جواب رومانیت اور ترقی پسند تحریک کا تعارف:
رومانیت ایک ایسی تحریک کی جس کو اردو ادب میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔آپ سب لوگ علی گڑھ تحریک کے متعلق جانتے ہیں کہ سرسید احمد خان اپنی تحریک یہ بھانپ کر چلائیں آئی کہ مسلمانان ہند دھند سکافتی سماجی معاشی علمی میں اور تہذیبی میدانوں میں غیرمسلموں کے مقابلے میں پیچھے رہ جائیں گے۔اگر انہوں نے جدید انگریزی تعلیم سے بیگانگی اختیار کی اور جدید زندگی کے کے ثقافتی اور تمدنی طور طریقے اختیار نہ کیے یے وہ سماجی مصلح اور مجدد تھے کے اور مسلمانوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے سائنٹفک سوسائٹی ٹی کے قیام سے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام تک اسی سوچ کی اہم کڑیاں تھیں۔
علی گڑھ تحریک نے ٹو سا کلیت پسندی کا احیاء کیا اور مسلمانوں کو نہیں سمجھائیں مگر اس کے خلاف رد عمل شروع ہوگیا۔عبدالحلیم شرر نے ماضی کے شانہ شوکت کو آواز دی اور ایسے تاریخی ناول تصنیف کئے جن کا مقصد مسلمانوں میں تحریک پیدا کرنے انہیں مشرقی خطوط پر ترقی یافتہ بنانا تھا۔
واضح رہے کہ شہر کے اسلامی تاریخی ناولوں کا رجحان رومانیت کی طرف ہوگیا اسے ہم رومانی ردعمل کے طور پر بھی سمجھ سکتے ہیں یہ ردعمل سرسید احمد کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ابن الوقت میں ابن الوقت کے کردار پر بہت سے نقادوں کے بقول سر سید ہیں کی نمائندگی کرتا تھا تھا ادھر محمد حسین آزاد بھی ذہنی طور پر پر مغرب کی طرف نظر جمائے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اردو ادب میں مغربی ادب کے افکار کی آمیزش اردو ادب خاص طور پر تنقید کو بہتر بنائے گی گویا یہ عمر فروغ پانے لگا کہ نئے خیالات فروغ سے
محبت رومانیت کی ابتدا:
اور استحکام کے لیے از بس ضروری ہے۔اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ نہ آسودہ مسلمان کو ایک خوبصورت و حسین آسودہ زندگی کا منظر نامہ حاصل ہوا۔اس مرحلے پر زبان و بیان میں بھی تبدیلیاں ہوئیں۔سر سید نے اگر زبان کو سادگی اور اور شائستگی کی جانب مائل کیا تو دوسروں نے اسے مرصع انشائیاتی لطیف اور پھر تخیل بنایا کیا اور جن میں شرک کے علاوہ ابوالکلام سجاد حیدر یلدرم مہدی افادی،آغا شاعر قزلباش،شیخ عبدالقادر اور ظفر علی خان وغیرہ شامل ہیں۔
اقبال کی شاعری:
رومانیت کی تحریک کے دوران حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کے حوالے سے توانا متاثر کن اور مدھر آواز رومانیت ہی کی دین ہیں۔جو ایک عظیم اور کثیر الجہاد شاعر کے دل سے نکل کر دوسروں کے دلوں میں غنائیت سے بھرپور موسیقی کی مانند داخل ہوتی ہے۔علامہ اقبال کی رومانیت کا مقصد ایک طرف ماضی کی عظمتوں کو بیدار کر کے مستقبل میں مسلمانوں کو وہی شان و شوکت ادا کرنا تھا جس کے لیے یقین محکم عمل پیہم ہم اور ایمان کی طاقت ضروری فکری سوچ تھی جس کو لائے عمل میں تبدیل کرکے مسلمان مرد مومن کی حیثیت اختیار کر کے اپنے لئے دنیا میں حقیقی جنت خلق کر سکتے تھے۔اور دنیا کی امامت بھی کرسکتے تھے اقبال کا یہ رومانی مگر عملی خواب آج بھی اپنی تعبیر چاہتا ہے۔
علمی و ادبی تحریک کا نام:
