سوال:ساختیاتی تنقید سے کیا مراد ہے؟ تفصیل سے بحث کیجیے۔
سوال:ساختیاتی تنقید کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
سوال: ساختیات دوسرے تنقیدی دبستانوں سے کس طرح مختلف ہے؟
سوال:ادبی تنقید میں ساختیاتی طریق کار کی افادیت پر نوٹ لکھیے۔
سوال:ساختیات خبر دیتی ہے نظر نہیں، تفصیل سے جائزہ لیں۔
جواب:ساختیات:
ساختیات فارسی زبان کے لفظ ساخت سے بنا ہے۔ ساختن مصدر ہے اور اس کے معنی ایجاد کرنا، گھڑنا اور بنانا کے ہیں۔ لفظ ساخت وضع ترکیب ڈھانچا اور بناوٹ کے معنی دیتا ہے۔ ساخت کے ساتھ عربی علامت ”ات“ کا اضافہ کر کے ساختیات کی اصطلاح بنائی گئی ہے۔ ساختیات کا مطلب ساخت کا علم یا مطالعہ ہے۔ انگریزی میں اسے Structuralism کہتے ہیں جو Structure سے نکلا ہے۔
ارسطو سے لے کر اب تک ادب میں ساخت کا کسی نہ کسی حوالے سے احساس اور تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ ہر عہد میں فن پارے کی بناوٹ اور ماہیت پر مختلف انداز میں بحث ہوتی رہی ہے۔ ریاضی، منطق، طبیعیات، حیاتیات اور دیگر معاشرتی علوم میں ساخت کا تصور مروج رہا ہے۔ لیوی سٹراس ماہر بشریات تھا لیکن اس سے پہلے ساخت کا تصور موجود تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ فرانسیسی ساختیات کا فلسفہ اچانک کیسے مشہور ہوگیا اور یہ فکر فلسفہ کی ایک تحریک کی صورت کیسے اختیار کر گیا؟
لیوی سٹراس نے ۱۹۴۵ء میں ایک رسالہ میں لکھا کہ ساختیاتی ماہرین لسانیات جس صوتیاتی انقلاب کی بات کر رہے ہیں ان کی فکر اور فلسفہ بشریات میں بھی کام آسکتا ہے۔ لیوی سٹراس نے اپنی کتاب ”انتھروپولوجی سٹرکچرل“ (Anthropologie Structure) میں اس نے نہایت چشم کشا مطالعہ پیش کیا ۔ لیوی سٹراس کے اس کام نے بنیاد فراہم کردی۔ اس کے بعد کریدا اور جستجو کے نئے دروازے کھل گئے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ساختیات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”ساختیات بنیادی طور پر ادراک حقیقت کا اصول ہے یعنی حقیقت یا کائنات ہمارے شعور و ادراک کا حصہ کس طرح بنتی ہے؟ تاہم اشیا کی حقیقت کو انگیز کس طرح کرتے ہیں؟ یا معنی خیزی کن بنیادوں پر ہے؟ اور معنی خیزی کا عمل کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟ اور کیوں کر جاری رہتا ہے۔“
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ساخت کا مفہوم کچھ اس انداز میں سمجھاتے ہیں:
”ساخت کا تصور چونکہ تجریدی تصور ہے۔ اس کی وضاحت آسان نہیں ہے۔ تاہم اس کے بنیادی نکتے کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال سگنل یا ٹریفک کی بتی ہے۔ ٹریفک بتی میں تین رنگ ہوتے ہیں: سبز، سرخ اور زرد۔ سبز سے ہم جائیے، سرخ سے رکیے اور زرد سے سبز کے بعد رکنے کے لیے تیار اور سرخ کے بعد جانے کے لیے تیار مراد لیتے ہیں۔ یہ ان رنگوں کا عام مفہوم نہیں ہے۔ مختلف ثقافتوں میں مختلف رنگوں کے مختلف معنی ہیں۔ سبز سے بالعموم زرخیزی اور نمو مراد لیا جاتا ہے۔ وہ ان معنی سے ہٹ کر ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو سرخ کا کوئی فطری یا لازمی رشتہ رکیے سے یا سبز رنگ کا کوئی فطری یا لازمی رشتہ جائیے سے یا زرد کا محتاط رہیے اور تیار رہیے سے نہیں ہے۔ گویا سرخ یا سبز یا زرد فی نفسہ کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں اور یہ رشتہ ربط کا بھی ہے اور تضاد کا بھی۔ یعنی سبز سرخ اور زرد ایک رشتے میں گندھے ہوئے تو ہیں ہی لیکن یہ تینوں ایک دوسرے سے تضاد میں بھی ہیں۔ لہٰذا سبز سے مراد ”جائیے“ اسی لیے ممکن ہے کہ سبز، سرخ یا زرد نہیں۔ سرخ سے مراد ”رکیے“ اس لیے ممکن ہے کہ سرخ سبز یا زرد نہیں اور زرد سے مراد ”محتاط“ اس لیے ممکن ہے کہ زرد سبز یا سرخ نہیں۔ ٹریفک بتی کے ان تینوں رنگوں میں آپس میں جو رشتہ ہے اور اس رشتے کے نظم کی جو تحریری فارم ہے رشتوں کا یہ نظم یا ان کی تجریدی فارم ساخت ( سٹرکچر Structure) ہے۔ پس ثابت ہوا کہ رنگوں کے معنی ساخت سے پیدا ہوتے ہیں، جس میں وہ واقع ہیں وگرنہ کوئی رنگ فی نفسہ معنی نہیں رکھتا۔ دوسرے لفظوں میں اس نظام میں کوئی بھی نشان آزادانہ معنی نہیں رکھتا بلکہ وہی معنی دیتا ہے جو اس معنیاتی نظام کے اندر اس کو حاصل ہے۔ لہٰذا نشان اور معنی کا رشتہ من مانا خود ساختہ ہے کیونکہ نشان سرخ اور اس کے معنی رکیے میں کوئی فطری رشتہ نہیں، خواہ یہ رشتہ کتنا ہی فطری کیوں نہ معلوم ہو۔ یہی معاملہ زبان کے جامع رسانی نظام اور اس کے اندر لفظوں کے عمل کا ہے۔“
ساختیات۔ ابتدائی باتیں (گوپی چند نارنگ):
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنے مضمون ”ساختیات۔ابتدائی باتیں“ میں ساختیات کو بڑے آسان پیرائے میں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں چیزوں کے جتنے بھی نام ہیں یعنی ایسے الفاظ جن کی مدد سے ہم چیزوں کو پہچانتے ہیں وہ فی نفسہ کوئی قطعی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ نام صرف ہمیں ان چیزوں کی انفرادیت قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جس چیز کا نام لیتے ہیں تو اس چیز کا تصور ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے۔ یہ تصور ہمیں اس حقیقت تک لے جاتا ہے جو دوسرے کے ذہن میں بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہچان کے اس عمل کو نشانات کا تفاعل کہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
مثال کے طور پر تمام سماجی سرگرمی اور انسانی کارکردگی دراصل حقیقت کے ادراک کے بارے میں رشتوں کی نشان سازی (Sign Making) کے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ نشان (Sign) سے مراد صرف لفظ نہیں بلکہ کوئی بھی چیز یا مظہر جس سے ثقافت میں ترسیل معنی کا کام لیا جاتا ہو۔ مثلاً تصویر، نقشہ، شبیہہ یا کوئی بھی شکل یا شے خواہ فطری ہو یا مصنوعی اگر معنی کی ترسیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو وہ نشان ہے۔ مثال کے طور پر وہ پھول جو ویرانے میں کھلتا ہے اور بغیر دیکھے مرجھا جاتا ہے نشان نہیں ہے لیکن یہی پھول جب گل دستے گجرے یا ہار کا حصہ بنتا ہے تو ثقافتی اعتبار سے بامعنی ہو جاتا ہے اور بطور نشان استعمال ہوتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو فی نفسہ پھول کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا، پھول کو اس کے معنی ثقافت کی رو سے حاصل ہوتے ہیں۔“
