سوال: نظیر اکبر آبادی کو اردو کا پہلا عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ یہ لقب ان کے لیے کس حد تک موزوں اور درست ہے؟ تبصرہ کیجیے۔


جواب: نظیر ایک عوامی شاعر:


نظیر اکبر آبادی اس اعتبار سے بڑا بد قسمت شاعر ہے کہ ایک حد تک اس کے صحیح ادبی مرتبے کا تعین ہی نہ کیا جا سکا۔ قدیم تذکرہ نویسوں نے اس کو اپنے تذکرہ میں جگہ دینا ہی گوارا نہ کیا۔ مولانا حالی،شیفتہ شبلی، حکیم قدرت اللہ قاسم، غیرہ اس ادبی بے انصافی کے مرتکب ہوئے۔ یہ اردو جدید کے تنقید نگاروں نے اس طرف توجہ کی اور اس شاعر کو قابل اعتنا سمجھا کہ اس کے صحیح ادبی مقام کا سراغ لگایا جائے۔
ڈاکٹر صادق صاحب اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں:
نظیر کی باقاعدہ حمایت کا آغاز ڈاکٹر فیلن نے کیا۔اس نے اپنی مشہور تصنیف ”ہندوستانی انگلش ڈکشنری“ کے پیش لفظ میں نظیر کی شاعری کے عوامی عناصر پر سیر حاصل تبصرہ کیا اور اُسے اردو کا پہلا عوامی یا قومی شاعر قرار دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
”صرف یہی ایک شاعر ہے جس کی شاعری اہل فرنگ کے نصاب کتاب کے مطابق سچی ہے۔ مگر ہندوستان کی لفظ پرستی اس کو  سرے سے شاعر ہی تسلیم نہ کرتی۔ صرف نظیر ہی ایک ایسا شاعر ہے جس کے اشعار نے عام لوگوں کے دلوں میں راہ کی ہے۔اس کے اشعار ہر سڑک اور گلی میں پڑھے جاتے ہیں۔ وہ حقیقت میں آزاد بینواتھا۔ وہ اصل میں دنیا سے بے تعلق صوفی تھا۔ جس کا اوروں کو صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے جس قسم کے شاعرانہ خیالات اس نیان معمولی چیزوں سے پیدا کیے ہیں جن پر ہندوستانی شاعروں نے لکھنا یا تو کسرشان سمجھایا ان میں لکھنے کی قابلیت ہی نہ تھی۔انہیں کو ہندوستانی محققین ناواقفیت سے نہایت یقینی ثبوت خیال کرتے ہیں کہ وہ کوئی شاعر نہ تھا۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس نے اس قسم کی مبتزل چیزوں پر لکھا ہے۔ آٹا، دال، مکھی، مچھر۔ اس کا دیوان خاص تصویروں کا دیوان ہے جس میں ہندوستان کے رہنے والوں کے کھیل تماشے عیش،تفریح، غم، دل،دماغ سب کی بولتی تصویریں نظر آسکتی ہیں۔ بعض مضامین شدت سے فحش ہیں۔ مگر شوخی جو سچی اور جاندار نقاشی کے لیے ایک جزو ضروری ہے۔ اس طرح ان کے کلام میں ملی ہوئی ہوتی ہے کہ فحش بالکل نظر نہیں آتا۔ سر سے پا تک ظرافت اور لطافت چھائی ہے۔آگے چل کر ڈاکٹر مزید فرماتے ہیں:
”کہا جاتا ہے کہ نظیر ایک عوامی شاعر ہیں۔ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ وہ اردو شاعری کی اشرافی اقدارسے منحرف ہو کر اپنے گرد و پیش کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں اور ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جو دوسرے ہم عصر شعرا کے ہاں اور متاخرین کے یہاں یا تو ہے ہی نہیں یا بہت کم ہیں تو وہ درحقیقت ایک عوامی شاعر ہیں۔دیوالی، ہولی،میلے ٹھیلے،چرند،پرند، تربوز، خربوزہ، ککڑی اور مٹی کے برتنوں کو نظم کا موضوع بنانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں زندگی کی جزئیات سے بہت دلچسپی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ روزمرہ کی زندگی چھوٹی چھوٹی اور بظاہر بے وقعت چیزوں سے مرکب ہیں۔ لیکن ان نظموں اور اس قسم کی دوسری نظموں سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ آج کل کے مفہوم کے مطابق ایک عوامی شاعر کہے جا سکتے ہیں درست نہ ہوگا۔ عوامی شاعری ایک جدید طبقاتی شعور کی پیداوار ہے جس میں عوام کو خواص کے ظلم و ستم کا شکار یا پھر ان سے برسرِپیکار دکھایا جاتا ہے۔نظیر کے ہاں یہ نقطہ نظر نہیں ملتا اور نہ ہی وہ اس زمانے کے کامران و شادماں ہیں۔(یہاں امیر غریب کی کوئی تخصیص نہیں) تو ان کا طرز بیان سراسر معروضی ہے۔ نظیر کے ہاں واقعیت ہے مگر وہ حسیات سے گزر کر اقلیم دل میں داخل نہیں ہوتے۔“
