جواب:ناول کے اجزائے ترکیبی:
ناول کی ہیئت کے حوالے سے اس کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں:
پلاٹ: یہ قصے یا ماجر کی فنی ترتیب کا نام ہے۔
قصہ: اسے ہم کہانی یا ماجر سے تعبیر کرتے ہیں۔
کردار: ناول میں انسانی کردار یا کرداروں کی کہانی بیان کی جاتی ہے یہ کردار جیتے جاتے ہونا چاہیے یہ کردار ماورائی بھی ہو سکتے ہیں.
مکالمہ: ناول میں کردار کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ مکالمہ ہیں اس کی گلشن میں پھول کی سی اہمیت ہوتی ہے۔
فنتاسی: فنتاسی سے مراد ہے کہ کردار یا ماحول پر ایک خاص قسم کا نقاب ڈال کر ماجرے یا کہانی کو واضح کیا جائے عام زندگی میں جو سچائیاں ہیں اگر انہیں الٹ کر دوسری شکل دی جائے تو اسے فنتاسی کے نام سے پکاریں گے۔یہاں عقل اور منطق کے بجائے یقین کا عمل دخل ہوتا ہے ہے اس کی مثالیں ہیں جیسے حجاب امتیاز علی کا ناول پاگل خانہ جس میں تخیل تخیل کے زور پر ایٹمی جنگ کا فنتاسی حال چال بتایا گیا ہے محمد خالد اختر کے ناول چاکیواڑہ میں وصال کے کردار اور واقعات فنتاسی کی مثال ہیں۔ہاں کا دریا میں کمال گوتم چمپا کے کردار بھائی تین ہزار کے دوران ہر عہد میں موجود ہیں مغرب میں ورجینیا وولف کے ناول اور لینڈ کی مثال ہیں دیگر مثالیں جارج آرویل ایچ ڈی ویلز اور جی کے چیسٹر ٹن ہیں۔
فنتاسی والے ناول کے پیچھے کوئی اخلاقی سبق کوئی فکر یا کوئی فلسفہ درور ہوتا ہے مختصر طور پر اتنا سمجھ لیا جائے کہ داستانوں کے کردار اور واقعات زیادہ تر Fantasy پر مبنی ہوتے ہیں۔
ماحول: ناول کا قصہ خلا میں معلق نہیں ہوتا اس کے لیے کسی نہ کسی ماحولیاتی فضا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کردار سانس لے رہے ہوتے ہیں، خاصے ناول اپنے مخصوص ماحول کی بنا پر یادگار بن جاتے ہیں اکثر غیر ملکی ناول اپنے مخصوص ماحول کی بنا پر اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔
اسلوب بیاں:جس طرح جسم کے ساتھ جان ہوتی ہے اسی طرح تحریر کے ساتھ اسلوب نتھی ہوتی ہے یا جڑا ہوتا ہے۔دلنشین و دلچسپ اسلوب ناول کی جان ہوتا ہے۔ناول کے ایک محقق و نقاد علی عباس حسینی اسے سلیقے سے تعبیر کرتے ہیں ہیں ایک نقاد نے تحریر کو بذات خود کہا ہے۔
جذبات نگاری: انسان کی زندگی جذبات سے عبارت ہوتی ہیں یہ جذبات انسانوں کے درمیان پل کا کام انجام دیتے ہیں ہیں جذبات نگاری میں تخلیقی بھرم کا ہونا نا ضروری ہے راشد الخیری سے منسوب جزبات نگاری مصنوعیت کی مثال ہے۔جذبات حقیقی ہو یا ماجرے کی قوت کو مستحکم کرتے ہو تو بہتر ہے۔
نقطہ نظر: کوئی بھی ناول نگار نقطہ نظر نظریہ حیات زندگی کی بصیرت یا وژن سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ ہر ناول کی کہانی سے کوئی نہ کوئی وژن ضرور برآمد ہوتا ہے جس قاری سے متاثر ہوتا ہے۔