مجموعی طور پر رومانی ایک ایسی سوچ اور ایک ایسی ادبی اور علمی تحریک کا نام ہے جس کی غرض و غایت اعتبارات کا خاتمہ کرکے کے ایسے نئے نظریات و افکار کا فروغ ہیں جس کے جلو میں سائنسی فلسفیانہ اور تخلیقی آتی موجے رواں دواں ہو ہو اور جس کے نتائج انسانی ترقی کی صورت میں برآمد ہو اسے ہم کلاسیکیت سے انقلابیت کا سفر بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ ایسی انقلابی تجسس کی روح رومانیت آشنا ہوں ہو تو رومانیت نے ترقی پسندیت صحت کے لیے فطری طور پر راستہ مل گیا رومانیت کے آثار جہاں انیسویں صدی کے اواخر میں ظاہر ہوئے مگر انہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد فروغ حاصل ہوا جو سیاسی اتھل پتھل مغربی آئی یورپ میں جاری تھی اور جو انیس سو سینتالیس میں اس جنگ پر منتج ہوئی،ترقی پسند تحریک کی بنیاد ثابت ہوئی۔اس میں ہندوستان میں عمومی طور پر لوگوں کی اقتصادی زبوں حالی انگریزوں کا مقامی باشندوں کی زندگی میں منفی دخل ہندوستانیوں کی داخلی خودمختاری و آزادی کی خواہش اور اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی تغیر کا عنصر بھی تھا۔
تحریک کی ابتدا:
اس تحریک کی ابتدا مغرب میں ہوئی کوئی پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوچکا تھا مگر اگلی تباہی کے آثار نظر آنے لگے تھے ہندوستان میں چند اور واقعات نے دھوم مچائی ہوئی تھی جس میں میں تقسیم بنگال کال مسلم لیگ کا قیام جلیان والا باغ کا واقعہ،کلکتہ کا فساد سعد سائمن کمیشن کا ملک گیر بائیکاٹ اور اسی کے ساتھ ساتھ انقلاب روس کا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔جس کے تحت صحت لینن کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا۔
اس پس منظر میں ترقی پسند تحریک میں یورپ میں جنم لیا اور ترقی پسند ادبی کی تنظیم کی بنیاد میں سینتیس میں ڈالی تھی۔ہندوستان کے دو ترقی نے وطن سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے میں پیرس میں میں اس کانفرنس میں شرکت کی اور اس پودے کو واپس آکر ہندوستان میں لگایا۔
پریم چند کا صدارتی خطبہ:
اس کانفرنس سے قبل جرمنی پر نازی ہٹلر کا قبضہ ہو چکا تھا تھا اس نے تہذیب و تمدن کی اقدار پر حملہ کیا وہ ادب علم اور تہذیب کی عمارتوں کومسمار کرنا چاہتا تھا۔اس نے ادیبوں اور شاعروں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا یورپ پر فاشزم کا خطرہ نہ منڈلا رہا تھا۔اس خطرے کو محسوس کر کے کے تھامس مان رومن من رولا اور اندر مال روڈ جیسی شخصیات میں میں پیرس میں مسلسل پینتیس میں ادیبوں کی ایک کانفرنس بلوائیں جنہوں نے نازی ازم اور فاشزم ہم اس کے خلاف خلاف آواز بلند کی۔سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے اس کانفرنس کے پیغام کو ہندوستان پہنچایا۔اس کی کانفرنس انیس سو چھتیس میں میں لکھنؤ میں ہوئی جس میں پریم چند نے صدارتی خطبہ پڑھا انہوں نے کہا۔
”ادب تنقید حیات ہی انسان کی زندگی محض جنس نہیں جس ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو ایک ایک لفظ شکوہ روزگار اور معاشرے میں ڈوبا ہوا ہوں وہ سمجھ لیجئے جمود و انحطاط کا شکار ہو چکی ہیں ہمیں فن کا معیار بدلنا ہو گا۔“