شاعری جذبات و احساسات کا نام ہے۔ اس میں شعوری اور لاشعوری عناصر کارفرما ہوتے ہیں لیکن ساختیات ہمیں بتاتی ہے کہ شاعری کی ایک خاص ساخت ہے جس میں الفاظ بذات خود کچھ نہیں بلکہ ان کے آپس کے ملاپ ہی سے کوئی مفہوم لکھتا ہے۔ یہ الفاظ زبان ہی کی بدولت سمجھ میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساختیات کا تعلق زبان کے ساتھ ہے۔
غالب کا شعر دیکھیے:
ظلم ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ساختیات میں ساخت کے باہمی رشتوں کے نظام کی تفہیم کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے۔ رنگ Colour کے معنی دیتا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں رنگ اپنے مخصوص معنوں میں لیا جائے تو شعر کا مفہوم ہی کچھ نہیں رہے گا۔ رنگ سے مراد یہاں صورتِ حال لیا جائے تو مفہوم کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ساختیات کی رو سے ”رنگ“ کو ”حال“ اور ”صورت“ کے معنوں میں لیا جائے گا۔
ساختیاتی تنقید:
ساختیات کی اصطلاح اردو تنقید میں نووارد ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر ناقدین کے لیے نامانوس بھی ہے۔ حالانکہ اس اصطلاح سے وابستہ انداز نقد اور اس سے جنم لینے والے مباحث کا دائرہ امریکہ یا بر طانیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ فرانس اور روس حتیٰ کہ چیکوسلواکیہ تک پھیلا نظر آتا ہے۔ اتنے مقبول تصور نقد سے متعلق معاصر ناقدین کی بے خبری تعجب خیز ہے۔
جہاں تک ساختیات (Structuralism) کی اصطلاح کا تعلق ہے یہ محض تنقید سے مخصوص نہیں بلکہ سرے سے یہ تنقید کی اصطلاح ہی نہیں بلکہ مستعار ہے۔ ساختیات جدید عمرانی علوم اور علم الانسان کی ایک اہم اور مقبول اصطلاح ہے۔ یہی نہیں بلکہ فرانس میں کلاڈ لیوی سٹراس (Claud Levi-Strauss) جیسے ماہرین اسے اساطیر کے تجزیاتی مطالعہ میں استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ بعض ماہرین لسانیات نے اس کی روشنی میں زبان کے تشکیلی عناصر اور لسانی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ اگرچہ تنقید میں اس اصطلاح کی عمر نسبتاً کم ہے لیکن روسی ہئیت پسندوں (Formalists) کے ساتھ متعلق ہو جانے کی بنا پر ساختیات سے منسلک تصورات کی عمر موجودہ صدی جتنی قرار پائی ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز تک مغرب میں ثبوتیت (Positivism) کی صورت میں جو انداز نقد مروج تھا، فرانس میں ٹین (Taine) اور روس میں پیلیخنوف (Pelekhanov) کا انتقاد اس کی نمائندہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ادبی تجزیہ کی اساس ادب کے متن پر استوار ہوتی تھی اور ناقدین کے پیش نگاه خارجی عوامل ہوتے تھے۔ ان کے بموجب یہ خارجی عوامل ادب پارے کے مخصوص طرز احساس کا تعین کرتے تھے اور ان ہی کی روشنی میں ادب پارہ کی تشریح و تفہیم ممکن تھی۔ باالفاظ دیگر ادب کو محض عمرانی صورتحال کا ترجمان سمجھا جاتا اور یوں ادب پارہ مصنف کی زندگی یا اس کے عہد کا آئینہ قرار پاتا۔ اس انداز نظر کے مطابق ادبی تخلیق آزاد اور خود کار ذہنی وقوعہ ہونے کے برعکس خارجی عوامل و محرکات کا اثر تھی۔ چنانچہ ادب پاروں کو چھوڑ کر تاریخی اور سماجی حالات کی چھان بین شروع کر دی گئی اور ان ہی کی روشنی میں ادب کا تجزیاتی مطالعہ کیا جانے لگا۔ اس انداز نقد نے ادب اور مطالعہ ادب کو نسل سماجی ماحول طبقاتی حیثیت اور مصنف کی سوانح عمری کے خانوں میں منقسم کر دیا۔ جب انتہا پسندی اور غلو نے اس انداز نظر کے نقائص کو اجاگر کر دیا تو ان کے ردعمل نے دو صورتوں میں اظہار پایا۔ روس میں ہئیت پسندوں کا ساختیاتی تجزیاتی مطالعہ اور پراگ کا لسانیاتی حلقہ (Prague’s Linguistic Circle)۔ روس میں ہئیت پسندوں کے دبستان کا 1913ء اور 1930ء کے درمیان خوب شہرہ رہا حتیٰ کہ ٹالن نے سرکاری طور پر اس انداز نقد کو ممنوع قرار دے دیا کہ یہ ”بورژو التصوریت“ ہے۔
روسی ہئیت پسندوں میں شکلوسکی (Shklovsky)، ٹوما چوسکی (Tomashevsky)، ایچن بام (Eichenbaum) اور رومن جیکب سن (Roman Jacobson) بہت مشہور رہے ہیں۔ ہئیت پسند ناقدین میں شکلوسکی سب سے اہم تھا۔ اس کی تحریروں میں اس انداز نقد کے اساسی اصول ہی نہیں ملتے بلکہ ان کی بہترین تشریح بھی ملتی ہے چنانچہ اس کا ایک مقالہ بعنوان “art as Advice” اس لحاظ سے بےحد اہم ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ کئی اہم ہئیت پسندانہ رجحانات کی تشرح و توضیح کی گئی تھی۔ شکلوسکی نے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ شاعری میں امیجز یا علامات اساسی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے بموجب یہ تو الفاظ اور ان سے متعلقہ مواد کی ترتیب وکیل کے نت نئے طریقے ہیں جو شاعری کی اساس استوار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں “Theories of Literature in Twentieth Century” کے مؤلفین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے:
”روسی ہئیت پسند ادب پارے کے متن کو غارت کرنے کے خواہش مند نہ تھے، نہ ہی وہ ادب پارے کے کسی کم تر روپ میں بازیافت کے خواہاں تھے۔ وہ تو صرف ادب پارے کے تعلیلی عناصر کے بارے میں دانش مندانہ انداز میں گفتگو کرنے کے متمنی تھے۔ چنانچہ انہوں نے ادب پارے کے وظائف (Functions) کا تصور دے کر تجزیہ اور ادب پارے کے انفرادی متن میں پائے جانے والے بعد کو دور کر دیا۔ وہ صرف اس امر کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے کہ ادب پارے کے متن میں مخصوص تعمیراتی اصول یا بناوٹ کے طریقہ کار کیا کیا ہیں؟ اور یہ متن کو کیسے ایک مربوط کل کی صورت میں ڈھال دیتے ہیں۔ اس تلاش میں وہ پہلے ادب پارہ کے نظام تک آئے اور پھر بالآخر ساخت کے تصور تک آپہنچے۔“
ادب کے تشکیلی عناصر کا مطالعہ ہو یا اس کے داخلی نظام یا اس کی ساخت کا، ان سب کا ادب پارہ کی زبان سے گہرا تعلق ہے۔ اسی لیے روسی ہیئت پسندوں یا ان سے متاثرین نے زبان کے مطالعہ کو اساسی حیثیت دے کر ادب پاروں میں ملنے والے اسانی نظام کی تحلیلی تشریح پر بے حد زور دیا۔ ان کے بموجب ادبی تخلیقات میں ملنے والے تجربات زیست کی عکاسی زبان کے مخصوص استعمال کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اسی بنا پر شکلوسکی نے شاعری کو زبان کی تعمیر قرار دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادب پارہ کا مطالعہ زبان اور اس کے تکنیکی پہلوؤں کا تجزیہ بن کر رہ گیا۔