زبان: ناول میں زبان ماجرے کا وسیلہ ہوتی ہے جسے کردار بولتا ہے اور وہ مکالمہ میں جلتی ہے ناول میں معجزے کے تقاضوں کے تحت حقیقی زبان اس کی شان بڑھا دیتی ہے ناول میں زبان سادہ ہو سکتی ہے۔مرصع ہو سکتی ہے یا دونوں کا مرکب جب زبان ایسی ہونا چاہیے کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو۔
تکنیک: ٹیکنیک اس طریقے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ فنکار موادکو اسلوب سے ہم آہنگ کرکے اسے ایک مخصوص طریقے سے متشکل کرتا ہے۔اس طریقے سے بہت سے طریقے پنہاں ہوتے ہیں۔ابھی جس بات کی وضاحت کی گئی ہے اسے ممتاز خاتون نقاد ممتاز شیریں کی کتاب معیار سے اخذ کیا گیا ہے۔
کہانی پن: کہانی پن یا قصہ پن کا پس منظر یہ ہے کہ افسانے ناول میں تجرید نگاری اور بے ڈھنگی علامت نگاری کی وجہ سے ابلاغ کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا تھا۔اس لیے کہانی پن کی اصلاح مسلسل استعمال ہوئی تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ناول میں کہانی پن یا ابلاغ کا ہونا چاہیے۔اگر یہ چیستاں یا معمہ ہے تو قاری ناول یا افسانہ کو کیوں پڑھیں کہانی پن کے بغیر ناول ادھورا بلکہ ناکام ہے۔
ہیت کا تصور:ان اجزائے تر کیبی سے ناول کی ہیئت متشکل ہوتی ہے۔سے کلیہ نہیں بنانا چاہیے،اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہیے۔محلہ یطیع فارم کا تقاضا پورا کرنے سے ناول دلچسپ نہیں ہو سکتا۔فارم یا ہیئت میں تھوڑی بہت ضروری تبدیلی ہو سکتی ہے تاکہ ناول میں دلچسپی برقرار رہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کام میں خفیف سی تبدیلی آ سکتی ہیں مگر جوہر سلامت رہنا چاہیے۔
ایک اہم نکتہ بسلسلہ ناول ضرور ذہن میں رہے کہ ناول دلچسپ ہونا چاہیے۔
ہنری جیمز جس نقاد اور ناول نگار اور ہمارے اردو کے معروف فکشن نقاد اور ناول نگار ڈاکٹر احسن فاروقی ناول کو دلچسپ ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں۔انگریزی ناول نگار سمرسٹ ماہم غیر دلچسپ ناول کو پچھلے ہفتے کے پڑھے ہوئے اخبار کی طرح بے کار گردانتا ہے۔
واضح رہے کہ مغرب میں ناول خاص طور پر برطانیہ میں ڈرامہ کے زوال کے بعد ظہور میں آیا۔
ناول کی ترقی:
وہاں صنعتی ترقی نے ترجیحات کی تبدیلی کے اشارے دیے ہیں تو اس کے بجائے عام آدمی کی حیثیت بلند ہوئی جمہوریت آئی چاپ خانوں کا جال پھیلا تو ناول نے ترقی کی۔ادھر برصغیر میں ناول نے داستان کے پیٹ سے جنم لیا یا اس کے ابتدائی فنکار ڈپٹی نذیر احمد پر شعر مرزا ہادی رسوا قاری سرفراز حسین سجاد حسین محمد علی طیب منشی سجاد حسین وغیرہ ہیں۔پریم چند کے بعد ناول نے زیادہ موڑ کاٹے ان کے بعد کے چند فنکاروں کے نام یہ ہیں۔عزیز احمد عصمت چغتائی بھائی ڈاکٹر احسن فاروقی کرشن چندر احمد علی راجہ مستنصر قرۃ العین حیدر شوکت صدیقی ممتاز مفتی عبداللہ حسین جمیلہ ہاشمی رشیدہ رضوانہ نہ وسار عزیز بٹ محمد خالد اختر حجاب امتیاز علی بانوقدسیہ انیس ناگی انور سجاد جوگندر پال جیلانی بانو الطاف فاطمہ بیدی انتظارحسین الفضل صدیقی رضیہ فصیح احمد مستنصر حسین تارڑ وغیرہ۔