افسانوں کی اشاعت:
اس کانفرنس میں ترقی پسند تحریک کے جھنڈے گاڑ دیئے اس سے تین سال قبل کے عنوان سے انقلابی قسم کے افسانوں کی اشاعت ہو چکی تھی پریم چند کے کی انقلابی رومانیہ کی اردو معنی حقیقت پسندی جس کا رخ آزادی انسان اور آزادی ملک کی جانب تھاجو اپنا اثر دکھا رہی تھی۔
ادیبوں کی خدمات:
اس تحریک میں مولانا حسرت موہانی، خواجہ منظور حسین، سردار جعفری، جان نثار اختر، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، وقار عظیم، احمد علی رشید، جہاں محمودالظفر، ڈاکٹرمحمداشرف عبدالحلیم نامی ادبی جریدے ساقی کے مدیر اعلیٰ شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر عابد حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین، کرشن، فیض، بیدی وغیرہ بشمول ہندی، گجراتی اور دیگر علاقائی زبانوں کے ادیب و شاعر شامل تھے۔
اقتصادی جکڑبندیوں سے آزادی:
علامہ اقبال کا انتقال 1938ء میں ہوا انہوں نے اس تحریک سے ان کی انقلابی طاقت اور سماج سدھار فلسفے کی وجہ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔علامہ اقبال نے انسان بالخصوص مسلمان قوم کے لئے محض روحانی علاج کی حمایت نہیں کی تھی، ان کے سامنے مسلمانوں کی روایت کی بوسیدگی اور معاشی پسماندگی کا منظر نامہ بھی تھا۔وہ ان کو اقتصادی جکڑ بندیوں سے بھی آزاد کرانا چاہتے تھے۔
سیاسی جدوجہد:
ترقی پسند تحریک کی سیاسی جدوجہد یہ تھی کہ مزدور اور کسان کو خوشحال کیا جائے پسماندہ طبقات کے لیے بہتر معاشی مستقبل استوار یا تعمیر کیا جائے خاصے ترقی پسندوں نے کمیونزم کو نسخہ شفا جانا جس کی مخالفت بھی ہوئی ہوئی۔”انگارے“کی اشاعت سے خاصا ہنگامہ برپا ہوا کہ یہ افسانہ نگار مشرقی اقدار پر حملہ کر رہے ہیں اور جنسیت پھیلا رہے ہیں ہیں مگر یہ تحریک چلتی رہی کیونکہ اس کا انسان دوستی کا فلسفہ بہرحال معاشرے کے مظلوموں کچلے ہوئے طبقات کو اور علمانہ سطح پر دانشوروں کو اپیل کرنا تھا۔
پاکستانی ادیب:
غرض ترقی پسند تحریک چلتی رہی اور پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔پاکستان کے ترقی پسند ادب با یہ ہیں ان میں کچھ اللہ کو پیارے ہو چکی ہیں اور کچھ ماشاء اللہ حیات ہیں ان لوگوں نے تحریک کے حوالے سے ادب کو بہت کچھ دیا۔
احمد ندیم قاسمی،فیض احمد فیض، ظہیر کاشمیری، مولوی عبدالحق، عبدالمجید سالک، مجنوں گورکھپوری، قاری اختر حسین رائے پوری، حمایت علی شاعر، ڈاکٹر سلیم اختر، میاں بشیر احمد، محمد خالد اختر، شوکت صدیقی، خدیجہ مستور، جیلانی کامران عزیز احمد رشیدہ رضویہ، ممتاز حسین، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، احمد ہمدانی، پروفیسر عتیق احمد، ڈاکٹر محمد حسن… اس طرح کے معروف تباہی یہ شاعروں فکشن نگاروں اور نقادوں کی ملی جلی فہرست ہے۔
نقوش:
ترقی پسند تحریک کے ردعمل میں اسلامی ادب کے بارے میں پاکستان میں خاصی بخشیں ہوئیں۔نقوش نامی ادبی پرچے میں چھٹی دہائی میں خاص مضامین شائع ہوئے جس کے محرکین میں حسن عسکری ڈاکٹر احمد فاروقی ڈاکٹر ا بواللیث صدیقی وغیرہ شامل تھے۔
