سوال: مختار مسعود کا مختصر تعارف بیان کریں؟

جواب:تعارف مصنف (آواز دوست):
آواز دوست کے خالق مختار مسعود 1926ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی شیخ عطاء محمد مرحوم قوم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں معاشیات کے پروفیسر تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو تحریک پاکستان کے جہاد میں ایک بیس کیمپ کا درجہ حاصل رہا ہے۔ مختار مسعود کی پرورش ایسے انقلابی تحریکیں ماحول میں ہوئی جہاں انہیں برصغیر کے کے عظیم مسلمان استادزہ تازہ ترین سے سے اکتساب علمی کا موقع ملا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی پاک و ہند کے عظیم سیاسی و فکری جامع کو دیکھنے نے ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مواقع حاصل کیے۔ اس ماحول کا فیضان ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد لگن اور تحریکی وابستگی سے عبارت ہوئی اور اس کابیّن ثبوت اور ان کی زیر نظر تصاویر کی فہرست آواز دوست ہے۔
عملی زندگی:
شیخ عطاء اللہ کو علامہ محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی، انہوں نے ”اقبال نامہ“ کے عنوان سے علامہ محمد اقبال کے خطوط دو جلدوں میں بڑی کاوش سے مرتب کیے۔ معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق ”عقیدت مندی کے ساتھ کی جانے والی اس کاوش کے نتیجے میں مکاتبِ اقبال کا ایسا مجموعہ فراہم ہو گیا، جو تعدادِ مکاتب کے اعتبار سے آج بھی اقبال کا سب سے بڑا مجموع? خطوط ہے۔“ شیخ عطاء اللہ پروفیسر معاشیات کے تھے، لیکن ادیب اُردو کے تھے۔ ڈاکٹر محمد منیر اے سلیچ کے مطابق شیخ عطاء اللہ نے اورنگ زیب عالم گیر کے خطوط کا ترجمہ کیا اور محمد مارماڈیوک پکتھال کے اُن خطبات کا بھی ترجمہ کیا، جو اُنہوں نے مدراس میں اسلامی کلچر کے موضوع پر دیے تھے۔ شیخ صاحب نے پک تھال کی ایک انگریزی کتاب کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا تھا، جو ”اورینٹل ان کاونٹرز“ کے نام سے تھی۔ ظاہر ہے کہ والدکے ان علمی کاموں اور اقبال سے عقیدت کا اثر مختار مسعود پر بھی پڑنا تھا اور اسے ان کی کتابوں میں جھلکنا بھی تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختار مسعود اُردو، اسلام، اقبال اور پاکستان سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔
بنیادی تعلیم:
مختار مسعود نے علی گڑھ ہی میں بنیادی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ پاکستان بننے کے بعد شیخ عطاء اللہ نے اس سرزمین سے ہجرت کا فیصلہ کیا، جس کا خواب ان کے ممدوح علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا۔ مختار مسعود بھی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور پاکستان میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات منعقدہ 1949ء میں شریک ہو کر کامیاب قرار پائے۔ سول سروس میں وہ مختلف اعلٰی عہدوں پر رہے، کئی اداروں کے سربراہ اور وفاقی سیکریٹری بھی رہے، جس زمانے میں لاہور میں مینارِ پاکستان زیرِ تعمیر تھا، اُس وقت اس کو ”یادگارِ پاکستان“ کہا جاتا تھا، اُسی دوران مختار مسعود لاہور کے کمشنر بن گئے اور انہوں نے اس کا نام ”مینارِ پاکستان“ کروا دیا، کیونکہ ”یادگار“ تو مرنے والوں کی ہوتی ہے اور پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ”آوازِ دوست“ میں انہوں نے بتایا ہے کہ جب وہ تعمیراتی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے تو یہ نکتہ اٹھایا۔ لکھتے ہیں:
”جب کارروائی کے لیے پہلے مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے، تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار، وہ نشانِ خیر ہے، جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا و بقا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔“