آپ ہمارے اردو ناول کووسیع تناظر کے حوالے سے معاشرتی اسلامی اسلامی تاریخی رومانی اور ترقی پسندانہ خانوں میں رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔
اسلامی ناول:
اسلامی ناول ایک ایسا ناول ہے جس میں دین اسلام کے اصولوں یا دینی اقدار کی پاسداری کی جاتی ہیں اور اس امر پر زور دیا جاتا ہے کہ ایک اچھے انسان بننے کے لئے ان اصولوں کا عملی طور پر اختیار کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں ڈپٹی نذیر احمد نے خاصہ کام کیا تھا ان کے ناولوں کے نام یہ ہیں: مراۃالعروس، بنات النعش، توبتہ النصوح، ابن الوقت، فسانہ مبتلا گو کہ ان کا فن خام فن تھا۔
اور اس صنف ادب کے اعلی اصولوں یا اجزائے ترکیبی کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور ان میں تبلیغی عنصر زیادہ سے زیادہ در آیا ہے۔نقاد ان فن دو گروہوں میں بٹ گئے۔ایک گروہ جس کے سربراہ ڈاکٹر احسن فاروقی ہی کہتا ہیکہ ان کے ناول تمثیلی کیسے ہیں یعنی ان کے کردار کسی نہ کسی انسانی خصوصیت کی نمائندگی کرتے ہیں مثال کے طور پر ابن الوقت نصوح اور حجت الاسلام۔
جب کہ دوسرا گروہ یہ مانتا اور تسلیم کرتا ہے کہ ناول کی ابتدا دیگر ممالک میں بھی تمثیلی انداز سے ہوئی تھی جیسے برطانیہ میں جان بنین کا تفصیلی قصہ داپلگرمس پروگریس یا ہسپانوی قصہ دان کوئنگزوٹ ڈان کی ہوٹے جسے سرونٹیس نے تحریر کیا تھا اس لئے ان کے اور دوسرے لوگوں کے ناول ناول کی ابتدائی شکل ہیں گویا غزل کی ابتدا کے لیے خام مال ان سے ہی فراہم ہوتا ہے۔
اصلاح النساء:
ایک اور ناول نگار رشیدۃ النساء میں بھی ڈپٹی نذیر احمد کے قبیل کا ایک ناول اصلاح النساء تحریر کیا۔جو 1894 میں شائع ہوا اسے انہوں نے 1881 میں نذیر احمد کے پہلے ناول مراۃالعروس سے تقریباً تین سال قبل لکھ کر رکھ لیا تھا ان کا مقصد بھی ڈپٹی نذیر احمد صاحب کی طرح اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا تھا۔
تاریخی ناول:
تاریخی ناول دراصل اسلامی دینی جذبہ حمیت صحت یا ماضی کی بازیافت کے حوالے سیتحریر کیے گئے تھے۔تاریخی ناولوں نگاروں مثلا عبدالحلیم شرر کا موقف یہ تھا کہ اسلام کی درخشاں روایات جن میں ماضی کے عظیم کردار شامل ہیں جنہوں نے عدل و انصاف جہاد وغیرہ کے ذریعے انسانیت کو فائدہ پہنچایا تھا ہمارے لیے قابل تقلید ہیں اور ہمیں اپنے اندر یہی پر جو جذبات کو ابھار کر ماضی کی شان و شوکت اور ظلمت کو حاصل کرنا چاہیے۔شہر نے ان میں عشق و محبت کے عناصر بھی داخل کر دیے تھے۔