جدید دور میں سیارہ نامی ادبی پرچہ نعیم صدیقی صاحب کی کی عدالت میں سالے ادب کے عنوان سے شائع ہوا ہے ہر رات بھی تحریک کے اگر ہاں میں ہو تو اس کے مخالفین بھی ہوتے ہیں یوں کاروان ادب اگلی منزلوں کی جانب گامزن رہتا ہے اور یہ سب ایک زمانے میں تاریخی ادب اردو کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔
عورت کا حسن:
قیام پاکستان سے قبل رومانی ناول نگاروں میں سجاد حیدر یلدرم، نیازفتح پوری، عظیم بیگ چغتائی، مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ شہر کاروان ان یا ان کی رومانیت عام طور پر تاریخ سے وابستہ تھیں نیازفتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، مجنوں گورکھپوری، راشدالخیری، عظیم بیگ چغتائی، قاضی عبدالغفار وغیرہ کا رومان عشق محبت ہے جانی جذبات عورت کا حسن اس سے حقیقی محبت جس میں افلاطونی محبت بھی شامل ہیں۔ وفاداری عورت کے دم سے تصویر کائنات میں رنگ رنگ غمزے قربت وصال اور دوری قاری مہم جوئی خیر و شر کا بھی ان سب میں داخلی ہے۔
عزیز احمد کا ناول:
قیام پاکستان کے وقت عزیز احمد کا ناول ایسی بلندی ایسی پستی جس کی گونج صحیح معنوں میں مسلم لیگی حسن عسکری اردو کا اجتماعی ناول ہے۔ انہوں نے ناول شبنم میں لکھنے کے بعد ناول نگاری سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ گریز اور ایسی بلندی ایسی پستی کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔
خدا کی بستی:
شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی اس زمانے کے کراچی اور ہجرت کر کے آتے ہوئے خانماں برباد مفلس حاجت مند اور غربت کی ستم کاریوں کے تحت جرائم کی دلدل میں دھنس کر اپنی عاقبت برباد کرنے اور سفید پوش لوگوں کے خفیہ جرائم شہری جرائم کی دنیا کے مجموعی منظرنامے کو پیش کرتا ہے ترجمہ ہوا پاکستان ٹی وی پر یہ دونوں مرتبہ اپنی ڈرامائی تشکیل کے دوران مقبول ڈرامہ گردانا گیا۔
جاسوسی ناول:
رومانی ناول کی ایک جہت جاسوسی ناول بھی ہے جس میں ہیرو کے کارنامے جاسوسی کے حوالے سے قاتلوں ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو تلاش کرکے کیفرکردار تک پہنچانے کا ماجرہ پایا جاتا ہے عمر زبیر صاحب کی نیلی چھتری بہرام کی گرفتاری وغیرہ اور ابن صفی کی جاسوسی ناول کے اعلی مثالیں ہیں ان ناولوں کی مقبولیت بھی اس طبقے میں پائی جاتی ہیں ان میں بھی نہیں ملتا مگر چونکہ یہ سنسنی خیز واقعات و اعمال سے بھرپور ہوتی ہیں اس لئے معاشرے میں ان کی بھی خدمت ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ جاسوسی اور عام سے رومانی ناول ادب عالیہ میں شمار نہیں ہوتے۔
حاصل بحث:
حاصل بحث ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول اردو ادب میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بہت سے موضوعات ہیں اور بہت سے واقعات موضوعات ایسے ہیں جو ہم ایک ناول میں سمو سکتے ہیں اور یہ اس کی تعریف کے لیے کافی ہیں۔
ناول کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کی جو بھی خدمات ہیں وہ قابل تعریف ہیں اور کسی شبہ کے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کے ہم پاکستان کے حوالے سے بھی اور اردو ادب کے حوالے سے بھی ایک مینار روشنی کی حیثیت رکھتی ہے۔
……٭……