فرانس میں اگر چہ بعض اور دانشوروں نے بھی ساختیات کے ضمن میں قابل قدر اور قابل توجہ کام کیا، لیکن لیوی سٹراس نے جو شہرت حاصل کی، اسے سمجھانے کے لیے وجودیت میں سارتر کی شہرت سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیوی سٹراس بنیادی طور پر ادبی نقاد نہیں بلکہ اس کا اصل میدان اساطیر اور علم الانسان ہے اور اس میں اس نے ساختیات کا طریق کار استعمال کر کے خصوصی شہرت حاصل کی تھی۔ جب امریکہ میں لیوی سٹراس اور جیکب سن نے مل کر کام کیا تو لیوی سٹراس نے ادب و نقد اور بالخصوص لسانیات کی طرف بھی توجہ دی۔ 1962ء میں ان دونوں کی رفاقت اور اشتراک فکر کا ثمر بادلیر کی ایک مشہور نظم “Leschats” کے مطالعہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ اس نظم کا ساختیاتی مطالعہ ہے اور اب اسے ساختیاتی تنقید میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
لیوی سٹراس نے زبان کے ساختیاتی مطالعہ کو اپنے تصورات سے ایک نئی جہت دی۔ اس کے لسانی تصورات کی اساس اس امر پر استوار ہے کہ انسانی ذہن کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہئیت کے ذریعہ سے اپنی کارکردگی کا اظہار کرتا ہے لہٰذا تمام تجربات ساختیاتی صورت میں ہوتے ہیں۔ تجربات کے یہ ساختیاتی پیکر بالعموم لاشعوری ہوتے ہیں۔ لیوی سٹراس لاشعور کو شعور نہ ہونے کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک انسانی ذہن میں زبان لاشعوری طور پر ساختیات پر مینی درجہ بندی اختیار کر جاتی ہے۔ زبان میں متضاد الفاظ کے جوڑے بھی اسی سے بنتے ہیں۔ چنانچہ ہر نوع کے لسانی پیکروں کا ان کی مختلف ساختوں کے حوالہ سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
لیوی سٹراس کو اساطیر سے جو گہری دل چسپی تھی اس میں اس نے ادب و نقد کو بھی شریک کر لیا۔ اس نے اسطور کے مطالعہ کے لیے جو سالنیاتی تصورات وضع کیے، ادب پر ان کے اطلاق سے ساختیاتی تنقید میں طرح نو ڈالی۔ لیوی سٹراس کے بقول:
اسطور کو شاعرانہ اظہار کے پہلو بہ پہلو رکھنا چاہیے، یوں کہ ایک سرے پر اسطور ہو تو دوسرے پر شاعری۔ شاعری بھی ایک طرح کی زبان ہے جس کا ترجمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اسے مسخ کر دینے کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں جبکہ اس کے برعکس ناقص سے ناقص ترجمہ کے باوجود اسطور کی قدرو قیمت برقرار رہتی ہے۔“
یہ لیوی سٹراس کا ایک بہت مشہور قول ہے، ایسا قول جو اب حوالہ کی چیز بن چکا ہے۔ وہ اسطور اور شاعری کو پہلو بہ پہلو تو رکھتا ہے لیکن ان کی قدرو قیمت کے تعین کا معیار زبان کو قراردیتا ہے۔ اگر ساختیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو شاعری کی صورت میں زبان کے جو ساختیاتی پیکر بنتے ہیں وہ بے لچک ہوتے ہیں اور ان کی تمام تر اثر اندازی ان لسانی ساختیاتی پیکروں سے مشروط ہوتی ہے۔ لیکن ترجمہ کی صورت میں جب ان ساختیاتی پیکروں کا انہدام عمل میں آتا ہے تو شاعری کا حسن اور تاثیر مجروح ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حسن، حسن ادا کا دوسرا نام ہے اور تاثیر ساختیاتی پیکروں سے جنم لیتی ہے۔ اسی لیے ترجمہ تو کیا صرف ایک لفظ آگے پیچھے کر دینے سے شعر کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسطور کا یہ عالم نہیں، اس کی تشکیل کرنے والے ساختیاتی پیکروں میں خاص چمک ہوتی ہے اور وہ ان کی ٹوٹ پھوٹ کے باوصف بھی اپنا اثر بر قرار رکھتے ہیں۔
لیوی سٹرس کے بعد فرانس میں رونلڈ برس (Ronald Barthes) نے ساختیات کے ضمن میں خصوصی نام پیدا کیا ہے۔ ساختیات کے عمومی اصول نے اسطور اور علم الانسان میں مطالعہ کی نئی جہات کا تعین کیا ہے۔ مطالعہ ادب میں سابقیات نے تین طریقوں سے اظہار پایا:
(1) ساختیاتی تنقید (Structural Criticism)
(2) ساختیاتی روداد نگاری (Structural Nabrotology)
(3) سانی ساختیاتی تشریح متن (Linguistic-Structural Text Description)
ان تینوں کے ضمن میں مغرب میں بہت کام ہو چکا ہے مگر انہیں الگ الگ لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے قطعی منقطع اور خود مختار ہیں۔ ایسا نہیں کیونکہ مختلف ماہرین نے ان سے حسب ضرورت کام بھی لیا ہے، کبھی الگ الگ تو کبھی ایک سے زائد طریق کار کی باہمی آمیزش سے۔ اگر چہ ساختیات کی متنوع تشریحات کی گئی ہیں، لیکن اس کی اساس وحدتوں کی تشکیل کرنے والے نظام کی ساعت کی تنظیم اور تشریح پر استوار ہے۔ یہ نظام زبان کا بھی ہو سکتا ہے ادب پارہ کا بھی معاشرہ کا بھی اور دیگر مظاہر زیست کا بھی۔ چنانچہ Sociology of Literature کے مؤلفین کے بقول:
”جس نظام کا تجزیاتی مطالعہ کیا جا رہا ہوتا ہے اس کے مختلف عناصر میں ایک دوسرے کے ساتھ کئی طرح کے حرکی روابط اجاگر ہوتے ہیں، یوں کہ ہر عنصر کی اہمیت کسی دوسرے عنصر کے ساتھ روابط کی روشنی میں طے پاتی ہے۔ اساسی طور پر تو یہ استخراجی طریق کار ہے جس میں تمام اجزا کا کل کے ساتھ متحرک رابطہ استوار رہتا ہے۔ ادب کی عمرانیات کے نقطہ نظر سے دیکھنے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ساختیات میں ادب پارہ کو محدب شیشہ میں رکھ کر اس میں تہ در تہ معانی کی جہات کا سراغ لگایا جاتا ہے، وہ معانی جو ایک نامیاتی وحدت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر چہ ان کا خارجی امور سے بھی تعلق ہوتا ہے مگر یہ کلیتہً ان کے مرہون منت نہیں ہوتے ہیں۔“
یورپ میں ساختیاتی تنقید کی عمر خاصی ہے۔ اگر روسی ہئیت پسندوں سے اس کا آغاز سمجھا جائے تو یہ تقریباً موجودہ صدی جتنی ہی قدیم ثابت ہوتی ہے، لیکن ابھی تک اس مسئلہ سے متعلق نزاع ملتا ہے۔ تعریفوں کے بارے میں بھی اور طریق کار کے بارے میں بھی۔ خلا ایک ساختیاتی نقاد ٹی ٹیددوروف (T.Todorov) کے خیال میں:
”ادب میں ساختیاتی تجزیہ کا مقصد ادب کا، بلکہ زیادہ بہتر تو یہ کہ اس کی ادبیت کا مطالعہ ہے۔“ یہ بہت وسیع تعریف ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ نے ساختیاتی نقادوں کو لیموں نچوڑوں کا دبستان نقد قرار دیا تھا۔ اگر چہ یہ اس نے طنزاً کہا تھا لیکن ذرا غور کرنے پر اس سے ساختیاتی نقاد کے طریق کی تقسیم بھی ہو جاتی ہے۔ ہم پہلی کوشش میں دبا کر لیموں سے تھوڑا سا رس نکالتے ہیں پھر مزید دبا کر اور رس نکالتے ہیں، حتیٰ کہ آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اگر ساختیات کے بموجب ادب پارہ کو مختلف معانی کا تہ در تہ سلسلہ سمجھ لیں تو پھر ادب پارے کے آخری معنی تک پہنچے کا عمل لیموں سے اس کا آخری نظرہ نچوڑنے سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے اور جب ہم فریڈرک جیمزسن خیالات کا مطالہ کریں تو بھی Prison House of Language میں اس سے ملتی جلتی بات کرتا ہے۔ فریڈرک جیمزسن نے ساختیات کو زبان، استعارے یا ہیئت کے نظام کے مترادف گردانا ہے۔ اس کے نزدیک افراد یا اشیا کو دیے گئے نام محض Signs ہیں جب کہ ان کے جلو میں معانی کی تہ در تہ کیفیات ملتی ہیں اور جب ہم تمام معانی کا تجزیہ کرتے جائیں تو بالآخر حقیقی اور آخری معنی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
فلسفیانہ صورت میں ساختیات کا تصور خاصی پیچیدگی کا حامل ہے، بالخصوص وہ مباحث جو لسانی تشکیل سے وابستہ ہیں۔ ساختیاتی تنقید میں زبان کے مطالعہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے زبان کے مباحث کے حوالہ سے ادب پاروں کو سمجھنے کی ہر کوشش میں ساختیات سے امداد لی جاسکتی ہے، لیکن یہ کوشش محض تشبیہات اور استعارات یا صنائع بدائع کی تقسیم کے لیے نہ ہوگی بلکہ ان کے ظاہری مفہوم کی سطحات نیچے اتر کر جہت در جہت معانی کی جستجو میں اس سے کام لیا جا سکتا ہے۔
جدید افسانوی ادب یعنی علامتی اور تجریدی افسانے کا سارا تاثر زبان کا مرہون منت ہے۔ علامتی افسانہ نگار قدیم علامات کو کیسے نیا روپ دیتا ہے اور تجریدی افسانہ نگار لاشعور کی سیال ذہنی کیفیات کی کیسے عکاسی کرتا ہے، ان سب کا مطالعہ دراصل زبان کا مطالعہ ہے۔ اس لیے ساختیاتی اصولوں کی صورت میں جدید ترین افسانے کے اہم ترین فنی مباحث کی تفہیم کے لیے نیا زاویہ مل جاتا ہے۔ چنانچہ اردو ادب میں انتظار حسین، انور سجاد، مسعود اشعر، خالدہ حسین اور دیگر جدید ترین افسانہ نگاروں کے فن کے مطالعہ میں ساختیات سے امداد لی جاسکتی ہے۔ شاید اسی لیے امریکی خاتون لینڈا ونٹنک (Linda Wentink) نے انور سجاد اور مسعود اشعر کے افسانوں کو ساختیاتی مطالعہ کے لیے منتخب کیا۔
ساختیاتی تنقید سے نظموں اور بالخصوص طویل نظموں کے مطالعہ میں بھی امداد لی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھی زبان کا کھیل رچایا جاتا ہے بلکہ علامہ اقبال کی نظم ”مسجد قرطبہ“ کا تو ایسا مطالعہ کیا بھی جا چکا ہے۔ بین الاقوامی اقبال کا نگریس ( منعقدہ لاہور 2 تا 8 دسمبر 1977ء) میں امریکہ کی ڈاکٹر باربراڈی میٹکاف نے “Reflections on Iqbal Mosque” کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا تھا جس میں اس نظم کا زبان کے حوالہ سے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ:
