ چھپواتا رہا۔ جب کولرج سے دوستی تھی تو بہت سے تنقیدی نظریات پر اس کا کولرج سے اتفاق تھا مگر جب دوستی ختم ہوئی تو اس سے ورڈز ورتھ کا نظریاتی اختلاف شروع ہو گیا۔
عام بول چال :
شعری زبان کے مسئلے پر ورڈ زورتھ عام انسانوں کی زبان کا قائل تھا اور کہتا تھا کہ شاعری میں بول چال کی زبان استعمال کی جانی چاہیے لیکن کولرج اس سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ ورڈزورتھ نے قدیم شاعری سے ہاتھ چھڑا کر رومانوی تحریک کو تقویت بخشی اور ساری دنیا اس تحریک کی لپیٹ میں آ گئی۔انگریزی تنقید میں اس نے شاعری کے موضوعات اور زبان پر کھل کر بحث کی۔ فطرت اور انسانوں کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔
عمدہ تخیل:
شاعری میں تخیل کی اہمیت کو واضح کیا۔ اسے ایس ٹی کولرج کے مقابلے میں بڑا نقاد نہیں مانا جاتا لیکن اس کے باوجود اسے انگریزی تنقیدی تاریخ میں ایک اہم مرتبہ اور مقام حاصل ہے۔ ورڈز ورتھ کی دوسری اہم کتابPrelude ہے جو اس کی فکری تعمیر کی داستان بھی ہے اور اس کتاب کو ورڈزورتھ کی روحانی سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ورڈز ورتھ نے اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کو شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ فطرت سے اپنے قرب کو ظاہر کیا ہے۔ سکول کی ایک استانی اسے اکساتی تھی، ترغیب دیتی تھی کہ وہ فطرت اور اس کے حسن کو اپنے اندر رچالے۔ وہ پرندے اور پرندوں کی آوازیں اس کے ذہن میں محفوظ ہو گئیں اور بچپن میں سنی ان آوازوں کو بڑھاپے میں تلاش کرتا رہا اس کی ایک نظم“Cuckoo”اس کی بہترین مثال ہے یہ آواز اس نے بچپن میں سنی تھی۔
انفرادیت:
ورڈزورتھ کی حیثیت بطور شاعر اور نقاد منفرد ہے۔ اس کی دونوں حیثیتیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ بحیثیت نقاد اس نے اپنا نظام تنقید دیا اور اپنے آپ کو منوایا۔ بحیثیت شاعر اس نے شاعر کی نئی دکان کھولی اور ایک ہجوم اس کی طرف اُمڈآیا۔