جواب: اردو انشائیے کا پاکستانی دور:
اردو کے جدید انشائیہ نگاروں میں وزیر آغا کا نام مستقل اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے اردو میں باقاعدہ انشائیہ نگاری کا آغاز کرنے انشائیہ نگاری کو ایک تحریک بنانے اور اس کے خدوخال واضح کرنے کے سلسلے میں جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں ان کے پیش نظر بعض لوگوں نے انہیں اردو کا پہلا انشائیہ نگار بھی کہا ہے مثلاً مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں:
”اگر یہ کہا جائے کہ اردو میں وہ اس صنف ادب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی تو بے جا نہ ہوگا۔“
مشتاق احمد یوسفی کی رائے میں جو مبالغہ ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔خصوصی وزیر آغا کو انشائیہ کا خاتم کہنا محل نظر ہے غالبا یہ مشتاق احمد یوسفی کی اسی مبالغہ آمیز رائے کا رد عمل ہے کہ جب شکور حسین یاد کے انشائیوں کا مجموعہ جوہر اندیشہ شائع ہوا تو احمد ندیم قاسمی نے مشکور حسین یاد کو انشائیہ کا موجودہ متنبی قرار دے ڈالا۔
”میں سمجھتا ہوں کہ زمانے حال میں جن اہل قلم نے انشائیہ نگاروں کو ذریعہ اظہار بنایا ہے ان میں سید مشکور حسین یاد کا نام سر فہرست ہے اور فی الحال وہی اس صنف ادب کے متعلق منتہی معلوم ہوتے ہیں۔“
ادب کے موجودہ خاتم:
حقیقت یہ ہے کہ نا وزیر آغا صنف ادب کے موجودہ خاتم ہیں۔نا مشکور حسین یاد کو اس سے ادب کا موجودہ متنبی ہی کہنے کا کوئی جواز ہے۔اردو انشائیہ کے نامکمل مضمون ہے سرسید احمد خان کے ہاں موجود ہیں اور اردو میں شرح اس صنف کا آغاز کرنے والے ہیں شہر کے بعض مین میں جس طرح شخصی زاویہ نگار آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدم تکمیل۔اختصار اور جزویت کے اوصاف ابھرے ہیں۔ان کے پیش نظر انہیں اردو کا پہلا انشائیہ نگار کہنا بے جا نہیں ہے۔ارتقاء کے فطری قانون کے مطابق انشاء یہ بھی وقت کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کرتا رہا ہے۔اگرچہ وزیر آغا کے انشائیے ماقبل کے انشائیہ نگاروں کے مقابلے میں ارتقا کی واضح اور نمایاں مثال پیش کرتیہیں۔مگر ان کے انشائیوں کا ارتکاب آخری منزل قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ خود ان کے دور ثالث کے انشائیے دور اول کے انشائیوں کے مقابلے میں مائل بہ ارتقاء ہیں۔وہ آج کل جو انشائیہ لکھ رہے ہیں وہ خیال پارے کے انشائیہ پارے کے مقابلے میں یقیناً زیادہ بہتر ہیں۔
پہلا انشائیہ نگار:
بالفاظ دیگر انشائیہ ہنوز ارتقائی مراحل میں ہے۔وزیر آغا کو اردو کا پہلا انشائیہ نگار کہنا ان کے دوستوں کی عقیدت و محبت کا نتیجہ ہیں۔البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر آغا پہلے ادیب ہیں جنہوں نے انشائیہ کے واضح تصور کے تحت انشائیہ لکھنا شروع کیا۔انشایہ کی اصطلاح اگرچہ ان کی واضح کردہ نہیں لیکن یہ اصطلاح انہی کی تحریروں سے عام ہوئی۔انشائیہ کی پہچان اور ان کے خدوخال کی وضاحت کے لیے سب سے زیادہ مضامین ان ہی کے قلم سے نکلے۔انشائیہ کو سنجیدہ اور اور طنز و مزاحیہ مضامین کے اعتبار سے الگ کرنے اور اسے منفرد حیثیت سے متعارف کروانے میں ان کی خدمات یقینا قابل ستائش ہیں۔اس بنا پر وہ یقینا اردو انشائیہ کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
وزیر آغا کے مجموعے:
وزیر آغا کے انشائیوں کی تین مجموعے خیال پارے چوری سے یاری تک دوسرا کنارہ منظر عام پر آ چکے ہیں۔ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ خیال پارے اس وقت شائع ہوا جب انشائیہ کی انفرادیت پورے طور پر نمایاں نہیں تھی اور انشائیہ کے لیے مرزا کو تقریبا ضروری خیال کیا جاتا تھا۔چنانچہ خیال پارے کے انشائیوں میں مزا کی جھلکیاں بھی مل جاتی ہیں خصوصا چھڑا ریل کا سفر اور پنسل کی معیت میں مزاح بیحد واضح ہے بلکہ پنسل کے معیت میں مزاح بیحد واضح ہے۔بلکہ پینسل کی معیت میں تو بلکل مضمون بن گیا ہے ہے اور اس کا انشائیہ مزاج دب کر رہ گیا ہے۔
