جواب: دی گئی غزل کی تشریح:
شعر نمبر ایک:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکرِ تصویر کا
تشریح:
غالب نے اس شعر کا مطلب خود بیان کیا ہے:
”ایران میں یہ رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا کر لے جانا۔ پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے اس کا پیرہن کاغذی ہے (اس کا وجود زبان حال سے فریادی ہے) یعنی ہستی اگرچہ مثل تصاویر اعتبار محض ہو (اشیائے کائنات کی ہستی اگرچہ محض اعتباری ہو) موجب رنج و ملال و آزار ہے۔“ (خط بنام عبدالرزاق شاکر گورکھپوری)
بنیادی تصور:
ہستی موجب رنج و ملال ہے۔
تبصرہ:
نقش شوخی تحریر کا فریادی ہو یا نہ ہو، غالب کا یہ شعر جو سرِ مطلع دیوان ہے، ان کی شوخی فکر کا بلاشک و شبہ آئینہ دار ہے۔ اگرچہ انھوں نے عام شعرا کی تقلید میں اپنے دیوان کا آغاز حمد باری سے کیا ہے مگر یہاں بھی اپنی شوخی طبع کا ثبوت دیا ہے۔ بایں طور کہ حمد کے پردے میں خدا سے گلہ کیا ہے کہ اے خدا! جب تو نے ہر مخلوق کو فنا کے لیے پیدا کیا تو پیدائش میں اس قدر کمال کا اظہار کیوں کیا؟ بالفاظ دیگر، جب ہست کر کے مٹانا منظور تھا تو ہست کرنا ہی کیا ضرور تھا؟
غالب نے اس شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ کیا ہے۔ ہر پیکرِ تصویر سے مراد تمام موجودات سے ہے اور یہ ساری چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔ اب جب یہ موجودات کا عالم ہے تو نقش ہستی کا اپنا کاغذی لباس یعنی بے ثباتی پر فریادی ہونا فطری ہے۔ پس غالب کہتے ہیں کہ یہ کس بیداد تحریر کے نقش ہیں جو فریاد لیے ہوئے ہیں اور جن کے لباس کاغذی ہیں۔
اس شعر میں غالب نے اپنا نظریہ حیات پیش کر دیا ہے کہ ہستی خواہ وہ اعتباری ہی کیوں نہ ہو، بہرحال موجب آزار ہے۔ اس نظریہ کی تائید دوسرے اشعار سے بھی ہوتی ہے، مثلاً:
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
شعر نمبر دو:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
کاو کاو (مصدر کا دیدن بمعنی کھودنا، تلاش کرنا)۔ خوبی اس لفظ میں یہ ہے کہ اگلے مصرع میں جوئے شیر کا ذکر کیا ہے جو فرہاد کی کاوش کا مظہر ہے۔ تنہائی، کنایہ ہے شبِ فراق سے ”صبح کرنا شام کا“ یعنی شب فرقت بسر کرنا۔ ”جوئے شیر کا لانا ہے“ یعنی اتنا ہی دشوار اور روح فرسا ہے جتنا پہاڑ کھود کر نہر نکالنا۔
تشریح:
شاعر کہتے ہیں کہ حالتِ فراق میں مجھے مر جانا چاہیے تھا۔ زندہ اس لیے ہوں کہ سخت جان ہوں مگر جس مصیبت سے ہجر کی رات کاٹتا ہوں، وہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ رات کاٹنا پہاڑ کھودنے سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
لفظی تکرار سے شاعر نے شعر میں حسن پیدا کر دیا ہے اور جستجو کے معنی پیدا کر دیے ہیں۔ اب شاعر کہتا ہے کہ جدائی کی رات کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ مجھ سے مت پوچھو کہ فرقت کی رات کاٹنا، اس کاصبح کرنا اتنا ہی مشکل اور دشوار ہوتا ہے، جتنا دشوار فراط کے لیے پہاڑ کاٹ کر شیریں (اس کی محبوب) کے محل تک نہر لانا تھا۔ شاعر نے خود کو کوہ کن اور شب ہجر کی سختیاں کو پہاڑ کاٹنے اور نہر لانے سے تشبیہہ دی ہے۔
بنیادی تصور:
عاشق کو شبِ ہجر بسر کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے پہاڑ کھودنا دشوار تھا۔
شعر نمبر تین:
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے، دم شمشیر کا
تشریح:
شوق سے شوق شہادت یا اشتیاق قتل مراد ہے۔ دم، اگر سینہ کی رعایت ملحوض ہو تو دم کے معنی سانس۔ اگر شمشیر سے مناسبت مدنظر ہو تو دم کے معنی باڑھ۔ یہ شعر غالب کی اس خصوصیت کا مظہر ہے جس کی بدولت وہ غالب ہو گئے یعنی اس میں شاعرانہ خیال بندی بھی ہے اور حسن تعلیل بھی۔
مطلب:
میری آرزوئے قتل میں اتنی کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر نکل آیا ہے یعنی وہ خود مجھے قتل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ غالب نے ایک امر واقعی کی شاعرانہ توجیہہ کی ہے کہ میرے قتل کے لیے تلوار کی باڑھ، تلوار سے باہر آ گئی ہے۔ شاعر محبت سے جان دینے کو شہادت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے اندر شہادت کا جذبہ اتنا زیادہ ہے اور اس کی کشش کا یہ عالم ہے کہ تلوار کے سینے سے اس کا دم یعنی دھار بھی باہر آ گئی ہے کہ اس کا دم سینے سے باہر نکلا پڑتا ہے۔
بنیادی تصور:
شدت، آرزوئے قتل یا جذبہ شوق شہادت۔
شعر نمبر چار:
آگہی، دام شنیدن، جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
تشریح:
آگہی بمعنی عقل و فہم۔ دامِ شنیدن کنایہ ہے، سمجھنے کی کوشش کی سے۔ عنقا یعنی معدوم ہے اور معدوم شے جال میں پھنس نہیں سکتی، اس لیے مدعا عقل کی گرفت میں نہیں آ سکتا یعنی عقل میرے کلام کی تہ کو نہیں پہنچ سکتی۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارے اشعار عنقا صفت ہیں اور یہ دام شنیدن میں نہیں آ سکتے۔ مطلب یہ کہ عقل کتنی ہی سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کر لے تو وہ ہمارے مفہوم نہیں پا سکتی۔
بنیادی تصور:
میرے کلام کو سمجھنا بہت مشکل ہے، چناں چہ وہ خود کہتے ہیں:
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سن سن کے اے سخنوران کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
شعر نمبر پانچ:
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتشِ زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
تشریح:
آتش زیر پا سے مراد ہے اضطراب یا بے تابی۔ موئے آتش دیدہ سے مراد ہے ضعف یا کمزوری۔ اس شعر کی ساری عمارت لفظ ”آتش“ پر قائم ہے۔ یہ شعر مرزا کی خیال بندی کا ایک قابل قدر نمونہ ہے۔ آتش زیر پا کے دو معنی ہیں اور انہی دو معنوں کے جمع ہو جانے شعر میں غالبیت پیدا ہو گئی ہے۔ واضح ہو کہ مرزا ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ شعر میں ایسا لفظ لائیں کہ جس کے دو معنی ہوں۔ ایک لفظی یا لغوی اور دوسرے مرادی یا اصطلاحی اور یہ وہ خصوصیت ہے جو شروع سے آخر تک ان کے کلام (دیوان) میں موجود ہے۔ موئے آتشِ دیدہ (جلا ہوا بال) بل کھا کر حلقہ کی طرح گول ہو جاتا ہے۔ اس لیے شعر میں تشبیہہ کی صنعت بھی پیدا ہو گئی ہے۔
مطلب:
کیا ہے؟ بہت پیش پا افتادہ، مگر اسے تشبیہ اور انداز بیان کے پروں میں پوشیدہ کر دیا ہے یعنی صرف اس قدر کہ چوں کہ حالتِ اسیری میں بھی بہت مضطرب اور بے تاب ہوں۔ اس لیے میری وحشت اور جوشِ جنون کے سامنے زنجیر کے حلقوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زنجیر میں ایسا بے قرار ہوں کہ دل کی گرمی سے میرے پیروں کی زنجیروں کے حلقے جلے ہوئے بالوں کی طرح کمزور ہو گئے ہیں۔ گویا میری بے قراری کے آگے ان زنجیروں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
بنیادی تصور:
عاشق جوشِ جنون میں زنجیر کو ایک جھٹکے میں توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر، عاشق کو پابندِ زنجیر کر دینے سے جذبہ عشق فنا نہیں ہو سکتا۔ چناں چہ غالب خود کہتے ہیں:
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
……٭……٭……