شہرت سے بے نیازی:
مختار مسعود کا اپنی ذات اور شہرت سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ نہ کبھی اپنی تاریخِ پیدائش وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑے اور نہ کبھی کسی سے اپنی کتابوں پر فرمائشی مقدمہ لکھوایا، نہ کبھی کتابوں کی رونمائی کروائی اور نہ کسی سے اپنی تعریف میں تنقیدی مضامین لکھوائے، حالاں کہ اتنے بڑے عہدوں پر تھے کہ ایک اشارہ کرتے تو خوشامدیوں کی فوجِ ظفر موج ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی اور انہیں اُردو کیا، دنیا کا سب سے بڑا ادیب قرار دے دیتی، ادبی جرائد ان پر خصوصی نمبر شائع کرتے، یونی ورسٹیاں ان پر تحقیق کرواتیں اور نقاد انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے، ان پر کتابیں لکھی جاتیں، لیکن مختار مسعود ان چھوٹی باتوں سے بہت بلند تھے۔ اپنی کسی کتاب پر کسی نقاد یا محقق کی رائے شائع نہیں کی۔ اپنی تمام کتابوں کے مختصر دیباچے بھی خود ہی لکھے۔ ”آوازِ دوست“ کا دیباچہ تین سطروں پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
”اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں، ایک طویل اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکرِفردا ہے اور خون سے خونِ تمنا۔“
دیگر تصانیف:
پہلی کتاب Eye witness of history،1968 میں شائع ہوئی۔ افسانوں کے ساتھ ترجمہ بھی کیے اور طبع زاد افسانے بھی لکھے۔ آواز دوست کے علاوہ مصنف کی دو کتابیں لوح ایام اور سفر نصیب شائع ہو چکی ہیں۔
آواز دوست:
مختار مسعود نے زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان کے ایک نوخیز کارکن کی حیثیت سے بھرپور حصہ لیا اور قیام پاکستان کے بعد سرکاری ملازمت میں شامل ہو کر حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسلامیان برصغیر کو ایک عظیم ملی حریت کے جذبے سے حصول پاکستان کی منزل پر پہنچتے دیکھااور پھر ان لوگوں کے ہاتھوں جو سفر شوق میں شریک نہ تھے، پاکستان کو دولخت ہوتے دیکھا۔ آواز دوست اسی عروج و زوال کی داستان کا ایک خوبصورت دلکش اور اثر انگیز پیرایہ بیان ہے۔ جب یہ کتاب پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تو اس وقت سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے کا زخم ابھی تازہ تھا۔ ایسے میں آواز دوست نے اہل پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
وسیع النظر اور وسیع المطالعہ شخصیت:
مختار مسعود ایک ذہین طلباء واہ وسیع النظر اور وسیع المطالعہ انسان ہیں۔ وہ اپنے دل میں ملت کا درد سوال رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منعم حقیقی نے انہیں بات کرنے کا سلیقہ بھی عطا فرمایا ہے۔لہٰذا یہ کتاب ان کی مخصوص اور منفرد اسلوب کا شاہکار ہے۔ آواز دوست کے مختصر ترین دیباچہ میں صاحب کتاب نے اپنی کتاب کا تعارف اس طرح کرایا ہے۔
اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر پردہ ہے اور خون سے خون تمنا۔ فکر اور خون یا عقل و عشق کا یہ امتزاج کمٹمنٹ کہلاتا ہے۔یہ کمٹمنٹ مختار مسعود کے لفظ لفظ سے مترشخ ہے اور ان کی جملہ تصانیف پر حاوی ہے۔ اسی سے ان کی تحریر میں ایک ایسی تاثیر پیدا ہوئی جو نثر کے بجائے کلام موضوع کا خلاصہ ہے اور ان کے اکثر جملے حکیمانہ اقوال کا درجہ حاصل کر گئے ہیں۔ مختار مسعود نے مرشد رومی کے کے اشعار کو اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے۔ آواز دوست واقعی اسم با مسمٰی ہے۔
سید ضمیر جعفری:
سید ضمیر جعفری آواز دوست کا تعارف کراتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