زیر لب تبسم:
البتہ باقی انشائیوں میں ایک تبسم زیر لب کی سی کیفیت ہے جو انشائیہ کا مخصوص رویہ ہے۔موضوع کے مختلف مفاہیم تک رسائی اور نکتہ آفرینی ان کے اولین انشائیوں میں بھی موجود ہے۔نکتہ آفرینی انشائیہ کا ایسا وصف ہے جس کی طرف ان کے دور کے دیگر انشائیہ نگاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔موضوع کو نئے زاویے سے دیکھنا اور مخفی گوشوں تک رسائی کی مثال ان کے انشائیہ بے ترتیبی سے ملاحظہ ہو۔ ترتیب اور نظم و ضبط کی تعریف تو سبھی لکھتے ہیں مگر بے ترتیبی کے حسن کو صرف وزیر آغا ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
”توازن اور سلجھاؤ سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ہی پھیلے ہوئے جال میں گرفتار ہوں اور آپ نے ہی عید دیئے ہوئے ظوابط میں اسیر، بے ترتیبی میں محبت ہے لچک ہیں اور رفاقت۔ ترتیب میں تصنع اور بے رخی ہے۔ سیدھے خود تو صرف انسان ہی جچتا ہے اور بزغم خود سمجھتا ہے، اس میں کوئی بڑا تیر مار لیا ہے۔ انسان کے اٹھے ہوئے باغوں اور ترتیب دیا ہوئے پارکوں کا سارا حسن کا اور اصولوں کا رہن منت ہے۔ لیکن فطرت کا حسن تو ان باتوں کا مت آج نہیں، جو پاگل کر دینے والی خوبصورتی جو نشیلی کیفیت ایک خورد جنگل میں ہے۔ ایک صاف ستھرے بنے ہوئے باغیچے میں کہاں۔ لیکن جنگل ترتیب کا محتاج نہیں۔ اس کا سارا حسن اس کی بے ترتیبی میں ہے۔ پہاڑوں کے سلسلے دریاؤں کے پیچ و خم سمندر کے کٹے پھٹے کے نعرے اور آسمان کے نیلگوں فرش پر بڑی بے پرواہی سے بکھرے ہوئے ان گنت تارے کوئی چیز بھی تو ترتیب کے حصار میں قید نہیں۔ باپا انسان کی ساری عمر اشیا کو ترتیب دینے میں بھی جاتی ہے اور ہر بار فطرت کی لازوال بے ترتیب کا عمل بڑھ کر اس ترتیب کو ختم کر دیتا ہے اس لیے ترتیب خلاف فطرت ہے۔“
سنجیدگی:
وزیر آغا کے انشائیوں کا دوسرا مجموعہ چوری سے یاری تک اس دور میں سامنے آیا جب انشائیہ کو سنجیدہ مضامین سے الگ شناخت کرنے کا رجحان پیدا ہو گیا تھا مگر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے ساتھ گڈمڈ کرنے کا رجحان ابھی باقی تھا۔شاید اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے ہیں وزیر آغا نے ایسے انشائیے لکھے جن میں شوخ مزاج کے بجائے آئیے ایک ہلکا سا تبسم اور شوخی کے بجائے سنجیدگی نمایاں ہے۔چوری سے یاری تک ک کے انشائیے فنی طور پر خیال پارے کے انشائیوں سے ایک قدم آگے ہیں۔یہ انشائیے قاری کو اتنے غیر محسوس طریقے سے فلسفیانہ نکات اور جبلّت انسانی کے مختلف گوشوں سے روشناس کراتے ہیں کہ قاری اس ازخود رفتگی کے عالم میں ان کے خیالات کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔اور اس کے باوجود کے مصنف اپنا نقطہ نظر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا قاری اس کا ہمنوا ہو جاتا ہے۔انشاء یا سیاہ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”میری بیوی نے بڑے سوچ بچار سے سامان کو لاتعداد گھنڑیوں اور پوٹلیوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔اور اب ان میں سے کوئی گھڑی یا کوٹلی اپنی انفرادیت اپنے وجود اور اپنے حق خودرادیت سے دستکش ہونے کے لئے تیار نہ تھی۔یوں بھی تقسیم کاوس شاہد عورت کی فطرت میں شامل ہے۔اور درخت خود کو لاکھوں شاخوں اورپنول میں بانٹ دیتا ہے۔بینا عورت عذر سے اپنے گھر کو کوٹھڑیوں اور سامان کو پوٹلیوں میں تقسیم کرتی آئی ہے۔یہی نہیں بلکہ عورتوں اپنے جسم کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے اور یہ ٹکڑے جو محض زبان میں جگر کے ٹکڑے کہلاتے ہیں۔عورت کے جسم دامن اور ہینڈ بیگ سے چمٹے،اہرام مصر کے سائے میں دور دور تک بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔“