نظیر کے عوامی شاعر ہونے کی تائید میں ان کا ایک ”آدمی نامہ“پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ نظیر مساوات کے علمبردار تھے اور ان کی نظر میں وہ تمام امتیازات جو اخلاقی اقدار،زر و دولت، عہدہ اور خاندان سے قائم کیے جاتے ہیں محض سطحی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر غریب، ادنیٰ و اعلیٰ،زاہدورندسب انسان ہیں اور اس کے لیے برابر ہیں۔غور کیا جائے تو اس نظم سے یہ معنی نہیں نکلتے۔ نظیر کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ انسان سب برابر ہیں بلکہ زندگی کی بوقلمونی اور مدارج حیات کو واضح کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ حیات انسانی ایک وحدت ہونے کے باوجود اس قدر متنوع ہے کہ اس میں اس قدر بلندی و پستی ہے۔
پروفیسر احتشام حسین فرماتے ہیں:
”نظیر کا کلام پڑھتے وقت محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ خود عوام میں سے تھے۔ انہی میں سے اٹھتے اور ان کے دکھ،درد، ہنسی، خوشی، افکار و تاثرات میں شریک رہے۔ ان کا فن تکمیل کے لحاظ سے بہت نا مکمل ہے۔ ان کے اسلوب میں بے حدناہمواری ہے۔ ان کے تفکر میں گہرائی کا نام نہیں۔ ان کے احساسات اور تجربات میں ایک بھونڈی سادگی اور بھدی بے ساختگی ہے۔ لیکن پھر بھی نظیر اپنی دنیا کے ایسے تنہا مسافر تھے جس نے رابن کر وسو کی طرح سب کچھ خود ہی کیا اور شاعر کے صحیح منصب کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ انہوں نے احساسات اور جذبات کے لحاظ سے تقریباً ہر طبقے کے لوگوں کے تجربات اور تاثرات پیش کیے لیکن ان کی ہمدردیاں عوام ہی کے ساتھ تھیں۔بیسویں صدی میں عوام کے لفظ سے مفہوم کے اعتبار سے جو وسعت اختیار کرلی ہے اور سیاسی اصطلاح میں جن بیدار اور سیاسی شعور رکھنے والوں کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہوتا ہے، وہ نظیر یا اس وقت کے کسی شاعر کے ذہن میں نہیں ہو سکتا۔ نظیر کے یہاں عوام سے مراد تمام لوگ ہیں وہ پشاور ہو یا کوئی اور بہرحال نظیر کی شاعری کا اصل موضوع عام لوگوں کے محسوسات اور تجربات ہیں۔“
موضوعات:
موضوعات کی دنیا نہایت وسیع ہے لیکن نظیر کے یہاں اس وسعت کے باوجود خیال میں ایک طرح کی مرکزیت ہے جو ہر طرح پھیلنے، بڑھنے کے باوجود کسی خاص جگہ تک پہنچنے کی کوشش کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ خاص جگہ ”موضوع“کاعوام سے تعلق کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلے کوئی چیز عوام کے نقطہ نظر سے سوچی ہی نہ جاتی تھی مگر نظیر کو اپنے ماحول کی وجہ سے ہوئی برسات، عید،شب برات،دیوالی، اندھیری رات اور دوسرے مواقع پر اس کا اظہارکیے بغیر نہ رہتے تھے۔اگرچہ نظیر کے موضوعات شاعری بدلتے رہے لیکن ہر حالت میں ایک طرح کی صداقت ان کی شاعری کے لفظ سے نمایاں ہوتی رہی۔ ان کا انسانی ہمدردی کا مسلک بھی نہیں بدلا۔انہوں نے زندگی سے کبھی اپنا رشتہ نہیں توڑا۔