عبدالحلیم شرر کے ناول:
ملک العزیز ورجینا یہ یا حسن انجلینا منصور موہنا نہ کئی سو لوگ نا نا اہل ورع فلورا ایام عرب ب مقدس نازنین زوال بغداد سعد رومۃ الکبری فری الفانسو فاتح اور مفتوح فتح اندلس بابک خرمی فردوس بریں غیرہ۔
ان کے بیشتر ناول جن میں معاشرتی ناول بھی شامل ہیں اور جو تعداد میں 20 سے 25 کے درمیان ہیں ان کے رسالے دلگداز میں شائع ہوئے وہ زود نفیس فنکار تھے۔ان کا ناول فردوس بریں فنی اعتبار سے سراہا گیا ہے اس ناول تک آتے آتے ان کا فن بلاغت سے ہم کنار ہو چکا تھا تھا شہر کثیر الجہاد فنکار تھے مجھے انہوں نے ڈرامے لکھے سوانح عمریاں لکھی اور مضامین لکھے وہ برطانیہ میں رہ کر آئے تھے لہذا ناول کے فنکشن اور ان میں دیگر فنکاروں کے مقابلے میں زیادہ تھا تاریخی ناول نگاری کا اغاز صحیح معنوں میں انہیں سے ہوا۔
صادق حسین زین سردھونوی:
ان کے تاریخی ناول اول فتح طلیطلہ،معشوقہ ہند وغیرہ ہیں۔یہ قیام پاکستان سے قبل کے ناول ہیں۔
محمد علی طیب:
ان کے تاریخی ناول ہی عبرت دیول دیوی جعفر و عباسیہ وغیرہ۔
نسیم حجازی:
ان کے ناولوں میں خاک و خون قیصروکسریٰ معظم علی کو زیادہ وقار حاصل ہے ان کے دیگر ناول اور تلوار ٹوٹ گئی یوسف بن تاشقین داستان مجاہد شاھین آخری معرکہ سو سال بعد ہی یہ سب مقصدیت سے بھرپور ہیں۔
ایم اسلم:
جوئے خون، ضرب مجاہد وہ زود نویس ناول نگار تھے۔ وہ مشرقی تہذیب کے حامی اور مغربی تہذیب کے مخالف ہیں۔ انہوں نے چار درجن سے زیادہ ناول لکھے ان کے معاشرتی ناولوں کی تعداد زیادہ ہے پاکستان اور ہندوستان دونوں ادوار کا احاطہ کیا گیا۔
اشتیاق حسین قریشی:
ان کے ناول جہاں آرا اور افغانوں کی تلوار یا تصویریں بنگلہ قابل ذکر ہیں۔
رئیس احمد جعفری:
احمد شاہ ابدالی حجاز بن یوسف محمود و ایازسومنات عالمگیر حق و باطل الناصر بقول سہیل بخاری میری ان کے تاریخ زیادہ اور ناولیت کم ہے۔
قاضی عبدالستار:
دار الشکوہ صلاح الدین ایوبی ان کے تاریخی ناول ہیں وہ ہندوستانی ناول نگار تھے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی:
ان کا ناول سنگم ہم اس دور اسلامی تاریخی ناول تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس میں محمود غزنوی کی ہندوستان آمد سے لے کر قیام پاکستان کے a چودہ سالوں کا احاطہ کیا گیا ہے بالکل خیر میں اس کا ہیرو مسلم کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مقدر ہے اس سال کی اسلامی تاریخ کو خوبصورت انداز میں ناول میں سمویا گیا ہے۔
جمیلہ ہاشمی:
انہوں نے اسلامی تاریخی شعور کے حوالے سے دو ناول چہرہ بہ چہرہ روبرو اور دشت سوس تصنیف کیے تھے تھے آخر الذکر کا تعلق حسین بن منصور حلاج کی زندگی سے ہے یہ بہتر ناول ہے۔
……٭……