”نظم کے معانی اس امر سے گہری حد تک مربوط ہیں کہ یہ ایک ساختیاتی اور صناعانہ اظہار ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے ایک مسجد کو خراج تحسین ہی پیش نہیں کیا بلکہ اشعار کی صورت میں وہ خود اپنی ایک مسجد بھی تعمیر کرتے ہیں۔ میں سب سے پہلے نظم کی ہئیت کا مطالعہ کروں گی، پھر زبان کے مظہر استعارات اور اسلوب کا اور آخر میں ان معانی کا جو اس کی ساخت سے جنم لیتے ہیں۔“ (بحوالہ Iqbal Centenary Paber vol.ll صفحہ 10)
اردو تنقید میں ساتقیات کے چرچے کی عمر دو دہائیوں سے زیادہ نہیں قرار پاتی۔ پاکستان میں ڈاکٹر فہیم اعظمی کا ماہنامہ ”صریر“ (کراچی) اور قمر جمیل کا ”دریافت“ (کراچی) اس کے فروغ کے لیے وقف ہیں۔ ان دونوں نے اپنے جرائد میں ساختیات پر مقالات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ خود بھی نظریاتی اور عملی تنقید پر مبنی مقالات قلم بند کیے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، قاضی قیصر الاسلام اور ضمیر علی بدایونی نے بھی اس ضمن میں لکھا ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اس کے اہم ترین علم بردار ہیں، جن کی کتاب ”ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات“ اس ضمن میں اب بنیادی حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
ساختیاتی تنقید کا کمال:
ادبی زبان کی ایک جہت یا اس کا ایک پہلو کبھی نہیں ہوا کرتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب مصنف نے کوئی ادب پارہ لکھا، اس کے ذہن میں اس کا ایک ہی مفہوم تھا۔ جب نقاد اس پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے تو اس کے بے شمار مفاہیم و معانی سامنے آتے ہیں۔
ساختیاتی تنقید عام تنقید کی طرح فیصلے بھی نہیں کرتی کہ یہ ادب سچا ہے، کھرا ہے یا کھوٹا ہے۔ ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی ہے۔ اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی۔ لسانی تشکیل اور نشانیات کا نظام اس کی منزل ہے۔ شعریات لسانیات سے کسی الگ چیز کا نام نہیں۔ اس میں ایسے قواعد اور اصول کارفرما ہوتے ہیں، جن سے ایک ادبی شہ پارہ وجود میں آتا ہے۔ یہ جیکب سن کا خیال ہے۔ زبان اگر چہ ایک وحدت ہے لیکن یہ کثرتوں کا مجموعہ ہے۔
ایک مقرر تقریر کے ذریعے اپنا کلام سامعین تک پہنچاتا ہے۔ لیکن ابلاغ کے لیے ایک مشترکہ کوڈ کی ضرورت ہے تا کہ وہ کہنے والے کی بات سمجھے۔ ہر بات کا ایک پس منظر اور حوالہ ہوتا ہے۔ مقرر اور مخاطب میں ایک مشترکہ سمجھوتا ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کے پیچھے پائے جانے والے لسانی اور نشانیاتی نظام کو سمجھتے ہیں۔
ساختیاتی تنقید کا یہ کمال ہے کہ اس نے ادب پاروں کا مطالعہ ان اصولوں اور قواعد کی روشنی میں کیا جو ادب پاروں میں مخفی تھے۔ یعنی وہ اصول و ضوابط، جن سے کسی فن پارے میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ ساختیاتی نقادوں نے اس پوشیدہ خزانے کو تلاش کیا، جس کی بدولت ادب مختلف اصناف کی صورت میں تخلیق ہوتا ہے جس سے خاص کلچر سے تعلق رکھنے والے سمجھتے اور محفوظ ہوتے ہیں۔
ساختیات کےمتعلق مزید مواد کے لیے لنک پر کلک کریں:
https://asaanurdu.com/sawal-sakhtiyaat-say-kya-murad-hy/
1 thought on “ساختیات کا تنقیدی جائزہ”