عوام کو کبھی نظر انداز نہیں کیا ہر حال میں ان کی نظر اتنی وسیع ہے کہ اس میں ہندو،مسلمان،سکھ، امیر،غریب اور پیشہ ور سما سکتے ہیں۔عوام کی زندگی ویسے تو دکھ درد کا مخزن ہوتی ہے لیکن اپنی بنیاد میں بڑی طاقت رکھتی ہے۔ ان کی امنگاں کے چشمے کبھی نہیں سوکھتے۔ سلطنتیں تباہ ہوتی ہیں۔ خاندان بدلتے ہیں، لیکن عوام اپنی راہ چلتے رہتے ہیں اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتے نظیر نے انہیں کی امید سے اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظیر کی شاعری میں ایک طرح کے بھدے پن کے باوجود وہ شاعرانہ سادگی اور بیان میں معصومانہ زور ہے جو معیاری شاعری سے الگ ہو کر تازہ زندگی پیدا کرتا ہے۔
احتشام حسین لکھتے ہیں:
نظیر نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی تو عوام ہی نے نظیر کو زندہ رکھا۔اردو شاعری کی معیار پرستی نے نظیر کو ختم ہی کر دیا تھا۔اگر فقیروں اور گداگروں اور معمولی پڑھے لکھے لوگوں نے ان کے”بنجارہ نامہ“  ”آدمی نامہ“ اور دوسری نظموں کو یاد نہ رکھا ہوتا۔ ان کے موضوعات کی فہرست ہی پر ایک نظر اس بات کو اچھی طرح واضح کرتی ہے کہ نظیر انسان اور انسانی معاملات میں سے ان معمولی چیزوں کو نظرانداز نہیں کرتے تھے۔جنہیں بڑے بڑے شعرا نہ دیکھتے تھے اور نہ محسوس کرتے تھے یا اگر محسوس بھی کرتے تھے تو اس پر لکھنا شاعری کے جوہر کو غلط استعمال کرنے کے برابر جانتے تھے۔ آٹا، دال، پیسہ، جھونپڑا دوسری چیزیں ان کا پسندیدہ موضوع تھیں کیونکہ نظیر غریبوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔متھر اور بندرا بن کے تیرتھوں میں جاتے تھے۔مسلمانوں کے عرس اور ہندوؤں کے میلوں میں شریک ہوتے تھے۔ عید اور شب برات کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی سے بھی لطف اٹھاتے تھے۔اگر انہوں نے مسلمانوں کے خیال سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ معجزہ حضرت عباس اور سلیم چشتی پر لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ہندوؤں کے خیال سے اپنی شاعری کا زیادہ حصہ بھگتی شاعروں کی طرح سری کرشن جی کے لیے وقف کر دیا۔“
نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری:
ہر شاعرکی شاعری میں کچھ ایسی خوبیاں ضرور ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ دوسرے شاعروں سے الگ طور پر پہچانا جاتا ہے۔ یہی حال نظیر اکبر آبادی کا ہے نظیر نے یوں تو غزلیں،مثنویاں،رباعیات اور شہر آشوب بھی لکھے مگر ان کی عظمت اور شہرت کا سبب ان کی نظمیں ہیں۔نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس شاعری میں عام انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے موضوعات مثلاً روٹی کا مسئلہ، میلے اور تہوار، شادی بیاہ کی رسمیں،بندر اور ریچھ کا تماشا مرغ بازی بٹیر بازی وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو عوامی شاعر کا لقب دیا گیا ہے۔نظیر اکبر آبادی کی شاعری بہت وسیع اور رنگا رنگ ہے۔جس طرح کے موضوعات ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ایسے دوسرے شاعروں کے یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں نظیر اکبر آبادی کی فہرست پر نظر ڈالتے ہی ان کی خصوصیات کا پتہ چل جاتا ہے۔یوں تو ہر ایک شاعر کے کلام میں اس کے گرد و پیش کے حالات کا ذکر ہوتا ہے مگر نظیر اکبر آبادی ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں اس زمانے کے رسم ورواج،رہن سہن کی ایسی واضح اور صاف تصویر ملتی ہے جو دوسرے شاعروں کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتی۔ نظیر کی شاعری کو پڑھ کر انسانی پیدائش سے موت تک تقریباً تمام رسموں اور سیر و تفریح کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے۔