یہ انشائیہ عورت کی فطرت سے متعلق ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ اس پیراگراف میں عورت کی فطرت کا مطالعہ ضرور پیش کیا گیا ہے مگر انشائیہ کا اصل موضوع سیاہ اور مسافر کی فطرت کا موازنہ مقابلہ ہے اور دراصل عورت کی ہستی میں مسافر کی فطرت ہی کا سراغ لگایا گیا ہے۔
وزیر آغا کے انشائیوں کا تیسرا مجموعہ واہ دوسرا کنارہ کے نام سے شائع ہوا۔خیال پارے اور دوسرا کنارہ کے درمیان تقریبا 20 سال کا وقفہ ہے۔ اس بیس سال کی مدت کے دوران ان کی انشائیہ نگاری نے ارتقاء کی جو منزلیں طے کی ہیں اس کا اندازہ ان دونوں مجموعہ کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔خیال پارے کے انشائیوں میں ایک ایسے شخص کی تصویر ابھری ہے جو جستجو کے سفر پر نکلا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ ہر چیز کو تجسس کی نظر سے دیکھتا اور چیزوں کے بطون میں چھپے معنی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔اور جب ایشیا کی کوئی جھلک دیکھ لیتا ہے تو متحیررہ جاتا ہے۔نہ کر چوری سے یاری تک کا انشائیہ نگار دار اشیاء کی حقیقت جان لینے کے بعد سوچ بچار اور تفکر کی طرف مائل نظر آتا ہے۔اب وہ اشیا کی حقیقت جان لینے کے بعد متحد ہونے کے بجائے ان کا تجزیہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
دوسرا کنارہ:
دوسرا کنارہ کا انشائیہ نگار چیزوں کو دیکھتے ہی بطون میں اتر کر معنی تلاش کرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے خود ہی اپنے اصرار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔وہ بے جان چیزوں کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اس سے گفتگو کرنے لگتی ہے۔وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف دیکھتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ کھڑکی کی بنیادی طور پر روشنی کا سپورٹ کرتا ہے جو کھڑکی کھلتے ہیں تاریک کمرے کی دیوار ایک آئینے کی طرح چمکتا ہے جب کھڑکی کھلتی ہے تو روشنی کا سلوک جو باہر کہیں رکھا تھا جب کمرے کے اندر آ جاتا ہے۔روشنی کے اس سیلاب کی نوعیت موسم اور وقت کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔دوپہر کی روشنی چاند کی روشنی سے اور چاند کی چاندنی کاروں کی لو سے بہرحال ایک مختلف مزاج رکھتی ہے مگر اصل میں یہ سب روشنی ہے جو صدا کھڑکی کھولنے کی منتظر رہتی ہے۔دوسری طرف آنکھیں بھی تو روشنی ہیں کی متلاشی ہیں۔آنکھیں کیا ہر زی روح روشنی کی تلاش میں ہے۔تمام مذاہب روشنی کے قبلہ کی طرف منہ کیے صف بہ صف آ کھڑے نظر آتے ہیں۔سارے فنونے لطیفہ روشنی کے ایک نکتہ پر مرتکز ہیں۔جب آنکھیں دیکھتی ہیں ہیں تو باقی ساری حسیات باصرہ کے تابع ہو جاتی ہیں۔اور جب آنکھیں لامتناہی دور تک پھیلی ہوئی نورانی کائنات میں کھو جاتی ہیں تو جسم کے باقی حصوں کو گویا سانپ سونگھ جاتا ہے۔پھر آنکھ کی روشنی اور کائنات کی روشنی میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہ جاتا۔
اسلوب کی شگفتگی:
اسلوب کی یہ شگفتگی اور تازگی بہ ساختگی اور فلسفیانہ گہرائیوں زیرہ کے پہلے دور کے انشائیوں سے قطعی مختلف اور منفرد ہے۔دوسرا کنارہ کہ انشائیے وزیر آغا کے فنی سفر کا نقطہ عروج کہے جا سکتے ہیں۔سی ای چلا کاٹنے اپنی تالیف الف دی آرٹ آف دی ایسٹ میں لکھا ہے کہ ابتدا میں انشائیہ کا امتیازی وصف عدم تکمیل قرار پایا تھا مگر اب انشائیہ کا امتیازی وصف یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک غیر ضروری تفاصیل سے صرف نظر کرکے اپنے اسلوب کو ان کہے معنی سے لبریز کر دیتا ہے۔ یو کے قاری کو اختصار کا دامن بہت وسیع نظر آتا ہے اور وہ انشائیہ کے بظاہر معمولی اور مختصر فکروں میں ایک ایسا جہاں معنی دریافت کر لیتا ہے جو اسے نئی سرزمینوں نو میں لے جاتا ہے۔گویا کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ کہنے کی کوشش انشائیہ نگار کے اسلوب کا ایک خاص زاویہ ہے مگر اگر یہ بات بالکل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ لفظوں کی کمی سے بعض اوقات فقرا اس درجہ مقفل ہو جاتا ہے کہ اس میں سے معنی کی ایک ہلکی سی شعاع بھی باہر نکلنے نہیں پاتی۔دوسری طرف لفظوں کی کثرت سے بعض یا خیال کی تمام ممکنہ حدود ایسے واشگاف انداز میں قاری کے سامنے آجاتی ہیں کہ اس کے ہاں صحیح تخلیق کے مقرر کا عمل رک جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں وہ جمالیاتی خط سے محروم رہ جاتا ہے۔
مندرجہ بالا اقتباسات میں مشکور حسین یاد نے جس طرح انشائیہ کی اصل روح کو گرفت میں لیا ہے۔ اگر وہ اپنی تمام تر کار میں اس انداز کو بروئے کار لاتے تو اردو کے جدید انشائیہ نگاروں کی صف اول میں شمار ہوتے تھے مگر آپ نے طنزیہ اور سنجیدہ مضامین کو بھی انشائیہ منوانے کی کوشش میں وہ انشائیے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہرحال اس میں شک نہیں کہ ان کے ہاں انشائیہ کے قابل قدر نمونے ملتے ہیں۔ ان کے ہاں فکری سطح کو مس کرنے کا رو یہ بار بار سامنے آتا ہے۔جو انشائیہ کا ایک امتیازی وصف ہے اس یوسف کی بدولت جوہر اندیشہ کی بیشتر تخلیقات انشائیہ کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔اگر وہ اپنے بعض انشائیوں میں براہ راست اصلاحی رنگ اختیار کرنے سے گریز کرتے تو یقینا انشائیہ نگاری کے سلسلے میں ان کا اپنا ایک منفرد حرام نے آتا بھی پاکستان میں اردو دور کے تدریجی ارتقا میں ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ انہوں نے اردو انشائیہ کے ابتدائی دور ہی میں اس طرح توجہ صبح کی اور انشائیہ کے فروغ کے لئے زمین ہموار کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا۔
مختلف رجحانات کی نمائندگی:
اردو کے جن تین انشائیہ نگاروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ انشائیہ کے حوالے سے تین مختلف رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔نظیر صدیقی انشائیہ میں سنجیدہ بات کو غیر سنجیدہ انداز میں پیش کرنے کے علاوہ طنزومزاح کے حساب سے بہت زیادہ کام لیتے ہیں۔جس کے سبب ان کے انشائیے طنزیہ مضامین کی روایت سے جا ملتے ہیں۔مشکور حسین یاد بھی انشائیہ میں طنز و مزاح کے اوصاف کو بروئے کار لاتیہیں۔مگر ان کے انشائیوں کا مجموعہ تاثر ایک نہیں۔بعض اوقات ان کا تاثر طنزومزاح سے قریب ہوتا ہے اور بعض اوقات سنجیدہ اس کے ساتھ ساتھ وہ معنی آفرینی سے بھی کام لیتے ہیں یوں ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے انشائیے مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ان کے برعکس وزیر آغا کے ہاں سنجیدہ بعد کہ بطون میں جھانکنے کا رویہ زیادہ توانا ہے شاید اسی لیے ابھی تک مقبولیت وزیر آگاہی کے انداز کو حاصل ہے اور بیشتر نے انشائیہ نگاروں میں وزیر آغا ہی کی پیروی کی ہے۔چنانچہ مشتاق قمر جمیل آذر،سلیم آغا،انور سدید سید غلام جیلانی رام لال اور اکبر حمیدی کے دیگر انشائیہ نگاران ہی کے انداز میں انشائے لکھ رہے ہیں۔
……٭……