کسی موضوع پر پر لکھنے کے دو ہی معروف طریقے ہیں ہیں ایک تو باقاعدہ منصوبہ بندی والا وہ سائنٹفک طریقہ جو شہر آفاق مفکر اور مورخ پروفیسر ٹائم بھی نے تجویز کیا اور مختار مسعود نے جن کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ مسئلہ زیر بحث پر خوب سوچیے اور جب موضوع پر پوری طرح گرفت ہو جائے اور اس کا خاطر خواہ ذہن میں آ جائے تو پھر اس کے جذبوں بنائے یہاں تک کہ وہ کھایا جائے کہ جس پر آپ پڑھنا بنداورلکھنا شروع کر دیں۔ پرورش لوح و قلم کا دوسرا طریقہ ہم سے اہل توکل کا ہے کہ
ذوق اس بحرِ فنا میں کشتی عمر رواں جس جگہ پر جا لگی ابھی وہی کنارہ ہو گیا
یعنی جب کبھی لکھنے کی ایمرجنسی لاحق ہوئی لکھنا شروع کر دیا یا اور جس نکتے پر معلومات حافظے یا ہاتھوں نے جواب دے دیا ہتھیار ڈال دیے مگر آواز دوست کا مطالعہ کیا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ اس میں خیال و فکر کی اکائیاں دہائیوں کے حساب سے ملتی ہیں۔ آپ جس کی بھی انگلی پکڑ لیں، بے شک سینکڑوں میلوں چلتے جائے۔
انتساب:
آواز دوست کے انتساب کے بارے میں میں ضمیر جعفری اپنے مضمون میں قمطراز ہیں۔خیال و فکر کی پہلی اکائی انتساب ہی سے دیکھ لیجئے کتاب والدہ مرحومہ اور والد مرحوم کی یاد سے منسوب ہے۔ نام سے نہیں قبر سے قبر بھی کہا ایک پرکاہ اور ایک پارہ سنگ کے نام۔ وہ پرکاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اگنے والی گھاس کی پہلی پتی تھی اور وہ پارا سنگ جو والد مرحوم کا لوح مزار ہے۔
انتساب پڑھ کر مجھے تو ایسا لگا جیسے گھاس کی وہ ننھی سی پتی جو سیکڑوں من مٹی کا سینہ چیر کر ابھر آئی تھی، بیٹے کے لئے ممتا کی دعائیں بھی تھی اور پیغام بھی۔ دعا کہ بیٹا تجھ کو پاک پروردگار یار زندگی میں ہمیشہ ہرا بھرا رکھے اور پیغام کے زندگی کی نشوونما کا عمل کبھی رکتا نہیں۔
خلاصہ مندرجات:
آواز دوست مختار مسعود کی یادداشتوں کا حسین مرقع ہے۔ اس میں مصنف نے اپنی یادوں کو دو عنوانات کے تحت سمیٹا ہے۔ مینار پاکستان اور قحط الدرجال۔ وہ انہیں مضامین قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں ایک طویل مختصر اور دوسرا ذرا طویل تر۔ یہ دو مضمون کتاب کے 245 صفحات کی ضخامت پر محیط ہیں۔ لہٰذا یہ واقعی طویل اور طویل تر ہیں مگر مختار مسعود کے دلکش اسلوب کا یہ اعجاز ہے کہ ان کی طوالت پڑھنے والے پر گراں نہیں گزرتی۔ بلکہ اس کی دلچسپی آخر تک یکساں برقرار رہتی ہے۔
جذباتی وابستگی:
مختار مسعود قاری کی توجہ حاصل کرنے اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مینار پاکستان میں وہ ڈرامائی انداز میں مینار پاکستان کی مجلس تعمیر کی ایک نشست کا حال بیان کرتے ہوئے بات کا آغاز کرتے ہیں اور پھر مینار پاکستان سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے کرتے دنیا کے مختلف میناروں کا تذکرہ اس انداز سے کر جاتے ہیں کہ مذکورہ مقامات جیتے جاگتے مناظر کی طرح قاری کی نگاہوں میں پھر جاتے ہیں۔ قاری اس حصہ میں ایک دلچسپ اور معلومات افزا سیر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے بعد مجلس تعمیر مینار کی ایک نشست سے ڈرامائی انداز میں علی گڑھ پہنچ جاتے ہیں اور قاری کو ساتھ لیے تحریک پاکستان کے بیس کیمپ کی سیر کراتے ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کا احوال اس طرح سناتے ہیں کہ یہ ماجرا یہ عشق ایک متحرک فلم کی طرح پردہ سیمنا پر جلوہ گر مناظر کی صورت ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ مینار پاکستان کی تعمیر کا احوال حصول پاکستان کی جدوجہد کی واقعاتی فلم کے ساتھ اس طرح مربوط کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت وحدت بن کر ابھرتا ہے۔
طویل مضمون:
آواز دوست کا دوسرا طویل در مضمون قحط الرجال کے اس دور میں چند رجال عظیم کے حیات افروز اور حکمت آموز تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اس میں مختار مسعود میں تحریک پاکستان ان کے ولولہ انگیز ایام کی حسین یادوں کو اپنی آٹو گراف البم کی مدد سے ترتیب دیا ہے۔ ان کے آٹوگراف بک پر بہت سی منتخب روزگار شخصیات کے دستخط ثبت ہیں۔ مصنف علم کے صفحات کی ترتیب سے ان شخصیات کا ذکر چھڑ گیا ہے ہے اور اپنی یادوں کا تانا بانا خوبصورت الفاظ کی ڈور سے اس طرح بنتا چلا جاتا ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے اور وہ قاری کو اپنے ہمراہ لیے یادوں کی برات کے جلو میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔
اسلوب:
آواز دوست انیس سو ستتر میں منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد بار بار شائع ہوتی رہی۔ اس کی مقبولیت میں اس کے جاندار موضوع اور صاحب کتاب کے پاکیزہ جذبوں کی سچائی کے ساتھ ساتھ اس کے دلکش اسلوب کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ کتاب خوبصورت نثر کا ایک شاہکار ہے۔مصنف نے اسے مزین اسلوب میں تحریر کیا ہے لیکن ان کا یہ مزاحیہ اسلوب مرزا رجب علی بیگ سرور اور کے قدیم دبستان نثر کی بازی گری نہیں بلکہ ان کی نثر شکوہ الفاظ اور حسن عبارت کے ساتھ جدت معنی اور حسن خیال کا مرقع بھی ہے۔
سید ضمیر جعفری آواز دوست کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
آواز دوست بیک وقت ایک خیال انگیز علمی کاوش بھی ہے اور ایک نہایت دلکش ادبی کارنامہ بھی اور یہ اعجاز ہے ان کے اسلوب نگارش میں شکوہ اور شگفتگی کے فنکارانہ امتزاج کا۔ ان کا شکوہ بھی اگرچہ ایک طرح کی ریشمی ملائمت کا بنا ہے جو خوبصورت چیزوں کو خوبصورت پیرہن عطا کرتا چلا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک ان کے انداز تحریر کی سب سے نمایاں خوبی شگفتگی کی وہ رواں دواں لہر ہے جس کی بدولت وہ حکیمانہ نسخوں کو ادیبانہ زبان میں اور مرنے کی روداد کو زندگی کے لہجے میں بیان کر گئے ہیں۔ یہ ان کی نثر کی مبتسم بانکپن کا کرشمہ ہے ہے کہ مینار پاکستان کے مقالے میں اقلیدسی شکلوں رنگین لوحوں،غالب کاری قاری خاتم کاری کی باریک باریک تفصیلات کے باوجود مینار سے لپٹنے کو جی چاہتا ہے۔
یہ درست ہے کہ مرزا کو وہ وہ اپنی سنجیدہ نثر کے اردلی کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ جہاں ضرورت پڑے، وہ آگے بڑھ کر وردی استری کر دے پٹی کس دے یا پیٹی چمکا دے۔ لیکن میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ ان کی قدرتی آواز مزاح میں سنائی دیتی ہے۔ میراپکا یقین ہے کہ وہ اگر اس صنف کو کھلے دل سے علاوہ مار کر اپنی طرف کھینچ لیتے مجھے تو اردو ادب کو کو رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کے محاذ پر ایک اور اپنے علیحدہ جھنڈے والا جرنیل میسر آجاتا۔
نثر مرصع:
آواز دوست کی خوبصورت نثر کو ہم نثر مرصع کہہ سکتے ہیں ہیں کہ اس میں ہمیں خوبصورت تشبیہات،برمحل اشعار الامثال کے علاوہ استعارہ مجاز مرسل لف و نشر،حسن تعلیل،تجنیس قلب،کنایہ، طباق و تضاد، مقابلہ، مراۃ النظیر، ایہام، عکس کے بھی نمونے ملتے ہیں۔ خوبصورت و مرصع نثر کی جملہ لفظی و معنوی خوبیاں جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کی نثر پر شاعری کا گماں ہوتا ہے۔
خوب صورت تراکیب:
”سفر نصیب“ جسے اکثر لوگ غلط طور پر ”سفرِ نصیب“ پڑھتے اور لکھتے ہیں، یوں اس خوب صورت ترکیب کا مفہوم ہی بگاڑ دیتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے، جو اپنے نام کی طرح یاد رہ جانے والی باتوں سے مملو ہے۔ اس کا بھی نام ایک فارسی مصرعے سے لیا گیا ہے۔ ”خوش نصیب“ کی طرح کی اس فارسی ترکیب کا مطلب ہے ”جس کے نصیب میں بہت سفر ہو۔“ اس عنوان کے ذریعے مختار مسعود کہہ رہے ہیں کہ ”جن کے نصیب میں سفر کثرت سے ہو، ان کے نصیب میں منزل بھی ہوتی ہے یا وہ صرف سفر کی صورت میں بھٹکتے رہتے ہیں؟ اور سفر سے مراد صرف جسمانی سفر ہی نہیں نظریاتی سفر بھی ہے، یہ سفر ذاتی اور انفرادی ہی نہیں اجتماعی اور قومی بھی ہے۔“ اس میں وہ یہ سوال مختلف انداز سے کئی بار پوچھتے ہیں۔ حسبِ دستور مختصراً لکھے گئے دیباچے میں کہتے ہیں کہ ”اس کتاب کے دو حصے ہیں، ہر حصے میں دو مضمون ہیں، ایک سفری داستان اور ایک شخصی خاکہ۔ داستان جادہ ہے اور خاکہ سنگِ میل — ہر عمل سفر ہے اور ہر اعمال نامہ ایک سفرنامہ ہے۔“ اور ہمارے قومی سفر نامے یا اعمال نامے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ”سیاست ہو یا سفر“ اقتدار کی مسند ہو کہ جہاز کی نشست، کرسی کے حصول کے اصول یکساں ہوتے ہیں۔“
آر سی ڈی کا جنرل سیکریٹری:
مختار مسعود کو 1978ء میں چار سال کے لیے آر سی ڈی، یعنی علاقائی تعاون برائے ترقی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور ان کی تعیناتی تہران میں ہوئی تھی، اُس زمانے میں ایران میں شاہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ مختار مسعود، ایران کے اس اسلامی انقلاب کے چشم دید گواہ تھے۔ تاریخ کے اس دیوانے کو خوشی یہ تھی کہ تحریک پاکستان کے بعد ایک بار پھر تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، بلکہ خود اس کا حصہ ہوں اور انقلاب کے معنی ایران میں پڑھ یا سن نہیں رہا، بلکہ دیکھ رہا ہوں۔ اُن کی تیسری کتاب”لوحِ ایام“ انہیں کی روداد ہے۔ شاہ کو ایران سے بھاگنا پڑا اور نئی انقلابی حکوت نے 1979ء میں آر سی ڈی کو تحلیل کر دیا، اس طرح مختار مسعود اس عالمی تنظیم کے آخری سیکریٹری جنرل ٹھہرے، جس کے رکنِ اس خطے میں سینٹو(Cento) کے رکن ممالک یعنی پاکستان، ایران اور ترکی تھے۔
تاریخی شور:
”لوحِ ایام“ میں مختار مسعود کی دیگر کتابوں کی طرح تاریخی شور بھی ہے، احساسِ قومی بھی، ملتِ اسلامیہ شعور بھی ہے، احساسِ قومی بھی، ملتِ اسلامیہ کا درد بھی۔ یہ کتاب اُردو میں انقلابِ ایران کے اہم مآخذات میں یوں شامل ہے کہ یہ ایک درد مند اور دیانت دار چشم دید گواہ کا بیان ہے، جسے اپنی قومی اور تاریخی ذمے داریوں کا بھی شعور ہے اور تاریخ کو بنتا دیکھنے کی اہمیت کا احساس بھی۔
منفرد اُسلوب:
مختار مسعود کے منفرد اسلوب میں ان کی زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فارسی اور اُردو ادب سے گہرا لگاؤ، نپی تلی نثر، جنچے ہوئے جملے، احتیاط سے تراشی ہوئی ترکیبیں اور تاریخ و ادب کے حوالے، اُن کی تحریر کو ایک امتیازی شان عطا کرتے ہیں۔ وہی شان، جو صاحبِ طرز اور صاحبِ اسلوب نثر نگاروں کی پہچان ہوتی ہے، پھر اس پر مستزاد ہے، ان کا مدلل تجزیہ اور بے خوفی سے اسے پیش کرنے کا دو ٹوک انداز، جو اُن کی تحریر کو دلبری کے ساتھ دلیری بھی دیتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اُن کی وہ قدر نہ کی، جو کرنی چاہیے تھی۔ 2003ء میں ملنے والا ستارۂ امتیاز اُن کی امتیازی خصوصیات کا ایک چھوٹا سا اعتراف تھا اور اس اعزاز کے ملنے سے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا، البتہ اس اعزاز کے لیے یہ اعزاز ہے کہ مختار مسعود نے اسے قبول کر لیا۔ مختار مسعود کے محبوب شاعر، اقبال کا یہ مصرع خود اقبال اور مختار مسعود دونوں پر صادق آتا ہے:
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
رمز و ایما:
آواز دوست میں مختار مسعود نے رمز و ایمائیہ انداز اختیار کیا ہے۔ علاقہ قور غان کے ایک مینار کی ہئیت بیان کرتے ہوئے جو بنیادوں سے سولہ باہم پیوست میناروں سے مل کر بنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ان میناروں کی تعداد سول ہے جن سے مل کر یہ ایک مینار بنتا ہے۔ معمار سے چوک ہو گئی انھیں سولہ نہیں بہتر ہونا چاہیے تھا۔“
……٭……٭……

Leave a Comment