اکبر آبادی خود اپنے دور کے ایک معمولی انسان تھے اور عام انسانی رسم و رواج کو نہ صرف دیکھتے تھے بلکہ اس میں بھرپور حصہ لیتے تھے اور پھر اس تجربے کو اشعار میں بیان کرتے تھے۔اس طرح سے مقامی حالات و واقعات کی پوری تصویر ان کی نظموں میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری میں تخیل کی بجائے حقیقت نگاری کی خوبی بیان کی گئی ہے۔
آدمی نامہ کا فکری و فنی جائزہ:
آدمی نامہ، نظیر اکبرآبادی کی چند بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔یہ نظم ان کی انسان دوستی کے جذبات کی نظر ہے۔ اس میں وہ تمام انسانوں کو مساوی نظر سے دیکھتے ہیں اور باور کراتے ہیں کہ بحیثیت انسان کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ وہ اعلیٰ ادنیٰ، اچھے اور برے ہر قسم کے آدمی کو کہتے ہیں
”ہے وہ بھی آدمی“
شاعر خود کوئی رائے دینے کے بجائے فیصلہ قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیتا ہے۔ نہ تو اچھے سے محبت اور برے سے نفرت بلکہ حقیقت ارضی کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے۔ اس نظم سے نظیر کے کلام کا ایک اہم پہلو سامنے آتا ہے جسے اخلاقی و انقلابی پہلو کا نام دیا گیا ہے۔اس کی طرف ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ان کے الفاظ یہ ہیں۔
”بارہ نظیر کے میں شروع سے یہ غلط فہمی پھیلا دی گئی گی کہ وہ عامیانہ بلکہ صوفیانہ مزاج رکھتا تھا اور اس کا کلام اوباشوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ اس کے اخلاقی اور انسانی پہلو پر ناقدین نے کبھی سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت گوارا نہ کی اردو شاعری کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسرا شخص انسانیت کا اتنا بڑا علمبردار ہوا ہوجتنا نظیر تھا۔ ایسے زمانے میں جب انسانوں کو امیر اور غریب شریف اور رذیل کے خانوں میں تقسیم کردیا تھا اور اخلاق کے خود ساختہ اصولاں پر اصل انسانیت کو بھینٹ چڑھایا جارہا تھا نظیر کا آدمی نامہ میرے خیال میں ایک غیر معمولی نظم ہے۔“
آدمی نامہ کے چند بند:
بند نمبر 1:
فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا بر ملا یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یہاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی میں
بند نمبر 2:
یاں آدمی ہی نار ہے اور آدمی ہی نور یاں آدمی ہی پاس ہے اور آدمی ہی دور
کل آدمی کا حسن و قبیح میں ہے یاں ظہور شیطان بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زُور
اور ہادی و رہنما ہے سو ہے وہ بھی آدمی
بند نمبر 3:
چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو لے کے مال اور آدمی ہی مارے ہے پھانسی گلے میں ڈالیاں
آدمی ہی صید ہے اور آدمی ہی حال سچّا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اورجھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

Leave a Comment